کچہری

اس ’’کچہری‘‘ آمیز سفر اور غزالی ایجوکیشن کے فنڈریزر میں شرکت کی وجہ سے دو مزید رنگ بھی شامل ہوئے

Amjadislam@gmail.com

کورٹ کچہری ، ضلع کچہری، کُھلی کچہری ایسے الفاظ ہیں جن سے بوجوہ آشنا چِٹے اَن پڑھ لوگ بھی کم از کم وطنِ عزیز کی سطح تک ، ہر جگہ اور با آسانی مل جاتے ہیں لیکن اس لفظ کے جو معانی اور مقاماتِ استعمال میں نے جام شورو کی سندھ یونیورسٹی کے شعری میلے (جو شاعری کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جارہا تھا ) میں شرکت کے دوران سیکھے اور سمجھے وہ میرے لیے بالکل نئے تھے۔

ہُوا یہ کہ تقریب کے منتظم ڈاکٹر اسحق سمیجو سے پروگرام کی تفصیلات کی بات ہو رہی تھی جس میں انھوں نے دو تین مرتبہ اس طرح کے جملے کہے کہ اس کے بعد یا اس دوران میں ہم کچہری کریں گے، بات کچھ پلے نہیں پڑی کہ مشاعرے یا تقریب کے اختتام پر یا کھانے کے بعد ''کچہری'' کیوں اور کہاں کی جائے گی ۔

ماناکہ مرزا غالب سمیت بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے مختلف حوالوں سے کورٹ کچہری کا سامنا کیا ہے لیکن میں تو صرف اُن کی فرمائش پر ایک مشاعرے کی صدارت کے لیے حاضر ہو رہا تھا ۔ جام شورو یونیورسٹی پہنچنے اور افتتاحی تقریب کے اختتام پر بھی انھوں نے کچہری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو سمجھ میں آنے لگاکہ اُن کی مراد بات چیت یا گپ شپ سے ہے جسے ہماری طرف بیٹھک یا محفل اور انگریزی میں Short Sitting یا Chatکہا جاتاہے، بالآخر کل صبح اُن کے گھر پر ناشتے کے دوران یہ معرکا سر ہوگیا یعنی کچہری لگی تو نہیں مگر سجی ضرور۔ جس میں اسحق سمیجو کے تھر سے آئے ہوئے دوست خلیل کمہار بھی''شریک مقدمہ'' رہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ لاہورکے فیض میلے میں سمیجو بھائی نے جام شورو آنے کی جو دعوت دی تھی اُس کی تعمیل کی ایک صورت خود بخود کچھ اس طرح سے پیدا ہوگئی کہ کراچی کے کارپوریٹ گروپ کا چوتھا مشاعرہ کووڈ کی وجہ سے ملتوی ہونے کے بعد بالآخر 19 مارچ کو ہونا طے پاگیا جبکہ ساکنان شہرِ قائد کراچی کے عالمی مشاعرے کی روایتی تاریخ 22مارچ پہلے سے طے تھی سو 21 مارچ جام شورو کی تقریب کے لیے طے پاگیا جو یونیورسٹی کے شیخ ایاز آڈیٹوریم میں صورت پذیر ہوا، طلبہ کا جوش و خروش، اساتذہ کی وائس چانسلر صاحب سمیت دلچسپی اور سندھ حکومت کے وزیر کلچر سید سردار احمد شاہ کی دلچسپ تقریر کی وجہ سے یہ تقریب انتہائی کامیاب رہی۔

کراچی آرٹس کونسل کی مختلف تقریبات میں سردار شاہ کو کئی بار سننے کا موقع ملا ہے ۔ وہ مدعو تو شائد اپنے سرکاری رتبے کی وجہ سے ہوئے تھے مگر ادبی محفلوںمیں وہ یہ پورٹ فولیو نظر انداز کرکے شرکت کرتے ہیں اور اپنی گفتگو اور وزیر نہ لگنے کی وجہ سے اور بھی اچھے لگتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ اس بار کا یہ دورہ کراچی دو مشاعروں کا مرہون منت تھا لیکن اس میں اس ''کچہری'' آمیز سفر اور غزالی ایجوکیشن کے فنڈریزر میں شرکت کی وجہ سے دو مزید رنگ بھی شامل ہوئے۔


غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے کاموں کے بارے میں، میں اکثر لکھتا رہتاہوں کہ اس دورمیںجب تعلیم اور صحت باقاعدہ کاروبار بن چکے ہیں یہ لوگ اپنے تمام اسکول دُورافتادہ علاقوں اور گاؤں میں بناتے ہیں جہاں اچھی فیس ملنا تو ایک طرف والدین کو اس بات پر آمادہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں بالخصوص بیٹیوں اور سپیشل بچوںکو بھی تعلیم دلوائیں، سو اخوّت، الخدمت اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں کا ہاتھ بٹانا بلاشبہ ایک اہم اور نیکی کا کام ہے ۔

یہ تقریب چونکہ کراچی کی حد تک اس ادارے کی ایک تعارفی تقریب تھی اس لیے اس کا مقصد فنڈز اکٹھا کرنے سے زیادہ اہلِ دل کو اس کے کاموں اور کامیابیوں سے آگاہ کرنا بھی تھا اور یہ دونوں کام بخوبی ہوگئے ۔

اور اب آخرمیں کچھ بات اس پہلی تقریب کے بارے میں جس کے میزبان کارپوریٹ گروپ کے احباب تھے اور گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی عدنان رضا اظفر بھائی اور فارم ایوو کے سید جمشید سے ہی زیادہ ملاقات رہی، موہنہ پیلس کراچی کے وسیع سبزہ زار میں تقریباً ڈھائی ہزار سخن پرور احباب جمع تھے اور ان میں سے بیشتر لوگ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ تھے سو یہ محفلِ رنگ، محبت، توجہ اور داد کا ایک ایسا مجموعہ تھی کہ مشاعروں کی حد تک اب ایسی محفلیں تقریباً معدوم ہی ہوچکی ہیں۔چاندنی رات سمندرکی طرف سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوائیں، خوب صورت اسٹیج اور سخن پرور سامعین نے مل جل کر ایسا سماں باندھا کہ بہت دن بعد شعر سنانے کا لطف آیا۔

نظامت کے فرائض ناصرہ زبیری نے انجام دیے جن کے گھر اگلے دن برنچ کی دعوت میں بہت سے نئے اور پرانے دوستوں سے ملاقات رہی شاعروں کی تعدادحسب معمول محدود یعنی صرف 11 تھی نوجوان نسل کی نمایندگی عزیزی عمیر نجمی اور احمد سلمان احمدنے بہت اچھے انداز میں کی، صدارت افتخار عارف کی تھی مہمان خاص میں اور عطا ء الحق قاسمی تھے جبکہ درمیان میں عرفان ستار، حمیدہ شاہین، احمد نوید ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے دادِ سُخن دی۔ سامعین میں بھی ہر شعبہ زندگی کے اور نمایندہ افراد تشریف فرما تھے، اسٹیج اور شاعروں کے درمیان فاصلہ بھی کم ہونے کی وجہ سے ماحول اور زیادہ دلچسپ اور بھرپورہوچکا تھا۔اب چلتے چلتے کچہری کے حوالے سے مرزا غالب کے وہ دو اشعار بھی سُن لیجیے جو مجھے کچھ اس طرح سے یاد آرہے ہیں۔

دل و دیدہ کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اُس کی رُوح بکاری ہے

پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
زلف بھی پھر سرشتہ داری ہے
Load Next Story