ای ڈاکٹرز
گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے مسیحائی کا فریضہ انجام دیتی ڈاکٹر
کراچی:
لیپ ٹاپ پر انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھی ڈاکٹر کا مریض سے رابطہ ہونا اور مریض کی مکمل کیفیت سے آگاہی کے بعد اس کو دوا تجویز کرنا۔۔۔۔۔ مسیحائی کا یہ انداز اختیار کرنے والوں کو"ای ڈاکٹرز" کہا جاتا ہے اور اس عمل کو بھی "ای ڈاکٹر" یعنی " الیکٹرانک ڈاکٹر " کا نام دیا گیا ہے۔
ای ڈاکٹرز فی زمانہ دورجدید کی ایک ایسی سہولت ہے، جس سے گھر بیٹھے بے شمار مریض فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ خصوصاً پچھلے دنوں کرونا کی وبا کے دوران جب اسپتال بھر چکے تھے، مریض پریشان تھے۔ ایسی صورت میں ای ڈاکٹرز ایک اہم کردار ادا کررہی تھیں۔
یہ خواتین ڈاکٹرز پاکستان اور دنیا کے مختلف مقامات سے پاکستان میں کرونا کی وبا اور خواتین و بچوں کی صحت کے متعلق مشورے اور علاج تجویز کرتی اور قرنطینہ میں مریضوں کی ٹیلی ہیلتھ اور ٹیلی میڈیسن کے ذریعے مدد اور راہ نمائی کرتی رہیں۔
درحقیقت وطن عزیز میں ہر سال متعدد لڑکیاں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے پریکٹس کرنے کے بعد کسی بھی وجہ سے پریکٹس کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتیں۔ اس منصوبے کے تحت وہ اپنی گھریلو ذمے داریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ گھر بیٹھے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتی ہیں۔ اس کے لیے گھر سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے تقریباً ستر فی صد خواتین ڈاکٹر بنتی ہیں اور ان میں سے بہت بڑی تعداد پریکٹس جاری نہیں رکھ پاتی۔ لہٰذا ایسی تمام گھر بیٹھی ڈاکٹرز جو اپنے پروفیشن کا آغاز کرنا چاہتی ہیں وہ ای ڈاکٹر کی حیثیت سے دوبارہ اپنی پریکٹس جاری رکھ سکتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک تو یہ سوچنا بھی محال تھا کہ کبھی ایسا دور بھی آئے گا کہ ہر کام گھر بیٹھے کسی مشین کے ذریعے ہدایات دے کر کرنا ممکن ہوجائے گا۔ لیکن آج آئی ٹی کے میدان میں ہونے والی ترقی نے یہ سب ممکن کردیا ہے بلکہ طرززندگی کو قدرے سہل بنادیا ہے۔ جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ آن لائن خریداری اور آن لائن تدریس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اسی طرح آن لائن طبی سہولیات حاصل کرنے کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔
ای ڈاکٹرز کے لیے ان لیڈی ڈاکٹرز کو آن لائن تعلیم اور ٹریننگ بھی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ چھے ماہ کا فیملی میڈیسن کا کورس، جس کے ذریعے گھر بیٹھ جانے والی لیڈی ڈاکٹرز کو ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد میڈیکل کے شعبے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جدت سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔
یہ نصاب ایم بی بی ایس کی پانچ سال کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جو نئی چیزیں، ٹیکنالوجی، ڈیولپمنٹ اور اپ ڈیٹس انڈسٹری میں آرہی ہیں۔ ان کے متعلق آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔
آن لائن لیکچرز کے ذریعے گھر بیٹھی ڈاکٹرز کو چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر کسی بھی ملک میں رہائش پذیر ہوں۔ ان کو پروفیشنل معلومات کے ساتھ کلینیکل معلومات، ادویات، ادویات کے فارمولاجات، تشخیص کے جدید طریقوں اور پاکستان میں امراض کی نوعیت کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح وہ لیڈی ڈاکٹرز جو اپنی کسی بھی مجبوری کی بنا پر پریکٹس جاری نہیں رکھ سکیں ہیں۔ ان کے لیے یہ طریقہ کار مفید ثابت ہورہا ہے۔
پاکستان میں ای ڈاکٹرز کے منصوبے کے آغاز کی پس پردہ وجوہات پر غور کریں تو پاکستان میں لوگوں کو درپیش صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ملک میں ڈاکٹروں کی قلت اہم وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ۔ یہ گھر بیٹھی ڈاکٹرز کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔
اندازے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں ہر سال لڑکیاں ڈاکٹر بنتی ہیں، لیکن اکثریت مختلف وجوہات کی بنا پر پریکٹس جاری نہیں رکھ پاتی، جب کہ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح محکمہ صحت کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کے پریکٹس نہ کرنے سے محکمہ صحت کو جو نقصان ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک پورا ہوجائے گا۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر خواتین کے لیے ہے۔
چاہے وہ پاکستان میں مقیم ہوں یا بیرون پاکستان مقیم ہوں۔ البتہ ای ڈاکٹر کے لیے تدریس و تربیت ان ڈاکٹرز کو دی جاتی ہے جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو۔ اور وہ انٹرنیٹ کو مناسب انداز میں استعمال کرنا جانتی ہوں۔ ان کی اسناد تصدیق شدہ ہوں اور وہ ڈاکٹرز پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی) سے رجسٹرڈ ہوں۔ تدریس و تربیت کی فیس بھی مناسب رکھی گئی ہے۔
ان ڈاکٹرز کو فیملی میڈیسن کی تربیت حاصل کرنے کے بعد فیملی میڈیسن کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ ان ڈاکٹرز کو تربیت تو ٹیلی میڈیسن کے حوالے سے دی جاتی ہے لیکن لیکچرز عام فزیشن کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ تاکہ ڈاکٹر دونوں طرح سے تربیت حاصل کرسکیں۔
فی زمانہ ٹیلی میڈیسن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لہٰذا اس سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹروں کو لیکچرز آن لائن دیے جاتے ہیں اور ان کے پوچھے گئے سوالات کا بھی اگلے لیکچر میں تسلی بخش جواب دے جاتے ہیں۔ گھر بیٹھی خواتین ڈاکٹرز کے حوالے سے بے حد خوش ہیں کہ ان کو دوبارہ پریکٹس کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کا آپس میں تعلق قائم ہوگیا ہے اور وہ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ای ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض کی انجام دہی کررہی ہیں۔
ای ڈاکٹرز کی حیثیت سے فرض مسیحائی کی انجام دہی کرتی ڈاکٹرز مستقبل کی ڈاکٹرز کو بھی اپنے پروفیشن سے تعلق برقرار رکھنے اور پریکٹس جاری رکھنے کے متعلق سوچنے پر مجبور کردیں گی۔
ای ڈاکٹرز کا پلیٹ فارم پاکستان میں مریضوں کو آن لائن ڈاکٹر کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ای ڈاکٹرز بیمار مریضوں کا آن لائن معائنہ کرکے دوا تجویز کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ خواتین ڈاکٹز جو کسی بھی وجہ سے پریکٹس جاری نہیں رکھ پائی تھیں، وہ چند ماہ کی تربیت حاصل کرکے دوبارہ سے پریکٹس شروع کریں۔
لیپ ٹاپ پر انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھی ڈاکٹر کا مریض سے رابطہ ہونا اور مریض کی مکمل کیفیت سے آگاہی کے بعد اس کو دوا تجویز کرنا۔۔۔۔۔ مسیحائی کا یہ انداز اختیار کرنے والوں کو"ای ڈاکٹرز" کہا جاتا ہے اور اس عمل کو بھی "ای ڈاکٹر" یعنی " الیکٹرانک ڈاکٹر " کا نام دیا گیا ہے۔
ای ڈاکٹرز فی زمانہ دورجدید کی ایک ایسی سہولت ہے، جس سے گھر بیٹھے بے شمار مریض فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ خصوصاً پچھلے دنوں کرونا کی وبا کے دوران جب اسپتال بھر چکے تھے، مریض پریشان تھے۔ ایسی صورت میں ای ڈاکٹرز ایک اہم کردار ادا کررہی تھیں۔
یہ خواتین ڈاکٹرز پاکستان اور دنیا کے مختلف مقامات سے پاکستان میں کرونا کی وبا اور خواتین و بچوں کی صحت کے متعلق مشورے اور علاج تجویز کرتی اور قرنطینہ میں مریضوں کی ٹیلی ہیلتھ اور ٹیلی میڈیسن کے ذریعے مدد اور راہ نمائی کرتی رہیں۔
درحقیقت وطن عزیز میں ہر سال متعدد لڑکیاں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے پریکٹس کرنے کے بعد کسی بھی وجہ سے پریکٹس کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتیں۔ اس منصوبے کے تحت وہ اپنی گھریلو ذمے داریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ گھر بیٹھے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتی ہیں۔ اس کے لیے گھر سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے تقریباً ستر فی صد خواتین ڈاکٹر بنتی ہیں اور ان میں سے بہت بڑی تعداد پریکٹس جاری نہیں رکھ پاتی۔ لہٰذا ایسی تمام گھر بیٹھی ڈاکٹرز جو اپنے پروفیشن کا آغاز کرنا چاہتی ہیں وہ ای ڈاکٹر کی حیثیت سے دوبارہ اپنی پریکٹس جاری رکھ سکتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک تو یہ سوچنا بھی محال تھا کہ کبھی ایسا دور بھی آئے گا کہ ہر کام گھر بیٹھے کسی مشین کے ذریعے ہدایات دے کر کرنا ممکن ہوجائے گا۔ لیکن آج آئی ٹی کے میدان میں ہونے والی ترقی نے یہ سب ممکن کردیا ہے بلکہ طرززندگی کو قدرے سہل بنادیا ہے۔ جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ آن لائن خریداری اور آن لائن تدریس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اسی طرح آن لائن طبی سہولیات حاصل کرنے کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔
ای ڈاکٹرز کے لیے ان لیڈی ڈاکٹرز کو آن لائن تعلیم اور ٹریننگ بھی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ چھے ماہ کا فیملی میڈیسن کا کورس، جس کے ذریعے گھر بیٹھ جانے والی لیڈی ڈاکٹرز کو ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد میڈیکل کے شعبے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جدت سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔
یہ نصاب ایم بی بی ایس کی پانچ سال کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جو نئی چیزیں، ٹیکنالوجی، ڈیولپمنٹ اور اپ ڈیٹس انڈسٹری میں آرہی ہیں۔ ان کے متعلق آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔
آن لائن لیکچرز کے ذریعے گھر بیٹھی ڈاکٹرز کو چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر کسی بھی ملک میں رہائش پذیر ہوں۔ ان کو پروفیشنل معلومات کے ساتھ کلینیکل معلومات، ادویات، ادویات کے فارمولاجات، تشخیص کے جدید طریقوں اور پاکستان میں امراض کی نوعیت کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح وہ لیڈی ڈاکٹرز جو اپنی کسی بھی مجبوری کی بنا پر پریکٹس جاری نہیں رکھ سکیں ہیں۔ ان کے لیے یہ طریقہ کار مفید ثابت ہورہا ہے۔
پاکستان میں ای ڈاکٹرز کے منصوبے کے آغاز کی پس پردہ وجوہات پر غور کریں تو پاکستان میں لوگوں کو درپیش صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ملک میں ڈاکٹروں کی قلت اہم وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ۔ یہ گھر بیٹھی ڈاکٹرز کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔
اندازے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں ہر سال لڑکیاں ڈاکٹر بنتی ہیں، لیکن اکثریت مختلف وجوہات کی بنا پر پریکٹس جاری نہیں رکھ پاتی، جب کہ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح محکمہ صحت کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کے پریکٹس نہ کرنے سے محکمہ صحت کو جو نقصان ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک پورا ہوجائے گا۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر خواتین کے لیے ہے۔
چاہے وہ پاکستان میں مقیم ہوں یا بیرون پاکستان مقیم ہوں۔ البتہ ای ڈاکٹر کے لیے تدریس و تربیت ان ڈاکٹرز کو دی جاتی ہے جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو۔ اور وہ انٹرنیٹ کو مناسب انداز میں استعمال کرنا جانتی ہوں۔ ان کی اسناد تصدیق شدہ ہوں اور وہ ڈاکٹرز پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی) سے رجسٹرڈ ہوں۔ تدریس و تربیت کی فیس بھی مناسب رکھی گئی ہے۔
ان ڈاکٹرز کو فیملی میڈیسن کی تربیت حاصل کرنے کے بعد فیملی میڈیسن کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ ان ڈاکٹرز کو تربیت تو ٹیلی میڈیسن کے حوالے سے دی جاتی ہے لیکن لیکچرز عام فزیشن کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ تاکہ ڈاکٹر دونوں طرح سے تربیت حاصل کرسکیں۔
فی زمانہ ٹیلی میڈیسن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لہٰذا اس سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹروں کو لیکچرز آن لائن دیے جاتے ہیں اور ان کے پوچھے گئے سوالات کا بھی اگلے لیکچر میں تسلی بخش جواب دے جاتے ہیں۔ گھر بیٹھی خواتین ڈاکٹرز کے حوالے سے بے حد خوش ہیں کہ ان کو دوبارہ پریکٹس کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کا آپس میں تعلق قائم ہوگیا ہے اور وہ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ای ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض کی انجام دہی کررہی ہیں۔
ای ڈاکٹرز کی حیثیت سے فرض مسیحائی کی انجام دہی کرتی ڈاکٹرز مستقبل کی ڈاکٹرز کو بھی اپنے پروفیشن سے تعلق برقرار رکھنے اور پریکٹس جاری رکھنے کے متعلق سوچنے پر مجبور کردیں گی۔
ای ڈاکٹرز کا پلیٹ فارم پاکستان میں مریضوں کو آن لائن ڈاکٹر کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ای ڈاکٹرز بیمار مریضوں کا آن لائن معائنہ کرکے دوا تجویز کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ خواتین ڈاکٹز جو کسی بھی وجہ سے پریکٹس جاری نہیں رکھ پائی تھیں، وہ چند ماہ کی تربیت حاصل کرکے دوبارہ سے پریکٹس شروع کریں۔