زرعی شعبہ اور مہنگائی
وطن عزیز کو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے
ایک طرف ہمارا مشرقی پڑوسی بھارت ہے جس کے پنجاب میں زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے مفت بجلی ملتی ہے جب کہ کھادیں اور بیج وغیرہ بھی رعایتی نرخوں پر کسانوں کو دیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں فی ایکڑ اجناس کی پیداوار پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی پنجاب کی زرعی پیداوار بھارت کے ایک ارب سے زائد شہریوں کے لیے خوراک کی ضروریات کی کفالت کر رہا ہے جب کہ ہمارے پالیسی سازوں کا کمال یہ ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان نے 2 ارب 35 کروڑ کی غذائی اشیاء بیرون ملک سے درآمد کی ہیں تب بھی ملک کی مجموعی غذائی ضروریات کی کماحقہ کفالت نہیں ہو سکی۔ گزشتہ برس بھی غذائی اجناس کی درآمد کا گراف خاصا اونچا رہا ہے۔ دوسری طرف پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات میں 14 سے 27فیصد اضافے کی خبر دی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آج بازاروں میں کوئی پھل بھی ایک سو روپے کلو گرام سے کم نظر نہیں آتا۔
یہ درست ہے کہ وطن عزیز کو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے مگر پھلوں کو برآمد کرنے والی پارٹیوں کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ برآمدات کے موقع پر اپنے ہم وطنوں کے استعمال کے لیے بھی کچھ پھل چھوڑ دینے چاہئیں کیونکہ جس علاقے میں پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے اس پر ان علاقوں کے رہنے والوں کا حق فائز ہوتا ہے۔ دریں اثناء اشیائے ضرورت کی قیمتوں کے حساس اشاریے کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ اضافے ایک فیصد سے کم ہے مگر نصف فیصد سے زیادہ ہے۔ 20 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران جن 18 اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں ٹماٹر' پیاز' ایل پی جی' مٹن' سرخ مرچ' انڈے' چکن' دال مونگ' دال مسور' چینی اور دیگر اشیاء شامل ہیں جب کہ آلو' لہسن' ٹوٹا چاول اور دال چنا کی قیمت میں تھوڑی سی کمی کا رجحان رہا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ باہم مل کر ایسی پالیسیاں تیار کرے جس کے نتیجے میں زرعی شعبہ بھی ترقی کرے اور مہنگائی بھی کم ہو جائے۔
یہ درست ہے کہ وطن عزیز کو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے مگر پھلوں کو برآمد کرنے والی پارٹیوں کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ برآمدات کے موقع پر اپنے ہم وطنوں کے استعمال کے لیے بھی کچھ پھل چھوڑ دینے چاہئیں کیونکہ جس علاقے میں پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے اس پر ان علاقوں کے رہنے والوں کا حق فائز ہوتا ہے۔ دریں اثناء اشیائے ضرورت کی قیمتوں کے حساس اشاریے کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ اضافے ایک فیصد سے کم ہے مگر نصف فیصد سے زیادہ ہے۔ 20 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران جن 18 اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں ٹماٹر' پیاز' ایل پی جی' مٹن' سرخ مرچ' انڈے' چکن' دال مونگ' دال مسور' چینی اور دیگر اشیاء شامل ہیں جب کہ آلو' لہسن' ٹوٹا چاول اور دال چنا کی قیمت میں تھوڑی سی کمی کا رجحان رہا۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ باہم مل کر ایسی پالیسیاں تیار کرے جس کے نتیجے میں زرعی شعبہ بھی ترقی کرے اور مہنگائی بھی کم ہو جائے۔