دیہی شہری تقسیم میں اردو بولنے والوں نے خلیج کو زیادہ بڑھایا اقبال یوسف سے ملاقات
پیپلزپارٹی والے ہمیں اردو بولنے والوں کا ایجنٹ اور ایم کیو ایم والے مہاجروں کا غدار سمجھتے، اقبال یوسف
لاہو ر:
اُن کی رائے سے اختلاف ممکن ہے، لیکن اُن کی نظریاتی استقامت سے نہیں شہر قائد کے حوالے سے وہ کافی متحرک سیاست دان سمجھے جاتے ہیں، بالخصوص وہ تین دہائیوں قبل بدلنے والے کراچی کے سیاسی منظر نامے سے ایک مختلف فکر کے حامل ہیں یوں تو ان کے نسب میں تجارت سب سے نمایاں حوالہ ہے، لیکن وہ ترقی پسندانہ سیاست کے عَلم بردار ہوئے اُن کے بڑے بھائی نے بھی سیاست میں حصہ لیا، رشتے کے ایک چچا نسیم احمد 'این ایس ایف' میں تھے، جو فاطمہ جناح کی تدفین کے موقع پر پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے، جس پر رئیس امروہی نے ایک قطعہ لکھا، جس کا ایک مصرع 'ظالموں جواب دو، خون کا حساب دو!' مقبول نعرہ بنا۔ اُن کی سیاست بھی نیشنل کالج میں 'این ایس ایف' (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن) سے شروع ہوئی۔
یہ سینئر سیاسی کارکن اقبال یوسف ہیں، جو 1965ءکی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ آج بھی اُنہی کے گُن گاتے دکھائی دیتے ہیں 1967ءمیں وہ 'پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن' اور 1969ءمیں پیپلز پارٹی کے کارکن ہوگئے۔ 1974ءمیں وارڈ کے صدر، 1977ءمیں صوبائی حلقے کے انفارمیشن سیکریٹری بنے۔ ذوالفقار بھٹو سے 1975ءاور 1977ءمیں ملاقات کا موقع ملا، جب کہ بے نظیر سے ذوالفقار بھٹو کی معزولی کے بعد متعارف ہوئے۔ ضیا دور میں قید وبند بھی سہا۔ 1980ءمیں ضلعی سیکریٹری اطلاعات، پھر صوبائی سیکریٹری اطلاعات کا عہدہ ملا۔ پھر پانچ برس سندھ کے جنرل سیکریٹری رہے، جسے اس عہدے پر کسی بھی 'اردو گُو' کی طویل ترین مدت کہتے ہیں۔ 1988ءمیں صوبائی مشیر اطلاعات اور 1994ءمیں صوبائی مشیر برائے امور کراچی رہے۔
دلی سے ہجرت کے بعد اُن کا خاندان برنس روڈ پر سکونت پذیر ہوا، 20 مارچ 1950ءکو وہ اس دنیا میں وارد ہوئے، تین بھائی اور آٹھ بہنوںِ میں وہ نویں نمبر پر ہیں۔ مقبول عام اسکول اور دہلی مرکنٹائل اسکول کے طالب علم رہے، اگلے مدارج میں نیشنل کالج اور جامعہ کراچی پہنچے، ایم اے (صحافت) اور ایل ایل بی کیا، مگر پریکٹس نہ کر سکے۔ والد کا برآمدات کا کاروبار تھا، خود بھی مختلف کاروبار کیے، اِن دنوں تجارت اور تعمیرات سے منسلک ہیں، لکھنا لکھانا بھی جاری ہے۔ ایک کتاب 'کراچی پیپرز' کے مصنف ہیں، زیر تصنیف کتب میں 'پیپلز پارٹی کے 50 سال' اور خود نوشت شامل ہے۔ 25 دسمبر 1987ءکو شادی ہوئی، جس کی مبارک باد دینے بے نظیر گھر آئیں۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، جو شادی کے بعد بحرین اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ صاحب زادے لنکنز اِن (Lincoln's Inn) لندن سے بیرسٹری کر رہے ہیں۔
اقبال یوسف کہتے ہیں کہ 1990ءمیں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم کا جواب دینے کے لیے ہفت روزہ 'اخلاقی جنگ' نکالا، شرارتاً اس کی لوح 'جنگ' اخبار جیسی رکھی، چار شمارے کے بعد میر خلیل الرحمن نے عدالتی نوٹس بھجوا دیا، تاہم علاج کے لےے باہر جاتے ہوئے میر خلیل نے ان سے کہا کہ 'میں مقدمہ واپس لے رہا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ یہ لڑائی آگے چلے، تمہیں مشورہ ہے کہ اپنے پرچے کا نام 'جنگ' نہ رکھو۔' یوں تنازع ختم ہوا۔
اقبال یوسف کا خیال ہے کہ 1972ءمیں سندھی زبان کا بل اردو کو ختم کرنے کے لیے نہ تھا، یہ بل تو ایک 'اردو گُو' رکن کمال اظفر نے پیش کیا۔ ترقی پسندوں
سمیت سب نے بغیر پڑھے اس کی مخالفت کی، کہتے ہیں کہ بھٹو نے جب یہ دیکھا کہ اردو بولنے والا لاڑکانہ کا ڈپٹی کمشنر لگتا ہے، تو سندھی نہ جاننے کی وجہ سے اِبلاغی رکاوٹ آتی ہے، اور وہاں وڈیرہ اس کا ترجمان بن جاتا ہے، جس سے وڈیرے کے خلاف کسان کی شکایت نہیں پہنچ پاتی۔ اس لیے یہ طے کیا گیا کہ صوبے میں تمام سرکاری ملازمین سندھی زبان کی تعلیم حاصل کریں گے اور آنے والی نسل کے لیے پانچویں جماعت سے سندھی زبان ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے رائج کی جائے گی۔ اس بل پر "اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!" کی شہ سرخی لگا دی، اور شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ سندھی، زبان کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ اردو بولنے والے نئے سندھی کی حیثیت سے یہاں آئے، پیپلزپارٹی کے انقلابی اقدام کے جواب میں ترقی مخالف قوتوں نے مذہبی اور فرقہ وارانہ امور کے ساتھ لسانیت کو بھڑکایا۔
اقبال یوسف کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے کراچی کے مال سے سب کو دل چسپی ہے، لیکن مسائل سے نہیں۔ انگریز نے کراچی میں بہت ترقیاتی کام کرائے تھے، وہ بعد میں بھی کراچی کا انتظام اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا، اس لیے اسے دارالحکومت بنانے کا مخالف تھا۔ اسے پتا تھا کہ آیندہ پچاس برسوں میں ہانگ کانگ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لیے وائسرائے نے قائداعظم کو لاہور کو دارالحکومت بنانے کا کہا، پنجاب کی نوکر شاہی کی منشا بھی یہی تھی، جب این اے فاروقی نے یہ پیغام قائداعظم کو دیا، تو انہوں نے کہا 'میں فیصلہ لیتا ہوں، ڈکٹیشن نہیں!'
ون یونٹ کا قیام اور دارالحکومت کی منتقلی کو بھی اقبال یوسف بیرونی سازشوں کا نتیجہ کہتے ہیں کہ اس طرح بیرونی قوتوں کا راستہ بنا اور فرقہ وارانہ اور لسانی مسائل پیدا کیے گئے، کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ گوادر چین کو دے دیا، اب امریکا وبرطانیہ کراچی کی بندرگاہ چاہتے ہیں، 2014ءمیں کراچی میں برطانوی قونصل جنرل نے یہ کہا کہ میں کراچی میں برطانیہ کا مستقبل دیکھتا ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ پیپلزپارٹی نے ان سازشوں کو پروان چڑھانے والی محرومی دور کرنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کیں؟ جس پر وہ کہنے لگے کہ ذوالفقار بھٹو نے کراچی ضلعے کو ایک ڈویژن کا درجہ دیا، جسے تین اضلاع میں بانٹا۔ مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی نشستیں سات سے 11 اور صوبائی کی 15 سے 25 کیں۔ اسے میگا سٹی بنانے کے لیے 1975ءمیں 'کراچی اسپیشل ڈویلپمنٹ' پروگرام دیا، جس کے تحت حسن اسکوائر تا گلستان جوہر اور نارتھ کراچی تا نئی کراچی کے منصوبے آگے بڑھائے۔ بعد میں انفرا اسٹریکچر تبدیل کیے بغیر تعمیراتی منصوبے بننے لگے اور بے ہنگم نقل مکانی سے 25 سال کی منصوبہ بندی ناکام ہو گئی۔ آج 10 افراد کی جگہ پر 400 افراد رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کی آبادی سوا سے ڈھائی کروڑ ہے، حالیہ مردم شماری میں تیکنیکی غلطی ہوئی، شناختی کارڈ کا مستقل پتا شمار کیا، اب ووٹر یہاں ہے اور شمار وہاں ہو رہا ہے۔
اقبال یوسف کہتے ہیں کہ بھٹو نے سندھ میں 'کوٹا سسٹم' اردو بولنے والی قیادت سے مذاکرات کے بعد بنایا، یہ 10 برس کے لیے تھا، جسے ضیاالحق نے مزید 10 برس کے لیے بڑھایا۔ ان مذاکرات میں رئیس امروہی، محمود الحق عثمانی، سید محمد تقی اور خلیل ترمذی وغیرہ شامل تھے، جس میں کوٹا سسٹم کے ساتھ طے ہوا کہ گورنر یا وزیر اعلیٰ میں سے ایک لازماً اردو بولنے والا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ 2002ءمیں ایم کیوایم نے اردو بولنے والا وزیراعلیٰ کیوں نہیں بنایا؟ ہم نے کہا پیپلز پارٹی نے بھی تو نہیں بنایا؟ تو بولے کہ اُن کے پاس تو سندھی ووٹ زیاد ہیں۔ اقبال یوسف کہتے ہیں کہ 1995ءمیں عملاً کوٹا سسٹم ختم ہو چکا، مگر سابقہ سلسلہ جاری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ شہری سندھ کو 40 فی صد حصہ نہیں ملا، لیکن دیہی کوٹے میں بھی بے شمار 'اردو گُو' افراد کو ملازمتیں ملیں، سندھی بولنے کے سبب انہیں سندھی شمار کر کے کہتے ہیں کہ سندھ سیکریٹریٹ میں کوئی اردو بولنے والا نہیں، جب کہ ایسا نہیں ہے۔
وہ 1988ءمیں پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان طے پانے والے معاہدہ ¿ کراچی کو آج بھی شہری اور دیہی سندھ کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ بیرونی قوتوں کی سازش ہے کہ لوگوں میں اتنا احساس محرومی پیدا کرو کہ کوئی بیرونی مداخلت ہو تو لوگ خوش آمدید کہیں۔ ہم نے پوچھا یہ محرومی کون پیدا کر رہا ہے؟ تو بولے کہ ریاستی ادارے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک کو سیاست دانوں اور فوج سے زیادہ سول بیورو کریسی نے نقصان پہنچایا۔ ترقیاتی منصوبوں میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے فنڈز پہلے جاری کرا لیتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ مقامی منتخب نمائندوں کے ذریعے کام کرایا جائے۔
کراچی کے 20اراکین قومی اور 42 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں، 210 یونین کونسلوں کے چیئرمین اور 840 کونسلرز ہیں، ایک کمشنر اور تین ایڈیشنل کمشنر کراچی اور چھے ضلعوں میں چھے ڈپٹی کمشنر اور دو، دو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہیں۔ چھے 'ایس پی' اور چھے ایڈیشنل 'ایس پی' ہیں۔ ایک 'ڈی آئی جی' اور تین ایڈیشنل 'ڈی آئی جی' ہیں۔ اتنی بڑی انتظامی نفری کے باوجود ہم بے امنی اور بدعنوانی ختم نہیں کر سکتے، ان سے کام لینا شہری حکومت کا کام ہے، 1993ءمیں ہم نے جو بلدیاتی نظام بنایا اسے پرویز مشرف نے نافذ کرایا۔ ہمارے ہاں کونسلر کو اختیار نہیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی کراچی کے مسائل کا حل ہے، جس میں نوکر شاہی رکاوٹ ہے۔ اختیارات کا سرچشمہ پنجاب میں مرکوز کرنے کی کوشش سے مشرقی پاکستان میں محرومی پیدا ہوئی۔
1971 تا 1975ءاقبال یوسف جامعہ کراچی کے طالب رہے، وہ اسلحے کی سیاست شروع کرنے کا الزام اسلامی جمعیت طلبہ پر عائد کرتے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ بھٹو مخالف تحریک میں بھی اسلحہ استعمال ہوا، لیاقت آباد میں پیپلزپارٹی کے ایک رکن اللہ بندہ کو قتل کر کے اس کی لاش کھمبے پر لٹکائی گئی۔ 'گولی مار' میں پورے خاندان کو جلا کر مارا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے بھی ایک بار اُن پر حملہ کر کے زخمی کیا، جب کہ ایم کیو ایم نے ان کے گھر، دفتر اور گاڑی پر فائرنگ کر کے پانچ بار انہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔ اقبال یوسف کے بقول المیہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی والے ہمیں اردو بولنے والوں کا ایجنٹ اور ایم کیو ایم والے ہمیں مہاجروں کا غدار سمجھتے، ہم سچے محب وطنوں کی ایک قومی پارٹی کے لیے خلوص کو سندھ کے متعصبانہ سوچ رکھنے والے دوسری نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کراچی میں جب بھی مضبوط ہونے لگتی ہے، تو کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے پیپلز پارٹی کا اردو بولنے والا مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
"اردو بولنے والوں نے خلیج کو زیادہ بڑھایا!"
ابتدا میں ذوالفقار بھٹو کو چھوڑ جانے والوں کا ذکر ہوا، تو اقبال یوسف بولے کہ دراصل کچھ لوگ بہت تیزی سے آگے جانا چاہتے تھے۔ معراج محمد خان، سید سعید حسن اور عبدالوحید عرشی 1970ءمیں منتخب ہو کر آئے، انہوں نے جلد بازی میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔ اس تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ شہری اور دیہی سندھ کی تقسیم کو سب سے زیادہ اردو بولنے والوں نے بڑھایا، ورنہ سندھ نے سب سے پہلے مہاجروں کو خوش آمدید کہا۔ ہم اردو بولنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی ناک بہت ہوتی ہے۔' ہم نے اُن کی توجہ دلائی کہ آپ جس علیحدگی کو دیہی اور شہری سندھ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اُس کی بنیاد تو نظریاتی تھی؟ جس پر وہ کہتے ہیں کہ وڈیرے کی لڑائی سرمایہ دار سے تھی، عوام سے نہیں۔ عوام کو لسانی بنیاد پر فریق بنا دیا گیا، تاہم اس میں پیپلزپارٹی کی بھی غلطی تھی۔
محصورین پاکستان: کس مپرسی کا پروپیگنڈہ زیادہ ہے!
کراچی کے حوالے سے ہم نے 1971ءسے مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے محصور پاکستانیوں (بہاریوں) سے متعلق استفسار کیا، کہ اُس زمانے میں اُن کی واپسی کی مدافعت کی گئی، جس نے شہر کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے، جس پر اقبال یوسف کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر ایم کیو ایم سنجیدہ رہی، اور نہ وفاقی حکومت۔ ذوالفقار بھٹو سب سے زیادہ 15 لاکھ افراد لے کر آئے، اس کے بعد بھی آمد جاری رہا۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے معاہدہ ¿ کراچی میں بھی اُن کا مسئلہ شامل تھا۔ وہاں جو محصورین شہروں میں بس گئے، وہ یہاں نہیں آنا چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1994-95ءمیں بنگلا دیش گیا تھا، وہاں اب کیمپوں میں زیادہ بہاری نہیں، بلکہ بہت سے بنگلادیشی مفت روٹی کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اُن کی تیسری نسل وہاں پڑھ لکھ گئی۔ کیمپوں میں جوان ہونے والے تین سے چار فی صد لوگ ڈھاکا کے بینکوں میں ہیں۔ بنگلادیشی حکومت اس مسئلے کو زندہ رکھ کر اقوام متحدہ سے 25 سے 30 لاکھ ڈالر سے زائد امداد لے رہی ہے، اسلامی ممالک سے زکوٰة بھی جاتی ہے۔ اب روہنگیا مسلمانوں کے نام پر بھی بنگلا دیش پیسے لے رہا ہے۔ کیمپوں میں تکالیف بھی ہیں، لیکن زندگی کی تمام چیزیں میسر ہو جاتی ہیں، آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت محصور پاکستانیوں کی کسم پرسی کا پروپیگنڈہ زیادہ ہے، اُن کی حالت اتنی خراب نہیں ہے۔
قصہ مہاجروں کا
اقبال یوسف کا خیال ہے کہ 1947ءمیں ہجرت تو مشرقی پنجاب سے بھی ہوئی، مہاجر پشاور، پنڈی، لاہور، ملتان، سکھر، حیدرآباد اور پھر کراچی میں بھی آکر بستے رہے۔ خیبر پختونخوا کا حلقہ 'این اے چار' میں 22 سے 24 ہزار اردو بولنے والوں کی اولاد ووٹر ہے، جو آج بھی شادیاں کرنے کراچی آتے ہیں۔ پنڈی کی تین نشستوں میں لکھنﺅ اور الہ آباد کے اردو بولنے والے آباد ہیں، شیخ رشید انہی کے ووٹ کے لیے ایم کیو ایم سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لاہور کی این اے 120 سمیت تین نشستوں پر 'اردو گُو' فیصلہ کن قوت ہیں اور آج بھی 'تلیر' کہے جاتے ہیں۔ ملتان میں بھی تین نشستوں پر اردو بولنے والوں کی آبادی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر زبان کی بنیاد پر صوبہ بنا، تو اِن علاقوں میں رہنے والوں کو کہا جائے گا کہ تمہارا صوبہ بن گیا، اب تم وہاں جاﺅ! اقبال یوسف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے ایک خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ 'مہاجر شناخت بنائی، تو ہمیشہ استحصال کا شکار رہو گے۔" ڈاکٹر اشتیاق کہتے تھے کہ میں اپنی شناخت مہاجر کے بہ جائے نئے سندھی کی حیثیت سے کرانا پسند کروں گا، یہاں چاہے میرا حق نہ ہو، مگر میری تیسری نسل کا ہوگا۔ اقبال یوسف کہتے ہیں کہ میرا پیپلز پارٹی میں یہی جھگڑا ہے کہ کراچی میں شہریوں کے کوائف جمع کرتے ہوئے والد کے ساتھ دادا کا نام کیوں پوچھتے ہیں، پورے ملک میں کہیں نہیں پوچھتے۔ اقبال یوسف سندھ کی وحدت وانفرادیت برقرار رکھتے ہوئے انتظامی تقسیم سے مسائل حل کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔
نیشنلائزیشن ناکام ہوئی؟
قومی زبان میں تعلیم کے حامی اقبال یوسف چاہتے ہیں کہ نصاب میں حسرت موہانی اور سرسید جیسی شخصیات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، وہ ذوالفقار بھٹو کے تعلیمی ادارے قومیائے جانے کی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ ملک میں ایک نظام، ایک نصاب اور سستی تعلیم کے لیے تھا۔ 'نیشنلائزیشن' کی ناکامی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ اساتذہ کی تنخواہیں تین چار گنا بڑھیں، تو وہ اپنے گریڈ کے چکر میں پڑ گئے، جس سے تعلیم متاثر ہوئی۔ نیشنلائزیشن غلط نہ تھی، اگر اسے منظم طریقے سے جاری رکھا جاتا، تو آج تعلیمی نظام بہت اچھا ہوتا۔ ہمیں اقتدار نہایت نامساعد حالات میں ملا، اس کے لیے تربیت یافتہ لوگ نہ تھے۔ ہم نے پوچھا کیا بے نظیر کیا اس حکمت عملی سے دست بردار ہوگئیں؟ تو کہتے ہیں کہ ہر دور کے تقاضے ہوتے ہیں، ضیا دور میں اسے جاری نہیں رکھا گیا، اس لیے پھر ہم نے جدید تعلیم کے منصوبے کے تحت 'زیبسٹ' (SZABIST) بنایا، وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس کی فیسیں عام آدمی کی دست رَس میں ہونی چاہئیں۔
بینکوں کی نیشنلائزیشن کے لیے استدلال کرتے ہوئے اقبال یوسف کہتے ہیں کہ یہ بینک صرف اپنے لوگوں کو قرض جاری کرتے تھے، جس سے صرف مخصوص خاندانوں میں ترقی ہو رہی تھی، نیشنلائزیشن سے متوسط طبقے کو بھی قرض ملے اور وہ بھی آگے بڑھے۔ ہم نے کہا عوام کو قرض جاری کرنے کے واسطے سرکاری بینک قائم بھی تو کیے جا سکتے تھے، تو انہوں نے کہا اس وقت معاشی حالت کم زور تھی اور ان بینکوں میں لاوارث سرمائے کا حجم بینکوں کے 'ڈپازٹ' سے زیادہ تھا، اقبال یوسف کا خیال ہے کہ بینک قومیانے سے چھوٹے تاجر صنعتیں لگانے کے قابل ہوئے۔ ہم نے قومیائے جانے والی صنعتوں کی طرف توجہ دلائی، تو انہوں نے کہا کہ اُن میں سے 80 فی صد صنعتیں بینکوں کی مقروض اور گروی رکھی ہوئی تھیں۔ اگر پیپلزپارٹی کا اقتدار رہتا، تو بہت اچھے نتائج آتے۔ اسی طرح پاسپورٹ فیس صرف 50 روپے کرنے سے تین سال میں ساڑھے چار لاکھ کاری گر باہر گئے، جن کا پیسہ یہاں آنے سے نچلا طبقہ اوپر آیا۔ آج کی کثیر ترسیلات زر بھی بھٹو کے اس اقدام کا ثمر ہیں۔ پیپلز پارٹی اکثر حالات کے ستم ہی سہتی رہی، اس لیے اسے اپنے ان اقدام کو گنوانے کا موقع ہی نہیں ملا۔
اُن کی رائے سے اختلاف ممکن ہے، لیکن اُن کی نظریاتی استقامت سے نہیں شہر قائد کے حوالے سے وہ کافی متحرک سیاست دان سمجھے جاتے ہیں، بالخصوص وہ تین دہائیوں قبل بدلنے والے کراچی کے سیاسی منظر نامے سے ایک مختلف فکر کے حامل ہیں یوں تو ان کے نسب میں تجارت سب سے نمایاں حوالہ ہے، لیکن وہ ترقی پسندانہ سیاست کے عَلم بردار ہوئے اُن کے بڑے بھائی نے بھی سیاست میں حصہ لیا، رشتے کے ایک چچا نسیم احمد 'این ایس ایف' میں تھے، جو فاطمہ جناح کی تدفین کے موقع پر پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے، جس پر رئیس امروہی نے ایک قطعہ لکھا، جس کا ایک مصرع 'ظالموں جواب دو، خون کا حساب دو!' مقبول نعرہ بنا۔ اُن کی سیاست بھی نیشنل کالج میں 'این ایس ایف' (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن) سے شروع ہوئی۔
یہ سینئر سیاسی کارکن اقبال یوسف ہیں، جو 1965ءکی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ آج بھی اُنہی کے گُن گاتے دکھائی دیتے ہیں 1967ءمیں وہ 'پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن' اور 1969ءمیں پیپلز پارٹی کے کارکن ہوگئے۔ 1974ءمیں وارڈ کے صدر، 1977ءمیں صوبائی حلقے کے انفارمیشن سیکریٹری بنے۔ ذوالفقار بھٹو سے 1975ءاور 1977ءمیں ملاقات کا موقع ملا، جب کہ بے نظیر سے ذوالفقار بھٹو کی معزولی کے بعد متعارف ہوئے۔ ضیا دور میں قید وبند بھی سہا۔ 1980ءمیں ضلعی سیکریٹری اطلاعات، پھر صوبائی سیکریٹری اطلاعات کا عہدہ ملا۔ پھر پانچ برس سندھ کے جنرل سیکریٹری رہے، جسے اس عہدے پر کسی بھی 'اردو گُو' کی طویل ترین مدت کہتے ہیں۔ 1988ءمیں صوبائی مشیر اطلاعات اور 1994ءمیں صوبائی مشیر برائے امور کراچی رہے۔
دلی سے ہجرت کے بعد اُن کا خاندان برنس روڈ پر سکونت پذیر ہوا، 20 مارچ 1950ءکو وہ اس دنیا میں وارد ہوئے، تین بھائی اور آٹھ بہنوںِ میں وہ نویں نمبر پر ہیں۔ مقبول عام اسکول اور دہلی مرکنٹائل اسکول کے طالب علم رہے، اگلے مدارج میں نیشنل کالج اور جامعہ کراچی پہنچے، ایم اے (صحافت) اور ایل ایل بی کیا، مگر پریکٹس نہ کر سکے۔ والد کا برآمدات کا کاروبار تھا، خود بھی مختلف کاروبار کیے، اِن دنوں تجارت اور تعمیرات سے منسلک ہیں، لکھنا لکھانا بھی جاری ہے۔ ایک کتاب 'کراچی پیپرز' کے مصنف ہیں، زیر تصنیف کتب میں 'پیپلز پارٹی کے 50 سال' اور خود نوشت شامل ہے۔ 25 دسمبر 1987ءکو شادی ہوئی، جس کی مبارک باد دینے بے نظیر گھر آئیں۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، جو شادی کے بعد بحرین اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ صاحب زادے لنکنز اِن (Lincoln's Inn) لندن سے بیرسٹری کر رہے ہیں۔
اقبال یوسف کہتے ہیں کہ 1990ءمیں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم کا جواب دینے کے لیے ہفت روزہ 'اخلاقی جنگ' نکالا، شرارتاً اس کی لوح 'جنگ' اخبار جیسی رکھی، چار شمارے کے بعد میر خلیل الرحمن نے عدالتی نوٹس بھجوا دیا، تاہم علاج کے لےے باہر جاتے ہوئے میر خلیل نے ان سے کہا کہ 'میں مقدمہ واپس لے رہا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ یہ لڑائی آگے چلے، تمہیں مشورہ ہے کہ اپنے پرچے کا نام 'جنگ' نہ رکھو۔' یوں تنازع ختم ہوا۔
اقبال یوسف کا خیال ہے کہ 1972ءمیں سندھی زبان کا بل اردو کو ختم کرنے کے لیے نہ تھا، یہ بل تو ایک 'اردو گُو' رکن کمال اظفر نے پیش کیا۔ ترقی پسندوں
سمیت سب نے بغیر پڑھے اس کی مخالفت کی، کہتے ہیں کہ بھٹو نے جب یہ دیکھا کہ اردو بولنے والا لاڑکانہ کا ڈپٹی کمشنر لگتا ہے، تو سندھی نہ جاننے کی وجہ سے اِبلاغی رکاوٹ آتی ہے، اور وہاں وڈیرہ اس کا ترجمان بن جاتا ہے، جس سے وڈیرے کے خلاف کسان کی شکایت نہیں پہنچ پاتی۔ اس لیے یہ طے کیا گیا کہ صوبے میں تمام سرکاری ملازمین سندھی زبان کی تعلیم حاصل کریں گے اور آنے والی نسل کے لیے پانچویں جماعت سے سندھی زبان ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے رائج کی جائے گی۔ اس بل پر "اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!" کی شہ سرخی لگا دی، اور شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ سندھی، زبان کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ اردو بولنے والے نئے سندھی کی حیثیت سے یہاں آئے، پیپلزپارٹی کے انقلابی اقدام کے جواب میں ترقی مخالف قوتوں نے مذہبی اور فرقہ وارانہ امور کے ساتھ لسانیت کو بھڑکایا۔
اقبال یوسف کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے کراچی کے مال سے سب کو دل چسپی ہے، لیکن مسائل سے نہیں۔ انگریز نے کراچی میں بہت ترقیاتی کام کرائے تھے، وہ بعد میں بھی کراچی کا انتظام اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا، اس لیے اسے دارالحکومت بنانے کا مخالف تھا۔ اسے پتا تھا کہ آیندہ پچاس برسوں میں ہانگ کانگ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لیے وائسرائے نے قائداعظم کو لاہور کو دارالحکومت بنانے کا کہا، پنجاب کی نوکر شاہی کی منشا بھی یہی تھی، جب این اے فاروقی نے یہ پیغام قائداعظم کو دیا، تو انہوں نے کہا 'میں فیصلہ لیتا ہوں، ڈکٹیشن نہیں!'
ون یونٹ کا قیام اور دارالحکومت کی منتقلی کو بھی اقبال یوسف بیرونی سازشوں کا نتیجہ کہتے ہیں کہ اس طرح بیرونی قوتوں کا راستہ بنا اور فرقہ وارانہ اور لسانی مسائل پیدا کیے گئے، کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ گوادر چین کو دے دیا، اب امریکا وبرطانیہ کراچی کی بندرگاہ چاہتے ہیں، 2014ءمیں کراچی میں برطانوی قونصل جنرل نے یہ کہا کہ میں کراچی میں برطانیہ کا مستقبل دیکھتا ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ پیپلزپارٹی نے ان سازشوں کو پروان چڑھانے والی محرومی دور کرنے کے لیے کوشش کیوں نہیں کیں؟ جس پر وہ کہنے لگے کہ ذوالفقار بھٹو نے کراچی ضلعے کو ایک ڈویژن کا درجہ دیا، جسے تین اضلاع میں بانٹا۔ مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی نشستیں سات سے 11 اور صوبائی کی 15 سے 25 کیں۔ اسے میگا سٹی بنانے کے لیے 1975ءمیں 'کراچی اسپیشل ڈویلپمنٹ' پروگرام دیا، جس کے تحت حسن اسکوائر تا گلستان جوہر اور نارتھ کراچی تا نئی کراچی کے منصوبے آگے بڑھائے۔ بعد میں انفرا اسٹریکچر تبدیل کیے بغیر تعمیراتی منصوبے بننے لگے اور بے ہنگم نقل مکانی سے 25 سال کی منصوبہ بندی ناکام ہو گئی۔ آج 10 افراد کی جگہ پر 400 افراد رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کی آبادی سوا سے ڈھائی کروڑ ہے، حالیہ مردم شماری میں تیکنیکی غلطی ہوئی، شناختی کارڈ کا مستقل پتا شمار کیا، اب ووٹر یہاں ہے اور شمار وہاں ہو رہا ہے۔
اقبال یوسف کہتے ہیں کہ بھٹو نے سندھ میں 'کوٹا سسٹم' اردو بولنے والی قیادت سے مذاکرات کے بعد بنایا، یہ 10 برس کے لیے تھا، جسے ضیاالحق نے مزید 10 برس کے لیے بڑھایا۔ ان مذاکرات میں رئیس امروہی، محمود الحق عثمانی، سید محمد تقی اور خلیل ترمذی وغیرہ شامل تھے، جس میں کوٹا سسٹم کے ساتھ طے ہوا کہ گورنر یا وزیر اعلیٰ میں سے ایک لازماً اردو بولنے والا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ 2002ءمیں ایم کیوایم نے اردو بولنے والا وزیراعلیٰ کیوں نہیں بنایا؟ ہم نے کہا پیپلز پارٹی نے بھی تو نہیں بنایا؟ تو بولے کہ اُن کے پاس تو سندھی ووٹ زیاد ہیں۔ اقبال یوسف کہتے ہیں کہ 1995ءمیں عملاً کوٹا سسٹم ختم ہو چکا، مگر سابقہ سلسلہ جاری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ شہری سندھ کو 40 فی صد حصہ نہیں ملا، لیکن دیہی کوٹے میں بھی بے شمار 'اردو گُو' افراد کو ملازمتیں ملیں، سندھی بولنے کے سبب انہیں سندھی شمار کر کے کہتے ہیں کہ سندھ سیکریٹریٹ میں کوئی اردو بولنے والا نہیں، جب کہ ایسا نہیں ہے۔
وہ 1988ءمیں پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے درمیان طے پانے والے معاہدہ ¿ کراچی کو آج بھی شہری اور دیہی سندھ کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ بیرونی قوتوں کی سازش ہے کہ لوگوں میں اتنا احساس محرومی پیدا کرو کہ کوئی بیرونی مداخلت ہو تو لوگ خوش آمدید کہیں۔ ہم نے پوچھا یہ محرومی کون پیدا کر رہا ہے؟ تو بولے کہ ریاستی ادارے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک کو سیاست دانوں اور فوج سے زیادہ سول بیورو کریسی نے نقصان پہنچایا۔ ترقیاتی منصوبوں میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے فنڈز پہلے جاری کرا لیتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ مقامی منتخب نمائندوں کے ذریعے کام کرایا جائے۔
کراچی کے 20اراکین قومی اور 42 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں، 210 یونین کونسلوں کے چیئرمین اور 840 کونسلرز ہیں، ایک کمشنر اور تین ایڈیشنل کمشنر کراچی اور چھے ضلعوں میں چھے ڈپٹی کمشنر اور دو، دو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہیں۔ چھے 'ایس پی' اور چھے ایڈیشنل 'ایس پی' ہیں۔ ایک 'ڈی آئی جی' اور تین ایڈیشنل 'ڈی آئی جی' ہیں۔ اتنی بڑی انتظامی نفری کے باوجود ہم بے امنی اور بدعنوانی ختم نہیں کر سکتے، ان سے کام لینا شہری حکومت کا کام ہے، 1993ءمیں ہم نے جو بلدیاتی نظام بنایا اسے پرویز مشرف نے نافذ کرایا۔ ہمارے ہاں کونسلر کو اختیار نہیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی کراچی کے مسائل کا حل ہے، جس میں نوکر شاہی رکاوٹ ہے۔ اختیارات کا سرچشمہ پنجاب میں مرکوز کرنے کی کوشش سے مشرقی پاکستان میں محرومی پیدا ہوئی۔
1971 تا 1975ءاقبال یوسف جامعہ کراچی کے طالب رہے، وہ اسلحے کی سیاست شروع کرنے کا الزام اسلامی جمعیت طلبہ پر عائد کرتے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ بھٹو مخالف تحریک میں بھی اسلحہ استعمال ہوا، لیاقت آباد میں پیپلزپارٹی کے ایک رکن اللہ بندہ کو قتل کر کے اس کی لاش کھمبے پر لٹکائی گئی۔ 'گولی مار' میں پورے خاندان کو جلا کر مارا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے بھی ایک بار اُن پر حملہ کر کے زخمی کیا، جب کہ ایم کیو ایم نے ان کے گھر، دفتر اور گاڑی پر فائرنگ کر کے پانچ بار انہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔ اقبال یوسف کے بقول المیہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی والے ہمیں اردو بولنے والوں کا ایجنٹ اور ایم کیو ایم والے ہمیں مہاجروں کا غدار سمجھتے، ہم سچے محب وطنوں کی ایک قومی پارٹی کے لیے خلوص کو سندھ کے متعصبانہ سوچ رکھنے والے دوسری نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کراچی میں جب بھی مضبوط ہونے لگتی ہے، تو کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے پیپلز پارٹی کا اردو بولنے والا مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
"اردو بولنے والوں نے خلیج کو زیادہ بڑھایا!"
ابتدا میں ذوالفقار بھٹو کو چھوڑ جانے والوں کا ذکر ہوا، تو اقبال یوسف بولے کہ دراصل کچھ لوگ بہت تیزی سے آگے جانا چاہتے تھے۔ معراج محمد خان، سید سعید حسن اور عبدالوحید عرشی 1970ءمیں منتخب ہو کر آئے، انہوں نے جلد بازی میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔ اس تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ شہری اور دیہی سندھ کی تقسیم کو سب سے زیادہ اردو بولنے والوں نے بڑھایا، ورنہ سندھ نے سب سے پہلے مہاجروں کو خوش آمدید کہا۔ ہم اردو بولنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی ناک بہت ہوتی ہے۔' ہم نے اُن کی توجہ دلائی کہ آپ جس علیحدگی کو دیہی اور شہری سندھ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اُس کی بنیاد تو نظریاتی تھی؟ جس پر وہ کہتے ہیں کہ وڈیرے کی لڑائی سرمایہ دار سے تھی، عوام سے نہیں۔ عوام کو لسانی بنیاد پر فریق بنا دیا گیا، تاہم اس میں پیپلزپارٹی کی بھی غلطی تھی۔
محصورین پاکستان: کس مپرسی کا پروپیگنڈہ زیادہ ہے!
کراچی کے حوالے سے ہم نے 1971ءسے مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے محصور پاکستانیوں (بہاریوں) سے متعلق استفسار کیا، کہ اُس زمانے میں اُن کی واپسی کی مدافعت کی گئی، جس نے شہر کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے، جس پر اقبال یوسف کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر ایم کیو ایم سنجیدہ رہی، اور نہ وفاقی حکومت۔ ذوالفقار بھٹو سب سے زیادہ 15 لاکھ افراد لے کر آئے، اس کے بعد بھی آمد جاری رہا۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے معاہدہ ¿ کراچی میں بھی اُن کا مسئلہ شامل تھا۔ وہاں جو محصورین شہروں میں بس گئے، وہ یہاں نہیں آنا چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1994-95ءمیں بنگلا دیش گیا تھا، وہاں اب کیمپوں میں زیادہ بہاری نہیں، بلکہ بہت سے بنگلادیشی مفت روٹی کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اُن کی تیسری نسل وہاں پڑھ لکھ گئی۔ کیمپوں میں جوان ہونے والے تین سے چار فی صد لوگ ڈھاکا کے بینکوں میں ہیں۔ بنگلادیشی حکومت اس مسئلے کو زندہ رکھ کر اقوام متحدہ سے 25 سے 30 لاکھ ڈالر سے زائد امداد لے رہی ہے، اسلامی ممالک سے زکوٰة بھی جاتی ہے۔ اب روہنگیا مسلمانوں کے نام پر بھی بنگلا دیش پیسے لے رہا ہے۔ کیمپوں میں تکالیف بھی ہیں، لیکن زندگی کی تمام چیزیں میسر ہو جاتی ہیں، آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت محصور پاکستانیوں کی کسم پرسی کا پروپیگنڈہ زیادہ ہے، اُن کی حالت اتنی خراب نہیں ہے۔
قصہ مہاجروں کا
اقبال یوسف کا خیال ہے کہ 1947ءمیں ہجرت تو مشرقی پنجاب سے بھی ہوئی، مہاجر پشاور، پنڈی، لاہور، ملتان، سکھر، حیدرآباد اور پھر کراچی میں بھی آکر بستے رہے۔ خیبر پختونخوا کا حلقہ 'این اے چار' میں 22 سے 24 ہزار اردو بولنے والوں کی اولاد ووٹر ہے، جو آج بھی شادیاں کرنے کراچی آتے ہیں۔ پنڈی کی تین نشستوں میں لکھنﺅ اور الہ آباد کے اردو بولنے والے آباد ہیں، شیخ رشید انہی کے ووٹ کے لیے ایم کیو ایم سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لاہور کی این اے 120 سمیت تین نشستوں پر 'اردو گُو' فیصلہ کن قوت ہیں اور آج بھی 'تلیر' کہے جاتے ہیں۔ ملتان میں بھی تین نشستوں پر اردو بولنے والوں کی آبادی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر زبان کی بنیاد پر صوبہ بنا، تو اِن علاقوں میں رہنے والوں کو کہا جائے گا کہ تمہارا صوبہ بن گیا، اب تم وہاں جاﺅ! اقبال یوسف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے ایک خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ 'مہاجر شناخت بنائی، تو ہمیشہ استحصال کا شکار رہو گے۔" ڈاکٹر اشتیاق کہتے تھے کہ میں اپنی شناخت مہاجر کے بہ جائے نئے سندھی کی حیثیت سے کرانا پسند کروں گا، یہاں چاہے میرا حق نہ ہو، مگر میری تیسری نسل کا ہوگا۔ اقبال یوسف کہتے ہیں کہ میرا پیپلز پارٹی میں یہی جھگڑا ہے کہ کراچی میں شہریوں کے کوائف جمع کرتے ہوئے والد کے ساتھ دادا کا نام کیوں پوچھتے ہیں، پورے ملک میں کہیں نہیں پوچھتے۔ اقبال یوسف سندھ کی وحدت وانفرادیت برقرار رکھتے ہوئے انتظامی تقسیم سے مسائل حل کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔
نیشنلائزیشن ناکام ہوئی؟
قومی زبان میں تعلیم کے حامی اقبال یوسف چاہتے ہیں کہ نصاب میں حسرت موہانی اور سرسید جیسی شخصیات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، وہ ذوالفقار بھٹو کے تعلیمی ادارے قومیائے جانے کی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ ملک میں ایک نظام، ایک نصاب اور سستی تعلیم کے لیے تھا۔ 'نیشنلائزیشن' کی ناکامی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ اساتذہ کی تنخواہیں تین چار گنا بڑھیں، تو وہ اپنے گریڈ کے چکر میں پڑ گئے، جس سے تعلیم متاثر ہوئی۔ نیشنلائزیشن غلط نہ تھی، اگر اسے منظم طریقے سے جاری رکھا جاتا، تو آج تعلیمی نظام بہت اچھا ہوتا۔ ہمیں اقتدار نہایت نامساعد حالات میں ملا، اس کے لیے تربیت یافتہ لوگ نہ تھے۔ ہم نے پوچھا کیا بے نظیر کیا اس حکمت عملی سے دست بردار ہوگئیں؟ تو کہتے ہیں کہ ہر دور کے تقاضے ہوتے ہیں، ضیا دور میں اسے جاری نہیں رکھا گیا، اس لیے پھر ہم نے جدید تعلیم کے منصوبے کے تحت 'زیبسٹ' (SZABIST) بنایا، وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس کی فیسیں عام آدمی کی دست رَس میں ہونی چاہئیں۔
بینکوں کی نیشنلائزیشن کے لیے استدلال کرتے ہوئے اقبال یوسف کہتے ہیں کہ یہ بینک صرف اپنے لوگوں کو قرض جاری کرتے تھے، جس سے صرف مخصوص خاندانوں میں ترقی ہو رہی تھی، نیشنلائزیشن سے متوسط طبقے کو بھی قرض ملے اور وہ بھی آگے بڑھے۔ ہم نے کہا عوام کو قرض جاری کرنے کے واسطے سرکاری بینک قائم بھی تو کیے جا سکتے تھے، تو انہوں نے کہا اس وقت معاشی حالت کم زور تھی اور ان بینکوں میں لاوارث سرمائے کا حجم بینکوں کے 'ڈپازٹ' سے زیادہ تھا، اقبال یوسف کا خیال ہے کہ بینک قومیانے سے چھوٹے تاجر صنعتیں لگانے کے قابل ہوئے۔ ہم نے قومیائے جانے والی صنعتوں کی طرف توجہ دلائی، تو انہوں نے کہا کہ اُن میں سے 80 فی صد صنعتیں بینکوں کی مقروض اور گروی رکھی ہوئی تھیں۔ اگر پیپلزپارٹی کا اقتدار رہتا، تو بہت اچھے نتائج آتے۔ اسی طرح پاسپورٹ فیس صرف 50 روپے کرنے سے تین سال میں ساڑھے چار لاکھ کاری گر باہر گئے، جن کا پیسہ یہاں آنے سے نچلا طبقہ اوپر آیا۔ آج کی کثیر ترسیلات زر بھی بھٹو کے اس اقدام کا ثمر ہیں۔ پیپلز پارٹی اکثر حالات کے ستم ہی سہتی رہی، اس لیے اسے اپنے ان اقدام کو گنوانے کا موقع ہی نہیں ملا۔