23 مارچ اور میثاق جمہوریت دوسرا اور آخری حصہ

عمران خان کو ملک کی تاریخ کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنا چاہیے

tauceeph@gmail.com

صوبوں میں مالیاتی کمیشن بھی قائم ہونے تھے مگر برسر اقتدار حکومتوں نے اس مسائل پر توجہ نہ دی۔ پنجاب ، وفاق ، سندھ اور اے این پی کی طرف سے خیبر پختون خوا میں اچھی طرز حکومت قائم نہ ہوسکی۔ کرپشن کا پودا تناور ہونے لگا۔

اس دوران میاں نواز شریف میمو اسکینڈل کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے کی مہم میں لگ گئے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سوموٹو اختیارکے ذریعہ منتخب حکومت کو مفلوج کیا۔ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ شدت اختیارکرگیا مگر بلوچستان میں حالات پہلے سے زیادہ خراب رہے۔ وہاں وفاقی اور صوبائی حکومت اپنی رٹ قائم نہ کرسکی۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں نااہل قرار دے دیا تو مسلم لیگ والے مسرت کا اظہار کرنے لگے۔

پیپلز پارٹی کے اقتدار کے آخری برسوں میں مولانا طاہر القادری نامعلوم افراد کے مشورے پرکینیڈا سے لاہور آئے۔ انھوں نے خود مختار الیکشن کمیشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا ، مگر تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق کی وجہ سے یہ دھرنا کامیاب نہ ہوسکا۔ 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف نے پہلی دفعہ حکومتیں بنائی ۔

بلوچستان میں ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ بنے پھر بااثر سیاست دانوں کو بشارت ہونے لگی اور کئی سیاست دان جو ماضی میں منتخب ہوتے تھے تحریک انصاف کی طرف دوڑ پڑے۔ الیکٹ ایبلز کی اس دوڑ نے مسلم لیگ ق کو براہ راست متاثر کیا۔ پرویز الٰہی نے اس صورتحال کی ذمے داری ایک بڑے افسر پر عائد کی۔ عمران خان نے چار حلقوں کو کھولنے کے مطالبہ کو منوانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا ، ان کے ساتھ طاہر القادری بھی تھے۔

عمران خان نے نواز حکومت کی برطرفی، ٹیکنو کریٹس حکومت کے قیام ، عوام سے سول نافرمانی شروع کرنے، بیرون ملک پاکستانیوں سے قانونی چینل سے رقم نہ بھجوانے کی اپیلیں کیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے میثاق جمہوریت اور 18ویں ترمیم کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ میاں نواز شریف پانامہ اسکینڈل کو نا سمجھ سکے اور اعلیٰ عدالت میں چلے گئے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکومت کو مفلوج کیا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف والے ان کے ہمنوا تھے۔


سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مودی کو لاہور بلایا۔ مودی کا لاہور آنا ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسی سے متصادم تھا۔ بلوچستان میں ایک نئی جماعت ''باپ'' وجود میں آگئی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اتحاد قائم کیا۔ پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی ، پھر دونوں جماعتوں نے سینٹ میں چیئرمین کے انتخاب کے لیے صادق سنجرانی کو ووٹ دیے۔ پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے ۔ 2017-18ء میں مقتدر حلقوں نے سرائیکی بیلٹ کے علاقہ میں منتخب اراکین اور الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف کی طرف راغب کیا۔ ان میں پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی شامل تھے۔

2018ء کے انتخابات میں RTSکا نظام اچانک مفلوج ہوا۔ عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا مگر ان کی حکومت نے کبھی RTS کے بند ہونے کی تحقیقات کے بارے میں نہیں سوچا ، جب سینیٹ میں حزب اختلاف نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش کی تو اس وقت سینیٹ میں اکثریت حزب اختلاف کی جماعتوں کی تھی۔ سینیٹر حاصل بزنجو حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار تھے۔

تحریک انصاف والوں پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگے ، جن سینیٹروں نے اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دیے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ انھوں نے اپنے ضمیرکی آواز پر فیصلہ کیا ہے۔ اب ایسی ہی صورتحال کا عمران خان کو بھی سامنا ہے۔ ان کی جماعت کے بہت سے اراکین اسی طرح کی ضمیر کی آواز پر منحرف ہوئے ہیں مگر یہ مجموعی صورتحال جمہوری نظام کے حق میں نہیں۔ پیپلز پارٹی عمران خان کے انتخاب کو سلیکٹرز کی غلطی قرار دیتی ہے مگر اب پیپلز پارٹی آصفہ زرداری پر ڈرون حملے کی تحقیقات آئی ایس آئی سے کرانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

عمران خان نے میثاق جمہوریت کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ 18ویں ترمیم کے خلاف ایک مذموم مہم چلائی۔ اسی میثاق جمہوریت کی بناء پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے تاریخ میں پہلی دفعہ اپنی آئینی مدت پوری کی تھیں۔ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی بناء پر ملک تنہائی کی جانب بڑھنے لگا۔ موجودہ حکومت ایک طرف تو امریکا سے لڑ رہی ہے تو دوسری طرف بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کو تیار نہیں، یوں معیشت مسلسل زوال پذیر ہے۔

عمران خان کو ملک کی تاریخ کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ فوری طور پر استعفیٰ دے کر 70 سال کے دوران ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، جمعیت علماء اسلام اور اے این پی نے عمران خان سے نجات کا راستہ تلاش کرلیا ہے مگر یہ صورتحال مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اس ملک کا کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پا رہا۔ تحریک انصاف کے معقول لوگوں کو ایک نئے میثاق جمہوریت کے لیے سوچ بچار کرنی چاہیے۔ ڈیپ اسٹیٹ کے کردار کے خاتمہ سے ہی ملک میں حقیقی وفاقی نظام حکومت قائم ہوسکتا ہے۔

ایک ایسا نظامِ حکومت جہاں انسانی حقوق کی بالادستی ہو ، جہاں صوبوں کو خودمختاری کی یقین دہانی ہو، جہاں حکومت کی تمام پالیسیاں عوام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہوں مگر یہ منزل اسی وقت آسکتی ہے جب تمام سیاسی جماعتیں ایک نئے میثاق جمہوریت کی طرف متفق ہوں۔
Load Next Story