آپ وزیراعظم بن کر بھی کچھ نہ کرسکے
روایتی سیاستدانوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو درست طریقے سے چلنے ہی نہیں دیا
کراچی:
آج اس بلاگ کے ذریعے میں آپ کے ساتھ کچھ اہم باتیں شیئر کر رہی ہوں جو میں نے پی ٹی آئی میں رہ کر دیکھی تھیں۔
یہ 2018 کی بات ہے جب الیکشن کے ٹکٹوں کی تقسیم ہورہی تھی۔ مجھے ٹکٹ نہیں ملا تو میں نے عمران خان کے بنائے گئے ایس او پی کے تحت اپیل کی کہ ٹکٹ مجھے ملنا چاہیے۔ میری اپیل رد کردی گئی تو میں نعیم الحق مرحوم کے ذریعے خان صاحب سے ملی۔ اس وقت خان صاحب نے چند تاریخی الفاظ مجھ سے کہے ''کیا آپ نہیں چاہتیں کہ میں وزیراعظم بنوں اور میں نے یہ جو دوسری پارٹیوں کے لوگ لیے ہیں مجھے بھی پتہ ہے یہ چور ہیں لیکن مجھے ایک بار وزیراعظم بن جانے دو میں ان سب کو سیدھا کردوں گا۔''
میں نے ان کو اس وقت جواب دیا تھا کہ آپ ان کو سیدھا نہیں کرسکتے اور وہاں سے چلی آئی۔ پھر وہی ہوا جس کا مجھ سمیت بہت سے پی ٹی آئی کے پرانے لوگوں کو ڈر تھا کہ یہ لوگ عمران خان کے وفادار نہیں اور یہ لوگ اس حکومت کو کسی بھی صورت چلنے نہیں دیں گے۔ کیونکہ ان لوگوں نے ہر جماعت کا پانی پی رکھا ہے اور یہ کبھی نہیں ہونے دیں گے کہ نواز شریف اور زرداری جیل میں رہیں اور اسمبلی سے کوئی ایسا قانون پاس ہو جس سے بعد میں یہ لوگ اس قانون کی گرفت میں خود ہی آجائیں۔
جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے، ایک کے بعد ایک اسکینڈل عوام کے سامنے آرہا ہے۔ لیکن خان صاحب ان کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکے۔ یہ جو روایتی سیاستدان تھے ان لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو درست طریقے سے چلنے ہی نہیں دیا۔ ہر کام میں رکاوٹ ڈالتے رہے۔ اور پی ٹی آئی عوام میں اپنی مقبولیت ختم کرتی چلی گئی۔
عمران خان نے حکومت میں آتے ہی ایک اور غلطی یہ کی کہ انہوں نے اپنے مشیر وہ لیے جو عوامی نمائندہ نہیں تھے۔ ان کو عوام کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں تھا اور نہ ہے۔ اور جو عوامی نمائندے تھے وہ بھی ان مشیروں نے عمران خان سے دور کردیے۔ جس کا نتیجہ اب تحریک عدم اعتماد کی شکل میں ان کے سامنے ہے۔ چند لوگ تو سامنے آگئے ہیں لیکن میں ایسے بہت سے افراد کو جانتی ہوں جو اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں لیکن وہ عمران خان کے طرز حکمرانی سے خوش نہیں ہیں۔ اس کی اصل وجہ وہ لوگ بتاتے ہیں کہ جب کبھی بھی ہم خان صاحب سے بات کرتے ہیں تو ان کا ایک ہی جملہ ہوتا ہے ''میں سب جانتا ہوں''۔ یہ بات ان لوگوں کی درست ہے جو وہ خان صاحب کے بارے میں کرتے ہیں۔ واقعی خان صاحب سب جانتے ہیں۔ ان کو اکثر چیزوں کا پتہ ٹی وی یا اخبار سے چلتا ہے۔ یہ واقعی کشمیر کو کشمیریوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ مغرب کو مغرب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ جمہوریت کو ساری دنیا سے زیادہ جانتے ہیں۔
وہ جو کہتے تھے کہ مجھے ایک بار وزیراعظم بن جانے دو سب کو ٹھیک کردوں گا، واقعی سب ٹھیک ہورہا ہے۔ ہمارا وزیراعظم ہر روز سائیکل پر وزیراعظم ہاؤس جاتا ہے، وہ ہیلی کاپٹر کی طرف دیکھتا تک نہیں۔
خان صاحب تو 2014 سے 2018 تک اتنا کچھ کہہ چکے ہیں کہ ان کے کہے ہوئے الفاظ پر ایک کیا کئی کتب شائع ہوسکتی ہیں۔ ملک میں مہنگائی ہو تو سمجھ جاؤ حکمران چور ہے، کسی جگہ کوئی حادثہ ہوجائے تو اس وزیر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ مگر افسوس خان صاحب بھی باقی حکمرانوں کی طرح ہی نکلے۔ نہ وہ سائیکل پر وزیراعظم ہاؤس گئے۔ ملک میں حادثات ہوئے مگر کسی ایک وزیر نے اپنا عہدہ نہیں چھوڑا۔ کسی جگہ کوئی سانحہ ہوجائے ہمارے وزیراعظم اس جگہ جانا پسند نہیں کرتے۔ کوئی اسکینڈل ہو یا حادثہ، ابھی تک ان چار سال میں کسی کو کوئی سزا نہیں ملی؟
خان صاحب!ْ اب آپ وزیراعظم بن چکے ہیں، بلکہ وزیراعظم کی کرسی اب خطرے میں ہے کیونکہ اب تک کسی بڑے کو سزا نہیں ملی؟ آپ اپنی ہر تقریر میں تین چوروں کے نام ضرور لیتے ہیں، نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری۔ لیکن ابھی تک کیوں آپ اور آپ کی حکومت ان کو جیل نہیں بھیج سکی؟ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک وہ چور نہیں ہیں، دوسرا اگر چور ہیں تو آپ کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ ان کے خلاف ثبوت کے ساتھ بات کیجئے، ورنہ نہ کیجئے۔
عوام کو آپ نے کافی بیوقوف بنالیا ہے۔ اب اس ڈرامے کو بند ہی کردیں تو اچھا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ جو لوگ آپ کے ساتھ پچھلے پندرہ سال سے تھے، اب وہ لوگ کہاں ہیں؟ وہ لوگ جو عمران خان کو جانتے تھے اب وہ عمران خان کو نہیں جانتے اور عمران خان جن پرانے لوگوں کو جانتا تھا ان کو نہیں جانتا۔ کیونکہ نیا وزیراعظم بنا تو لوگ بھی نئے نئے آگئے۔ وہ لوگ جن لوگوں نے پی ٹی آئی کےلیے کچھ نہیں کیا تھا وہ سب اب اس حکومت اور حکومتی عہدوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
وزیراعظم کہتے تھے کہ جس کا دل کرے میرے خلاف ہاتھ کھڑا کردے، میں ناراض نہیں ہوں گا۔ ابھی چند لوگ آپ کے سامنے آئے تو آپ نے ان کو ضمیر فروش کہنا شروع کردیا، ان کے گھروں کے باہر دھرنے شروع کروا دیے۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا دی۔ واہ خان صاحب! واہ کیا بات ہے آپ کی۔
خان صاحب یہ وہی لوگ ہیں جب آپ کی پارٹی میں آرہے تھے تو آپ ان کو بہت جوش سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ اگر اب وہ جارہے ہیں تو خوشی سے جانے دیجئے۔ اب آپ وزیراعظم ہیں، اب عوام کو یہ سمجھ آچکا ہے کہ آپ کا وہ کردار اور وہ خواب جو عوام کےلیے تھا دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ عوام نے ان چار سال میں سوائے مہنگائی کے اور کچھ نہیں دیکھا۔ افسوس آپ وزیراعظم بن کر بھی کچھ نہ کرسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج اس بلاگ کے ذریعے میں آپ کے ساتھ کچھ اہم باتیں شیئر کر رہی ہوں جو میں نے پی ٹی آئی میں رہ کر دیکھی تھیں۔
یہ 2018 کی بات ہے جب الیکشن کے ٹکٹوں کی تقسیم ہورہی تھی۔ مجھے ٹکٹ نہیں ملا تو میں نے عمران خان کے بنائے گئے ایس او پی کے تحت اپیل کی کہ ٹکٹ مجھے ملنا چاہیے۔ میری اپیل رد کردی گئی تو میں نعیم الحق مرحوم کے ذریعے خان صاحب سے ملی۔ اس وقت خان صاحب نے چند تاریخی الفاظ مجھ سے کہے ''کیا آپ نہیں چاہتیں کہ میں وزیراعظم بنوں اور میں نے یہ جو دوسری پارٹیوں کے لوگ لیے ہیں مجھے بھی پتہ ہے یہ چور ہیں لیکن مجھے ایک بار وزیراعظم بن جانے دو میں ان سب کو سیدھا کردوں گا۔''
میں نے ان کو اس وقت جواب دیا تھا کہ آپ ان کو سیدھا نہیں کرسکتے اور وہاں سے چلی آئی۔ پھر وہی ہوا جس کا مجھ سمیت بہت سے پی ٹی آئی کے پرانے لوگوں کو ڈر تھا کہ یہ لوگ عمران خان کے وفادار نہیں اور یہ لوگ اس حکومت کو کسی بھی صورت چلنے نہیں دیں گے۔ کیونکہ ان لوگوں نے ہر جماعت کا پانی پی رکھا ہے اور یہ کبھی نہیں ہونے دیں گے کہ نواز شریف اور زرداری جیل میں رہیں اور اسمبلی سے کوئی ایسا قانون پاس ہو جس سے بعد میں یہ لوگ اس قانون کی گرفت میں خود ہی آجائیں۔
جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے، ایک کے بعد ایک اسکینڈل عوام کے سامنے آرہا ہے۔ لیکن خان صاحب ان کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکے۔ یہ جو روایتی سیاستدان تھے ان لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو درست طریقے سے چلنے ہی نہیں دیا۔ ہر کام میں رکاوٹ ڈالتے رہے۔ اور پی ٹی آئی عوام میں اپنی مقبولیت ختم کرتی چلی گئی۔
عمران خان نے حکومت میں آتے ہی ایک اور غلطی یہ کی کہ انہوں نے اپنے مشیر وہ لیے جو عوامی نمائندہ نہیں تھے۔ ان کو عوام کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں تھا اور نہ ہے۔ اور جو عوامی نمائندے تھے وہ بھی ان مشیروں نے عمران خان سے دور کردیے۔ جس کا نتیجہ اب تحریک عدم اعتماد کی شکل میں ان کے سامنے ہے۔ چند لوگ تو سامنے آگئے ہیں لیکن میں ایسے بہت سے افراد کو جانتی ہوں جو اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں لیکن وہ عمران خان کے طرز حکمرانی سے خوش نہیں ہیں۔ اس کی اصل وجہ وہ لوگ بتاتے ہیں کہ جب کبھی بھی ہم خان صاحب سے بات کرتے ہیں تو ان کا ایک ہی جملہ ہوتا ہے ''میں سب جانتا ہوں''۔ یہ بات ان لوگوں کی درست ہے جو وہ خان صاحب کے بارے میں کرتے ہیں۔ واقعی خان صاحب سب جانتے ہیں۔ ان کو اکثر چیزوں کا پتہ ٹی وی یا اخبار سے چلتا ہے۔ یہ واقعی کشمیر کو کشمیریوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ مغرب کو مغرب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ جمہوریت کو ساری دنیا سے زیادہ جانتے ہیں۔
وہ جو کہتے تھے کہ مجھے ایک بار وزیراعظم بن جانے دو سب کو ٹھیک کردوں گا، واقعی سب ٹھیک ہورہا ہے۔ ہمارا وزیراعظم ہر روز سائیکل پر وزیراعظم ہاؤس جاتا ہے، وہ ہیلی کاپٹر کی طرف دیکھتا تک نہیں۔
خان صاحب تو 2014 سے 2018 تک اتنا کچھ کہہ چکے ہیں کہ ان کے کہے ہوئے الفاظ پر ایک کیا کئی کتب شائع ہوسکتی ہیں۔ ملک میں مہنگائی ہو تو سمجھ جاؤ حکمران چور ہے، کسی جگہ کوئی حادثہ ہوجائے تو اس وزیر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ مگر افسوس خان صاحب بھی باقی حکمرانوں کی طرح ہی نکلے۔ نہ وہ سائیکل پر وزیراعظم ہاؤس گئے۔ ملک میں حادثات ہوئے مگر کسی ایک وزیر نے اپنا عہدہ نہیں چھوڑا۔ کسی جگہ کوئی سانحہ ہوجائے ہمارے وزیراعظم اس جگہ جانا پسند نہیں کرتے۔ کوئی اسکینڈل ہو یا حادثہ، ابھی تک ان چار سال میں کسی کو کوئی سزا نہیں ملی؟
خان صاحب!ْ اب آپ وزیراعظم بن چکے ہیں، بلکہ وزیراعظم کی کرسی اب خطرے میں ہے کیونکہ اب تک کسی بڑے کو سزا نہیں ملی؟ آپ اپنی ہر تقریر میں تین چوروں کے نام ضرور لیتے ہیں، نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری۔ لیکن ابھی تک کیوں آپ اور آپ کی حکومت ان کو جیل نہیں بھیج سکی؟ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک وہ چور نہیں ہیں، دوسرا اگر چور ہیں تو آپ کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ ان کے خلاف ثبوت کے ساتھ بات کیجئے، ورنہ نہ کیجئے۔
عوام کو آپ نے کافی بیوقوف بنالیا ہے۔ اب اس ڈرامے کو بند ہی کردیں تو اچھا ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ جو لوگ آپ کے ساتھ پچھلے پندرہ سال سے تھے، اب وہ لوگ کہاں ہیں؟ وہ لوگ جو عمران خان کو جانتے تھے اب وہ عمران خان کو نہیں جانتے اور عمران خان جن پرانے لوگوں کو جانتا تھا ان کو نہیں جانتا۔ کیونکہ نیا وزیراعظم بنا تو لوگ بھی نئے نئے آگئے۔ وہ لوگ جن لوگوں نے پی ٹی آئی کےلیے کچھ نہیں کیا تھا وہ سب اب اس حکومت اور حکومتی عہدوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
وزیراعظم کہتے تھے کہ جس کا دل کرے میرے خلاف ہاتھ کھڑا کردے، میں ناراض نہیں ہوں گا۔ ابھی چند لوگ آپ کے سامنے آئے تو آپ نے ان کو ضمیر فروش کہنا شروع کردیا، ان کے گھروں کے باہر دھرنے شروع کروا دیے۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا دی۔ واہ خان صاحب! واہ کیا بات ہے آپ کی۔
خان صاحب یہ وہی لوگ ہیں جب آپ کی پارٹی میں آرہے تھے تو آپ ان کو بہت جوش سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ اگر اب وہ جارہے ہیں تو خوشی سے جانے دیجئے۔ اب آپ وزیراعظم ہیں، اب عوام کو یہ سمجھ آچکا ہے کہ آپ کا وہ کردار اور وہ خواب جو عوام کےلیے تھا دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ عوام نے ان چار سال میں سوائے مہنگائی کے اور کچھ نہیں دیکھا۔ افسوس آپ وزیراعظم بن کر بھی کچھ نہ کرسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔