سبزیوں کا استعمال ذیابیطس میں 14فیصد کمی
پالک ، بند گوبھی جیسی پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال ذیابیطس کے خطرات کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے
LONDON:
برطانوی محققین کی ایک نئی تحقیق کے مطابق پالک، بند گوبھی اور شاخ گوبھی جیسی پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال عام انسانوں میں ٹائپ ٹو طرز کے ذیابیطس کے خطرے کو 14 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے ان گزشتہ معلومات اور ان کے نتائج پر بھی تفصیلی غور کیا، جو اسی موضوع پر پہلے سے مکمل کئے گئے چھ ریسرچ منصوبوں سے حاصل ہوئی تھیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام انسانوں میں بڑھتا ہوا موٹاپا بھی ذیابیطس کی ٹائپ ٹو بیماری کے خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے اور پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال اس خطرے کو کم کرنے میں مدد تو دیتا ہے لیکن ساتھ ہی متعلقہ افراد کو اپنی متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش پر بھی لازمی توجہ دینا چاہئے۔
لیسٹر یونیورسٹی کے ذیابیطس سے متعلقہ تحقیق کے شعبے کی خاتون ماہر پیٹریس کارٹر کا کہنا ہے کہ اس ریسرچ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ بڑے پتوں والی سبزیاں ٹائپ ٹو ذیابیطس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق اور اس سے قبل مکمل کئے گئے چھ تحقیقی منصوبوں کے دوران امریکہ، چین اور فن لینڈ میں 30 سے لے کر 74 برس تک کے عمروں کے دو لاکھ افراد سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ Patrice Carter کے بقول ذیابیطس ٹائپ ٹو سے بچاؤ میں پھلوں کا ستعمال بھی کافی مددگار ثابت ہوتا ہے مگر بڑے بڑے سبز پتوں والی سبزیاں پھلوں سے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں، جن پر اب مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
برطانوی ماہرین کی اس ٹیم کے مطابق پالک اور بند گوبھی جیسی سبزیوں میں میگنیشیم اور اومیگا تھری نامی fatty acid زیادہ پائے جاتے ہیں، جو چربی میں کمی کے عمل میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں اور جن کا استعمال یوں بھی صحت کے لئے کافی فائدہ مند ہوتا ہے۔
پیٹریس کارٹر اور ان کے ساتھیوں نے جن گزشتہ تحقیقی منصوبوں کے نتائج کا نئے سرے سے مطالعہ کیا، ان میں زیر مطالعہ افراد کا فی کس بنیادوں پر ساڑھے چار سال سے لے کر 23 برس کے طویل عرصے تک مشاہدہ کیا گیا تھا۔ اس دوران ان تفصیلات کا بھی دوبارہ تجزیہ کیا گیا کہ تب کس شخص نے روزانہ کتنی مقدار میں کون کون سے پھل اور سبزیاں کھائی تھیں اور ان میں سے بعد میں کون کون سے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض تشخیص کیا گیا تھا۔
اس پورے تقابلی مطالعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ مقدار میں سبزیاں یا پھل یا دونوں کا استعمال کرنے والے مریضوں میں تو ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات کے حوالے سے کوئی نمایاں فرق نہ نکلا البتہ ایسے مریضوں میں اس بیماری کی شرح واضح طور پر کم رہی تھی، جو دن میں ایک سے زائد مرتبہ بڑے سبز پتوں والی سبزیاں استعمال کرتے رہے تھے۔ پھر جب اس ریسرچ کی شماریاتی تفصیلات سامنے آئیں تو ثابت ہو گیا کہ سبز پتوں والی سبزیاں استعمال کرنے والے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات کا تناسب ایسا نہ کرنیوالوں کے مقابلے میں 14 فیصد کم تھا۔
ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی انسانی جسم اپنی ہی تیار کردہ انسولین کو مناسب انداز میں استعمال نہیں کر سکتا۔ انسولین ایک ایسا ہارمون ہے، جو خون میں پائے جانے والے گلوکوز کی شرح کو کنٹرول کرتا ہے۔ بلڈ گلوکوز کی اس شرح کو عرف عام میں بلڈ شوگر لیول بھی کہتے ہیں اور اگر یہ شرح مسلسل زیادہ رہے تو اس کے شدید اثرات انسانی آنکھوں، گردوں، دل اور کئی دیگر اعضاء کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں قریب 180 ملین انسان ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پہلے یہ مرض صرف امیر اور خوشحال ملکوں میں نظر آنے والی بیماری سمجھا جاتا تھا مگر اب افریقی اور ایشیائی ملکوں میں بھی اس مرض کے واقعات میں ڈرامائی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے نظام پر اضافی بوجھ کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ذیابیطس عرف عام میں ایک لاعلاج مرض ہے۔ یعنی اس کا کوئی مستقبل اور یکبارگی علاج نہیں ہے بلکہ مریض کو ہر وقت یہ کوشش کرنا پڑتی ہے کہ وہ موٹاپے کا شکار نہ ہو اور چاک و چوبند رہے۔ کئی مریض صرف اپنی خوراک کنٹرول کرنے سے ہی خون میں گلوکوز کی سطح کو مسلسل کم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ دیگر مریضوں کو ادویات اور انتہائی حالات میں انسولین کے ٹیکوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کے موٹاپے اور ذیابیطس سے متعلق ایڈگر نیشنل ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر جم مین اور لندن میں امپیریل کالج کے ڈیگفن آؤن نے اپنی اس ریسرچ میں یہ بھی لکھا ہے کہ صرف بڑے سبز پتوں والی سبزیوں کو ہی ہر مسئلے کا حل نہیں سمجھا جانا چاہئے بلکہ اس حوالے سے اس پورے 'فوڈ گروپ' کو ذہن میں رکھا جانا چاہئے۔
برطانوی محققین کی ایک نئی تحقیق کے مطابق پالک، بند گوبھی اور شاخ گوبھی جیسی پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال عام انسانوں میں ٹائپ ٹو طرز کے ذیابیطس کے خطرے کو 14 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے ان گزشتہ معلومات اور ان کے نتائج پر بھی تفصیلی غور کیا، جو اسی موضوع پر پہلے سے مکمل کئے گئے چھ ریسرچ منصوبوں سے حاصل ہوئی تھیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام انسانوں میں بڑھتا ہوا موٹاپا بھی ذیابیطس کی ٹائپ ٹو بیماری کے خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے اور پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال اس خطرے کو کم کرنے میں مدد تو دیتا ہے لیکن ساتھ ہی متعلقہ افراد کو اپنی متوازن غذا اور باقاعدہ ورزش پر بھی لازمی توجہ دینا چاہئے۔
لیسٹر یونیورسٹی کے ذیابیطس سے متعلقہ تحقیق کے شعبے کی خاتون ماہر پیٹریس کارٹر کا کہنا ہے کہ اس ریسرچ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ بڑے پتوں والی سبزیاں ٹائپ ٹو ذیابیطس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق اور اس سے قبل مکمل کئے گئے چھ تحقیقی منصوبوں کے دوران امریکہ، چین اور فن لینڈ میں 30 سے لے کر 74 برس تک کے عمروں کے دو لاکھ افراد سے متعلق ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ Patrice Carter کے بقول ذیابیطس ٹائپ ٹو سے بچاؤ میں پھلوں کا ستعمال بھی کافی مددگار ثابت ہوتا ہے مگر بڑے بڑے سبز پتوں والی سبزیاں پھلوں سے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں، جن پر اب مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
برطانوی ماہرین کی اس ٹیم کے مطابق پالک اور بند گوبھی جیسی سبزیوں میں میگنیشیم اور اومیگا تھری نامی fatty acid زیادہ پائے جاتے ہیں، جو چربی میں کمی کے عمل میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں اور جن کا استعمال یوں بھی صحت کے لئے کافی فائدہ مند ہوتا ہے۔
پیٹریس کارٹر اور ان کے ساتھیوں نے جن گزشتہ تحقیقی منصوبوں کے نتائج کا نئے سرے سے مطالعہ کیا، ان میں زیر مطالعہ افراد کا فی کس بنیادوں پر ساڑھے چار سال سے لے کر 23 برس کے طویل عرصے تک مشاہدہ کیا گیا تھا۔ اس دوران ان تفصیلات کا بھی دوبارہ تجزیہ کیا گیا کہ تب کس شخص نے روزانہ کتنی مقدار میں کون کون سے پھل اور سبزیاں کھائی تھیں اور ان میں سے بعد میں کون کون سے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض تشخیص کیا گیا تھا۔
اس پورے تقابلی مطالعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ مقدار میں سبزیاں یا پھل یا دونوں کا استعمال کرنے والے مریضوں میں تو ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات کے حوالے سے کوئی نمایاں فرق نہ نکلا البتہ ایسے مریضوں میں اس بیماری کی شرح واضح طور پر کم رہی تھی، جو دن میں ایک سے زائد مرتبہ بڑے سبز پتوں والی سبزیاں استعمال کرتے رہے تھے۔ پھر جب اس ریسرچ کی شماریاتی تفصیلات سامنے آئیں تو ثابت ہو گیا کہ سبز پتوں والی سبزیاں استعمال کرنے والے مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات کا تناسب ایسا نہ کرنیوالوں کے مقابلے میں 14 فیصد کم تھا۔
ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی انسانی جسم اپنی ہی تیار کردہ انسولین کو مناسب انداز میں استعمال نہیں کر سکتا۔ انسولین ایک ایسا ہارمون ہے، جو خون میں پائے جانے والے گلوکوز کی شرح کو کنٹرول کرتا ہے۔ بلڈ گلوکوز کی اس شرح کو عرف عام میں بلڈ شوگر لیول بھی کہتے ہیں اور اگر یہ شرح مسلسل زیادہ رہے تو اس کے شدید اثرات انسانی آنکھوں، گردوں، دل اور کئی دیگر اعضاء کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں قریب 180 ملین انسان ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پہلے یہ مرض صرف امیر اور خوشحال ملکوں میں نظر آنے والی بیماری سمجھا جاتا تھا مگر اب افریقی اور ایشیائی ملکوں میں بھی اس مرض کے واقعات میں ڈرامائی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے نظام پر اضافی بوجھ کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ذیابیطس عرف عام میں ایک لاعلاج مرض ہے۔ یعنی اس کا کوئی مستقبل اور یکبارگی علاج نہیں ہے بلکہ مریض کو ہر وقت یہ کوشش کرنا پڑتی ہے کہ وہ موٹاپے کا شکار نہ ہو اور چاک و چوبند رہے۔ کئی مریض صرف اپنی خوراک کنٹرول کرنے سے ہی خون میں گلوکوز کی سطح کو مسلسل کم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ دیگر مریضوں کو ادویات اور انتہائی حالات میں انسولین کے ٹیکوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کے موٹاپے اور ذیابیطس سے متعلق ایڈگر نیشنل ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر جم مین اور لندن میں امپیریل کالج کے ڈیگفن آؤن نے اپنی اس ریسرچ میں یہ بھی لکھا ہے کہ صرف بڑے سبز پتوں والی سبزیوں کو ہی ہر مسئلے کا حل نہیں سمجھا جانا چاہئے بلکہ اس حوالے سے اس پورے 'فوڈ گروپ' کو ذہن میں رکھا جانا چاہئے۔