روس یوکرین جنگ مہنگائی کی نئی لہر کا خدشہ
عالمی طورپرزرعی اجناس، تیل،کوئلے اورگیس کی قیمتوں میں جواضافہ ہوناشروع ہوگیاہے، پاکستان اس کے اثرات سے متاثر ہوسکتا ہے
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اگر مزید طوالت اختیار کرتی ہے، تو اس کے پاکستانی معیشت پر انتہائی گہرے اور منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ روسی برآمدات پر لگائی گئی پابندیوں اور یو کرین سے رسد میں خلل کے باعث توانائی اور غذائی اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
توانائی کی قلت اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے کے باعث پاکستان پر اس کے دیگر ممالک کی نسبت گہرے اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں۔ گندم اور پام آئل پاکستان کی غذائی اجناس میں سب سے زیادہ حجم رکھتے ہیں ، پاکستان روس اور یوکرین دونوں ممالک سے گندم درآمد کرتا ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ سے پاکستان پر تین طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اقتصادی طور پر دیکھیں تو جنگ زدہ یوکرین کے لیے پاکستانی برآمدات چونکہ بہت ہی کم ہیں، اس لیے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، لیکن روس اور یوکرین دنیا میں گندم اور کئی دیگر زرعی اجناس پیدا کرنے والے اہم ممالک ہیں۔ پاکستان یوکرین سے گندم درآمد کرتا ہے، اس لیے اس جنگ کے سبب پاکستانی درآمدات کسی حد تک متاثر ہو سکتی ہیں۔
اس جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر زرعی اجناس، تیل، کوئلے اور گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، پاکستان اس کے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے ، کیونکہ پاکستان مایع قدرتی گیس، کوئلہ اور تیل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13فیصد کی حد عبور کر چکی ہے، اب مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، دنیا کے مختلف ممالک سپلائی متاثر ہونے کے ڈر سے اشیا کا ذخیرہ کرنے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گاڑیوں کے لیے چپس کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ چپس کے لیے خام مال (نیون اور پیلاڈیم) روس اور یوکرین فراہم کرتے ہیں۔ یوکرین سے اس بار پاکستان نے اپنی ضروریات کی 40 فیصد گندم درآمد کی ہے۔ یوکرین میں کوئی بھی بحران پاکستان میں گندم کی قلت کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں گندم، آٹے اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت کو چونکہ اس سے قبل سبسڈی دینے کی وجہ سے اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا اسی لیے مزید سبسڈی دینا مشکل ہوگیا تھا۔ ادھر پٹرول کی قیمتیں بڑھتے ہی ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کا اثر بالواسطہ یا بلا واسطہ مہنگائی کی شرح پر ضرور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان وہ عام آدمی ہے جس کے متعلق وزیر اعظم عمران خان اپنے خطابات میں کئی مرتبہ ذکر کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد دیہاڑی دار افراد کی ہے اور40 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بے حد پریشان ہیں ایسے میں پٹرول کی نئی قیمتوں سے مہنگائی میں خطرناک حد تک اضافہ کا امکان ہے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کرنے اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو پانے کے لیے حکومت کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو دو وقت کی روٹی آسانی سے ملتی رہے۔
گلوبل سپلائی چین متاثر ہونے سے پاکستانی برآمد کنندگان کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور انھیں بحری مال برداری کی لاگت میں اضافے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ پاکستان میں روس کی مدد سے شروع کردہ گیس پائپ لائن سمیت مختلف منصوبوں پر پیش رفت کی رفتار بھی متاثر ہو۔ پاکستان اپنے لیے خارجہ پالیسی امکانات کو بڑھانے اور اپنی برآمدات کو مختلف عالمی منڈیوں تک پھیلانے کے لیے جو تگ و دو کر رہا تھا، اس جنگ سے پاکستان کی وہ تگ و دو بھی منفی طور پر متاثر ہو گی۔
اقتصادی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس کو مغرب میں پسند نہیں کیا گیا ہے اور اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے اور پاکستان کوئی واضح پوزیشن نہیں لیتا تو پھر امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسا طرز عمل سامنے آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے لے کر برآمدی رعایتوں تک ہمارے ملک کو کئی معاملات میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، دوسری جانب پاکستان کی یہ پوزیشن کہ وہ جنگ کی حمایت نہیں کرتا اور اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہتا، بلکہ تنازعات کو سفارتی سطح پر بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے، ایک لحاظ سے درست بات ہے ۔
پاکستان سے یوکرین چاول، سبزیاں اور فروٹ جاتے ہیں جب کہ پاکستان وہاں سے دفاعی ساز و سامان اور گندم منگواتا ہے ، اگر جنگ طویل ہو گئی، تو پاکستان میں یوکرین سے درآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں تیل کی قلت اور مزید مہنگائی بھی ہو سکتی ہے۔
اس جنگ کی وجہ سے زرعی اجناس اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے افریقی ممالک اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ان تمام ممالک کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اپنے ہاں مالی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ افراط زر میں اضافے کا بھی امکان موجود ہے ، اگر یہ عسکری تنازعہ طول پکڑ گیا، تو پھر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی افراط زر میں اضافہ ہو گا۔
پاکستان میں یوکرین سے اسٹیل درآمد کیا جاتا ہے جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب سے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے ، اس صورتحال میں اب اسٹیل جو کہ تعمیراتی صنعت کا اہم جزو ہے اس کی درآمدگی بھی مفقود ہوگی اور دوسرے ممالک سے اس کی درآمدگی مہنگی ہوگی تو اس کا اثر بھی عام پاکستانی پر براہ راست پڑے گا۔
اسی طرح پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، آئرن، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپٹ ، مشینری ، پتھر ، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں، اب اگر یوکرین کے بجائے کسی اور ملک سے ان اشیاء کا خام مال درآمد کیا جائیگا تو لامحالہ مہنگے داموں لینا پڑے گا تو ظاہر ہے کہ اس سے تیار سامان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے براہ راست عام پاکستانی متاثر ہوگا۔
صورتحال اگر اسی طرح رہی تو پٹرول کی فی بیرل قیمت میں اضافہ مزید ہوتا جائیگا جس کا مطلب ہے پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں ممکنہ طور پر 100 روپے سے زائد تک کا اضافہ ہوگا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گندم کی درآمدگی بھی شدید متاثر ہوگی۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یو کرین سے آیا تھا۔
پاکستان نے 2 سالوں میں یو کرین سے 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جو پچھلے سال کی کل درآمدات کا 40 فیصد ہے۔ جنگ کی یہی صورتحال رہی تو گندم کی درآمدگی مکمل طور پر مفقود ہوجائے گی جس کے باعث دیگر ممالک سے مہنگی گندم درآمدگی مجبوری بن جائے گی اور اس مہنگائی کا براہ راست متاثر عام پاکستانی ہوگا۔
پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سیمی کنڈکٹر کا زیادہ طور پر انحصار یوکرین سے درآمد شدہ مال پر ہوتا ہے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی صورت میں سیمی کنڈکٹر کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے جس سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچے گا اور اس کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی میں تاخیر بھی ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ پہلی بار خام تیل سو ڈالر فی بیرل سے زائد ہو گیا جس کے پیش نظر پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے، دنیا میں عدم استحکام کے خدشے پر سرمایہ کاروں نے نہ صرف سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ خوف کے باعث سرمائے کا انخلاء بھی شروع کر دیا۔ سبزی کی قیمتوں میں ایک بار پھر 70فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے عوام کی قوت خرید مزید متاثر ہو رہی ہے۔
ایک متوقع عالمی بحران ہمارے سامنے ہے ، جس سے ہم بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں ، ایسے نازک وقت میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی اور پیشگی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں ، ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ، ایسے میں مہنگائی کو قابو کرنے پر حکومت اور اس کی مشینری کی کوئی توجہ نہیں ، سب تحریک عدم اعتماد کا بہانہ تراش کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ، کیونکہ بیوروکریسی سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے ۔
ان سطور کے ذریعے حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کو سمجھیں ، باہمی اختلاف کو پس پشت ڈال کر آنیوالے بحران پر قابو پانے کے لیے دلجمعی سے کوشش کریں تو ملکی معیشت مہنگائی کے سونامی سے بچ سکتی ہے ۔
توانائی کی قلت اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے کے باعث پاکستان پر اس کے دیگر ممالک کی نسبت گہرے اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں۔ گندم اور پام آئل پاکستان کی غذائی اجناس میں سب سے زیادہ حجم رکھتے ہیں ، پاکستان روس اور یوکرین دونوں ممالک سے گندم درآمد کرتا ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ سے پاکستان پر تین طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اقتصادی طور پر دیکھیں تو جنگ زدہ یوکرین کے لیے پاکستانی برآمدات چونکہ بہت ہی کم ہیں، اس لیے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، لیکن روس اور یوکرین دنیا میں گندم اور کئی دیگر زرعی اجناس پیدا کرنے والے اہم ممالک ہیں۔ پاکستان یوکرین سے گندم درآمد کرتا ہے، اس لیے اس جنگ کے سبب پاکستانی درآمدات کسی حد تک متاثر ہو سکتی ہیں۔
اس جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر زرعی اجناس، تیل، کوئلے اور گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، پاکستان اس کے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے ، کیونکہ پاکستان مایع قدرتی گیس، کوئلہ اور تیل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13فیصد کی حد عبور کر چکی ہے، اب مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، دنیا کے مختلف ممالک سپلائی متاثر ہونے کے ڈر سے اشیا کا ذخیرہ کرنے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گاڑیوں کے لیے چپس کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ چپس کے لیے خام مال (نیون اور پیلاڈیم) روس اور یوکرین فراہم کرتے ہیں۔ یوکرین سے اس بار پاکستان نے اپنی ضروریات کی 40 فیصد گندم درآمد کی ہے۔ یوکرین میں کوئی بھی بحران پاکستان میں گندم کی قلت کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں گندم، آٹے اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت کو چونکہ اس سے قبل سبسڈی دینے کی وجہ سے اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا اسی لیے مزید سبسڈی دینا مشکل ہوگیا تھا۔ ادھر پٹرول کی قیمتیں بڑھتے ہی ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کا اثر بالواسطہ یا بلا واسطہ مہنگائی کی شرح پر ضرور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان وہ عام آدمی ہے جس کے متعلق وزیر اعظم عمران خان اپنے خطابات میں کئی مرتبہ ذکر کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد دیہاڑی دار افراد کی ہے اور40 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بے حد پریشان ہیں ایسے میں پٹرول کی نئی قیمتوں سے مہنگائی میں خطرناک حد تک اضافہ کا امکان ہے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کرنے اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو پانے کے لیے حکومت کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو دو وقت کی روٹی آسانی سے ملتی رہے۔
گلوبل سپلائی چین متاثر ہونے سے پاکستانی برآمد کنندگان کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور انھیں بحری مال برداری کی لاگت میں اضافے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ پاکستان میں روس کی مدد سے شروع کردہ گیس پائپ لائن سمیت مختلف منصوبوں پر پیش رفت کی رفتار بھی متاثر ہو۔ پاکستان اپنے لیے خارجہ پالیسی امکانات کو بڑھانے اور اپنی برآمدات کو مختلف عالمی منڈیوں تک پھیلانے کے لیے جو تگ و دو کر رہا تھا، اس جنگ سے پاکستان کی وہ تگ و دو بھی منفی طور پر متاثر ہو گی۔
اقتصادی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس کو مغرب میں پسند نہیں کیا گیا ہے اور اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے اور پاکستان کوئی واضح پوزیشن نہیں لیتا تو پھر امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسا طرز عمل سامنے آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے لے کر برآمدی رعایتوں تک ہمارے ملک کو کئی معاملات میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، دوسری جانب پاکستان کی یہ پوزیشن کہ وہ جنگ کی حمایت نہیں کرتا اور اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہتا، بلکہ تنازعات کو سفارتی سطح پر بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے، ایک لحاظ سے درست بات ہے ۔
پاکستان سے یوکرین چاول، سبزیاں اور فروٹ جاتے ہیں جب کہ پاکستان وہاں سے دفاعی ساز و سامان اور گندم منگواتا ہے ، اگر جنگ طویل ہو گئی، تو پاکستان میں یوکرین سے درآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں تیل کی قلت اور مزید مہنگائی بھی ہو سکتی ہے۔
اس جنگ کی وجہ سے زرعی اجناس اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے افریقی ممالک اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ان تمام ممالک کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اپنے ہاں مالی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ افراط زر میں اضافے کا بھی امکان موجود ہے ، اگر یہ عسکری تنازعہ طول پکڑ گیا، تو پھر دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی افراط زر میں اضافہ ہو گا۔
پاکستان میں یوکرین سے اسٹیل درآمد کیا جاتا ہے جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب سے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے ، اس صورتحال میں اب اسٹیل جو کہ تعمیراتی صنعت کا اہم جزو ہے اس کی درآمدگی بھی مفقود ہوگی اور دوسرے ممالک سے اس کی درآمدگی مہنگی ہوگی تو اس کا اثر بھی عام پاکستانی پر براہ راست پڑے گا۔
اسی طرح پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، آئرن، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپٹ ، مشینری ، پتھر ، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں، اب اگر یوکرین کے بجائے کسی اور ملک سے ان اشیاء کا خام مال درآمد کیا جائیگا تو لامحالہ مہنگے داموں لینا پڑے گا تو ظاہر ہے کہ اس سے تیار سامان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے براہ راست عام پاکستانی متاثر ہوگا۔
صورتحال اگر اسی طرح رہی تو پٹرول کی فی بیرل قیمت میں اضافہ مزید ہوتا جائیگا جس کا مطلب ہے پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں ممکنہ طور پر 100 روپے سے زائد تک کا اضافہ ہوگا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گندم کی درآمدگی بھی شدید متاثر ہوگی۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یو کرین سے آیا تھا۔
پاکستان نے 2 سالوں میں یو کرین سے 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جو پچھلے سال کی کل درآمدات کا 40 فیصد ہے۔ جنگ کی یہی صورتحال رہی تو گندم کی درآمدگی مکمل طور پر مفقود ہوجائے گی جس کے باعث دیگر ممالک سے مہنگی گندم درآمدگی مجبوری بن جائے گی اور اس مہنگائی کا براہ راست متاثر عام پاکستانی ہوگا۔
پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سیمی کنڈکٹر کا زیادہ طور پر انحصار یوکرین سے درآمد شدہ مال پر ہوتا ہے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی صورت میں سیمی کنڈکٹر کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے جس سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچے گا اور اس کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی میں تاخیر بھی ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ پہلی بار خام تیل سو ڈالر فی بیرل سے زائد ہو گیا جس کے پیش نظر پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے، دنیا میں عدم استحکام کے خدشے پر سرمایہ کاروں نے نہ صرف سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ خوف کے باعث سرمائے کا انخلاء بھی شروع کر دیا۔ سبزی کی قیمتوں میں ایک بار پھر 70فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے عوام کی قوت خرید مزید متاثر ہو رہی ہے۔
ایک متوقع عالمی بحران ہمارے سامنے ہے ، جس سے ہم بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں ، ایسے نازک وقت میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی اور پیشگی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں ، ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ، ایسے میں مہنگائی کو قابو کرنے پر حکومت اور اس کی مشینری کی کوئی توجہ نہیں ، سب تحریک عدم اعتماد کا بہانہ تراش کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ، کیونکہ بیوروکریسی سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے ۔
ان سطور کے ذریعے حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کو سمجھیں ، باہمی اختلاف کو پس پشت ڈال کر آنیوالے بحران پر قابو پانے کے لیے دلجمعی سے کوشش کریں تو ملکی معیشت مہنگائی کے سونامی سے بچ سکتی ہے ۔