او آئی سی موثر کردار کی ضرورت
سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ او آئی سی اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے
ISLAMABAD:
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48واں اجلاس اگلے روز اسلام آباد میں شروع ہو گیا۔ اجلاس میں 46 ممالک کے وزرائے خارجہ موجود ہیں، مسلم ممالک کی 57 رکنی کونسل کا دو روزہ سالانہ اجلاس 'اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری کی تعمیر' کے موضوع کے تحت ہوا۔
سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ او آئی سی اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا اور عالم اسلام کو درپیش مسائل اور مشکلات کا کھل کر احاطہ کیا۔ انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے استدلال پیش کیا کہ دہشت گردوں کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے، نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے ایسا بیانیہ بنایا گیا جس میں اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑا گیا۔
مسلم ممالک نے اس بیانیہ کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا، بدقسمتی سے یہ تاثر بن گیا کہ اسلام میں لبرل، ماڈریٹ اور ریڈیکل مختلف قسمیں ہیں لیکن دین اسلام تو صرف ایک ہی ہے اور وہ محمد عربی خاتم النبیینﷺ کا اسلام ہے۔ خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا گیا کہ اسلامو فوبیا ایک نفرت انگیز چیز ہے۔ ہمیں اپنے بیانیے کو آگے لے کر جانا چاہیے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ جو ملک بھی ریاست مدینہ کے ماڈل پرچلے گا، وہ خوش حال ہو گا۔ یہ اسلام ہی تھا جہاں غلام بادشاہ بنتے تھے۔ او آئی سی کا ایک تصور اسلامی اقدار کا تحفظ ہونا چاہیے کیونکہ اسلامی اقدار جتنی اس وقت خطرے میں ہیں پہلے نہیں تھیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ میں کشمیر اور فلسطین پر واضح قراردادیں ہونے کے باوجود ہم ان پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے ہیں، دنیا ہمیں سنجیدہ نہیں لیتی کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلم آبادی ان ناانصافیوںکو روکنے کے لیے آواز اٹھائے۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی لیکن عالمی برادری خاموش ہے۔ مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی الگ الگ ہے تاہم مرکزی ایشوز پر ہمیں متحد ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہے تاہم مسلم ممالک کو متحد ہونا چاہیے۔
افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایک مستحکم افغانستان اس سرزمین کو عالمی دہشت گردی سے روکنے کے لیے واحد راستہ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اسلامی ملکوں کو روس یوکرین تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بلاک میں جانے اور جنگ کا حصہ بننے کے بجائے متحد رہ کر امن میں شراکت دار بنیں۔ انھوں نے روس، یوکرین جنگ بندی کے لیے او آئی سی اور چین کی مشترکہ کوششوں کی تجویز دی۔
انھوں نے کہا مسلم ممالک نے متحد ہوکر متفقہ موقف اختیار نہ کیا تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا، فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، افسوس ہورہا ہے ہم اس حوالے سے کوئی اثر قائم نہیں کر سکے۔ بنیادی ایشوز پر اوآئی سی کو ایک متحدہ فرنٹ قائم کرنا ہوگا۔ بدقسمتی ہم ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں مگر ہم فلسطین اور کشمیر پر قراردادیں منظور کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ ہم میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جن ایشوز کی نشاندہی کی اور ان ایشوز کوحل کرانے کے حوالے سے مسلم ممالک کی کمزوری کو بیان کیا ہے، یہ نئی باتیں تو نہیں ہیں البتہ درست ضرور ہیں۔ مسلم ممالک کی تمام حکومتوں کو اس کا پتہ ہے اور اپنی کمزوریوں کا بھی پتہ ہے۔
اصل سوال یا حل طلب مدعا تو یہ ہے کہ جن ایشوز کا ذکر ہوا ہے ، کیا تمام مسلم اکثریتی ممالک اسے اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں؟ اگر بیانات اور قراردادوں کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو درست سمجھتی ہیں ، اگلا سوال یہ ہے کہ پھر یہ تنازعات حل کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ان سوالوں کا ٹھوس اور مدلل جواب او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو ضرور دینا چاہیے کہ بطور تنظیم، وہ ان ایشوز کو حل کرانے میں ناکام کیوں رہتی ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا ویڈیو پیغام بھی چلایا گیا ۔نائیجرکے وزیرخارجہ ہاسومی مسعودی نے اپنے افتتاحی خطاب میں امت مسلمہ کے اجتماعی اہداف کے حصول کے لیے کوششوں، کامیابیوں اور اقدامات پر روشنی ڈالی۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین اسلامی ممالک کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے کے لیے تیار ہے، انھوں نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان سے دوستانہ تعلقات چین کی روایات کی بنیاد ہیں اور چین اقوام متحدہ میں اسلامی دنیا کی حمایت نہیں بھول سکتا۔ چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے چین کی حمایت ہمیشہ غیرمتزلزل رہی ہے، چین دو ریاستی حل کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے، 54 مسلم ممالک نے ایک سڑک ایک راستہ منصوبے پر دستخط کیے ہیں، چین مسلم دنیا میں 600 منصوبوں پر 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ تہذیبوں کے مابین مذاکرات اور تصادم سے بچنے کے لیے آگے بڑھنا ہو گا اور چین تہذیبوں کے مابین تصادم نہیں بلکہ مذاکرات کا حامی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ آج دنیا کو درپیش موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا ناگزیر ہے، ہمیں اخلاقی دیوالیہ پن کے حامل عالمی مالیاتی نظام میں اصلاح کرنی چاہیے اور مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی ہم محفوظ دنیا کے لیے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف پاکستان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں البتہ اس سلسلے میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے دوران خطاب افغانستان کے نئے حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں اور انسانی حقوق کا احترام کریں۔انھوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں،فیصل بن فرحان نے یمن کے حوثی باغیوں سے اسلحہ اسمگلنگ ختم، حملے بند، بحری سلامتی یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یمن کو انسانی ہمدردی کے تحت ہر ممکن امداد کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو انصاف فراہم کیا جائے اور مسئلے کا منصفانہ حل نکالا جائے۔او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے اس موقعے پر اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں نوآبادیاتی نظام پر مبنی ہیں اور اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہے،سیکریٹری جنرل نے کہا کہ مسئلہ جموں و کشمیر ایک طویل عرصہ سے حل سے محروم ہے،مسئلہ کا حل کشمیری عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ایک استصواب رائے میں ہے۔
نائیجر کے وزیر خارجہ حسومی مسعودو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افریقہ اور دیگر خطوں میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کی کردار سازی پر توجہ دی جائے، کشمیر اور فلسطین پر موثر آواز بلند کی گئی تھی، گروپس کے مختلف اجلاس ہوئے تاہم قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔قازقستان کے نائب وزیراعظم مختار تلبردی نے کہا قازقستان مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ حل چاہتا، اس کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کا بھی منصفانہ حل ہونا چاہیے۔
اسلامی ترقیاتی بینک گروپ کے صدر ڈاکٹرمحمدالجسیر نے کہا ہے کہ افغانستان کے عوام کی امداد کے لیے اسلامی تعاون تنظیم اور امداد دینے والے ممالک اور اداروں کے علاوہ بین الاقوامی برادری کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے،انھوں نے او آئی سی ممالک کے درمیان تجارت اور تجارتی راہداریوں کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
او آئی سی کے ہر اجلاس میں باتیں اچھی ہوتی ہیں لیکن عملاً کچھ نہیں ہوتا۔اسلامی ممالک کی اتحادی تنظیمیں تو موجود ہیں مگر ان میں باہمی تجارت کے فروغ،سائنس وٹیکنالوجی،زرعی اور صنعتی میدان میں ترقی اور تحقیق کے مشترکہ پلیٹ فارم موجود نہیں ہیں۔ اسلامی ملکوں کی لیڈرشپ ' دانشوروں اور مفکرین کو اس حوالے سے کام کرنا چاہیے کہ کس طرح اسلامی ملکوں کو ایسے متحد کیا جائے کہ وہ جی ایٹ، جی ٹوئنٹی یا نیٹو طرز کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48واں اجلاس اگلے روز اسلام آباد میں شروع ہو گیا۔ اجلاس میں 46 ممالک کے وزرائے خارجہ موجود ہیں، مسلم ممالک کی 57 رکنی کونسل کا دو روزہ سالانہ اجلاس 'اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری کی تعمیر' کے موضوع کے تحت ہوا۔
سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ او آئی سی اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا اور عالم اسلام کو درپیش مسائل اور مشکلات کا کھل کر احاطہ کیا۔ انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے استدلال پیش کیا کہ دہشت گردوں کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے، نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے ایسا بیانیہ بنایا گیا جس میں اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑا گیا۔
مسلم ممالک نے اس بیانیہ کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا، بدقسمتی سے یہ تاثر بن گیا کہ اسلام میں لبرل، ماڈریٹ اور ریڈیکل مختلف قسمیں ہیں لیکن دین اسلام تو صرف ایک ہی ہے اور وہ محمد عربی خاتم النبیینﷺ کا اسلام ہے۔ خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا گیا کہ اسلامو فوبیا ایک نفرت انگیز چیز ہے۔ ہمیں اپنے بیانیے کو آگے لے کر جانا چاہیے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ جو ملک بھی ریاست مدینہ کے ماڈل پرچلے گا، وہ خوش حال ہو گا۔ یہ اسلام ہی تھا جہاں غلام بادشاہ بنتے تھے۔ او آئی سی کا ایک تصور اسلامی اقدار کا تحفظ ہونا چاہیے کیونکہ اسلامی اقدار جتنی اس وقت خطرے میں ہیں پہلے نہیں تھیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ میں کشمیر اور فلسطین پر واضح قراردادیں ہونے کے باوجود ہم ان پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے ہیں، دنیا ہمیں سنجیدہ نہیں لیتی کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلم آبادی ان ناانصافیوںکو روکنے کے لیے آواز اٹھائے۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی لیکن عالمی برادری خاموش ہے۔ مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی الگ الگ ہے تاہم مرکزی ایشوز پر ہمیں متحد ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہے تاہم مسلم ممالک کو متحد ہونا چاہیے۔
افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایک مستحکم افغانستان اس سرزمین کو عالمی دہشت گردی سے روکنے کے لیے واحد راستہ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اسلامی ملکوں کو روس یوکرین تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بلاک میں جانے اور جنگ کا حصہ بننے کے بجائے متحد رہ کر امن میں شراکت دار بنیں۔ انھوں نے روس، یوکرین جنگ بندی کے لیے او آئی سی اور چین کی مشترکہ کوششوں کی تجویز دی۔
انھوں نے کہا مسلم ممالک نے متحد ہوکر متفقہ موقف اختیار نہ کیا تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا، فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، افسوس ہورہا ہے ہم اس حوالے سے کوئی اثر قائم نہیں کر سکے۔ بنیادی ایشوز پر اوآئی سی کو ایک متحدہ فرنٹ قائم کرنا ہوگا۔ بدقسمتی ہم ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں مگر ہم فلسطین اور کشمیر پر قراردادیں منظور کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ ہم میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جن ایشوز کی نشاندہی کی اور ان ایشوز کوحل کرانے کے حوالے سے مسلم ممالک کی کمزوری کو بیان کیا ہے، یہ نئی باتیں تو نہیں ہیں البتہ درست ضرور ہیں۔ مسلم ممالک کی تمام حکومتوں کو اس کا پتہ ہے اور اپنی کمزوریوں کا بھی پتہ ہے۔
اصل سوال یا حل طلب مدعا تو یہ ہے کہ جن ایشوز کا ذکر ہوا ہے ، کیا تمام مسلم اکثریتی ممالک اسے اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں؟ اگر بیانات اور قراردادوں کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو درست سمجھتی ہیں ، اگلا سوال یہ ہے کہ پھر یہ تنازعات حل کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ان سوالوں کا ٹھوس اور مدلل جواب او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو ضرور دینا چاہیے کہ بطور تنظیم، وہ ان ایشوز کو حل کرانے میں ناکام کیوں رہتی ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا ویڈیو پیغام بھی چلایا گیا ۔نائیجرکے وزیرخارجہ ہاسومی مسعودی نے اپنے افتتاحی خطاب میں امت مسلمہ کے اجتماعی اہداف کے حصول کے لیے کوششوں، کامیابیوں اور اقدامات پر روشنی ڈالی۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین اسلامی ممالک کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے کے لیے تیار ہے، انھوں نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان سے دوستانہ تعلقات چین کی روایات کی بنیاد ہیں اور چین اقوام متحدہ میں اسلامی دنیا کی حمایت نہیں بھول سکتا۔ چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے چین کی حمایت ہمیشہ غیرمتزلزل رہی ہے، چین دو ریاستی حل کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے، 54 مسلم ممالک نے ایک سڑک ایک راستہ منصوبے پر دستخط کیے ہیں، چین مسلم دنیا میں 600 منصوبوں پر 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ تہذیبوں کے مابین مذاکرات اور تصادم سے بچنے کے لیے آگے بڑھنا ہو گا اور چین تہذیبوں کے مابین تصادم نہیں بلکہ مذاکرات کا حامی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ آج دنیا کو درپیش موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا ناگزیر ہے، ہمیں اخلاقی دیوالیہ پن کے حامل عالمی مالیاتی نظام میں اصلاح کرنی چاہیے اور مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی ہم محفوظ دنیا کے لیے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف پاکستان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں البتہ اس سلسلے میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے دوران خطاب افغانستان کے نئے حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں اور انسانی حقوق کا احترام کریں۔انھوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں،فیصل بن فرحان نے یمن کے حوثی باغیوں سے اسلحہ اسمگلنگ ختم، حملے بند، بحری سلامتی یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یمن کو انسانی ہمدردی کے تحت ہر ممکن امداد کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو انصاف فراہم کیا جائے اور مسئلے کا منصفانہ حل نکالا جائے۔او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے اس موقعے پر اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں نوآبادیاتی نظام پر مبنی ہیں اور اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہے،سیکریٹری جنرل نے کہا کہ مسئلہ جموں و کشمیر ایک طویل عرصہ سے حل سے محروم ہے،مسئلہ کا حل کشمیری عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ایک استصواب رائے میں ہے۔
نائیجر کے وزیر خارجہ حسومی مسعودو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افریقہ اور دیگر خطوں میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کی کردار سازی پر توجہ دی جائے، کشمیر اور فلسطین پر موثر آواز بلند کی گئی تھی، گروپس کے مختلف اجلاس ہوئے تاہم قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔قازقستان کے نائب وزیراعظم مختار تلبردی نے کہا قازقستان مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ حل چاہتا، اس کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کا بھی منصفانہ حل ہونا چاہیے۔
اسلامی ترقیاتی بینک گروپ کے صدر ڈاکٹرمحمدالجسیر نے کہا ہے کہ افغانستان کے عوام کی امداد کے لیے اسلامی تعاون تنظیم اور امداد دینے والے ممالک اور اداروں کے علاوہ بین الاقوامی برادری کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے،انھوں نے او آئی سی ممالک کے درمیان تجارت اور تجارتی راہداریوں کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
او آئی سی کے ہر اجلاس میں باتیں اچھی ہوتی ہیں لیکن عملاً کچھ نہیں ہوتا۔اسلامی ممالک کی اتحادی تنظیمیں تو موجود ہیں مگر ان میں باہمی تجارت کے فروغ،سائنس وٹیکنالوجی،زرعی اور صنعتی میدان میں ترقی اور تحقیق کے مشترکہ پلیٹ فارم موجود نہیں ہیں۔ اسلامی ملکوں کی لیڈرشپ ' دانشوروں اور مفکرین کو اس حوالے سے کام کرنا چاہیے کہ کس طرح اسلامی ملکوں کو ایسے متحد کیا جائے کہ وہ جی ایٹ، جی ٹوئنٹی یا نیٹو طرز کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔