بھگت سنگھ کی جدوجہد

جس وقت بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی اس وقت ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا

ali.dhillon@ymail.com

23مارچ کو قرار داد پاکستان پیش کی گئی، جو بعد میں قیام پاکستان کا موجب بنی، ہر سال یہ دن پاکستان میں خوشیاں لاتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا، اور وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے الگ وطن کی ضرورت پیش آئی۔

جب کہ اسی دن 23مارچ 1931 کویعنی قرارداد پاکستان سے 9 برس پہلے لاہور میں ہی برطانوی راج کے دوران تین انقلابی نوجوان بھگت سنگھ،راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی دی گئی تھی۔ان تینوں پر برطانوی پولیس افسر سانڈرس کے قتل کا الزام تھا اور اسی جرم کی سزا میں انھیں پھانسی دی گئی۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی بائیں بازو کی انقلابی سیاست سے منسلک تھے۔بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی پھانسی کے بعد برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کی علامت بن گئے۔

بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی اُس دور میں جدوجہد آزادی کا استعارہ بنے جب انگریز کے خلاف لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کیا پتہ کون انگریز سرکاری کے لیے کام کر رہا ہو ۔ اُس وقت کے حالات کو جانچنے کے لیے 1919 میں ہوئے ایک واقعہ ''سانحہ جلیانوالہ باغ'' ہی کو دیکھ لیں جس کی دہشت سے پورا ہندوستان سہم گیا تھا، کوئی آزادی کی بات کرکے مرنا نہیںچاہتا تھا، ایسے میں بھگت سنگھ نے آزادی کا علم بلند کیا۔ بھگت سنگھ کا تعلق لائل پور سے تھا، جسے آج فیصل آباد کہا جاتا ہے۔

جس وقت بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی، اس وقت ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جدوجہد آزادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پلیٹ فارم سے تھی اور اس پارٹی میں ہندو، مسلمان ، سکھ، عیسائی سمیت تمام لوگ شامل تھے ۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی تختہ دار تک پہنچے اور اس بات کو ثابت کیا کہ ظلم کی طاقت آزادی پسندوں پرکبھی حاوی نہیں ہو سکتی۔ چاہے جتنے بھی مشکل حالات ہوں، متبادل ممکن ہے۔

پاکستان میں آج صورتحال یہ ہے کہ انگریز سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے ہیروز کو بھی مذہب کے نام پر تقسیم کردیا گیا ہے، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، حالانکہ وہ برصغیر کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور اس جدوجہد آزادی میں کسی قسم کی مذہبی، نسلی اور لسانی تقسیم نہیں تھی۔


ہمارے ہاں تو خود کو پڑھا لکھا سمجھنے اور کہلانے والا طبقہ بھی ان کی جدوجہد کی تعریف تو ایک طرف ان کا نام لینے سے بھی کتراتا ہے۔ حالانکہ آپ انگریزوں کو دیکھ لیں، وہ مسلمان شخصیات کا نام لینے سے بالکل نہیں گھبراتے جنھوں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا ۔ مگر ہمارے ارباب اختیار نے شادمان لاہورجہاں ان تینوں افراد کو پھانسی دی گئی تھی اُس کانام ''بھگت سنگھ '' چوک سے بدل کر شادمان چوک رکھ دیا۔

وہ آزادی جس کا کریڈٹ پاکستان میں مسلم لیگی اور ہندوستان میں کانگریسی اپنی اپنی ذات، برادری اور طبقے کے بزرگوں کو دیتے ہیں، اس میں خاکسار بھی شامل تھے، خدائی خدمت گار بھی شامل تھے اور بھگت سنگھ بھی شامل تھا۔ 23 مارچ 1931 کو وہ صرف 23 سال کا تھا مگر سامراج کے لیے ناقابل برداشت خطرہ بن چکا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی آزادی تب ہی ممکن ہوئی جب بھگت سنگھ اور اس جیسے بہت سے نوجوانوں نے اپنی جان دے کر سامراج کو جھنجھوڑا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی پورے برصغیر پاک وہند کے آزادی پسندوں کا ہیرو ہے ۔ اس لیے جنوبی ایشیا کے سارے ہیروز کی فہرست میں بھگت سنگھ بھی شامل ہے۔

میری باتوں سے بعض لوگوں کو شاید اختلاف ضرور ہو مگر قائداعظم محمد علی جنا ح کو بھگت سنگھ کیس کے حوالے سے کیسے بھول سکتے ہیں۔ اسی طرح مولانا ظفرعلی خان اور ابوالکلام آزاد نے بھگت سنگھ کو سپورٹ کیا ، لیکن یہ المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو ایسے بیانیے کا اسیر بنا دیا گیا ہے جس میں برصغیر پاک وہند کی تاریخ کو مسخ کردیا گیا ہے۔ ہم ایسے خیالات کے زیر اثر آچکے ہیں جس کے تحت کسی کو کوئی اعزاز یا مقام دینے کے لیے اس کے مذہب کو بنیاد بنایا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں ایسے کرداروں کو بطور ہیرو شامل کیا گیا ہے جن کا ہمارے خطے سے کوئی تعلق نہیں، وہ ہمارے خطے کی زبانوں میں کوئی زبان بولتے تھے نہ سمجھتے تھے ۔

بھگت سنگھ بھلے ہی غیر مسلم تھا لیکن اس کی جدوجہد اورقربانی کو یاد کر کے ہم اپنے ملک کے نوجوانوں میں کچھ کرنے کا عزم ضرور ابھارا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ قوموں کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے، نوجوان کسی بھی معاشرے کے مستقبل کے آئینے ہوتے ہیں ،کسی قوم کی کامیابی یا ناکامی کا زیادہ دارومدار نوجوان پہ ہوتا ہے۔

جنگ و جدل سے کسی قوم کو نہ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کی تاریخ اور تہذیب مٹانا ممکن ہے۔ جہاں قوموں کی ترقی میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے وہاں اگر ان نوجوانوں پر توجہ نہ دی جائے تو قوموں کی تباہی اور بربادی کے ذمے دار بھی اکثر نوجوان ہی ہوتے ہیں۔لہٰذا جس کا جہاں کریڈٹ بنتا ہے اسے ضرور ملنا چاہیے، بلکہ آج کے نوجوان کو بھگت سنگھ اور اس کی جدوجہد کے بارے میں پڑھانا بہت ضروری ہے، ''جو ذات پات، رنگ نسل بالاتر سوچتا تھا اور کسی پر جبر نہیں دیکھ سکتا تھا، جو طاقتور کے سامنے حق کی بات کرتا تھا۔''
Load Next Story