سمندری گھونگھے کا ’زہر‘ دیرینہ درد کی دوا بن سکتا ہے
سمندری فرش پرموجود کونس ریگئس زہر سے شکاری کو مفلوج کرتا ہے جس سے طاقتور پین کلر بنایا جاسکتا ہے
سمندر کی گہرائی میں پائے جانے والے ایک گھونگھے کے زہر سے درد کے دیرینہ مرض میں مبتلا افراد کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
انگریز میں اسے کون اسنیل کہا جاتا ہے جس کا حیاتیاتی نام کونس ریگیئس بھی ہے۔ امریکی سائنسدانوں نے برسوں تحقیق کے بعد کہا ہے کہ اس سے نئی تھراپی وضع کی جاسکتی ہے۔ ماہرین ک مطابق زہر میں موجود ایک مرکب اپنے اندر درد کش اجزا رکھتا ہے۔
یہ گھونگھا اپنے زہر سے شکار ہلاک کرتا ہے لیکن انسانوں کے لیے یہی درد سے نجات کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے افراد کے لیے ایک امید ہے جو تمام دردکش ادویہ سے مایوس ہوچکے ہیں۔ درمیانی مدت سے لے کر شید درد کم کرنے والے ادوائیں عموماً مسکن آور (اوپیوڈز) کہلاتی ہیں۔ یہ درد کا احساس گھٹاتی ہیں لیکن اس کی وجہ اور جڑ ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ دوا کے اجزا دماغ اور اعضا کے پروٹین سے چپک جاتے ہیں جنہیں اوپیوڈز ریسپٹر کہا جاتا ہے۔
گھونگھے کے زہر میں جو مرکب ملا ہے اسے آرجی ون اے کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ مختلف انداز سے کام کرتا ہے اور ایک نئی عملی راہ 'پاتھ وے ' سے دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جامعہ یوٹاہ کے پروفیسر مائیکل مک لنٹوش اور ان کے ساتھیوں نے اس کے ابتدائی تجربات کئے ہیں۔ چوہوں پر اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ درد کش ادویہ کے طور پر سب سے زیادہ مارفین ہی استعمال کی جاتی ہے جس کے مضر منفی اثرات ہوتے ہیں اور خود ان ادویہ کی لت بھی پڑجاتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ درد ایک مرتبہ بدن کا حصہ بن جائے تو وہ عمربھر کا حصہ بن جاتی ہے۔ پھر اس کا علاج کرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ چوہوں پر کئے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ گھونگھے کے زہر کا مرکب اگلے 72 گھنٹے تک جسم پر اثر کرتا رہتا ہے اور درد دور بھگاتا رہتا ہے۔
تاہم اگلے مرحلے پر طویل تحقیق اور انسانوں پر آزمائش کے مراحل ابھی باقی ہیں۔
انگریز میں اسے کون اسنیل کہا جاتا ہے جس کا حیاتیاتی نام کونس ریگیئس بھی ہے۔ امریکی سائنسدانوں نے برسوں تحقیق کے بعد کہا ہے کہ اس سے نئی تھراپی وضع کی جاسکتی ہے۔ ماہرین ک مطابق زہر میں موجود ایک مرکب اپنے اندر درد کش اجزا رکھتا ہے۔
یہ گھونگھا اپنے زہر سے شکار ہلاک کرتا ہے لیکن انسانوں کے لیے یہی درد سے نجات کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے افراد کے لیے ایک امید ہے جو تمام دردکش ادویہ سے مایوس ہوچکے ہیں۔ درمیانی مدت سے لے کر شید درد کم کرنے والے ادوائیں عموماً مسکن آور (اوپیوڈز) کہلاتی ہیں۔ یہ درد کا احساس گھٹاتی ہیں لیکن اس کی وجہ اور جڑ ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ دوا کے اجزا دماغ اور اعضا کے پروٹین سے چپک جاتے ہیں جنہیں اوپیوڈز ریسپٹر کہا جاتا ہے۔
گھونگھے کے زہر میں جو مرکب ملا ہے اسے آرجی ون اے کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ مختلف انداز سے کام کرتا ہے اور ایک نئی عملی راہ 'پاتھ وے ' سے دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جامعہ یوٹاہ کے پروفیسر مائیکل مک لنٹوش اور ان کے ساتھیوں نے اس کے ابتدائی تجربات کئے ہیں۔ چوہوں پر اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ درد کش ادویہ کے طور پر سب سے زیادہ مارفین ہی استعمال کی جاتی ہے جس کے مضر منفی اثرات ہوتے ہیں اور خود ان ادویہ کی لت بھی پڑجاتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ درد ایک مرتبہ بدن کا حصہ بن جائے تو وہ عمربھر کا حصہ بن جاتی ہے۔ پھر اس کا علاج کرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ چوہوں پر کئے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ گھونگھے کے زہر کا مرکب اگلے 72 گھنٹے تک جسم پر اثر کرتا رہتا ہے اور درد دور بھگاتا رہتا ہے۔
تاہم اگلے مرحلے پر طویل تحقیق اور انسانوں پر آزمائش کے مراحل ابھی باقی ہیں۔