میڈیا کی آزادی میں ہم واپس پیچھے جا رہے ہیں جسٹس اطہر من اللہ
پاکستان شہری حقوق کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کے خلاف جا رہے ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی میں ہمارے ہاں بہتری نہیں آئی، ہم واپس پیچھے جا رہے ہیں۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت نے کہا کہ یہاں تین سوالات ہیں، پہلا سوال آرڈی نینس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کے خلاف جاری ہوا، پیکا سیکشن 20کا غلط استعمال ہو رہا ہے، تہمت لگانے کے لیے قانون پہلے سے موجود ہے، اس جرم کی سزا پانچ سال ہے جس کا اطلاق سوشل میڈیا پر تہمت لگانے والے پر بھی ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے نے جو رپورٹس پیش کیں وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی نگرانی کر رہے ہیں؟ کسی بھی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟ آرڈی نینس لانے میں کیا عجلت تھی؟ کیوں نا آرڈی نینس کو کالعدم قرار دیا جائے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جمہوریت اور آئین ہے، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے پریشان کیوں ہیں؟ ترمیمی آرڈی نینس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے، یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ آرڈی نینس لانے میں جلدی کیا تھی؟ صرف اسی ایک نکتے کی بنیاد پر آرڈی نینس کالعدم قرار دیے جانے کے قابل ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ترمیمی آرڈی نینس کے تحت سیکشن 20سے نیچرل کا لفظ نکالا گیا، اس میں اداروں کو شامل کیا گیا، جیسا کہ ججز خود شکایت درج نہیں کرا سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے بارے میں پریشان نہ ہو، جان لیں عدلیہ کو تنقید سے کوئی پریشانی نہیں، پاکستان شہری حقوق کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کے خلاف جا رہے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ فریڈم آف پریس میں ہمارے ہاں پچھلے دس پندرہ سال میں بہتری آئی، پیکا ترمیمی آرڈیننس پریس سے متعلق نہیں سوشل میڈیا سےمتعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بہتری نہیں آئی ہم واپس پیچھے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا کا غلط استعمال تو سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں، پہلے مطمئن کریں صدر کے پاس ایسا آرڈیننس لانے کا اختیار تھا؟ ہتک عزت کے قوانین تو پہلے سے بھی موجود تھے ، آپ نے ایف آئی اے کو اختیار دے دیا کہ اس پر گرفتار کر لیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کو آخری موقع دے رہے ہیں، پیر کو دلائل دیں، بتائیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟۔
عدالت نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف درخواستوں پر سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت نے کہا کہ یہاں تین سوالات ہیں، پہلا سوال آرڈی نینس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کے خلاف جاری ہوا، پیکا سیکشن 20کا غلط استعمال ہو رہا ہے، تہمت لگانے کے لیے قانون پہلے سے موجود ہے، اس جرم کی سزا پانچ سال ہے جس کا اطلاق سوشل میڈیا پر تہمت لگانے والے پر بھی ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے نے جو رپورٹس پیش کیں وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی نگرانی کر رہے ہیں؟ کسی بھی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟ آرڈی نینس لانے میں کیا عجلت تھی؟ کیوں نا آرڈی نینس کو کالعدم قرار دیا جائے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جمہوریت اور آئین ہے، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے پریشان کیوں ہیں؟ ترمیمی آرڈی نینس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے، یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ آرڈی نینس لانے میں جلدی کیا تھی؟ صرف اسی ایک نکتے کی بنیاد پر آرڈی نینس کالعدم قرار دیے جانے کے قابل ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ترمیمی آرڈی نینس کے تحت سیکشن 20سے نیچرل کا لفظ نکالا گیا، اس میں اداروں کو شامل کیا گیا، جیسا کہ ججز خود شکایت درج نہیں کرا سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے بارے میں پریشان نہ ہو، جان لیں عدلیہ کو تنقید سے کوئی پریشانی نہیں، پاکستان شہری حقوق کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کے خلاف جا رہے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ فریڈم آف پریس میں ہمارے ہاں پچھلے دس پندرہ سال میں بہتری آئی، پیکا ترمیمی آرڈیننس پریس سے متعلق نہیں سوشل میڈیا سےمتعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بہتری نہیں آئی ہم واپس پیچھے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا کا غلط استعمال تو سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں، پہلے مطمئن کریں صدر کے پاس ایسا آرڈیننس لانے کا اختیار تھا؟ ہتک عزت کے قوانین تو پہلے سے بھی موجود تھے ، آپ نے ایف آئی اے کو اختیار دے دیا کہ اس پر گرفتار کر لیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کو آخری موقع دے رہے ہیں، پیر کو دلائل دیں، بتائیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟۔
عدالت نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف درخواستوں پر سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔