غربت کا ڈسا لیاری

ملکی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے

shabbirarman@yahoo.com

ملکی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ پہلے ہی ملک میں بے روزگاری اور غربت عام تھی لیکن کورونا وباء کی وجہ سے معاشی ذرایع تباہ و برباد ہوگئے ، جس وجہ سے غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ صوبہ سندھ میں 45 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔

شہر کراچی میں بڑھتی ہوئی غربت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے غربا ء کے لیے مفت دستر خوان اور مفت ریسٹورنٹ بہت سی جگہوں پر قائم ہیں جہاں روزانہ صبح و شام ہزاروں غریبوں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے اور گھروں میں بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ فلاحی ادارے مستحق غریب گھرانوں میں ہر مہینے راشن بھی دیتے ہیں اورکچھ فلاحی ادارے روزگار اسکیم بھی چلاتے ہیں تاکہ مستحق افراد اپنا روزگار چلا سکیں۔

کراچی میں قدیمی علاقہ لیاری بھی اپنا وجود رکھتا ہے جوکہ غربت کا ڈسا ہوا ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے۔ لیاری میں معیاری و غیر معیاری زندگی کے لحاظ سے تین اقسام کے طبقے آباد ہیں ، جن میں سے قلیل تعداد میں ایک طبقہ امیر ہے جنھیں زندگی کی ہر آرائش میسر ہے جن سے وہ بہتر زندگی بسر کررہے ہیں۔

دوسرا درمیانی طبقہ ہے جوکہ غربت کی لکیر سے تھوڑا اوپر ہے اور تیسرا طبقہ غربت کے ڈسے ہوئے ان غریبوں کا ہے جو محض دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔ اسی طبقے کی بھوک میں کمی لانے کے لیے لیاری کے علاقے شاہ بیگ لین حاجی پیر محمد روڈ پر سابق رکن قومی اسمبلی نبیل احمد گبول کی کاوش سے فلاحی ادارہ JDCکے زیر اہتمامJDCلیاری فری دسترخوان اور فری ریسٹورنٹ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ، جہاں علاقے کے غریب مستحق لوگوں کو مفت کھانا فراہم کیا جائے گا۔

اس ضمن میں دو بڑے تندور اور چار چولہے لگائے جائیں گے۔ اس نیک کام میں لیاری کے کچھ مخیر حضرات نے بھی مالی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔JDCکے ذمے دار ظفر بھائی کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے لیاری والوں کی درخواست تھی کہJDCکی جانب سے لیاری میں بھی مفت دسترخوان اور مفت ریسٹورنٹ قائم کیے جائیں۔ اس ضمن میں تعمیراتی کام کا آغاز عنقریب کیا جائے گا جہاں روزانہ صبح 9بجے سے رات10بجے تک علاقے کے غریب لوگوں کو گھر گھر کھانا فراہم کرنے کے علاوہ ریسٹورنٹ میں بھی کھانا کھلایا جائیگا ، علاوہ ازیںJDCکی جانب سے لیاری میں نشے کی لت میں مبتلا افراد کی بحالی کے لیے ایک مفت مرکز بھی قائم کیا جائے گا جہاں نشئی افراد کا علاج مفت کیا جائیگا تا کہ یہ افراد نشے کی لت سے چٹکارہ پاسکیں اور معاشرے کا ذمے دار شخص بن سکیں۔

واضح ہو کہ اس مجوزہ دستر خوان اور کے چند قدم مسافت پر آٹھ چوک پر بحریہ دستر خوان اور مفت ریسٹورنٹ کافی عرصہ پہلے سے قائم ہیں جہاں علاقے کے غریب مستحق افراد مفت کھانا کھانے آتے ہیں اور اپنے گھروں میں بھی مفت کھانا لے جاتے ہیں۔ اس سے قبل سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل اسپتال کے احاطے میں بھی ایک فلاحی ادارہ کا دسترخوان قائم تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر ختم کردیا گیا ۔


لیاری کی سیکڑوں غریب مستحق اور بیواؤں کو محکمہ زکوۃ و عشر کی جانب سے زکوۃ بھی ملتی ہے علاوہ ازیں لیاری کی مستحق غریب خواتین کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی امداد بھی ملتی تھی لیکن تبدیلی سرکار نے اس نظام میں رد و بدل کرتے ہوئے اس نام کو احساس پروگرام کا نام دیا اور جو مستحق خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر تھیں ان میں سے بہتوں کے نام خارج کر دیے گئے اور ازسر نو سروے کے نام پر نئے نام شامل کیے گئے اور جن مستحق خواتین کے نام خارج کیے گئے ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ نئے سرے سے اپنا نام رجسٹر کروائیں اس ضمن میں لیاری جنوبی زونل دفتر میں قائم احساس پروگرام کے دفتر کا چکر کاٹ رہی ہیں۔ آئے روز سیکڑوں مستحق خواتین کا جم غفیر لگا رہتا ہے جہاں ان کی عزت نفس بری طرح سے مجروح ہورہی ہوتی ہے ۔ یہاں ان مستحق خواتین کی اذیت ناک پریشانیوں کی داستان الگ ہے ۔

ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں لیاری کی مستحق غریب خواتین زکوٰۃ لینے کے لیے انفرادی اور ٹولیوں کی شکل میں لیاری اور لیاری سے باہر مختلف مخیر حضرات کے گھروں کے سامنے جمع ہوجاتی ہیں اور گھنٹوں بعد ان میں سے کسی کو زکوۃ مل پاتی ہے اور کسی کو نہیں۔ یہ منظر بڑا دل خراش ہوتا ہے یہاں بھی ان کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے مگر بھوک تمام تہذیب بھلا دیتی ہے۔ رمضان ہی کے مہینوں میں لیاری اور لیاری سے باہر کے مخیر حضرات اور مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے مستحق گھرانوں میں راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس عمل میں بھی لیاری کے مختلف علاقوں میں بھیڑ لگا رہتا ہے۔ مذکورہ بالا مناظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور لیاری میں پھیلتی ہوئی غربت کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے مگر درد دل رکھنے والے افسوس و رنج کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔

لیاری کی بہت ساری مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں بہت دور علاقوں جن میں دھورا جی ، گرو مندر ، گارڈن وغیرہ شامل ہیں کے گھروں میں نوکرانی کے طور پر کام کرتی ہیں جہاں ان کی تنخواہ محدود ہونے کی وجہ سے وہ بیک وقت تین چار گھروں میں جھاڑو لگانا ، کپڑے دھونا ، برتن دھونا ، میز کرسی صاف کرنے کے علاوہ گھر کے دیگر چھوٹے موٹے کام کرنے پڑتے ہیں جس کے صلے میں انھیں اتنی رقم مل پاتی ہے جس سے ان کا اور ان کے گھر والوں کی سانسیں چلتی ہیں ، اکثر گھروں کے مالکان خدا ترس ہوتے ہیں جو اپنی نوکرانیوں کی گھریلو ضروریات کو پوری کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

اسی طرح لیاری کی بہت سی خواتین شیر شاہ سائٹ ایریا کی گارمنٹ مل فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ لیاری میں بے روزگاری اور غربت کے باعث لیاری کی بعض خواتین اپنے گھروں کے آگے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتی ہیں۔ لیاری میں غربت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب لیاری میں خواتین بھی بازاروں ، دکانوں اور دفاتر میں دست سوال دارز کرتی نظر آتی ہیں اور لیاری کے کچھ نوجوان چائنا کمپنی میں شہر کا کچرا اٹھانے کے کام کرنے پر مجبور ہیں ۔

ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہے کہ لیاری صدیوں پہلے بھی محنت کشوں کی بستی تھی۔ آج 21ویں صدی میں بھی لیاری کے قدیمی خاندانوں کے وارثوں کی حالت خستہ حال ہے ۔ ثابت یہ ہوا کہ لیاری کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور غربت ہے۔ بے روزگاری کو ختم کردیا جائے تو غربت خود بہ خود ختم ہوجائیگی۔ جب بے روزگاری اور غربت نہیں رہیں گے تو لیاری سے جرائم کی سرگرمیاں بھی دم توڑ دیں گے۔ اس لیے محض ترقیاتی کام لیاری کے مسائل کا حل نہیں ہیں۔ لیاری کے مسائل کا حل، لیاری کے لوگوں کو معاشی لحاظ سے مضبوط بنانے میں مضمر ہے ۔
Load Next Story