کارل مارکس کی یاد میں
دنیا بھر کے محنت کشوں اور غریبوں کے رہنماء کارل مارکس کا یوم وفات14مارچ1883ہے
دنیا بھر کے محنت کشوں اور غریبوں کے رہنماء کارل مارکس کا یوم وفات14مارچ1883ہے' انھوں نے یہ عالمگیر پیغام دیا تھا کہ ''دنیا بھر کے محنت کشو متحد ہو جائو'تمہارے پاس کھونے کے لیے اور کچھ نہیں 'سوائے غلامی کی زنجیروں کے اور جیتنے کے لیے پوری دنیا پڑی ہے''۔
یہ الفاظ گرینائٹ کے چند فٹ مستطیل اس ستون پر لکھے گئے ہیں 'جس پر کارل مارکس کے بالائی دھڑ کا کانسی کا مجسمہ نصب ہے 'یہ مجسمہ ''لندن کے ''ہائی گیٹ قبرستان''میں کارل مارکس کی قبر پر ایستادہ ہے' جو برٹش کمیونسٹ پارٹی نے 1956 میں نصب کرایا تھا 'اس قبرستان کے قریب ہی واقع سینٹ مائیکل چرچ کا پادری جوناتھن ٹرگ کہتا ہے کہ چرچ میں آنے والے اکثر افراد مالیاتی اداروں یا مالیات سے متعلق اداروں میں ملازم ہیں'یہ تمام لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں'دنیا کو تبدیل کرنے کے حوالے سے وہ کیا سوچتے ہیں۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹرگ کہتا ہے ''یہاں آنے والے لوگ اب کارل مارکس کی قبر پر جاکربھی تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں'نہ جانے وہ اس دوران کیا سوچتے ہیں؟ موجودہ بدحال عالمی معاشی صورت حال میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے ایم پیزکی ایک بڑی تعداد بینکوں اور صنعتوں کو بڑے پیمانے پر قومی تحویل میں لینے کی حمایت کر رہی ہے۔آرچ بشپ آف کنٹر بری غیر متوقع طور پر کارل مارکس کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے 'جن کے پیروکاروں نے سیکولرازم کو ریاست کا نظام چلانے کی بنیاد بنایا تھا۔
لہیمن برادرز کے دیوالیہ ہوجانے کے ایک ہفتہ بعد ان کا ایک آرٹیکل شایع ہوا 'اس آرٹیکل میں آرچ بشپ نے لکھا تھا کہ ''کارل مارکس نے بہت پہلے اس راستے کو محسوس کر لیا تھا 'جس پر چل کر سرکش سرمایہ دارانہ نظام ایک قسم کی دیو مالائی حقیقت اور ایسی اشیاء کا مجموعہ بن گیا جو اپنی ذات میں کوئی وجود نہیں رکھتیں' اس بارے میں ان کی سوچ بالکل صحیح تھی ۔''
کارل مارکس جرمنی کے شہر ٹرائیر (Trier)میں پیدا ہوا تھا 'اس تاریخی شہر کے سابق رومن کیتھولک بشپ ' میونخ اور فریسنگ کے موجودہ آرچ بشپ رین ہارڈ مارکس(Reinhard Marx)نے ایک کتاب لکھی ہے 'مارکسی نظریات سے اختلاف رکھنے کے باوجود' رین جیسے جیسے عالمی معاشی نظام کی تباہی اور عام لوگوں میں بڑھتے ہوئے احساس عدم تحفظ کا جائزہ لیتا ہے 'وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا سرمایہ دارانہ نظام پر کارل مارکس کی تنقید درست تھی 'وہ لکھتا ہے۔
''تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کوئی خدائی نظام نہیں بلکہ تاریخ کا صرف ایک حصہ ہے جو ایک موڑ پر آکر تمام ہو جائے گا'کیا کارل مارکس نے سچ لکھا ہے کہ اس نظام کے اندرونی اجزاء کا تضاد اسے ڈھیر کر دے گا ''۔یہ خیالات صرف آرچ بشپ کے نہیں ہیں بلکہ واشنگٹن سے لے کر ولادی فوستک (روس) تک مالیاتی بحران اور معاشی بحران کا سدباب حکومتی عہدے داروں 'مرکزی بینکاروںاور معیشت دانوں کی پہلی ترجیح بن چکا ہے 'دگرگوں عالمی معیشت کی بہتری کے لیے ان کی پیش کردہ تجا ویز اگر چہ مختلف ہیں لیکن وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ صورت حال بے حد خوفناک اور پیچیدہ ہے۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے تبصرے سے اس صورت حال کی بھر پور انداز میں وضاحت ہوتی ہے' ان کا کہنا ہے کہ ''آپ کسی بھی ماہر سے پوچھیں کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کیا کیا جائے؟' اس کے پاس اس سوال کا ایماندارانہ جواب یہ ہوگا کہ مجھے معلوم نہیں۔''
سرمایہ داری کے موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے بہت سے لوگ پرانے کتب خانے کھنگال رہے ہیں' برطانوی ماہر معیشت جان مینارڈ کینز(John Maynard Keynes)کی وہ تجاویز بھی دریافت کی گئیں' جو انھوں نے 1930 کی دہائی میں شایع کی تھیں' شدید معاشی بحران نے معیشت دانوں کوایڈم اسمتھ سے لے کر جے کے گالبرتھ (J.K.Galbraith)تک ماضی کے معروف معاشی فلسفیوں اور سیاسی معیشت کے بانیوں پر توجہ دینے پر مجبور کر دیا ہے 'تاہم ایک بات پر یہ سب متفق ہیں کہ ان سب میں کارل مارکس کی شخصیت سیاسی معیشت دانوں کے پیر و مرشد کی حیثیت رکھتی ہے اور سب سے نمایاں ہے 'وہ 1883میں فوت ہوئے 'ان کی موت کے 139 سال بعد بھی ان کی سرمایہ دارانہ نظام کے عدم توازن پر تنقید نے تاریخ عالم میں غیر معمولی کردار ادا کیا ۔
خود مارکس کی زندگی کا ایک حصہ بھی تیز رفتار عالمگیریت کے دور میں گزرا ۔''کمیونسٹوں کامنشور'' (Communist Manifesto) کی مشہور تحریر 'جو کارل مارکس نے فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر 1848میں لکھی تھی 'حیران کن طور پر عالمگیریت (Globalisation)کے نقصانات اور فوائد درست طور پر بیان کرتی ہے۔کارل مارکس نے اپنی زندگی میں امیر اور غریب کے درمیان موجود خلیج کا بہت قریب سے مطالعہ کیا تھا 'یہ خلیج اب بہت زیادہ وسیع ہو چکی ہے' کارل مارکس کی سوچ تھی کہ کام اور محنت 'ذاتی آسودگی کا باعث ہونی چاہیے اور مزدور کو فقط ایک تجارتی شے نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ڈیووس (سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''اگر حکومتیں یہ ثابت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہم دنیا کو ایک ایسا سوشل آرڈر دے سکتے ہیں' جس میں اس قسم کے بحران کے لیے کوئی جگہ نہ ہو 'تو ہمیں اس قسم کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ کیا واقعی کارل مارکس نے سچ کہا تھا کہ سرمایہ داری نظام انسان کو مشکلات میں مبتلا کرنے کا باعث بنے گا ؟''۔
پیرس کا' مارکس کی زندگی اور جدوجہد میں کافی حصہ رہا ہے 'وہ جرمن حکومت کے ساتھ اختلافات کے بعد 1843 میں پیرس منتقل ہوا 'یہاں ان کی ملاقات فریڈرک اینگلز سے ہوئی 'وہ ان کے انتہائی قریبی روحانی اور عملی دوست ثابت ہوئے 'فرانس میں 1830 1848' اور 1871میں ہونے والی بغاوتوں نے طبقاتی کشمکش اور انقلاب کے بارے میں مارکس کی سوچ کو بہت متاثر کیا ' فرانس کے سابق صدر سرکوزی ' بھی کارل مارکس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سرمایہ داری نظام پر قدرے دھیمے انداز میں تنقید کر تے رہے 'وہ کہتے ہیں کہ ''میں سرمایہ دارانہ نظام کی تخلیقی قوت پر یقین رکھتا ہوں لیکن میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ یہ نظام' ضابطہ اخلاق'روحانی اقدار کے لیے احترام ' حقوق انسانی کی حمایت اور لوگوں کے لیے عزت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ''۔
مارکس 1849میں لندن منتقل ہوگئے' انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 34برس یہاں بسر کیے' لندن میں ان کا زیادہ وقت ''برٹش میوزیم'' کی ریڈنگ روم میں گزرا 'یہاں انھوں نے برطانوی صنعتی کارکنوں کی بدحالی اور مصائب سے متعلق رپورٹوں کا مطالعہ کیا' انھوں نے اپنی بہترین تحریریں یہاں قلم بند کیں۔ داس کیپیٹل (سرمایہ) کی پہلی جلد انھوں نے یہاں 23سال میں مکمل کی' دوسرے جلد کے نوٹس مکمل کرکے وہ فوت ہوگئے 'اس طرح ان نوٹس کی مدد سے اس کتاب کی دوسری جلد اور پھر تیسری جلد فریڈرک اینگلز نے مکمل کیں'وہ جس کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے وہ کرسی آج بھی برٹش میوزیم میں ''مارکس کی کرسی'' (Marxian Chair) کے نام سے محفوظ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مافیا ڈان قسم کے رہنمائوں اور فلسفہ دانوں نے تو اپنے خیال میں سوشلزم کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا 'ان کے خیال میں سرمایہ داری نظام کو قیامت تک کامیاب رہنا تھا 'اس لیے فوکویاماسے '' تاریخ کا اختتام ''نامی کتاب لکھوائی گئی۔ اب آہستہ آہستہ کارل مارکس کے نظریات (جدلیاتی مادیت 'تاریخی مادیت 'سرپلس ویلیو'اور پولیٹیکل اکانومی)جو سائنسی بنیادوں پر استوار ہیں' سچ ثابت ہو رہی ہیں۔
یہ الفاظ گرینائٹ کے چند فٹ مستطیل اس ستون پر لکھے گئے ہیں 'جس پر کارل مارکس کے بالائی دھڑ کا کانسی کا مجسمہ نصب ہے 'یہ مجسمہ ''لندن کے ''ہائی گیٹ قبرستان''میں کارل مارکس کی قبر پر ایستادہ ہے' جو برٹش کمیونسٹ پارٹی نے 1956 میں نصب کرایا تھا 'اس قبرستان کے قریب ہی واقع سینٹ مائیکل چرچ کا پادری جوناتھن ٹرگ کہتا ہے کہ چرچ میں آنے والے اکثر افراد مالیاتی اداروں یا مالیات سے متعلق اداروں میں ملازم ہیں'یہ تمام لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں'دنیا کو تبدیل کرنے کے حوالے سے وہ کیا سوچتے ہیں۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹرگ کہتا ہے ''یہاں آنے والے لوگ اب کارل مارکس کی قبر پر جاکربھی تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں'نہ جانے وہ اس دوران کیا سوچتے ہیں؟ موجودہ بدحال عالمی معاشی صورت حال میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے ایم پیزکی ایک بڑی تعداد بینکوں اور صنعتوں کو بڑے پیمانے پر قومی تحویل میں لینے کی حمایت کر رہی ہے۔آرچ بشپ آف کنٹر بری غیر متوقع طور پر کارل مارکس کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے 'جن کے پیروکاروں نے سیکولرازم کو ریاست کا نظام چلانے کی بنیاد بنایا تھا۔
لہیمن برادرز کے دیوالیہ ہوجانے کے ایک ہفتہ بعد ان کا ایک آرٹیکل شایع ہوا 'اس آرٹیکل میں آرچ بشپ نے لکھا تھا کہ ''کارل مارکس نے بہت پہلے اس راستے کو محسوس کر لیا تھا 'جس پر چل کر سرکش سرمایہ دارانہ نظام ایک قسم کی دیو مالائی حقیقت اور ایسی اشیاء کا مجموعہ بن گیا جو اپنی ذات میں کوئی وجود نہیں رکھتیں' اس بارے میں ان کی سوچ بالکل صحیح تھی ۔''
کارل مارکس جرمنی کے شہر ٹرائیر (Trier)میں پیدا ہوا تھا 'اس تاریخی شہر کے سابق رومن کیتھولک بشپ ' میونخ اور فریسنگ کے موجودہ آرچ بشپ رین ہارڈ مارکس(Reinhard Marx)نے ایک کتاب لکھی ہے 'مارکسی نظریات سے اختلاف رکھنے کے باوجود' رین جیسے جیسے عالمی معاشی نظام کی تباہی اور عام لوگوں میں بڑھتے ہوئے احساس عدم تحفظ کا جائزہ لیتا ہے 'وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا سرمایہ دارانہ نظام پر کارل مارکس کی تنقید درست تھی 'وہ لکھتا ہے۔
''تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کوئی خدائی نظام نہیں بلکہ تاریخ کا صرف ایک حصہ ہے جو ایک موڑ پر آکر تمام ہو جائے گا'کیا کارل مارکس نے سچ لکھا ہے کہ اس نظام کے اندرونی اجزاء کا تضاد اسے ڈھیر کر دے گا ''۔یہ خیالات صرف آرچ بشپ کے نہیں ہیں بلکہ واشنگٹن سے لے کر ولادی فوستک (روس) تک مالیاتی بحران اور معاشی بحران کا سدباب حکومتی عہدے داروں 'مرکزی بینکاروںاور معیشت دانوں کی پہلی ترجیح بن چکا ہے 'دگرگوں عالمی معیشت کی بہتری کے لیے ان کی پیش کردہ تجا ویز اگر چہ مختلف ہیں لیکن وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ صورت حال بے حد خوفناک اور پیچیدہ ہے۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے تبصرے سے اس صورت حال کی بھر پور انداز میں وضاحت ہوتی ہے' ان کا کہنا ہے کہ ''آپ کسی بھی ماہر سے پوچھیں کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کیا کیا جائے؟' اس کے پاس اس سوال کا ایماندارانہ جواب یہ ہوگا کہ مجھے معلوم نہیں۔''
سرمایہ داری کے موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے بہت سے لوگ پرانے کتب خانے کھنگال رہے ہیں' برطانوی ماہر معیشت جان مینارڈ کینز(John Maynard Keynes)کی وہ تجاویز بھی دریافت کی گئیں' جو انھوں نے 1930 کی دہائی میں شایع کی تھیں' شدید معاشی بحران نے معیشت دانوں کوایڈم اسمتھ سے لے کر جے کے گالبرتھ (J.K.Galbraith)تک ماضی کے معروف معاشی فلسفیوں اور سیاسی معیشت کے بانیوں پر توجہ دینے پر مجبور کر دیا ہے 'تاہم ایک بات پر یہ سب متفق ہیں کہ ان سب میں کارل مارکس کی شخصیت سیاسی معیشت دانوں کے پیر و مرشد کی حیثیت رکھتی ہے اور سب سے نمایاں ہے 'وہ 1883میں فوت ہوئے 'ان کی موت کے 139 سال بعد بھی ان کی سرمایہ دارانہ نظام کے عدم توازن پر تنقید نے تاریخ عالم میں غیر معمولی کردار ادا کیا ۔
خود مارکس کی زندگی کا ایک حصہ بھی تیز رفتار عالمگیریت کے دور میں گزرا ۔''کمیونسٹوں کامنشور'' (Communist Manifesto) کی مشہور تحریر 'جو کارل مارکس نے فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر 1848میں لکھی تھی 'حیران کن طور پر عالمگیریت (Globalisation)کے نقصانات اور فوائد درست طور پر بیان کرتی ہے۔کارل مارکس نے اپنی زندگی میں امیر اور غریب کے درمیان موجود خلیج کا بہت قریب سے مطالعہ کیا تھا 'یہ خلیج اب بہت زیادہ وسیع ہو چکی ہے' کارل مارکس کی سوچ تھی کہ کام اور محنت 'ذاتی آسودگی کا باعث ہونی چاہیے اور مزدور کو فقط ایک تجارتی شے نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ڈیووس (سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''اگر حکومتیں یہ ثابت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہم دنیا کو ایک ایسا سوشل آرڈر دے سکتے ہیں' جس میں اس قسم کے بحران کے لیے کوئی جگہ نہ ہو 'تو ہمیں اس قسم کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ کیا واقعی کارل مارکس نے سچ کہا تھا کہ سرمایہ داری نظام انسان کو مشکلات میں مبتلا کرنے کا باعث بنے گا ؟''۔
پیرس کا' مارکس کی زندگی اور جدوجہد میں کافی حصہ رہا ہے 'وہ جرمن حکومت کے ساتھ اختلافات کے بعد 1843 میں پیرس منتقل ہوا 'یہاں ان کی ملاقات فریڈرک اینگلز سے ہوئی 'وہ ان کے انتہائی قریبی روحانی اور عملی دوست ثابت ہوئے 'فرانس میں 1830 1848' اور 1871میں ہونے والی بغاوتوں نے طبقاتی کشمکش اور انقلاب کے بارے میں مارکس کی سوچ کو بہت متاثر کیا ' فرانس کے سابق صدر سرکوزی ' بھی کارل مارکس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سرمایہ داری نظام پر قدرے دھیمے انداز میں تنقید کر تے رہے 'وہ کہتے ہیں کہ ''میں سرمایہ دارانہ نظام کی تخلیقی قوت پر یقین رکھتا ہوں لیکن میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ یہ نظام' ضابطہ اخلاق'روحانی اقدار کے لیے احترام ' حقوق انسانی کی حمایت اور لوگوں کے لیے عزت کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ''۔
مارکس 1849میں لندن منتقل ہوگئے' انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 34برس یہاں بسر کیے' لندن میں ان کا زیادہ وقت ''برٹش میوزیم'' کی ریڈنگ روم میں گزرا 'یہاں انھوں نے برطانوی صنعتی کارکنوں کی بدحالی اور مصائب سے متعلق رپورٹوں کا مطالعہ کیا' انھوں نے اپنی بہترین تحریریں یہاں قلم بند کیں۔ داس کیپیٹل (سرمایہ) کی پہلی جلد انھوں نے یہاں 23سال میں مکمل کی' دوسرے جلد کے نوٹس مکمل کرکے وہ فوت ہوگئے 'اس طرح ان نوٹس کی مدد سے اس کتاب کی دوسری جلد اور پھر تیسری جلد فریڈرک اینگلز نے مکمل کیں'وہ جس کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے وہ کرسی آج بھی برٹش میوزیم میں ''مارکس کی کرسی'' (Marxian Chair) کے نام سے محفوظ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مافیا ڈان قسم کے رہنمائوں اور فلسفہ دانوں نے تو اپنے خیال میں سوشلزم کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا 'ان کے خیال میں سرمایہ داری نظام کو قیامت تک کامیاب رہنا تھا 'اس لیے فوکویاماسے '' تاریخ کا اختتام ''نامی کتاب لکھوائی گئی۔ اب آہستہ آہستہ کارل مارکس کے نظریات (جدلیاتی مادیت 'تاریخی مادیت 'سرپلس ویلیو'اور پولیٹیکل اکانومی)جو سائنسی بنیادوں پر استوار ہیں' سچ ثابت ہو رہی ہیں۔