پانی ہے زندگی ۔۔۔خدارا اس کی قدر کریں
پانی کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال
ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا میں رہنے والے ہر انسان کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانااور آنے والی نسلوں کیلئے پانی کو محفوظ کرنا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں نہ صرف پینے کے صاف پانی کے مسائل ہیں بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی کم ہورہی ہے۔ اس وقت پانی کی کیا صورتحال ہے، لوگوں کو اس کی فراہمی کیلئے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں، زیر زمین پانی کو محفوظ کرنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے، حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز کیا کام کر رہے ہیں؟
اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''پانی کے عالمی دن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
بیگم پروین سرور (سماجی کارکن و بیگم گورنر پنجاب)
گورنر پنجاب کا مشن ہے کہ ہر انسان کو اس کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اس میں صاف پانی کی فراہمی ہماری اولین ترجیح اور مشن ہے۔ پنجاب آب پاک اتھارٹی کا قیام ایک اہم سنگ میل ہے، یہ لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے مشن میں ایک بڑی پیشرفت ہے۔ سرکاری و نجی ادارے، این جی اوز، سول سوسائٹی، سماجی کارکنان سمیت معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرزاپنی اپنی صلاحیت کے مطابق فلاحی کام کر رہے ہیں۔ ہم نے ان تمام اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور سب مل کر پہلے سے بہتر پرفارم کر رہے ہیں۔ ہم نے ملک کے بیشتر حصوں میں پانی کی فراہمی کیلئے اقدامات کیے۔
یہ المیہ ہے کہ بیشتر فلٹریشن پلانٹس سے ٹوٹیاں و دیگر سامان چوری ہوا۔ ہم نے ہر پلانٹ کی حفاظت، صفائی اور دیکھ بھال کیلئے وہاں کے مقامی لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جس کے بعد سے قدرے بہتری آئی ہے۔ ہم نے گاؤں کے لوگوں کو آگاہی دی کہ یہ آپ کی صحت کیلئے ہے، اس کی ذمہ داری لیں اور حفاظت کریں۔ وہاں 10 روپے میں 20 لیٹر صاف پانی فراہم کیا جارہاہے، بعض جگہ لوگوں نے خود صفائی، ستھرائی، دیکھ بھال اور مرمت کی ذمہ داری لی اور وہ مفت پانی فراہم کر رہے ہیں، ہم نے مساجد میں بھی واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے ہیں اور مساجد کی کمیٹیاں ان کے انتظامی معاملات دیکھ رہی ہیں۔
بہت سارے گاؤں ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پانی میسر نہیں ہے، انہیں دو ر دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے۔ ہم نے وہاں ایسے گھروں میں جہاں صرف خواتین یا بیوہ رہتی ہیں اور کوئی مرد نہیں ہے، سول واٹر پمپ لگانے کا کام شروع کیا ہے، ان کا معیار بھی بہتر ہے اور 10 سال تک تبدیل بھی نہیں کرنا پڑتا۔ اس سے ایک تو گھر میں ہی پانی مل رہا ہے دوسرا خواتین کو تحفظ بھی مل رہا ہے کہ انہیں اکیلے کسی دوسرے علاقے میں نہیں جانا پڑتا۔ گزشتہ حکومت نے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے مگر دیکھ بھال اور مرمت کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر پلانٹس ناکارہ ہوچکے ہیں۔
پنجاب آب پاک اتھارٹی ، این جی اوز، سول سوسائٹی، مخیر حضرات و دیگر کے ساتھ مل کر ان کی بحالی کیلئے کام کر رہی ہے۔ اب نہ صرف نئے پلانٹس لگائے جا رہے ہیں بلکہ ان کی مرمت کا میکنزم بھی بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے عوام کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ہم مختلف علاقوں میں وہاں کی مقامی کمیٹی بنا کر جو پلانٹس لگاتے ہیں، ہر 3 ماہ بعد ہماری ٹیم وہاں کا دورہ کرکے پلانٹ کا معائنہ کرتی ہے اور پانی کی کوالٹی بھی چیک کی جاتی ہے۔ اس طرح جنہیں پلانٹ کی ذمہ داری دی جاتی ہے، انہیں بھی فکر ہوتی ہے کہ ٹیم دورہ کرے گی لہٰذا اس کی مناسب دیکھ بھال کی جائے۔
داتا دربار لاہور میں ہر سال 20 لاکھ زائرین آتے ہیں مگر وہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا۔ ہم نے وہاں کی انتظامیہ سے بات کرکے پلانٹس لگائے، اب لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہاہے۔ مجموعی طور پر بات کریں تو ہمارا ادارہ روزانہ 22 لاکھ افراد کو مختلف علاقوں میں صاف پانی مہیا کر رہا ہے۔ ان میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں 100 برس سے زائد ہوچکے، پینے کا پانی میسر نہیں تھا، ہم نے بلوچستان میں بھی 8 پلانٹس لگائے ہیں،ا س کے لیے وہاں کے اداروں اور افراد کا تعاون حاصل ہے۔
ڈاکٹر شکیل خان (چیئرمین پنجاب آب پاک اتھارٹی)
عالمی معاہدے کی توثیق کرنے کی وجہ سے 2030ء تک 100 فیصد لوگوں کی صاف پانی تک رسائی یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پانی کے حوالے سے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا پانی تک رسائی جبکہ دوسرا اس کا معیارہے۔ پنجاب میں لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ گورنر پنجاب کی کمٹنٹ اور جذبہ ہے۔ ان کا جنون ہے کہ ہم ہر گھر میں پانی پہنچائیں۔
وزیراعظم پاکستان نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا کہ لوگوں کو صاف اور معیاری پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں وزیراعظم اور گورنر پنجاب کی سنجیدگی کی وجہ سے 2019ء میں پنجاب آب پاک اتھارٹی قائم کی گئی۔ انتہائی کم عرصے میں ہم نے صوبے بھر میں کام کا آغاز کیا۔ پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں پانی کے حوالے سے 2 ہزار سے زائد منصوبے 31 مارچ تک مکمل ہوجائیں گے۔ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
نئے فلٹریشن پلانٹس لگانے کے حوالے سے سروے ہوچکا ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں کے پانی کے معیار، آلودگی، نمکیات (ٹی ڈی ایس لیول) و دیگر حوالے سے کوالٹی چیکنگ کا کام بھی کر لیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے نیچے 'ٹی ڈی ایس' لیول ہو تو پانی کو محفوظ تصور کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بعض علاقوں میں صورتحال تشویشناک ہے۔ سرگودھا میں 'ٹی ڈی ایس' لیول 2 ہزار، کہیں 3 اور کہیں 5 ہزار ہے۔ راجن پور، رحیم یار خان، ڈی جی خان و دیگر علاقوں میں نمکیات بہت زیادہ ہیں۔ ہم کوالٹی چیکنگ کے بعد اب لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے فلٹریشن پلانٹس و دیگر اقدامات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایک واٹر پلانٹ پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے، ان پلانٹس کی دیکھ بھال نہ کرنا اور خراب ہونے دینا غفلت نہیں جرم ہے۔
ہمارا المیہ رہا ہے کہ واٹر فلٹریشن پلانٹس تو لگا دیے گئے مگر ان کی دیکھ بھال اور مرمت کا میکنزم نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے بیشتر پلانٹس ناکارہ ہوگئے اور بند پڑے ہیں۔ ہمارے ہاں انفراسٹرکچر تو بن جاتا ہے مگر اس کی آپریشنل دیکھ بھال کیلئے بجٹ مختص نہیں کیا جاتا مگر اب منصوبوں کی پائیداری پر خصوصی کام کیا جارہا ہے۔ گورنر پنجاب کی ہدایت پر پرانے فلٹریشن پلانٹس کی بحالی اور نئے پلانٹس کی تنصیب کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے حوالے سے خصوصی میکنزم بنایا گیا ہے، ہم اس میں کمیونٹی کو شامل کر رہے ہیں، ان کی 'آنرشپ' کے بغیر خطیر بجٹ بھی ناکافی ہوگا۔
ملک میں این جی اوز، سول سوسائٹی، مخیر حضرات ودیگر سٹیک ہولڈرز لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے اپنی اپنی سطح پر کام کر رہے ہیں۔گورنر پنجاب نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے۔ اب حکومتی ادارے و تمام سٹیک ہولڈرز مل کر کام کر رہے ہیں، اس سے وسائل میں اضافہ ہوا اور ایک ہی علاقے میں مختلف لوگوں کے کام کرنے کے بجائے مختلف علاقوں میںایک دوسرے کی مدد سے کام کرنے کو فروغ ملا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ کام کی وسعت اور تیزی کی صورت میں ہوا۔ ہم پانی کے مسائل حل کرنے اور اخراجات میں کمی لانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تحقیق کے ذریعے یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ کب کہاں اور کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سادہ فلٹریشن پلانٹ کہاں لگے گا؟ 'آر او' پلانٹ کی کہاں ضرورت ہے؟ آب پاک اتھارٹی نے ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے جس سے فلٹریشن پلانٹس کی تبدیلی کی مدت میں اضافہ ہوا، اب 10 سے 20 سال بعد تبدیلی ہوگی جو پہلے2 سے 3 سال بعد ہوتی تھی۔ ہم علم کے تبادلے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت، سری لنکا یا کوئی بھی ملک ہو ، اگر اس کا کوئی منصوبہ یا تجربہ ملک و قوم کیلئے فائدہ مند ہے تو ہمیں اس سے سیکھتے ہوئے اپنے ملک میں بھی وہ کام کرنا چاہیے۔ ہم پر عزم ہیں اور کم لاگت والے پائیدار منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مارچ میں ہی گرمی آگئی ہے۔ موسم کی وجہ سے مختلف چیلنجز پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر برف زیادہ پگھلے تو سیلاب آتا ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کا درست نظام اور بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پانی سمندر میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے۔
اگر موسم سرد رہے، برف زیادہ نہ پگھلے تو خشک سالی آجاتی ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے 78 ڈیمز پر کام جاری ہے، ان سے سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا اور بجلی بھی پیدا ہوگی۔ لاہور کے لارنس گارڈن کے علاقے میں واسا کی جانب سے زیر زمین پانی ذخیرہ کرنے کا ٹینک بنایا گیا ہے، الحمرا ہال اور قذافی سٹیڈیم سمیت 8 مختلف مقامات پر پانی ذخیرہ کرنے کے زیر زمین ٹینک بنائے گئے ہیں، ان میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
راولپنڈی میں 3 ٹینک بنائے جا رہے ہیں، دیگر شہروں میں بھی اسی طرز پر کام کرنے اور بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے زیر زمین ٹینک بنانے پر منصوبہ بندی جاری ہے، اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ لاہور میں پانی کے میٹر لگانے کے منظوری ہوچکی ہے، جلد اس پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا،اس سے صارفین کو پانی کی قدر و قیمت کا احساس ہوگا اور پانی کا ضیاع روکا جاسکے گا۔
لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے پانی کے معیار کو چیک کیا جا رہا ہے، اس میں سرکاری و نجی دونوں سوسائٹیز شامل ہیں، ابتدائی طور پر 100 ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ خوش ہے کہ ہم ان کے کام کو آسان کر رہے ہیں اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں صاف پانی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، گاڑی دھونے کیلئے بھی بہت زیادہ پانی استعمال کیا جاتا ہے، ہم اس حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں کہ کاروں کو سٹیم واش کیا جائے، اس سے پانی کا استعمال 50 گیلن کے بجائے 5 گیلن تک آجائے گا۔
ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں بھی بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ اس حوالے سے 'پی سی آر ڈبلیو آر' کے ساتھ مل کر پائلٹ پراجیکٹ کیا ہے، پنجاب کے تمام سکولوں میں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے ہر شہری کو صاف پانی کی فراہمی ہمارا مشن ہے،31 مارچ تک پنجاب کے 76 لاکھ لوگوں کو صاف پانی مہا کر دیا جائے گا جبکہ آئندہ برس مارچ تک مزید 76 لاکھ افراد کو بھی فراہمی یقینی بنائے جائے گی، ان کیلئے رواں برس جون میں منصوبہ لانچ کر دیا جائے گا۔
مبارک علی سرور (واٹر ایکسپرٹ)
1993ء سے اب تک ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر کے ممالک، ریاستوں اور حکومتوں کو لوگوں کو پانی کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینے اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنے پر زور دیا جاسکے۔ دنیا میں پانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن اگر صاف پانی کی بات کریں تو 2 ارب سے زائد افراد اس سے محروم ہیں۔ ہمارے ہاں بھی 98 فیصد لوگوں کو پانی تک رسائی حاصل ہے لیکن اگر صاف پانی کی بات کریں تو صرف 44 فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے جو تشویشناک ہے۔
ہمارے ہاں پانی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ واٹر کوالٹی کا مسئلہ ہے، زیر زمین پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس پانی کے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے قانون موجود ہے مگر عملدرآمد نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ہم خشک سالی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پانی کا تحفظ ہمارے لیے ایک ابھرتا ہوا بدترین چیلنج ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لوگوں کو آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے رویے ایسے ہیں کہ پانی کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بڑے پیمانے آگاہی مہم سمیت دیگر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے جگہ جگہ واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے مگر ان میں سے بیشتر بند ہوگئے یا مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوچکے ہیں۔ اب نئے فلٹریشن پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جن پر اخراجات بھی زیادہ ہونگے۔ حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ فارمولا ماضی میں بھی بہتر رہا ہے اور اب بھی جہاں جہاں ایسا ہوا اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ پہلے سے موجود فلٹریشن پلانٹس کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں نیا پلانٹ لگا دیا جائے۔اس کے علاوہ جہاں/ جس طرح کے پلانٹ کی ضرورت ہے وہی لگایا جائے، سیاسی مفادات کیلئے اقدامات نہ کیے جائیں۔
واٹر فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال کا مناسب میکنزم بنایا جائے، اس میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جائے اور انہیں آگاہی دی جائے۔ جنوبی پنجاب میں نئے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور پرانے پلانٹس کی بحالی پر کام ہورہا ہے۔ ہمارا ادارہ اس میں پیش پیش ہے۔ ہم صاف پانی کی فراہمی اور پلانٹس کی دیکھ بھال یقینی بنانے کیلئے 'انٹرپرینیورشپ' کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہم نے مظفر گڑھ میں 'واٹر شاپس' قائم کی ہیں جو کامیاب رہی ہیں،ا ب اس منصوبے کو پھیلایا جا رہا ہے۔
ہم کاروبار یا دکان چلانے کا تجربہ رکھنے والے افراد کو واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا کر دے رہے ہیں، وہ 50 پیسے فی لیٹر کے حساب سے صارفین سے پیسے لیتے ہیں اور اگر کہیں ڈیلوری دینی ہو تو 1 روپیہ فی لیٹروصول کرتے ہیں۔ ان پیسوں سے وہ پلانٹ کی مکمل دیکھ بھال کرتے ہیں۔ تین ماہ بعد ہماری ٹیم اس کا دورہ کرتی ہے جس میں پلانٹس کی حالت و دیگر حوالے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
حکومت ، سول سوسائٹی اور نجی اداروں کے اقدامات اپنی جگہ، جب تک عوام کو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ نہیںہوگا اور وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کو آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ نہیں کریں گے، تب تک فائدہ نہیں ہوگا۔ پانی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ پنجاب آب پاک اتھارٹی کے تحت اچھا کام ہورہا ہے مگر اداروں کے کردار کے حوالے سے معاملات واضح نہیں ہیں۔
پانی کے حوالے سے کام آب پاک اتھارٹی کو دیا جائے اور دیگر اداروں کو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے حکومتی اداروں، میڈیا، سول سوسائٹی، این جی اوز، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز)پر دستخط کر رکھے ہیں۔ ہدف نمبر 6 پانی اور سینی ٹیشن کے حوالے سے ہے۔ ہمارے ہاں جو پالیسیاں موجود ہیں انہیں اس سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے سول سوسائٹی اچھا کام کر رہی ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ لوگوں کو صاف پانی، پانی کے معیار، فلٹر کی دیکھ بھال و دیگر حوالے سے آگاہی و تربیت دینی چاہیے، لوگ اس حوالے سے پیسے خرچ کرنے کوبھی تیار ہیں۔ ہمارے ہاں تو آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں بھی فلٹر وقت پر تبدیل نہیں کرتے جو ان کے لیے صحت کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔ سرکار کی جانب سے لگائے گئے فلٹریشن پلانٹس پر بھی مسائل درپیش ہیں، ان کا معائنہ اور مرمت کا کام لازمی ہونا چاہیے۔
اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''پانی کے عالمی دن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
بیگم پروین سرور (سماجی کارکن و بیگم گورنر پنجاب)
گورنر پنجاب کا مشن ہے کہ ہر انسان کو اس کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اس میں صاف پانی کی فراہمی ہماری اولین ترجیح اور مشن ہے۔ پنجاب آب پاک اتھارٹی کا قیام ایک اہم سنگ میل ہے، یہ لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے مشن میں ایک بڑی پیشرفت ہے۔ سرکاری و نجی ادارے، این جی اوز، سول سوسائٹی، سماجی کارکنان سمیت معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرزاپنی اپنی صلاحیت کے مطابق فلاحی کام کر رہے ہیں۔ ہم نے ان تمام اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور سب مل کر پہلے سے بہتر پرفارم کر رہے ہیں۔ ہم نے ملک کے بیشتر حصوں میں پانی کی فراہمی کیلئے اقدامات کیے۔
یہ المیہ ہے کہ بیشتر فلٹریشن پلانٹس سے ٹوٹیاں و دیگر سامان چوری ہوا۔ ہم نے ہر پلانٹ کی حفاظت، صفائی اور دیکھ بھال کیلئے وہاں کے مقامی لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جس کے بعد سے قدرے بہتری آئی ہے۔ ہم نے گاؤں کے لوگوں کو آگاہی دی کہ یہ آپ کی صحت کیلئے ہے، اس کی ذمہ داری لیں اور حفاظت کریں۔ وہاں 10 روپے میں 20 لیٹر صاف پانی فراہم کیا جارہاہے، بعض جگہ لوگوں نے خود صفائی، ستھرائی، دیکھ بھال اور مرمت کی ذمہ داری لی اور وہ مفت پانی فراہم کر رہے ہیں، ہم نے مساجد میں بھی واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے ہیں اور مساجد کی کمیٹیاں ان کے انتظامی معاملات دیکھ رہی ہیں۔
بہت سارے گاؤں ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پانی میسر نہیں ہے، انہیں دو ر دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے۔ ہم نے وہاں ایسے گھروں میں جہاں صرف خواتین یا بیوہ رہتی ہیں اور کوئی مرد نہیں ہے، سول واٹر پمپ لگانے کا کام شروع کیا ہے، ان کا معیار بھی بہتر ہے اور 10 سال تک تبدیل بھی نہیں کرنا پڑتا۔ اس سے ایک تو گھر میں ہی پانی مل رہا ہے دوسرا خواتین کو تحفظ بھی مل رہا ہے کہ انہیں اکیلے کسی دوسرے علاقے میں نہیں جانا پڑتا۔ گزشتہ حکومت نے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے مگر دیکھ بھال اور مرمت کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر پلانٹس ناکارہ ہوچکے ہیں۔
پنجاب آب پاک اتھارٹی ، این جی اوز، سول سوسائٹی، مخیر حضرات و دیگر کے ساتھ مل کر ان کی بحالی کیلئے کام کر رہی ہے۔ اب نہ صرف نئے پلانٹس لگائے جا رہے ہیں بلکہ ان کی مرمت کا میکنزم بھی بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے عوام کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ہم مختلف علاقوں میں وہاں کی مقامی کمیٹی بنا کر جو پلانٹس لگاتے ہیں، ہر 3 ماہ بعد ہماری ٹیم وہاں کا دورہ کرکے پلانٹ کا معائنہ کرتی ہے اور پانی کی کوالٹی بھی چیک کی جاتی ہے۔ اس طرح جنہیں پلانٹ کی ذمہ داری دی جاتی ہے، انہیں بھی فکر ہوتی ہے کہ ٹیم دورہ کرے گی لہٰذا اس کی مناسب دیکھ بھال کی جائے۔
داتا دربار لاہور میں ہر سال 20 لاکھ زائرین آتے ہیں مگر وہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا۔ ہم نے وہاں کی انتظامیہ سے بات کرکے پلانٹس لگائے، اب لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہاہے۔ مجموعی طور پر بات کریں تو ہمارا ادارہ روزانہ 22 لاکھ افراد کو مختلف علاقوں میں صاف پانی مہیا کر رہا ہے۔ ان میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں 100 برس سے زائد ہوچکے، پینے کا پانی میسر نہیں تھا، ہم نے بلوچستان میں بھی 8 پلانٹس لگائے ہیں،ا س کے لیے وہاں کے اداروں اور افراد کا تعاون حاصل ہے۔
ڈاکٹر شکیل خان (چیئرمین پنجاب آب پاک اتھارٹی)
عالمی معاہدے کی توثیق کرنے کی وجہ سے 2030ء تک 100 فیصد لوگوں کی صاف پانی تک رسائی یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پانی کے حوالے سے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا پانی تک رسائی جبکہ دوسرا اس کا معیارہے۔ پنجاب میں لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ گورنر پنجاب کی کمٹنٹ اور جذبہ ہے۔ ان کا جنون ہے کہ ہم ہر گھر میں پانی پہنچائیں۔
وزیراعظم پاکستان نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا کہ لوگوں کو صاف اور معیاری پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں وزیراعظم اور گورنر پنجاب کی سنجیدگی کی وجہ سے 2019ء میں پنجاب آب پاک اتھارٹی قائم کی گئی۔ انتہائی کم عرصے میں ہم نے صوبے بھر میں کام کا آغاز کیا۔ پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں پانی کے حوالے سے 2 ہزار سے زائد منصوبے 31 مارچ تک مکمل ہوجائیں گے۔ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
نئے فلٹریشن پلانٹس لگانے کے حوالے سے سروے ہوچکا ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں کے پانی کے معیار، آلودگی، نمکیات (ٹی ڈی ایس لیول) و دیگر حوالے سے کوالٹی چیکنگ کا کام بھی کر لیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے نیچے 'ٹی ڈی ایس' لیول ہو تو پانی کو محفوظ تصور کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بعض علاقوں میں صورتحال تشویشناک ہے۔ سرگودھا میں 'ٹی ڈی ایس' لیول 2 ہزار، کہیں 3 اور کہیں 5 ہزار ہے۔ راجن پور، رحیم یار خان، ڈی جی خان و دیگر علاقوں میں نمکیات بہت زیادہ ہیں۔ ہم کوالٹی چیکنگ کے بعد اب لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے فلٹریشن پلانٹس و دیگر اقدامات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایک واٹر پلانٹ پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے، ان پلانٹس کی دیکھ بھال نہ کرنا اور خراب ہونے دینا غفلت نہیں جرم ہے۔
ہمارا المیہ رہا ہے کہ واٹر فلٹریشن پلانٹس تو لگا دیے گئے مگر ان کی دیکھ بھال اور مرمت کا میکنزم نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے بیشتر پلانٹس ناکارہ ہوگئے اور بند پڑے ہیں۔ ہمارے ہاں انفراسٹرکچر تو بن جاتا ہے مگر اس کی آپریشنل دیکھ بھال کیلئے بجٹ مختص نہیں کیا جاتا مگر اب منصوبوں کی پائیداری پر خصوصی کام کیا جارہا ہے۔ گورنر پنجاب کی ہدایت پر پرانے فلٹریشن پلانٹس کی بحالی اور نئے پلانٹس کی تنصیب کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے حوالے سے خصوصی میکنزم بنایا گیا ہے، ہم اس میں کمیونٹی کو شامل کر رہے ہیں، ان کی 'آنرشپ' کے بغیر خطیر بجٹ بھی ناکافی ہوگا۔
ملک میں این جی اوز، سول سوسائٹی، مخیر حضرات ودیگر سٹیک ہولڈرز لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے اپنی اپنی سطح پر کام کر رہے ہیں۔گورنر پنجاب نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے۔ اب حکومتی ادارے و تمام سٹیک ہولڈرز مل کر کام کر رہے ہیں، اس سے وسائل میں اضافہ ہوا اور ایک ہی علاقے میں مختلف لوگوں کے کام کرنے کے بجائے مختلف علاقوں میںایک دوسرے کی مدد سے کام کرنے کو فروغ ملا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ کام کی وسعت اور تیزی کی صورت میں ہوا۔ ہم پانی کے مسائل حل کرنے اور اخراجات میں کمی لانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تحقیق کے ذریعے یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ کب کہاں اور کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سادہ فلٹریشن پلانٹ کہاں لگے گا؟ 'آر او' پلانٹ کی کہاں ضرورت ہے؟ آب پاک اتھارٹی نے ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے جس سے فلٹریشن پلانٹس کی تبدیلی کی مدت میں اضافہ ہوا، اب 10 سے 20 سال بعد تبدیلی ہوگی جو پہلے2 سے 3 سال بعد ہوتی تھی۔ ہم علم کے تبادلے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت، سری لنکا یا کوئی بھی ملک ہو ، اگر اس کا کوئی منصوبہ یا تجربہ ملک و قوم کیلئے فائدہ مند ہے تو ہمیں اس سے سیکھتے ہوئے اپنے ملک میں بھی وہ کام کرنا چاہیے۔ ہم پر عزم ہیں اور کم لاگت والے پائیدار منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مارچ میں ہی گرمی آگئی ہے۔ موسم کی وجہ سے مختلف چیلنجز پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر برف زیادہ پگھلے تو سیلاب آتا ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کا درست نظام اور بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پانی سمندر میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے۔
اگر موسم سرد رہے، برف زیادہ نہ پگھلے تو خشک سالی آجاتی ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے 78 ڈیمز پر کام جاری ہے، ان سے سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا اور بجلی بھی پیدا ہوگی۔ لاہور کے لارنس گارڈن کے علاقے میں واسا کی جانب سے زیر زمین پانی ذخیرہ کرنے کا ٹینک بنایا گیا ہے، الحمرا ہال اور قذافی سٹیڈیم سمیت 8 مختلف مقامات پر پانی ذخیرہ کرنے کے زیر زمین ٹینک بنائے گئے ہیں، ان میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
راولپنڈی میں 3 ٹینک بنائے جا رہے ہیں، دیگر شہروں میں بھی اسی طرز پر کام کرنے اور بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے زیر زمین ٹینک بنانے پر منصوبہ بندی جاری ہے، اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ لاہور میں پانی کے میٹر لگانے کے منظوری ہوچکی ہے، جلد اس پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا،اس سے صارفین کو پانی کی قدر و قیمت کا احساس ہوگا اور پانی کا ضیاع روکا جاسکے گا۔
لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے پانی کے معیار کو چیک کیا جا رہا ہے، اس میں سرکاری و نجی دونوں سوسائٹیز شامل ہیں، ابتدائی طور پر 100 ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ خوش ہے کہ ہم ان کے کام کو آسان کر رہے ہیں اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں صاف پانی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، گاڑی دھونے کیلئے بھی بہت زیادہ پانی استعمال کیا جاتا ہے، ہم اس حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں کہ کاروں کو سٹیم واش کیا جائے، اس سے پانی کا استعمال 50 گیلن کے بجائے 5 گیلن تک آجائے گا۔
ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں بھی بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ اس حوالے سے 'پی سی آر ڈبلیو آر' کے ساتھ مل کر پائلٹ پراجیکٹ کیا ہے، پنجاب کے تمام سکولوں میں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے ہر شہری کو صاف پانی کی فراہمی ہمارا مشن ہے،31 مارچ تک پنجاب کے 76 لاکھ لوگوں کو صاف پانی مہا کر دیا جائے گا جبکہ آئندہ برس مارچ تک مزید 76 لاکھ افراد کو بھی فراہمی یقینی بنائے جائے گی، ان کیلئے رواں برس جون میں منصوبہ لانچ کر دیا جائے گا۔
مبارک علی سرور (واٹر ایکسپرٹ)
1993ء سے اب تک ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر کے ممالک، ریاستوں اور حکومتوں کو لوگوں کو پانی کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینے اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنے پر زور دیا جاسکے۔ دنیا میں پانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن اگر صاف پانی کی بات کریں تو 2 ارب سے زائد افراد اس سے محروم ہیں۔ ہمارے ہاں بھی 98 فیصد لوگوں کو پانی تک رسائی حاصل ہے لیکن اگر صاف پانی کی بات کریں تو صرف 44 فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے جو تشویشناک ہے۔
ہمارے ہاں پانی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ واٹر کوالٹی کا مسئلہ ہے، زیر زمین پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس پانی کے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے قانون موجود ہے مگر عملدرآمد نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ہم خشک سالی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پانی کا تحفظ ہمارے لیے ایک ابھرتا ہوا بدترین چیلنج ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لوگوں کو آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے رویے ایسے ہیں کہ پانی کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بڑے پیمانے آگاہی مہم سمیت دیگر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے جگہ جگہ واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے مگر ان میں سے بیشتر بند ہوگئے یا مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہوچکے ہیں۔ اب نئے فلٹریشن پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جن پر اخراجات بھی زیادہ ہونگے۔ حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ فارمولا ماضی میں بھی بہتر رہا ہے اور اب بھی جہاں جہاں ایسا ہوا اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ پہلے سے موجود فلٹریشن پلانٹس کی بحالی کے اقدامات کیے جائیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں نیا پلانٹ لگا دیا جائے۔اس کے علاوہ جہاں/ جس طرح کے پلانٹ کی ضرورت ہے وہی لگایا جائے، سیاسی مفادات کیلئے اقدامات نہ کیے جائیں۔
واٹر فلٹریشن پلانٹس کی دیکھ بھال کا مناسب میکنزم بنایا جائے، اس میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جائے اور انہیں آگاہی دی جائے۔ جنوبی پنجاب میں نئے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور پرانے پلانٹس کی بحالی پر کام ہورہا ہے۔ ہمارا ادارہ اس میں پیش پیش ہے۔ ہم صاف پانی کی فراہمی اور پلانٹس کی دیکھ بھال یقینی بنانے کیلئے 'انٹرپرینیورشپ' کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہم نے مظفر گڑھ میں 'واٹر شاپس' قائم کی ہیں جو کامیاب رہی ہیں،ا ب اس منصوبے کو پھیلایا جا رہا ہے۔
ہم کاروبار یا دکان چلانے کا تجربہ رکھنے والے افراد کو واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا کر دے رہے ہیں، وہ 50 پیسے فی لیٹر کے حساب سے صارفین سے پیسے لیتے ہیں اور اگر کہیں ڈیلوری دینی ہو تو 1 روپیہ فی لیٹروصول کرتے ہیں۔ ان پیسوں سے وہ پلانٹ کی مکمل دیکھ بھال کرتے ہیں۔ تین ماہ بعد ہماری ٹیم اس کا دورہ کرتی ہے جس میں پلانٹس کی حالت و دیگر حوالے سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
حکومت ، سول سوسائٹی اور نجی اداروں کے اقدامات اپنی جگہ، جب تک عوام کو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ نہیںہوگا اور وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کو آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ نہیں کریں گے، تب تک فائدہ نہیں ہوگا۔ پانی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ پنجاب آب پاک اتھارٹی کے تحت اچھا کام ہورہا ہے مگر اداروں کے کردار کے حوالے سے معاملات واضح نہیں ہیں۔
پانی کے حوالے سے کام آب پاک اتھارٹی کو دیا جائے اور دیگر اداروں کو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے حکومتی اداروں، میڈیا، سول سوسائٹی، این جی اوز، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز)پر دستخط کر رکھے ہیں۔ ہدف نمبر 6 پانی اور سینی ٹیشن کے حوالے سے ہے۔ ہمارے ہاں جو پالیسیاں موجود ہیں انہیں اس سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے سول سوسائٹی اچھا کام کر رہی ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ لوگوں کو صاف پانی، پانی کے معیار، فلٹر کی دیکھ بھال و دیگر حوالے سے آگاہی و تربیت دینی چاہیے، لوگ اس حوالے سے پیسے خرچ کرنے کوبھی تیار ہیں۔ ہمارے ہاں تو آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں بھی فلٹر وقت پر تبدیل نہیں کرتے جو ان کے لیے صحت کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔ سرکار کی جانب سے لگائے گئے فلٹریشن پلانٹس پر بھی مسائل درپیش ہیں، ان کا معائنہ اور مرمت کا کام لازمی ہونا چاہیے۔