قومی معاملات پر یکسوئی
قومی سلامتی کے معاملات پر یکسو ہوکر اور تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں
کسی بھی ریاست کی کامیابی کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ حکومت کس طرح ریاست کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کو ممکن بناتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام دنیا میں سیاست کے سارے نقطہ نظر اسی مرکزکے گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔ جو بھی ریاست اپنی بقا اور مفادات کے حصول میں کامیاب ہوجاتی ہے وہی کامیاب ریاست کہلاتی ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب سے بڑا کردار ان پالیسیوں کا ہوتا ہے جوکہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے بناتی ہیں یہ بات تو طے ہے کہ آج کے گلوبل ولیج کے تصور کے دوران کسی بھی ملک کے لیے ممکن نہیں کہ وہ تنہا رہ سکے۔
اسی لیے دو طرفہ تعلقات کو بڑی اہمیت حاصل ہے کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں اس کی ترقی کے لیے ضروری ہے کن ریاستوں سے دوستانہ روابط ضروری ہیں کن ریاستوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو چلانا ہے یا پھر ایسے ممالک جن سے نظریاتی، معاشی کسی بھی طرح کے تحفظات ہیں تو ان ممالک سے کس طرح ڈیل کرنی ہے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کوئی حکومت اپنی ریاست کے تحفظ اور سلامتی کو ممکن بناتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت تقریباً پوری دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی قدرے مسائل درپیش ہیں۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا حصہ تھا اس کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہو پائے ان تمام تر باتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم اڑسٹھ سال گزر جانے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ہمارے قومی مفادات کیا ہیں اور ان کا براہ راست تعلق قوم و ملک کی سلامتی سے کس حد تک ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ ہی پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور اسی نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا ہے مگر یہ تمام سیاسی لوگ جنھیں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اندر سے ایک، بس کارکن آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر لیڈر مفاہمت کی پالیسی پر کاربند رہ کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں، یہ طبقہ صرف اپنے مفادات کے لیے قوانین بناتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اسمبلی نے جاتے جاتے جو کام دکھایا اس پر ایم کیو ایم، (ن)لیگ، اے این پی سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی نے ایک لفظ نہیں کہا کیونکہ ان اقدامات سے فائدہ سب نے اٹھانا تھا اسی لیے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نام دے دیا گیا ہے جس کی مثال کالا باغ ڈیم ہے۔ کالا باغ ڈیم کو آج تک بننے نہیں دیا گیا کیونکہ ذاتی مفادات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی حالانکہ اس وقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر بھارت مسلسل ڈیم بنا رہا ہے تقسیم کے بعد سے بھارت نے 300 سے زائد ڈیم تعمیر کرلیے مگر ہم ایک ڈیم نہ بناسکے۔ بھارت مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کی تازہ مثال کشن گنگا ڈیم کی تعمیر ہے جس سے دریائے نیلم کے پانی جوکہ کشمیر میں آتا ہے ایک نالے کی صورت اختیار کرلے گا کشمیر قلت آب کا شکار ہوجائے گا اسی طرح ہمارے دوسرے دریا سوکھ رہے ہیں مگر کسی حکمراں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
وجہ صاف ظاہر ہے ہمارے ذاتی مفادات کالاباغ ڈیم کے نہ بننے میں ہیں تو پھر ہم کیوں ایسا کام کریں جس سے ہمیں فائدہ نہ ہو۔ اسی طرح ایران سے گیس کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے اب قطر سے معاہدے کی بات ہو رہی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کب قومی معاملات پر یکسوئی کا مظاہرہ کریں گے۔ سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قوم اس کی قومی سلامتی اور ملکی استحکام کی بنیادیں اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتیں جب تک حکومت کرنے والے اور جن پر حکومت کی جائے ان کی سوچ اور نظریات ایک جیسے نہ ہوں آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ پاکستانی قوم جب جب کسی نقطے پر مرکوز ہوئی وہاں کامیابیاں ہمنوا ہوگئیں ورنہ انتشار، بدنظمی اور علاقائی گروہی سیاست نے ملک کی بدنامی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ حکومت پاکستان جب تک اپنے نصب العین کو مرکوز نہیں رکھے گی ریاست کا تحفظ اور قومی سلامتی غیر یقینی کیفیت کا شکار رہے گی اس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں تو قومی سلامتی کی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے اس صورت حال میں ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ہمارا نصب العین واضح ہو۔ قومی مفادات غیر مبہم نہ ہوں بلکہ ہر سیاسی پارٹی کا ان پر مکمل اتفاق ہو۔
قومی سلامتی کے معاملات پر یکسو ہوکر اور تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں تو ہم اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھ سکیں گے ورنہ اسی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھاگتے رہیں گے قومی ترقی اور قومی مفادات کے تحفظ کا انحصار ہی سیاسی عناصر کے باہمی ربط پر منحصر ہے اور باہمی ربط کے لیے ضروری ہے کہ کسی گروہ کو کسی دوسرے گروہ پر فوقیت حاصل نہ ہو اگر ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت دلائی جاتی ہے اور ایک طبقے کو دوسرے طبقے سے زیادہ مراعات حاصل ہوجاتی ہیں تو ملک میں رہنے والوں کے درمیان محبتیں ختم ہوجاتی ہیں نفرتیں جنم لے لیتی ہیں، ناراضگیاں، تلخیاں، گروہ بندیاں، علاقائی نقصانات بڑھ جاتے ہیں اور پھر حب الوطنی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ آج پاکستان میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے جس کی وجہ سے یکجہتی کے نظریے کو ٹھیس پہنچ رہی ہے سرمایہ دارانہ، تاجرانہ خیالات نے ملکی اقتدار پر قبضہ جمالیا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صاف کہہ دیا تھا کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے۔
اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اولاد میں بھی تفرق نہ کریں کیونکہ اگر ایک ماں یا باپ کسی اولاد کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو دوسری اولاد میں بھی نفرت جنم لے لیتی ہے اس لیے موجودہ حکومت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ تمام صوبوں پر یکساں توجہ دے لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں منصفانہ طریقے سے کام لیا جائے ۔
اسی لیے دو طرفہ تعلقات کو بڑی اہمیت حاصل ہے کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں اس کی ترقی کے لیے ضروری ہے کن ریاستوں سے دوستانہ روابط ضروری ہیں کن ریاستوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو چلانا ہے یا پھر ایسے ممالک جن سے نظریاتی، معاشی کسی بھی طرح کے تحفظات ہیں تو ان ممالک سے کس طرح ڈیل کرنی ہے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کوئی حکومت اپنی ریاست کے تحفظ اور سلامتی کو ممکن بناتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت تقریباً پوری دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی قدرے مسائل درپیش ہیں۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا حصہ تھا اس کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہو پائے ان تمام تر باتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم اڑسٹھ سال گزر جانے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ہمارے قومی مفادات کیا ہیں اور ان کا براہ راست تعلق قوم و ملک کی سلامتی سے کس حد تک ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ ہی پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور اسی نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا ہے مگر یہ تمام سیاسی لوگ جنھیں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اندر سے ایک، بس کارکن آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر لیڈر مفاہمت کی پالیسی پر کاربند رہ کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں، یہ طبقہ صرف اپنے مفادات کے لیے قوانین بناتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اسمبلی نے جاتے جاتے جو کام دکھایا اس پر ایم کیو ایم، (ن)لیگ، اے این پی سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی نے ایک لفظ نہیں کہا کیونکہ ان اقدامات سے فائدہ سب نے اٹھانا تھا اسی لیے ذاتی مفادات کو قومی مفادات کا نام دے دیا گیا ہے جس کی مثال کالا باغ ڈیم ہے۔ کالا باغ ڈیم کو آج تک بننے نہیں دیا گیا کیونکہ ذاتی مفادات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی حالانکہ اس وقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر بھارت مسلسل ڈیم بنا رہا ہے تقسیم کے بعد سے بھارت نے 300 سے زائد ڈیم تعمیر کرلیے مگر ہم ایک ڈیم نہ بناسکے۔ بھارت مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کی تازہ مثال کشن گنگا ڈیم کی تعمیر ہے جس سے دریائے نیلم کے پانی جوکہ کشمیر میں آتا ہے ایک نالے کی صورت اختیار کرلے گا کشمیر قلت آب کا شکار ہوجائے گا اسی طرح ہمارے دوسرے دریا سوکھ رہے ہیں مگر کسی حکمراں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
وجہ صاف ظاہر ہے ہمارے ذاتی مفادات کالاباغ ڈیم کے نہ بننے میں ہیں تو پھر ہم کیوں ایسا کام کریں جس سے ہمیں فائدہ نہ ہو۔ اسی طرح ایران سے گیس کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے اب قطر سے معاہدے کی بات ہو رہی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کب قومی معاملات پر یکسوئی کا مظاہرہ کریں گے۔ سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قوم اس کی قومی سلامتی اور ملکی استحکام کی بنیادیں اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتیں جب تک حکومت کرنے والے اور جن پر حکومت کی جائے ان کی سوچ اور نظریات ایک جیسے نہ ہوں آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ پاکستانی قوم جب جب کسی نقطے پر مرکوز ہوئی وہاں کامیابیاں ہمنوا ہوگئیں ورنہ انتشار، بدنظمی اور علاقائی گروہی سیاست نے ملک کی بدنامی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ حکومت پاکستان جب تک اپنے نصب العین کو مرکوز نہیں رکھے گی ریاست کا تحفظ اور قومی سلامتی غیر یقینی کیفیت کا شکار رہے گی اس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں تو قومی سلامتی کی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے اس صورت حال میں ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ہمارا نصب العین واضح ہو۔ قومی مفادات غیر مبہم نہ ہوں بلکہ ہر سیاسی پارٹی کا ان پر مکمل اتفاق ہو۔
قومی سلامتی کے معاملات پر یکسو ہوکر اور تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں تو ہم اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھ سکیں گے ورنہ اسی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھاگتے رہیں گے قومی ترقی اور قومی مفادات کے تحفظ کا انحصار ہی سیاسی عناصر کے باہمی ربط پر منحصر ہے اور باہمی ربط کے لیے ضروری ہے کہ کسی گروہ کو کسی دوسرے گروہ پر فوقیت حاصل نہ ہو اگر ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت دلائی جاتی ہے اور ایک طبقے کو دوسرے طبقے سے زیادہ مراعات حاصل ہوجاتی ہیں تو ملک میں رہنے والوں کے درمیان محبتیں ختم ہوجاتی ہیں نفرتیں جنم لے لیتی ہیں، ناراضگیاں، تلخیاں، گروہ بندیاں، علاقائی نقصانات بڑھ جاتے ہیں اور پھر حب الوطنی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ آج پاکستان میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے جس کی وجہ سے یکجہتی کے نظریے کو ٹھیس پہنچ رہی ہے سرمایہ دارانہ، تاجرانہ خیالات نے ملکی اقتدار پر قبضہ جمالیا ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صاف کہہ دیا تھا کہ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں سوائے تقویٰ کے۔
اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اولاد میں بھی تفرق نہ کریں کیونکہ اگر ایک ماں یا باپ کسی اولاد کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو دوسری اولاد میں بھی نفرت جنم لے لیتی ہے اس لیے موجودہ حکومت کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ تمام صوبوں پر یکساں توجہ دے لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں منصفانہ طریقے سے کام لیا جائے ۔