کیا ان کا جانا ٹھہرگیا ہے
جو نیکو کار ہو اس کے ساتھ بدی کرنا جائز نہیں ہے
جب نوشیرواں عادل بادشاہ کا وقتِ آخر آیا اور اس پر نزع کی حالت طاری ہونے لگی تو اس نے اپنے ولی عہد اور جواں سال بیٹے ہرمزکو اپنے پاس بلایا اور اسے آخری وقت میں چند خاص نصیحتیں کیں۔ نوشیرواں نے اپنے بیٹے ہرمز سے کہا کہ اپنے آرام کی فکر میں رعایا سے غافل نہ ہو جانا ، اگر تُو اپنا آرام اور چین چاہتا ہے تو فقیر کے دل کا نگہبان ہو جا ، اگر تُو صرف اپنا ہی آرام چاہے گا تو پھر تیرے ملک میں کوئی بھی آرام نہ پاسکے گا۔
کیوں کہ عقل مندوں کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں سے غافل ہو کر سو جائے اور مسکین جانوروں کو بھیڑیا چیر پھاڑ کے کھا جائے۔ محتاج فقیر کا خیال کیا کر کیونکہ بادشاہ رعیت سے ہی تاج دار ہوا کرتا ہے۔ بادشاہ اگر درخت ہے تو اس کی رعیت اس درخت کی جڑ ہے جس پر درخت پھلتا پھولتا ہے، جب بادشاہ اپنی رعیت کا دل زخمی کرتا ہے تو گویا وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی جڑ اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ ملک کو نقصان نہ ہو تو پھر لوگوں کے سکھ چین کا خیال کر۔ اگر کسی ملک میں رعایا بادشاہ کے ہاتھوں تنگ ہے تو پھر وہاں خوش حالی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بہادروں سے مت ڈر مگر اس سے ضرور خوف کھا جو خدا سے نہیں ڈرتا۔ اپنا مفاد چاہتا ہے تو کسان پر رعایت کرکیوں کہ مزدور خوش ہوتا ہے تو کام زیادہ کرتا ہے۔
جو نیکو کار ہو اس کے ساتھ بدی کرنا جائز نہیں ہے، جو بادشاہ ملک میں خرابی اور نقصان سے ڈرتا ہے وہ کبھی اپنی رعایا کے ساتھ دل آزاری کا معاملہ نہیں کرسکتا ، کیوں کہ رعایا کی پریشانی ہی ملک کے نقصان کا سبب ہے، جس بادشاہ میں یہ خوبی نہ ہو اس کا ملک خوش حال اور آباد نہیں رہ سکتا اور اگر تُو ان کا خیال نہیں کرے گا تو یاد رکھ کہ کسی دن بھی تیری رعایا تیری حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔
حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں آپ اپنے ملک کے بادشاہ (وزیر اعظم) اور اس کی رعایا (عوام) کے درمیان تعلق پر نظر ڈالیے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں بادشاہِ وقت نے اپنی رعایا کا کتنا خیال رکھا، ان کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کتنی پیش رفت کی۔ قبل از انتخاب کیے گئے اپنے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں پر کتنا عمل کیا۔ اپنے منشور کی روشنی میں کون سے ایسے اقدامات اٹھائے، مثبت فیصلے کیے اور عوام دوست پالیسیاں بنائیں کہ جن کے نفاذ سے ملک میں عام آدمی کی زندگی میں '' تبدیلی'' آگئی ہو، وہ خوش حال ہو گیا ہو اور اسے بادشاہِ وقت سے کوئی شکوہ نہ ہو۔
کیاحکمرانوں نے اپنے وعدے اور دعوے کے مطابق بے روزگاروں کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کردی ہیں؟ کیا بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر بنا کر سر چھپانے کی جگہ فراہم کردی ہے؟ کیا ملک سے غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا غریب لوگوں نے تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشیاں کرنا چھوڑ دی ہیں؟ کیا اب نوجوان طبقہ اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر نوکری کی تلاش میں در بہ در نہیں ہو رہا ہے؟ کیا مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو گیا ہے؟ کیا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس میں آگئی ہیں؟ کیا بجلی و گیس کے نرخوں میں اتنی کمی آگئی ہے کہ ہر آدمی آسانی سے اپنے یوٹیلیٹی بلز ادا کرسکے؟
کیا ملک کی معیشت کو قرضوں کے شکنجے سے آزاد کرا لیا گیا ہے؟ کیا ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے سب سے کم قرضے حاصل کیے اور ملک کو خود کفالت کی منزل تک پہنچا دیا ہے؟ کیا حکومت کے بقول احتساب گھر سے شروع کرنے کی کوئی روایت ڈالی گئی ہے؟ کیا ملک کے تمام چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کا احتساب مکمل ہو چکا ہے؟ کیا لوٹی ہوئی قومی دولت ملکی خزانے میں جمع ہو چکی ہے؟ کیا حکمرانوں کے انداز حکمرانی سے ان کے اتحادی مطمئن ہیں؟ کیا حکومتی جماعت کے تمام اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور وزرا اپنے حکمران کی اب تک کی کارکردگی سے کلی طور پر مطمئن اور اس سے اتفاق کرتے ہوئے آج مشکل وقت میں بھی ان کے شانہ بہ شانہ ساتھ کھڑے ہیں؟
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے بہت سے سوالات کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق کارکردگی پیش نہیں کر سکی۔ عوام کو اس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہی۔
آج یہ حالت ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی کی گاڑی چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، گھی، چاول، چینی، آٹا، سبزی، گوشت، دالیں غرض ہر چیز کی قیمت ہفتہ وار بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ غریب آدمی اور دیہاڑی دار مزدور کے لیے گھر کا خرچہ چلانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ بجلی، گیس کے نرخوں میں ہر ماہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر پندرہ دن کے بعد تبدیل ہو کر بڑھتی ہی رہتی ہیں جس کے منفی اثرات پیداواری اخراجات پر پڑتے ہیں نتیجتاً روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور عام آدمی کی قوت خرید سے چیزیں باہر ہو جاتی ہیں۔
حکومت کی کارکردگی سے نہ صرف عوام بلکہ ان کی اتحادی جماعتیں بھی نالاں اور شکوہ طراز ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے بھی حکومت نے پورے نہیں کیے ، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے اتحادی بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ بات صرف اتحادیوں کی ناراضی تک محدود نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے اندر بھی اپنے حکمران کے خلاف اعتماد کے فقدان کی فضا ہے۔ گروپ بندی نے پی ٹی آئی کو کمزور پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ کچھ اراکین منحرف ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلانیہ اظہار کیا ہے، سندھ ہاؤس میں آصف زرداری کو یقین دہانیاں کرانے والے پی ٹی آئی کے منحرفین کی موجودگی اس کا بعینہ اظہار ہے۔ کچھ ارکان نے (ن) لیگ کو اپنی وفاداری کی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ ترین گروپ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔
پی ٹی آئی کے منحرفین کے اعلانیہ اظہار کے بعد اخلاقی طور پرحکومت کی پوزیشن کمزور لگتی ہے ۔ عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس دائر کرکے حکومت باغی ارکان کو قابو کرنے کی خواہاں ہے۔ پی ٹی آئی ارکان کی بغاوت اور اتحادیوں کی ناراضی کے بعد لگتا ہے کہ حکومت کے جانے کے امکانات ہیں۔مگر سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ،کھیل کا پانسہ کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے،لہٰذا ابھی سب قیاس آرائیاں ہیں،آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔
کیوں کہ عقل مندوں کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں سے غافل ہو کر سو جائے اور مسکین جانوروں کو بھیڑیا چیر پھاڑ کے کھا جائے۔ محتاج فقیر کا خیال کیا کر کیونکہ بادشاہ رعیت سے ہی تاج دار ہوا کرتا ہے۔ بادشاہ اگر درخت ہے تو اس کی رعیت اس درخت کی جڑ ہے جس پر درخت پھلتا پھولتا ہے، جب بادشاہ اپنی رعیت کا دل زخمی کرتا ہے تو گویا وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی جڑ اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ ملک کو نقصان نہ ہو تو پھر لوگوں کے سکھ چین کا خیال کر۔ اگر کسی ملک میں رعایا بادشاہ کے ہاتھوں تنگ ہے تو پھر وہاں خوش حالی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بہادروں سے مت ڈر مگر اس سے ضرور خوف کھا جو خدا سے نہیں ڈرتا۔ اپنا مفاد چاہتا ہے تو کسان پر رعایت کرکیوں کہ مزدور خوش ہوتا ہے تو کام زیادہ کرتا ہے۔
جو نیکو کار ہو اس کے ساتھ بدی کرنا جائز نہیں ہے، جو بادشاہ ملک میں خرابی اور نقصان سے ڈرتا ہے وہ کبھی اپنی رعایا کے ساتھ دل آزاری کا معاملہ نہیں کرسکتا ، کیوں کہ رعایا کی پریشانی ہی ملک کے نقصان کا سبب ہے، جس بادشاہ میں یہ خوبی نہ ہو اس کا ملک خوش حال اور آباد نہیں رہ سکتا اور اگر تُو ان کا خیال نہیں کرے گا تو یاد رکھ کہ کسی دن بھی تیری رعایا تیری حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔
حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں آپ اپنے ملک کے بادشاہ (وزیر اعظم) اور اس کی رعایا (عوام) کے درمیان تعلق پر نظر ڈالیے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں بادشاہِ وقت نے اپنی رعایا کا کتنا خیال رکھا، ان کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کتنی پیش رفت کی۔ قبل از انتخاب کیے گئے اپنے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں پر کتنا عمل کیا۔ اپنے منشور کی روشنی میں کون سے ایسے اقدامات اٹھائے، مثبت فیصلے کیے اور عوام دوست پالیسیاں بنائیں کہ جن کے نفاذ سے ملک میں عام آدمی کی زندگی میں '' تبدیلی'' آگئی ہو، وہ خوش حال ہو گیا ہو اور اسے بادشاہِ وقت سے کوئی شکوہ نہ ہو۔
کیاحکمرانوں نے اپنے وعدے اور دعوے کے مطابق بے روزگاروں کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کردی ہیں؟ کیا بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر بنا کر سر چھپانے کی جگہ فراہم کردی ہے؟ کیا ملک سے غربت کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا غریب لوگوں نے تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشیاں کرنا چھوڑ دی ہیں؟ کیا اب نوجوان طبقہ اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر نوکری کی تلاش میں در بہ در نہیں ہو رہا ہے؟ کیا مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو گیا ہے؟ کیا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس میں آگئی ہیں؟ کیا بجلی و گیس کے نرخوں میں اتنی کمی آگئی ہے کہ ہر آدمی آسانی سے اپنے یوٹیلیٹی بلز ادا کرسکے؟
کیا ملک کی معیشت کو قرضوں کے شکنجے سے آزاد کرا لیا گیا ہے؟ کیا ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت نے سب سے کم قرضے حاصل کیے اور ملک کو خود کفالت کی منزل تک پہنچا دیا ہے؟ کیا حکومت کے بقول احتساب گھر سے شروع کرنے کی کوئی روایت ڈالی گئی ہے؟ کیا ملک کے تمام چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کا احتساب مکمل ہو چکا ہے؟ کیا لوٹی ہوئی قومی دولت ملکی خزانے میں جمع ہو چکی ہے؟ کیا حکمرانوں کے انداز حکمرانی سے ان کے اتحادی مطمئن ہیں؟ کیا حکومتی جماعت کے تمام اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور وزرا اپنے حکمران کی اب تک کی کارکردگی سے کلی طور پر مطمئن اور اس سے اتفاق کرتے ہوئے آج مشکل وقت میں بھی ان کے شانہ بہ شانہ ساتھ کھڑے ہیں؟
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے بہت سے سوالات کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق کارکردگی پیش نہیں کر سکی۔ عوام کو اس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہی۔
آج یہ حالت ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی کی گاڑی چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، گھی، چاول، چینی، آٹا، سبزی، گوشت، دالیں غرض ہر چیز کی قیمت ہفتہ وار بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ غریب آدمی اور دیہاڑی دار مزدور کے لیے گھر کا خرچہ چلانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ بجلی، گیس کے نرخوں میں ہر ماہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر پندرہ دن کے بعد تبدیل ہو کر بڑھتی ہی رہتی ہیں جس کے منفی اثرات پیداواری اخراجات پر پڑتے ہیں نتیجتاً روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور عام آدمی کی قوت خرید سے چیزیں باہر ہو جاتی ہیں۔
حکومت کی کارکردگی سے نہ صرف عوام بلکہ ان کی اتحادی جماعتیں بھی نالاں اور شکوہ طراز ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے بھی حکومت نے پورے نہیں کیے ، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے اتحادی بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ بات صرف اتحادیوں کی ناراضی تک محدود نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے اندر بھی اپنے حکمران کے خلاف اعتماد کے فقدان کی فضا ہے۔ گروپ بندی نے پی ٹی آئی کو کمزور پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ کچھ اراکین منحرف ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلانیہ اظہار کیا ہے، سندھ ہاؤس میں آصف زرداری کو یقین دہانیاں کرانے والے پی ٹی آئی کے منحرفین کی موجودگی اس کا بعینہ اظہار ہے۔ کچھ ارکان نے (ن) لیگ کو اپنی وفاداری کی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ ترین گروپ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔
پی ٹی آئی کے منحرفین کے اعلانیہ اظہار کے بعد اخلاقی طور پرحکومت کی پوزیشن کمزور لگتی ہے ۔ عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس دائر کرکے حکومت باغی ارکان کو قابو کرنے کی خواہاں ہے۔ پی ٹی آئی ارکان کی بغاوت اور اتحادیوں کی ناراضی کے بعد لگتا ہے کہ حکومت کے جانے کے امکانات ہیں۔مگر سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ،کھیل کا پانسہ کسی بھی وقت پلٹ سکتا ہے،لہٰذا ابھی سب قیاس آرائیاں ہیں،آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔