مجھ سے کسی کو تکلیف ہے تو آکر بات کرے باہر باتیں کرنے کی ضرورت نہیں چیف جسٹس

پاکستان بار کا ججز کو سرکاری نوکر کہنا انتہائی غیرمناسب ہے، چیف جسٹس

پاکستان بار کا ججز کو سرکاری نوکر کہنا انتہائی غیرمناسب ہے، چیف جسٹس

HYDERABAD:
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پاکستان بار کا ججز کو سرکاری نوکر کہنا انتہائی غیرمناسب ہے اور مجھ سے کسی کو تکلیف ہے تو آکر بات کرے، باہر باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی امین کی ریٹائرمنٹ کے موقعے پر فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد ہوا جس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز، صدر سپریم کورٹ بار، پاکستان بار کے عہدیداران نے شرکت کی۔

سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات ہوٹلز میں زیر بحث نہیں آنے چاہئیں

 

فل کورٹ ریفرنس سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بطور ادارہ ایک خاندان کی طرح ہے، سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات ادارے کے اندر طے ہونے چاہیے، سڑکوں، ہوٹلز اور سوشل میڈیا میں زیر بحث نہیں آنے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز کا منحرف ارکان سے متعلق صدارتی ریفرنس کے بینچ پر تحفظات کا اظہار

جسٹس قاضی امین کے فیصلے سے بار کو تشویش

وائس چیئرمین پاکستان بار چوہدری حفیظ نے خطاب میں کہا کہ جسٹس فائز عیسی کیس میں جسٹس قاضی امین کے فیصلے سے بار میں تشویش پائی جاتی ہے، ان کے بعض فوجداری فیصلوں کو آئین و قانون سے متصادم سمجھا جاتا ہے، جسٹس منیر سے جسٹس گلزار تک ججز کو تاریخ کیسے یاد کرتی ہے اس سے سب واقف ہیں۔


ججز منصف بننے کے بجائے سرکاری نوکر بن جاتے ہیں

چوہدری حفیظ نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں سیاہ صفحات کی تعداد روشن صفحات سے کم ہے، بعض ججز منصف بننے کے بجائے سرکاری نوکر بن جاتے ہیں جو باعث تشویش ہے ، موجودہ حالات میں ججز کی تقسیم سے ادارے کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، عدالت ایسے فیصلے کرے جس سے آئین کی بالادستی کا بول بالا ہو۔

عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ملتا ہے

سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اعلی عدلیہ میں بامعنی اور بامقصد تعیناتیوں کے اصول وضع کیے جائیں، جسٹس قاضی فائز عیسی ایماندار جج اور عدلیہ کے وقار کی علامت ہیں، صدارتی ریفرنس کی سماعت کےلیے لارجر بنچ کی تشکیل پر ان کے اعتراض اور چیف جسٹس کو ان کے خط سے عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ملتا ہے، امید ہے چیف جسٹس معاملے پر محبت اور یگانگت کے ماحول کی آبیاری کریں گے۔

ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان بار کونسل نے عمومی الزامات لگاتے ہوئے ججز کو سرکاری ملازم کہا، ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے، سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟، بیس سال سے بنچز چیف جسٹس ہی بناتے ہیں، بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں ؟، رجسٹرار کی تعیناتی چیف جسٹس کرتے ہیں، رجسٹرار کی تعیناتی بہترین افسران میں سے کی گئی ہے، رجسٹرار کو قانون کا بھی علم ہے اور وہ انتظامی کام بھی کرنا جانتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں انتظامی کام بھی میں کروں؟

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کونسے مقدمات کہاں اور کب مقرر کرنے ہیں بطور چیف جسٹس میں فیصلہ کرتا ہوں ، رجسٹرار پر اعتراض مت کریں مسئلہ ہے تو مجھ سے بات کریں ، مجھ سے کسی کو تکلیف ہے تو آ کر بات کریں ، ادارے کی باتیں باہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، ہم تو برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے، عوام میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ صرف میڈیا کیلئے ہے، کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سنی سنائی باتوں پر سوشل میڈیا پر الزامات نہ لگائے جائیں، فیصلوں پر تنقید کریں ججز کی ذات پر نہیں ، یہ گفتگو کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن دل میں آئی بات کر دی،ممکن ہے جج کالا ہو چھوٹا ہو لیکن آپ اچھی سوچ کے مظہر بنیں۔
Load Next Story