قائداعظم کا نظریہ پاکستان بطور اسلامک اسٹیٹ
اسلامی اصولوں کا مقابلہ کسی آئین سے نہیں، یہ آج بھی اسی طرح ہماری زندگی کے لیے ضروری ہیں
لاہور:
کچھ علماء اور نیشنلسٹ مسلمان، مسلمانوں کی جدا ریاست پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ بیرسٹر' یورپین لباس میں ملبوس ہے۔ طرز زندگی اسی طرز پر ہے۔ وہ ہندوستان کی تقسیم کے حق میں نہ تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کو فوقیت دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ہندوستانی علماء دیو بند مفتی کفایت اللہ صاحب' حسین احمد مدنی' مولانا ابوالکلام آزاد اور بے شمار ایسے عالم پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نظریہ صاف تھا کہ ہندو اور مسلمان دو جدا مذاہب ہیں ۔ دونوں کے اطوار ' طریقہ زندگی ' تمدنی افکار جدا ہیں۔ مسلمان اور ہندو جدا قومیں ہیں ۔ لہٰذا یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ جدا قوم کو جدا وطن حاصل ہو اور تقسیم ہند ضروری امر ہے۔ لہٰذا 14 اگست 1947ء کو جدا وطن حاصل ہوا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عید الفطر کے موقع پر 1948ء میں کراچی میں واضح کر دیا تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ہماری ہر طرح رہنمائی کرتا ہے۔ اس طرح نبی کریم ؐ کے یوم ولادت عید میلادالنبی ؐ کے موقع پر25 جنوری 1984ء کو قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے لوگوں کے خیالات کو غلط قرار دیا کہ پاکستان کا آئین شریعت کے خلاف ہو گا۔ آپ نے سندھ ہائی کورٹ بار ا یسوسی ایشن کے ممبران کو میلاد النبی ؐ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا... ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کچھ لوگ زور دیتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کا آئین شریعت کی بنا پر ہو ۔
وجہ یہ ہے کچھ لوگ شرپسند ہیں خیال کرتے ہیں کہ ہم شریعت کو آئین سے ہٹا دیں گے۔ یہ کیوں خیال پیدا کیا گیا کہ ہم آئین پاکستان میں شریعت کو نہیں اپنائیں گے۔ یہ بد خیالی کیوں پیدا کی گئی''آپ نے زور دے کر کہا ''اسلامی ا صولوں کا مقابلہ کسی آئین سے نہیں ہے۔
آج بھی وہ اسی طرح ہماری زندگی کے لئے ضروری ہیں جس طرح 1400 سال پہلے تھے''۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں خواجہ غلام محمد نے اپنے تاثرات یوں قلمبند کئی کہ: میری قائداعظم محمد علی جناحؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ سے 1936ء میں سری نگر میں پہلی بار ملاقات ہوئی۔ دوسری بار1946ء میں ہوئی۔ اس کے بعد تیسری ملاقات 1947ء میں بمبئی میں ہوئی اور 17جولائی 1947ء کو کراچی میں جب وہ گورنر جزل آف پاکستان تھے۔
وادی کشمیر یعنی سری نگر میں مئی اور جون میں موسم جو بن پر ہوتا ہے۔پھول بہتات سے کھلتے ہیں۔ جس طرح میں نے اپنے اشعار میں کہا...
گل ہائے گا' گل سرخ لالہ و گل
تخیل کے ہیں کامران کارنامے
سب ہی رنگ ہیں طرح طرح کے افسانے
خالق عظیم کی ہے یہ حسین گلکاری
(ایم اے صوفی)
موسم کی رنگینیاں آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ چاند کی چاندنی بلوری کٹورے میں اپنا عکس یوں چھوڑتی ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں 'درختوں کے پتے حسین و جمیل نظارہ پیش کرتے ہیں۔ پھل درختوں کے ساتھ ' ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھولے لیتے ہیں۔ سیب 'خوبانی' ناشپاتی' انگور' طرح طرح کے میوے بہتات سے آتے ہیں۔
چنانچہ ہندوستان اور باہر سے سیاح آتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بھی ا چھا موسم پسند اور خوشنما ماحول پسندیدہ رہا۔ چنانچہ 1939ء میں موسم گزارنے کی خاطر سری نگر تشریف لے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو پانی کا نظارہ بھی خیرہ کرتا تھا۔چنانچہ وہ سری نگر میں ''کشتی گھر'' جانا پسند کرتے تھے۔ آپ کے ہمراہ آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح بھی تھیں۔
اپنی تہذیب کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔2 جون 1936ء کو عید میلادالنبی ؐکی تقریب مجاہد منزل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے شرکت کی۔ اس کا اہتمام آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس نے کیا تھا۔ حیدر آباد کے شہزادہ اعظم جان بھی موسم کی رعنائیاں دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی میلاد میں شامل ہو گئے۔ اس میں ہندوستان کے چیدہ چیدہ مسلمان آئے ہوئے تھے۔ اس میٹنگ کی صدارت حیدر آباد دکن کے نواب خسرو جنگ نے کی۔ جوہری سنگھ مہاراجہ کشمیر کے ذاتی دوست تھے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے انگریزی میں تقریر کی۔
حضور نبی کریم ؐ سے محبت کااظہار نہایت عقیدت سے کیا اور لنکن ان میں اپنے داخلہ کی وجہ بتائی۔ کیونکہ اس ادارے کے فریسکو پر قانون سازی کے میدان میں مشاہیر کے نام درج تھےMuhammad first Law giver of the worid حضور نبی کریم ؐ کا اسم مبارک سب سے اوپر تھا۔ لہٰذا میں نے داخلہ یہاں لینا پسند کیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔
جب قائداعظم محمد علی جناحؒ اپنی تقریر کے ذریعے حضور نبی کریم ؐ کے ساتھ اظہار محبت کر رہے تھے تو سری نگر کے د انشور منشی سراج الدین نے بے ساختہ اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقریر نے ایک نیا رنگ بنا دیا۔ لوگ متعجب ہوئے کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو نبی کریم ؐسے اس قدر انس اور محبت ہے۔ 3 جون 1936ء کو چوہدری غلام عباس کے ہاں میلاد النبی ؐ کے جلسہ میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اتحاد بین المسلمین پر زور دیا اور ساتھ تلقین کی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اقلیت کابھی خیال کریں۔
بس کیا تھا کشمیر میں ہر طرف قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقریر کا تذکرہ تھا اور لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ پارٹیاں منعقد کی گئیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اپنی قابلیت اور حضور نبی کریم ؐ سے عقیدت کی بنا پر مسلمانوں میں ہر دلعزیز ہو گئے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ایک بڑی عادت تھی کہ طلباء کے ساتھ گفتگو کرتے اور ان کے مستقبل کے بارے میں مشورہ دیتے ۔ علی گڑھ سے بھی ان کو بڑی دلچسپی تھی۔ دوسری بار قائداعظم محمد علی جناحؒ 10 مئی 1944ء کو سری نگر آئے۔ کیا شاندار استقبال ہوا۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ ہمیشہ اسلامی ریاست کا ذہن رکھتے تھے۔ تاہم وہ کسی صورت میں پاپائیت کے حامی نہ تھے۔ انہوں نے امریکی ریڈیو پر بیان دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان کا آئین ابھی تیار ہونا ہے۔ آئین ساز اسمبلی موجود ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آخر آئین کی شکل و صورت کیسی ہو گی۔ لیکن جیسے بھی ہو گی وہ جمہوری روایات پر مبنی ہو گی۔ جس میں اسلام کے سنہری اصول شامل ہوں گے۔ کیونکہ اسلامی اصول آج بھی اسی طرح زندگی سنوارنے کے لئے ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے اور اسلام کی خاصیت یہی ہے کہ وہ ہمیں جمہوریت سکھاتا ہے۔
کیونکہ اسلام نے ہمیں مساوات' انصاف اور عدل سے معاملات کو حال کرنا سکھایا ہے۔ہمیں اسلام کے یہ سنہرے اصول وراثت میں ملے ہیں۔ لہٰذا ان اصولوں کو اپناتے ہوئے ہمارا آئین تیار ہو گا۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان ایک مسلم ریاست ہو گی جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوگی۔ اس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔
9جون 1947ء کو امپیریل ہوٹل دہلی میں آل انڈیا مسلم کونسل کے میٹنگ منعقدہوئی تاکہ تقسیم ہند فارمولے کی منظوری حاصل کی جائے۔ وہاں پر مولانا حسرت موہانی جو قائداعظم محمد علی جناحؒ سے قربت رکھتے تھے' نے اختلاف کیا اور دو علماء نے قائداعظم سے دریافت کیا کہ آپ پاکستان بنا رہے ہیں۔ اس کا آئین کیا ہوگا؟ قائداعظم ؒ نے فوراً جواب دیا... ''قرآن اور سنتؐ'' گویا وہ اسلامی' فلاحی جمہوری ریاست کے حامی تھے۔
٭٭٭
22 اور 23 مارچ کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں منظور کردہ قرارداد ،23 مارچ 1956 ء کو متحدہ پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری اور اس کے درمیان ریاست کے مقاصد اور سمت کے تعین کیلئے آئین ساز اسمبلی سے12 مارچ کو منظور کردہ قرارداد مقاصد۔ ان سب میں ماہ مارچ اور جمہوری انداز مشترک اقدار ہیں ۔
23 مارچ 1956 ء کا تاریخی دن محض اس لئے ہماری تاریخ میں یاد گار نہ بن سکا کہ اس روز منظو ر کئے جانے والے آئین کو صرف دوسال بعد ہی تحلیل کر دیا گیا، لیکن در حقیقت 23مارچ 1956 کوآئین سازی کے ذریعے 23 مارچ 1940 کی تجدید کرکے پاکستان کو با قاعدہ جمہوری ریاست میں تبدیل کردیا گیا۔ اسی لیے یہ تاریخ پاکستان کے ارتقاء کے حوالے سے تاریخ دانوں کی توجہ کا محورر ہے گی۔ قرارداد لاہور کے تناظر میں ہر سال ملک کا الیکٹرانک و پر نٹ میڈیا بجا طور پر خصوصی اہتمام کرتا ہے۔
البتہ 23 مارچ 1956 ء کے تاریخی دن جب پاکستان نے اپنی آزادی کی حتمی منزل طے کی تھی ، بھی اس لحاظ یاد گار حیثیت رکھتا ہے کہ آئین کی منظوری کے فریضہ میں بھی وہ شخصیات شریک تھیں جنہوں نے قرار داد لاہور کی تائید کی تھی۔
اسی طرح 12 مارچ 1956 ء کو قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت بھی وہ شخصیات دستور ساز اسمبلی میں موجود تھیں جنہوں نے قرارداد لاہور کی ترتیب اور تائید میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔12 مارچ1956 کی قرارداد مقاصد کے حق میں آئین ساز اسمبلی میں جہاں دائیں بازو کی اہم شخصیت علا مہ شبیر احمد عثمانی موجودتھے وہیں بائیں بازو کا ایک بڑا نام میاں افتخار الدین بھی اس کے ہمنوا تھے۔
تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ 7 اکتوبر 1958 ء کو ملک میں آمریت کے نفاذ کے ساتھ ہی گذشتہ 11 سال کی نشیب وفراز سے پر داستان کی فراموشی کا عمل شروع ہوگیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس 11سالہ دورمیں مختلف شعبوں میں ہونے والی ترقی کو نظر انداز کرنے کی منظم کوشش کا آغاز کردیا گیا اور مذکورہ دور میں سیاستدانوں کی کردہ اور ناکردہ غلطیوں ، کوتاہیوں کو بھی ان کے کھاتہ میں ڈال کر منتخب اداروں میں ان کی شمولیت پر پابندی عائد کردی گئی ۔
زیر نظر مضمون میں پاکستان کی اس گیارہ سالہ تاریخ کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے او راس اعتبار سے ریاستی امور کے مختلف شعبوں میں حاصل کردہ کامیابیوں کے ذکر پر انحصار کیا گیا ہے ۔ سیاسی میدان میں 14 اگست کو پاکستان کی آزاد مملکت کاقیام ، گلگت بلتستا ن کی پاکستان سے وابستگی ، وادی کشمیر کے ایک حصہ کی آزادی وہ اہم کارہائے نمایاں ہیںجنہیں قیام کے پہلے ہی سال عبور کر لیا گیا ۔
اسی دور ان پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت ، صلیب احمر بوائے اسکاؤٹ، اولمپک گیمز کی تنظیموں میں شمولیت او ردنیا کے دیگر ممالک سے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو تسلیم کرانے اور سفارتی تعلقات کے قیام پر سر عت کے ساتھ پیش رفت شروع کی جبکہ دنیا میں نو آباد یاتی تسلط کے خلاف بھی ہم نے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا شروع کردیا ۔
قیام پاکستان کے اولین سالوں میں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں اہم سفارتی کامیابیاں حاصل کی گئیں اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق جمو ں وکشمیر میں استصواب رائے کے لئے کام کا آغاز ہوا۔ اسی دور میں ہندوستان سے تبادلہ آبادی کے نتیجہ میں پاکستان آنے والے لوگوں کی آباد کاری کو اہمیت دی گئی اور اس مقصد کے لئے دونوں ممالک کے وز راء اعظم کی سطح پر بین الا قوامی معاہدے طے پائے جبکہ اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے "لیاقت نہرو پیکٹ" طے پا یا جس پر آج بھی عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
مالیاتی شعبہ میںاسٹیٹ بینک آف پاکستان کاقیام، پبلک سیکٹر میں نیشنل بینک آف پاکستان،بینک آف بہاولپور جبکہ پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹرمیںحبیب بینک ، مسلم کمر شل بینک سمیت دیگر نجی اور کار پو ر یٹو بینکوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ کرنسی نوٹوں ،ڈاک ٹکٹوں اور عدالتی ٹکٹوں وغیر ہ کی چھپائی کیلئے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس، سرکاری اسٹیشنری سے متعلق گورنمنٹ پریس جیسے ادارے قائم کئے گئے۔
صنعتکاری کے محاذ پر بذات خود قائداعظم محمد علی جناح نے پرائیویٹ سیکٹر میں ٹیکسٹائل مل کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور اس شعبے میں بہت تیزی کے ساتھ ملک آگے بڑھ رہا تھا۔ صنعتوں کی ترویج کے لئے انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کئے گئے۔ 1947 سے 1951 تک اولین دورمیں سرکاری شعبے میں چار جامعات سند ھ یونیور سٹی ، پشاور نیور سٹی ، راجشاہی یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
جہاز رانی کے شعبہ میں محمد ی اسٹیم شپ کمپنی، ایسٹ اینڈ ویسٹ شپنگ اور پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنیوں کا قیام ، کراچی اور چٹا گانگ کی بندر گاہوں کی ترقی وہ کامیا بیاںہیں جو پاکستان نے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں حاصل کیں ۔ شہر ی ہوابازی کے شعبہ میں پرائیویٹ سیکٹر کی اور ینٹ ائیر ویزاور بعد ازاں پبلک سیکٹر میں پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز PIA کا قیام مذکورہ 11 سالہ دور کا کارنامہ ہے ۔ اسی 11 سالہ دور میں کراچی شپ یارڈ جیسا جہاز سازی کا ادارہ قائم کیا گیا اور ا نجینئرنگ کے شعبے کی ترقی کے لئے PCSIR پاکستان کو نسل آف سائنٹفک اینڈانڈ سٹریل ریسرچ اور PIDC پاکستان انڈسٹریل ڈو یلپمنٹ کارپوریشن کا قیام ، بلوچستان میں سوئی کے مقام میں قدرتی گیس کی دریافت بھی اسی دور کی ترقی ہے ۔
PIDC کے تحت سرکاری شعبہ میں ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری ، ہرنائی وولن ملز، کھلنا نیوز پر نٹ ، کرنا فلی پیپرز کا قیا م اور اسی کے ساتھ ساتھ کپاس اور جوٹ جیسی پاکستان کی اہم زرعی پیداوار سے متعلق بڑے پیمانوں پر صنعتوں کا جا ل بھی اسی دور میں بچھایا گیا۔ یہ سب کچھ اور بہت سی کا میابیاں پاکستان نے نامساعد حالات میں محض اپنے وسائل سے حاصل کیں۔ اس طرح گوادر کا حصول اور چین کو تسلیم کیا گیا۔ یوں پاکستان نے ان سالوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے طویل جدوجہد کے ذریعے مسلمانوں کی جدا ریاست قائم کر کے ہندوستان بلکہ دنیا ئے عالم کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے کا حق ادا کر دیا۔
کچھ علماء اور نیشنلسٹ مسلمان، مسلمانوں کی جدا ریاست پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ بیرسٹر' یورپین لباس میں ملبوس ہے۔ طرز زندگی اسی طرز پر ہے۔ وہ ہندوستان کی تقسیم کے حق میں نہ تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کو فوقیت دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ہندوستانی علماء دیو بند مفتی کفایت اللہ صاحب' حسین احمد مدنی' مولانا ابوالکلام آزاد اور بے شمار ایسے عالم پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نظریہ صاف تھا کہ ہندو اور مسلمان دو جدا مذاہب ہیں ۔ دونوں کے اطوار ' طریقہ زندگی ' تمدنی افکار جدا ہیں۔ مسلمان اور ہندو جدا قومیں ہیں ۔ لہٰذا یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ جدا قوم کو جدا وطن حاصل ہو اور تقسیم ہند ضروری امر ہے۔ لہٰذا 14 اگست 1947ء کو جدا وطن حاصل ہوا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عید الفطر کے موقع پر 1948ء میں کراچی میں واضح کر دیا تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ہماری ہر طرح رہنمائی کرتا ہے۔ اس طرح نبی کریم ؐ کے یوم ولادت عید میلادالنبی ؐ کے موقع پر25 جنوری 1984ء کو قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے لوگوں کے خیالات کو غلط قرار دیا کہ پاکستان کا آئین شریعت کے خلاف ہو گا۔ آپ نے سندھ ہائی کورٹ بار ا یسوسی ایشن کے ممبران کو میلاد النبی ؐ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا... ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کچھ لوگ زور دیتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کا آئین شریعت کی بنا پر ہو ۔
وجہ یہ ہے کچھ لوگ شرپسند ہیں خیال کرتے ہیں کہ ہم شریعت کو آئین سے ہٹا دیں گے۔ یہ کیوں خیال پیدا کیا گیا کہ ہم آئین پاکستان میں شریعت کو نہیں اپنائیں گے۔ یہ بد خیالی کیوں پیدا کی گئی''آپ نے زور دے کر کہا ''اسلامی ا صولوں کا مقابلہ کسی آئین سے نہیں ہے۔
آج بھی وہ اسی طرح ہماری زندگی کے لئے ضروری ہیں جس طرح 1400 سال پہلے تھے''۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں خواجہ غلام محمد نے اپنے تاثرات یوں قلمبند کئی کہ: میری قائداعظم محمد علی جناحؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ سے 1936ء میں سری نگر میں پہلی بار ملاقات ہوئی۔ دوسری بار1946ء میں ہوئی۔ اس کے بعد تیسری ملاقات 1947ء میں بمبئی میں ہوئی اور 17جولائی 1947ء کو کراچی میں جب وہ گورنر جزل آف پاکستان تھے۔
وادی کشمیر یعنی سری نگر میں مئی اور جون میں موسم جو بن پر ہوتا ہے۔پھول بہتات سے کھلتے ہیں۔ جس طرح میں نے اپنے اشعار میں کہا...
گل ہائے گا' گل سرخ لالہ و گل
تخیل کے ہیں کامران کارنامے
سب ہی رنگ ہیں طرح طرح کے افسانے
خالق عظیم کی ہے یہ حسین گلکاری
(ایم اے صوفی)
موسم کی رنگینیاں آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ چاند کی چاندنی بلوری کٹورے میں اپنا عکس یوں چھوڑتی ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں 'درختوں کے پتے حسین و جمیل نظارہ پیش کرتے ہیں۔ پھل درختوں کے ساتھ ' ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھولے لیتے ہیں۔ سیب 'خوبانی' ناشپاتی' انگور' طرح طرح کے میوے بہتات سے آتے ہیں۔
چنانچہ ہندوستان اور باہر سے سیاح آتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بھی ا چھا موسم پسند اور خوشنما ماحول پسندیدہ رہا۔ چنانچہ 1939ء میں موسم گزارنے کی خاطر سری نگر تشریف لے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو پانی کا نظارہ بھی خیرہ کرتا تھا۔چنانچہ وہ سری نگر میں ''کشتی گھر'' جانا پسند کرتے تھے۔ آپ کے ہمراہ آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح بھی تھیں۔
اپنی تہذیب کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔2 جون 1936ء کو عید میلادالنبی ؐکی تقریب مجاہد منزل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے شرکت کی۔ اس کا اہتمام آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس نے کیا تھا۔ حیدر آباد کے شہزادہ اعظم جان بھی موسم کی رعنائیاں دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی میلاد میں شامل ہو گئے۔ اس میں ہندوستان کے چیدہ چیدہ مسلمان آئے ہوئے تھے۔ اس میٹنگ کی صدارت حیدر آباد دکن کے نواب خسرو جنگ نے کی۔ جوہری سنگھ مہاراجہ کشمیر کے ذاتی دوست تھے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ نے انگریزی میں تقریر کی۔
حضور نبی کریم ؐ سے محبت کااظہار نہایت عقیدت سے کیا اور لنکن ان میں اپنے داخلہ کی وجہ بتائی۔ کیونکہ اس ادارے کے فریسکو پر قانون سازی کے میدان میں مشاہیر کے نام درج تھےMuhammad first Law giver of the worid حضور نبی کریم ؐ کا اسم مبارک سب سے اوپر تھا۔ لہٰذا میں نے داخلہ یہاں لینا پسند کیا اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔
جب قائداعظم محمد علی جناحؒ اپنی تقریر کے ذریعے حضور نبی کریم ؐ کے ساتھ اظہار محبت کر رہے تھے تو سری نگر کے د انشور منشی سراج الدین نے بے ساختہ اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقریر نے ایک نیا رنگ بنا دیا۔ لوگ متعجب ہوئے کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو نبی کریم ؐسے اس قدر انس اور محبت ہے۔ 3 جون 1936ء کو چوہدری غلام عباس کے ہاں میلاد النبی ؐ کے جلسہ میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اتحاد بین المسلمین پر زور دیا اور ساتھ تلقین کی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اقلیت کابھی خیال کریں۔
بس کیا تھا کشمیر میں ہر طرف قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقریر کا تذکرہ تھا اور لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ پارٹیاں منعقد کی گئیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اپنی قابلیت اور حضور نبی کریم ؐ سے عقیدت کی بنا پر مسلمانوں میں ہر دلعزیز ہو گئے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ایک بڑی عادت تھی کہ طلباء کے ساتھ گفتگو کرتے اور ان کے مستقبل کے بارے میں مشورہ دیتے ۔ علی گڑھ سے بھی ان کو بڑی دلچسپی تھی۔ دوسری بار قائداعظم محمد علی جناحؒ 10 مئی 1944ء کو سری نگر آئے۔ کیا شاندار استقبال ہوا۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ ہمیشہ اسلامی ریاست کا ذہن رکھتے تھے۔ تاہم وہ کسی صورت میں پاپائیت کے حامی نہ تھے۔ انہوں نے امریکی ریڈیو پر بیان دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان کا آئین ابھی تیار ہونا ہے۔ آئین ساز اسمبلی موجود ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آخر آئین کی شکل و صورت کیسی ہو گی۔ لیکن جیسے بھی ہو گی وہ جمہوری روایات پر مبنی ہو گی۔ جس میں اسلام کے سنہری اصول شامل ہوں گے۔ کیونکہ اسلامی اصول آج بھی اسی طرح زندگی سنوارنے کے لئے ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے اور اسلام کی خاصیت یہی ہے کہ وہ ہمیں جمہوریت سکھاتا ہے۔
کیونکہ اسلام نے ہمیں مساوات' انصاف اور عدل سے معاملات کو حال کرنا سکھایا ہے۔ہمیں اسلام کے یہ سنہرے اصول وراثت میں ملے ہیں۔ لہٰذا ان اصولوں کو اپناتے ہوئے ہمارا آئین تیار ہو گا۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان ایک مسلم ریاست ہو گی جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوگی۔ اس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔
9جون 1947ء کو امپیریل ہوٹل دہلی میں آل انڈیا مسلم کونسل کے میٹنگ منعقدہوئی تاکہ تقسیم ہند فارمولے کی منظوری حاصل کی جائے۔ وہاں پر مولانا حسرت موہانی جو قائداعظم محمد علی جناحؒ سے قربت رکھتے تھے' نے اختلاف کیا اور دو علماء نے قائداعظم سے دریافت کیا کہ آپ پاکستان بنا رہے ہیں۔ اس کا آئین کیا ہوگا؟ قائداعظم ؒ نے فوراً جواب دیا... ''قرآن اور سنتؐ'' گویا وہ اسلامی' فلاحی جمہوری ریاست کے حامی تھے۔
٭٭٭
قیام پاکستان سے پہلے مارشل لاء تک ریاستی کامیابیوں کا احوال
تحریر : محفوظ النبی خان
22 اور 23 مارچ کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں منظور کردہ قرارداد ،23 مارچ 1956 ء کو متحدہ پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری اور اس کے درمیان ریاست کے مقاصد اور سمت کے تعین کیلئے آئین ساز اسمبلی سے12 مارچ کو منظور کردہ قرارداد مقاصد۔ ان سب میں ماہ مارچ اور جمہوری انداز مشترک اقدار ہیں ۔
23 مارچ 1956 ء کا تاریخی دن محض اس لئے ہماری تاریخ میں یاد گار نہ بن سکا کہ اس روز منظو ر کئے جانے والے آئین کو صرف دوسال بعد ہی تحلیل کر دیا گیا، لیکن در حقیقت 23مارچ 1956 کوآئین سازی کے ذریعے 23 مارچ 1940 کی تجدید کرکے پاکستان کو با قاعدہ جمہوری ریاست میں تبدیل کردیا گیا۔ اسی لیے یہ تاریخ پاکستان کے ارتقاء کے حوالے سے تاریخ دانوں کی توجہ کا محورر ہے گی۔ قرارداد لاہور کے تناظر میں ہر سال ملک کا الیکٹرانک و پر نٹ میڈیا بجا طور پر خصوصی اہتمام کرتا ہے۔
البتہ 23 مارچ 1956 ء کے تاریخی دن جب پاکستان نے اپنی آزادی کی حتمی منزل طے کی تھی ، بھی اس لحاظ یاد گار حیثیت رکھتا ہے کہ آئین کی منظوری کے فریضہ میں بھی وہ شخصیات شریک تھیں جنہوں نے قرار داد لاہور کی تائید کی تھی۔
اسی طرح 12 مارچ 1956 ء کو قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت بھی وہ شخصیات دستور ساز اسمبلی میں موجود تھیں جنہوں نے قرارداد لاہور کی ترتیب اور تائید میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔12 مارچ1956 کی قرارداد مقاصد کے حق میں آئین ساز اسمبلی میں جہاں دائیں بازو کی اہم شخصیت علا مہ شبیر احمد عثمانی موجودتھے وہیں بائیں بازو کا ایک بڑا نام میاں افتخار الدین بھی اس کے ہمنوا تھے۔
تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ 7 اکتوبر 1958 ء کو ملک میں آمریت کے نفاذ کے ساتھ ہی گذشتہ 11 سال کی نشیب وفراز سے پر داستان کی فراموشی کا عمل شروع ہوگیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس 11سالہ دورمیں مختلف شعبوں میں ہونے والی ترقی کو نظر انداز کرنے کی منظم کوشش کا آغاز کردیا گیا اور مذکورہ دور میں سیاستدانوں کی کردہ اور ناکردہ غلطیوں ، کوتاہیوں کو بھی ان کے کھاتہ میں ڈال کر منتخب اداروں میں ان کی شمولیت پر پابندی عائد کردی گئی ۔
زیر نظر مضمون میں پاکستان کی اس گیارہ سالہ تاریخ کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے او راس اعتبار سے ریاستی امور کے مختلف شعبوں میں حاصل کردہ کامیابیوں کے ذکر پر انحصار کیا گیا ہے ۔ سیاسی میدان میں 14 اگست کو پاکستان کی آزاد مملکت کاقیام ، گلگت بلتستا ن کی پاکستان سے وابستگی ، وادی کشمیر کے ایک حصہ کی آزادی وہ اہم کارہائے نمایاں ہیںجنہیں قیام کے پہلے ہی سال عبور کر لیا گیا ۔
اسی دور ان پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت ، صلیب احمر بوائے اسکاؤٹ، اولمپک گیمز کی تنظیموں میں شمولیت او ردنیا کے دیگر ممالک سے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو تسلیم کرانے اور سفارتی تعلقات کے قیام پر سر عت کے ساتھ پیش رفت شروع کی جبکہ دنیا میں نو آباد یاتی تسلط کے خلاف بھی ہم نے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا شروع کردیا ۔
قیام پاکستان کے اولین سالوں میں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں اہم سفارتی کامیابیاں حاصل کی گئیں اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق جمو ں وکشمیر میں استصواب رائے کے لئے کام کا آغاز ہوا۔ اسی دور میں ہندوستان سے تبادلہ آبادی کے نتیجہ میں پاکستان آنے والے لوگوں کی آباد کاری کو اہمیت دی گئی اور اس مقصد کے لئے دونوں ممالک کے وز راء اعظم کی سطح پر بین الا قوامی معاہدے طے پائے جبکہ اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے "لیاقت نہرو پیکٹ" طے پا یا جس پر آج بھی عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
مالیاتی شعبہ میںاسٹیٹ بینک آف پاکستان کاقیام، پبلک سیکٹر میں نیشنل بینک آف پاکستان،بینک آف بہاولپور جبکہ پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹرمیںحبیب بینک ، مسلم کمر شل بینک سمیت دیگر نجی اور کار پو ر یٹو بینکوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ کرنسی نوٹوں ،ڈاک ٹکٹوں اور عدالتی ٹکٹوں وغیر ہ کی چھپائی کیلئے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس، سرکاری اسٹیشنری سے متعلق گورنمنٹ پریس جیسے ادارے قائم کئے گئے۔
صنعتکاری کے محاذ پر بذات خود قائداعظم محمد علی جناح نے پرائیویٹ سیکٹر میں ٹیکسٹائل مل کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور اس شعبے میں بہت تیزی کے ساتھ ملک آگے بڑھ رہا تھا۔ صنعتوں کی ترویج کے لئے انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کئے گئے۔ 1947 سے 1951 تک اولین دورمیں سرکاری شعبے میں چار جامعات سند ھ یونیور سٹی ، پشاور نیور سٹی ، راجشاہی یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
جہاز رانی کے شعبہ میں محمد ی اسٹیم شپ کمپنی، ایسٹ اینڈ ویسٹ شپنگ اور پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنیوں کا قیام ، کراچی اور چٹا گانگ کی بندر گاہوں کی ترقی وہ کامیا بیاںہیں جو پاکستان نے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں حاصل کیں ۔ شہر ی ہوابازی کے شعبہ میں پرائیویٹ سیکٹر کی اور ینٹ ائیر ویزاور بعد ازاں پبلک سیکٹر میں پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز PIA کا قیام مذکورہ 11 سالہ دور کا کارنامہ ہے ۔ اسی 11 سالہ دور میں کراچی شپ یارڈ جیسا جہاز سازی کا ادارہ قائم کیا گیا اور ا نجینئرنگ کے شعبے کی ترقی کے لئے PCSIR پاکستان کو نسل آف سائنٹفک اینڈانڈ سٹریل ریسرچ اور PIDC پاکستان انڈسٹریل ڈو یلپمنٹ کارپوریشن کا قیام ، بلوچستان میں سوئی کے مقام میں قدرتی گیس کی دریافت بھی اسی دور کی ترقی ہے ۔
PIDC کے تحت سرکاری شعبہ میں ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری ، ہرنائی وولن ملز، کھلنا نیوز پر نٹ ، کرنا فلی پیپرز کا قیا م اور اسی کے ساتھ ساتھ کپاس اور جوٹ جیسی پاکستان کی اہم زرعی پیداوار سے متعلق بڑے پیمانوں پر صنعتوں کا جا ل بھی اسی دور میں بچھایا گیا۔ یہ سب کچھ اور بہت سی کا میابیاں پاکستان نے نامساعد حالات میں محض اپنے وسائل سے حاصل کیں۔ اس طرح گوادر کا حصول اور چین کو تسلیم کیا گیا۔ یوں پاکستان نے ان سالوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔