منحرف ارکان کا سودا تو ہوگا
حکومت ناراض ارکان کے تحفظات دور کرنے اور ترقیاتی کام کی مد میں کروڑوں روپے دینے کے لیے تیار ہے
2013 میں ایک نجی چینل پر بطور کاپی ایڈیٹر اور اسکرپٹ رائٹر کے ساتھ فیلڈ رپورٹنگ میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ جب انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا تو ایک رپورٹ تیار کی جس میں بتایا کہ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے تھے تو نواز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ اور ٹھیک 13 سال 7 ماہ اور 21 دن کے بعد وقت نے کروٹ لی اور نوازشریف وزیراعظم بن گئے، جب کہ پرویز مشرف قومی اسمبلی سے کچھ میل کے فاصلے پر واقع چک شہزاد میں اپنے گھر میں ہی سہی قید ضرور ہیں۔ دونوں شخصیات کے سامنے 12 اکتوبر کا منظر ہوگا اور ہونا چاہئے، کیوں کہ اقتدار، طاقت، دولت اور شہرت سب عارضی ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں جب ہم دوسرے میڈیا ہاؤس میں بطور سب ایڈیٹر فرائض انجام دے رہے تھے تو نواز شریف ایک بار پھر مایوسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ تاہم صورتحال ذرا مختلف تھی، کیوں کہ وہ وزیراعظم تو نہ بن سکتے لیکن کم از کم آزاد تو تھے، جب کہ عمران خان ملک کے 20 ویں وزیراعظم کے طور پر اپنا حلف اٹھا رہے تھے۔
عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے متعدد آزاد امیدوار جوق در جوق عمران خان کے کارواں میں شامل ہورہے تھے، اور آئے روز عمران خان کی جانب سے ایک جملہ سامنے آتا کہ ہم نے ''ایک اور وکٹ گرا دی''۔ تب سے لے کر آج تک عمران خان کی کابینہ میں متعدد بار تبدیلیاں کی گئیں، اور دیگر جماعتوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ارکان کو اہم وزارتوں اور عہدوں کے قلمدان سونپے گئے۔ جس پر وضاحت دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تجربہ کار لوگوں کی کمی تھی، جس وجہ سے ایسے افراد کے تجربے سے استفادہ کیا جائے گا، جو ماضی میں اہم وزارتوں پر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان، شیخ رشید، عمر ایوب، حفیظ شیخ، شوکت فیاض ترین، اعظم سواتی اور دیگر شامل ہیں۔
اس سارے عرصے میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر یہی الزامات عائد کئے جاتے رہے کہ یہ حکومت بنی نہیں بنائی گئی ہے، اور مہنگائی و بے روزگاری کے ساتھ ساتھ قرضوں میں نہ ختم ہونے والا اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم عملی طور پر اپوزیشن اس وقت میدان میں آئی، جب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کا وجود سامنے آیا۔
پی ڈی ایم کے تحت مختلف شہروں میں جلسے کئے گئے اور حکومت مخالف تحریک چلائی تھی، تاہم پھر چند اختلافات کے باعث پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کو خیرباد کہہ کر اپنے طور پر حکومت کے خلاف چلنے کا ارادہ کرلیا، جب کہ مولانا فضل الرحمان اور شہبازشریف اپنے طور پر پی ڈی ایم کو چلاتے رہے، اور متعدد جلسوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنسز بھی کرتے رہے۔ لیکن پھر اسی الائنس کی جانب سے جب تحریک عدم اعتماد کی آواز بلند ہوئی تو پیپلزپارٹی نے بھی تمام اختلاقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے قریب ہونا شروع کردیا اور پھر سب نے مل کر تحریک عدم اعتماد کی مہم شروع کی اور بالآخر 8 مارچ کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں اس تحریک کی ریزولیشن پیش کردی گئی۔
تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی مہم کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے سب سے پہلے حکومت سے ناراض ارکان پر مشتمل جہانگیر ترین گروپ سے روابط شروع کئے، جو ایک حد تک اپوزیشن کا کامیاب اقدام تھا، کیوں کہ حکومت کی جانب سے ترین گروپ کے بجائے اتحادیوں کو متحد رہنے کی تلقین کرنے والے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان ترین گروپ سمیت متعدد ارکان کو بھول گئے، اور نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادی جماعتیں بھی اپوزیشن کی ممکنہ کامیابی و اکثریت دیکھتے ہوئے اپوزیشن کی جانب ہی جھکتی چلی گئیں۔
ایک طرف اپوزیشن قیادت کے روابط اور دوسری جانب حکومتی وزرا کے متنازع بیانات نے اتحادیوں کو موقع دیا اور انہوں نے واضح طور پر اشارہ دینا شروع کردیا کہ حکومت کے ہاتھوں سے اقتدار مٹھی میں ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہے۔ معاملے کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم عمران خان خود میدان میں اترے اور پہلے چوہدری برادارن سے ملاقات کرکے خیریت دریافت کی، جب کہ ایم کیوایم کے عارضی مرکز بہادر آباد بھی آئے اور ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے واپس اسلام آباد چلے گئے۔
ابھی اتحادیوں نے حکومت کو مکمل طور پر حمایت کا یقین نہیں دلایا تھا کہ تحریک انصاف کے ناراض ارکان سندھ ہاؤس اسلام آباد سے براہ راست میڈیا کی زینت بن گئے، جس پر حکومت تلملا اٹھی۔ کوئی کہتا نظر آیا کہ ان منحرف ارکان کے خلاف کارروائی ہوگی، کوئی کہتا ان اراکین کے حلقے کے عوام ان کے گھروں کا گھیراؤ کریں اور ان سے استعفے لیے جائیں۔ کوئی مشورے دے رہا تھا کہ گورنر راج لگادو۔ جب کہ خود اسپیکر قومی اسمبلی، جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر قانون کے مطابق 14 دن میں اجلاس بلانا ہے، پہلے ہی آکر بیان دے دیا کہ میں اجلاس بلاکر ملتوی کردوں گا۔
جس روز وزیراعظم عمران خان کو ان کی مذاکراتی ٹیم نے ناراض و منحرف ہونے والے ارکان کی فہرست پیش کی، اسی روز سندھ ہاؤس میں موجود تحریک انصاف کے ناراض ارکان نے اپنی دکھ بیتی میں بتایا کہ عمران خان ہم سے ساڑھے تین سال میں ایک بار نہیں ملے، وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہم سے نہیں ملتے۔ کچھ نے کہا کہ ہم اپنے حلقوں میں کام نہ کروانے کی وجہ سے نہیں جاسکتے۔ کسی نے کہا کہ ہم صرف اسمبلی میں کورم پورا کرنے والے ارکان ہیں۔ کسی نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے یہاں ہیں۔ کچھ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں پولیس کی جانب سے ہمارے ارکان پر تشدد اور کیسز کی وجہ سے ہم سندھ ہاؤس میں پناہ لیے بیٹھے ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ سے تحفظ مانگا ہے۔
اس تمام واضح صورتحال کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم پھر سے متحرک نظر آئی اور ترین گروپ کی قیادت سے رات و رات ٹیلیفونک رابطے کیے گئے، جب کہ وفاقی وزرا بھی ایک بار پھر پریس کانفرنسز کرتے نظر آئے۔ شیخ رشید کی جانب سے بار بار کہا گیا کہ ہمیں تو بہت دن پہلے ہی پتہ تھا کہ ہمارے ارکان کہاں ہیں، تمام ناراض ارکان واپس آجائیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ وزیرداخلہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ناراض ارکان اپوزیشن سے پیسے لیں اور ووٹ عمران خان کو ڈالیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی جلسوں میں کہا گیا کہ وہ ارکان جو ناراض ہیں وہ واپس آجائیں، اگر نہیں آئیں تو یقین کریں آپ اپنے حلقوں میں نہیں جاسکیں گے، آپ کے بچوں کو اسکول میں دوسرے بچے تنگ کریں گے اور کہیں کہ آپ کے والد نے پیسے لے کر ضمیر کو فروخت کیا۔ الغرض وزیراعظم کی جانب سے تمام حربے و طریقے استعمال کیے گئے جو ناراض رہنماؤں کو سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ لیکن شیخ رشید اور عمران خان کی پیشکشوں کے دوران ہی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا ایک ٹویٹ سامنے آیا کہ منحرف ہونے والے ارکان پر کیسز بناکر انہیں تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا، اور مخصوص نشستوں پر نئے ممبران نامزد کیے جارہے ہیں۔
اب سوشل میڈیا پر اظہار رائے کو کیسے روکا جائے؟ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے لیڈر کی حمایت میں پوسٹیں اور بیانات شیئر کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کے مخالفیں 2018 میں جہانگیر ترین کے جہاز میں بنی گالا لائے گئے ارکان کا طعنہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب خود جہاز بھر بھر کر لارہے تھے تو جائز تھا، اور جب سینیٹ میں اپوزیشن میں موجود کالی بھیڑیں حکومتی ارکان کو ووٹ دیتے تھے تو وہ ووٹ میٹھا تھا، اب جب اپنے ہی ارکان ضمیر کی آواز پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دھمکانے کے لیے دو ایم این ایز کی قیادت میں کارکنان سندھ ہاؤس پر چڑھائی کردیتے ہیں اور منحرف ارکان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا جاتا ہے۔
بہرحال صورتحال جیسی بھی ہے، حکومتی وزرا کا سارا دھیان منحرف ہونے والے ارکان خصوصاً جہانگیر ترین گروپ کی جانب ہوچکا ہے، اور وفاقی وزرا سمیت وزیراعظم کے بیانات کے مطابق ناراض ارکان کو تحریک عدم اعتماد میں اپنی حمایت میں لانے کےلیے ہر قدم اٹھایا جاسکتا ہے، چاہے وہ نااہلی کی دھمکیاں ہوں، ان پر پیسے لینے کے الزامات ہوں، یا پھر ان کے تحفظات دور کرکے انہیں من پسند وزیراعلیٰ پنجاب دے دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں لین دین کا عمل موجود رہے گا۔
پاکستانی عوام بھی بھولے ہیں، انھیں بھی بس کوئی موضوع ملنا چاہیے۔ بقول عمران خان اپوزیشن کا شکریہ کہ اس نے تحریک عدم اعتماد لاکر عوام کا دھیان مہنگائی سے ہٹاکر قومی اسمبلی کے اجلاس پر لگادیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان اور ان کے حامی ارکان و کارکنان کبھی بھی مائنس کی جانب نہیں جائیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن عمران خان کو بطور وزیراعظم دیکھنا نہیں چاہتی اور حکومتی ناراض ارکان عمران خان نہ سہی عثمان بزدار کے مائنس ہونے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان نے اپنی مرضی سے خود پر اعتماد کا اجلاس بلایا تھا تو انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے ارکان اگر مجھے وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تو میرے خلاف ووٹ دیں، میں چپ چاپ اٹھ کر اپوزیشن میں بیٹھ جاؤں گا اور آج جب ارکان اپنے ووٹ کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ بے شک کہیں کہ ضمیر جاگ گیا ہے، لوگ انہیں یہی کہیں گے کہ انہوں نے ضمیر کا سودا کیا ہے اور پیسے لیے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کو زرداری کے پیٹ سے چوری کی رقم نکلوانے کا طعنہ دینے والے عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی پنجاب کی حکومت ایک ایسے شخص نے بچا رکھی ہے جسے ماضی میں عمران خان سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے۔
ان تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر اگر سوچا جائے تو عوام بے چارے تو صرف والی بال کا میچ دیکھ رہے ہیں، کبھی بال اس طرف تو کبھی اس طرف۔ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کچھ بھی ہو عوام کو کیا ملنا ہے، یہ تو سیاسی گہما گہمی کے بعد پتہ چلے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ارکان کا سودا ضرور ہوگا، کیوں کہ وزیراعظم کی بات مانتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ اپوزیشن کی جانب سے ناراض ارکان کے ضمیر کو خریدنے کےلیے کروڑوں روپے کا سودا لگایا گیا ہے، تو دوسری طرف حکومت عمران خان کی حمایت کے بدلے ان ناراض ارکان کے تحفظات دور کرنے اور حلقوں میں ترقیاتی کام کی مد میں کروڑوں روپے دینے کے لیے تیار ہے۔ دونوں صورتوں میں منحرف ارکان کا سودا تو ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
2018 کے عام انتخابات میں جب ہم دوسرے میڈیا ہاؤس میں بطور سب ایڈیٹر فرائض انجام دے رہے تھے تو نواز شریف ایک بار پھر مایوسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ تاہم صورتحال ذرا مختلف تھی، کیوں کہ وہ وزیراعظم تو نہ بن سکتے لیکن کم از کم آزاد تو تھے، جب کہ عمران خان ملک کے 20 ویں وزیراعظم کے طور پر اپنا حلف اٹھا رہے تھے۔
عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے متعدد آزاد امیدوار جوق در جوق عمران خان کے کارواں میں شامل ہورہے تھے، اور آئے روز عمران خان کی جانب سے ایک جملہ سامنے آتا کہ ہم نے ''ایک اور وکٹ گرا دی''۔ تب سے لے کر آج تک عمران خان کی کابینہ میں متعدد بار تبدیلیاں کی گئیں، اور دیگر جماعتوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ارکان کو اہم وزارتوں اور عہدوں کے قلمدان سونپے گئے۔ جس پر وضاحت دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تجربہ کار لوگوں کی کمی تھی، جس وجہ سے ایسے افراد کے تجربے سے استفادہ کیا جائے گا، جو ماضی میں اہم وزارتوں پر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان، شیخ رشید، عمر ایوب، حفیظ شیخ، شوکت فیاض ترین، اعظم سواتی اور دیگر شامل ہیں۔
اس سارے عرصے میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر یہی الزامات عائد کئے جاتے رہے کہ یہ حکومت بنی نہیں بنائی گئی ہے، اور مہنگائی و بے روزگاری کے ساتھ ساتھ قرضوں میں نہ ختم ہونے والا اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم عملی طور پر اپوزیشن اس وقت میدان میں آئی، جب حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کا وجود سامنے آیا۔
پی ڈی ایم کے تحت مختلف شہروں میں جلسے کئے گئے اور حکومت مخالف تحریک چلائی تھی، تاہم پھر چند اختلافات کے باعث پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کو خیرباد کہہ کر اپنے طور پر حکومت کے خلاف چلنے کا ارادہ کرلیا، جب کہ مولانا فضل الرحمان اور شہبازشریف اپنے طور پر پی ڈی ایم کو چلاتے رہے، اور متعدد جلسوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنسز بھی کرتے رہے۔ لیکن پھر اسی الائنس کی جانب سے جب تحریک عدم اعتماد کی آواز بلند ہوئی تو پیپلزپارٹی نے بھی تمام اختلاقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے قریب ہونا شروع کردیا اور پھر سب نے مل کر تحریک عدم اعتماد کی مہم شروع کی اور بالآخر 8 مارچ کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں اس تحریک کی ریزولیشن پیش کردی گئی۔
تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی مہم کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے سب سے پہلے حکومت سے ناراض ارکان پر مشتمل جہانگیر ترین گروپ سے روابط شروع کئے، جو ایک حد تک اپوزیشن کا کامیاب اقدام تھا، کیوں کہ حکومت کی جانب سے ترین گروپ کے بجائے اتحادیوں کو متحد رہنے کی تلقین کرنے والے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان ترین گروپ سمیت متعدد ارکان کو بھول گئے، اور نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادی جماعتیں بھی اپوزیشن کی ممکنہ کامیابی و اکثریت دیکھتے ہوئے اپوزیشن کی جانب ہی جھکتی چلی گئیں۔
ایک طرف اپوزیشن قیادت کے روابط اور دوسری جانب حکومتی وزرا کے متنازع بیانات نے اتحادیوں کو موقع دیا اور انہوں نے واضح طور پر اشارہ دینا شروع کردیا کہ حکومت کے ہاتھوں سے اقتدار مٹھی میں ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہے۔ معاملے کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم عمران خان خود میدان میں اترے اور پہلے چوہدری برادارن سے ملاقات کرکے خیریت دریافت کی، جب کہ ایم کیوایم کے عارضی مرکز بہادر آباد بھی آئے اور ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے واپس اسلام آباد چلے گئے۔
ابھی اتحادیوں نے حکومت کو مکمل طور پر حمایت کا یقین نہیں دلایا تھا کہ تحریک انصاف کے ناراض ارکان سندھ ہاؤس اسلام آباد سے براہ راست میڈیا کی زینت بن گئے، جس پر حکومت تلملا اٹھی۔ کوئی کہتا نظر آیا کہ ان منحرف ارکان کے خلاف کارروائی ہوگی، کوئی کہتا ان اراکین کے حلقے کے عوام ان کے گھروں کا گھیراؤ کریں اور ان سے استعفے لیے جائیں۔ کوئی مشورے دے رہا تھا کہ گورنر راج لگادو۔ جب کہ خود اسپیکر قومی اسمبلی، جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر قانون کے مطابق 14 دن میں اجلاس بلانا ہے، پہلے ہی آکر بیان دے دیا کہ میں اجلاس بلاکر ملتوی کردوں گا۔
جس روز وزیراعظم عمران خان کو ان کی مذاکراتی ٹیم نے ناراض و منحرف ہونے والے ارکان کی فہرست پیش کی، اسی روز سندھ ہاؤس میں موجود تحریک انصاف کے ناراض ارکان نے اپنی دکھ بیتی میں بتایا کہ عمران خان ہم سے ساڑھے تین سال میں ایک بار نہیں ملے، وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہم سے نہیں ملتے۔ کچھ نے کہا کہ ہم اپنے حلقوں میں کام نہ کروانے کی وجہ سے نہیں جاسکتے۔ کسی نے کہا کہ ہم صرف اسمبلی میں کورم پورا کرنے والے ارکان ہیں۔ کسی نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے یہاں ہیں۔ کچھ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں پولیس کی جانب سے ہمارے ارکان پر تشدد اور کیسز کی وجہ سے ہم سندھ ہاؤس میں پناہ لیے بیٹھے ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ سے تحفظ مانگا ہے۔
اس تمام واضح صورتحال کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم پھر سے متحرک نظر آئی اور ترین گروپ کی قیادت سے رات و رات ٹیلیفونک رابطے کیے گئے، جب کہ وفاقی وزرا بھی ایک بار پھر پریس کانفرنسز کرتے نظر آئے۔ شیخ رشید کی جانب سے بار بار کہا گیا کہ ہمیں تو بہت دن پہلے ہی پتہ تھا کہ ہمارے ارکان کہاں ہیں، تمام ناراض ارکان واپس آجائیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ وزیرداخلہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ناراض ارکان اپوزیشن سے پیسے لیں اور ووٹ عمران خان کو ڈالیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی جلسوں میں کہا گیا کہ وہ ارکان جو ناراض ہیں وہ واپس آجائیں، اگر نہیں آئیں تو یقین کریں آپ اپنے حلقوں میں نہیں جاسکیں گے، آپ کے بچوں کو اسکول میں دوسرے بچے تنگ کریں گے اور کہیں کہ آپ کے والد نے پیسے لے کر ضمیر کو فروخت کیا۔ الغرض وزیراعظم کی جانب سے تمام حربے و طریقے استعمال کیے گئے جو ناراض رہنماؤں کو سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ لیکن شیخ رشید اور عمران خان کی پیشکشوں کے دوران ہی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا ایک ٹویٹ سامنے آیا کہ منحرف ہونے والے ارکان پر کیسز بناکر انہیں تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا، اور مخصوص نشستوں پر نئے ممبران نامزد کیے جارہے ہیں۔
اب سوشل میڈیا پر اظہار رائے کو کیسے روکا جائے؟ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے لیڈر کی حمایت میں پوسٹیں اور بیانات شیئر کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کے مخالفیں 2018 میں جہانگیر ترین کے جہاز میں بنی گالا لائے گئے ارکان کا طعنہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب خود جہاز بھر بھر کر لارہے تھے تو جائز تھا، اور جب سینیٹ میں اپوزیشن میں موجود کالی بھیڑیں حکومتی ارکان کو ووٹ دیتے تھے تو وہ ووٹ میٹھا تھا، اب جب اپنے ہی ارکان ضمیر کی آواز پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دھمکانے کے لیے دو ایم این ایز کی قیادت میں کارکنان سندھ ہاؤس پر چڑھائی کردیتے ہیں اور منحرف ارکان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا جاتا ہے۔
بہرحال صورتحال جیسی بھی ہے، حکومتی وزرا کا سارا دھیان منحرف ہونے والے ارکان خصوصاً جہانگیر ترین گروپ کی جانب ہوچکا ہے، اور وفاقی وزرا سمیت وزیراعظم کے بیانات کے مطابق ناراض ارکان کو تحریک عدم اعتماد میں اپنی حمایت میں لانے کےلیے ہر قدم اٹھایا جاسکتا ہے، چاہے وہ نااہلی کی دھمکیاں ہوں، ان پر پیسے لینے کے الزامات ہوں، یا پھر ان کے تحفظات دور کرکے انہیں من پسند وزیراعلیٰ پنجاب دے دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں لین دین کا عمل موجود رہے گا۔
پاکستانی عوام بھی بھولے ہیں، انھیں بھی بس کوئی موضوع ملنا چاہیے۔ بقول عمران خان اپوزیشن کا شکریہ کہ اس نے تحریک عدم اعتماد لاکر عوام کا دھیان مہنگائی سے ہٹاکر قومی اسمبلی کے اجلاس پر لگادیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان اور ان کے حامی ارکان و کارکنان کبھی بھی مائنس کی جانب نہیں جائیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن عمران خان کو بطور وزیراعظم دیکھنا نہیں چاہتی اور حکومتی ناراض ارکان عمران خان نہ سہی عثمان بزدار کے مائنس ہونے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان نے اپنی مرضی سے خود پر اعتماد کا اجلاس بلایا تھا تو انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے ارکان اگر مجھے وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے تو میرے خلاف ووٹ دیں، میں چپ چاپ اٹھ کر اپوزیشن میں بیٹھ جاؤں گا اور آج جب ارکان اپنے ووٹ کا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کہا جارہا ہے کہ یہ لوگ بے شک کہیں کہ ضمیر جاگ گیا ہے، لوگ انہیں یہی کہیں گے کہ انہوں نے ضمیر کا سودا کیا ہے اور پیسے لیے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کو زرداری کے پیٹ سے چوری کی رقم نکلوانے کا طعنہ دینے والے عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی پنجاب کی حکومت ایک ایسے شخص نے بچا رکھی ہے جسے ماضی میں عمران خان سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے۔
ان تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر اگر سوچا جائے تو عوام بے چارے تو صرف والی بال کا میچ دیکھ رہے ہیں، کبھی بال اس طرف تو کبھی اس طرف۔ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کچھ بھی ہو عوام کو کیا ملنا ہے، یہ تو سیاسی گہما گہمی کے بعد پتہ چلے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ارکان کا سودا ضرور ہوگا، کیوں کہ وزیراعظم کی بات مانتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ اپوزیشن کی جانب سے ناراض ارکان کے ضمیر کو خریدنے کےلیے کروڑوں روپے کا سودا لگایا گیا ہے، تو دوسری طرف حکومت عمران خان کی حمایت کے بدلے ان ناراض ارکان کے تحفظات دور کرنے اور حلقوں میں ترقیاتی کام کی مد میں کروڑوں روپے دینے کے لیے تیار ہے۔ دونوں صورتوں میں منحرف ارکان کا سودا تو ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔