روس یوکرین تنازعہ کے پاکستان پر اثرات
اگر روس اور یوکرین جنگ نے طول کھینچا تو یورپی ممالک کے درمیان بھی ایک خطرناک جنگ ہوگی
ISLAMABAD:
یوکرین کے صدر نے یورپی ممالک سے شکوہ کیا ہے کہ انھوں نے روس کو جنگ سے روکنے میں تاخیر کی ہے، اگلے روز برسلز میں یورپین کونسل کے اجلاس سے خطاب میں یوکرین کے صدر نے روس کی طرف سے یوکرین میں ہونے والی تباہی کے بارے میں بتایا۔دوسری جانب امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ روس نے چین سے فوجی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔
جب کہ واشنگٹن میں چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی کوشش ہے کہ یہ جنگ ''کنٹرول سے باہر'' نہ ہو۔روس کے یوکرین پر حملے کو تین ہفتے گزرچکے ہیں اور روس پر مغربی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ اس سے صرف روس نہیں دیگر ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی دیگر صنعتوں میں لوہے اور اسٹیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ پاکستان میں یہ مصنوعات پہلے سے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں اور اگر ان کے خام مال کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو یہ قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں گندم اور پٹرول کی قلت اور تیسری جنگ عظیم شروع ہونے کے خدشہ کے پیش نظر آج یورپ کو جنگ بندی کا خیال شدت سے آرہا ہے، کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔تیل، گندم اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوں گے۔
یوکرین دنیا میں گندم برآمد کرنے کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں چودہ ممالک ایسے ہیں جہاں یوکرین سے درآمد کی جانے والی گندم کی شرح کل کھپت کے دس فیصد سے زیادہ ہے۔ صدیوں سے یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اسی لیے یورپ والے یوکرین کو اپنی بریڈ باسکٹ کہتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ کے بعد اب یورپ کی بریڈ باسکٹ روس کے شکنجہ میں آگئی ہے جس کے متعلق فرانس کے صدر کا کہنا ہے کہ ''جنگ ایک بار پھر یورپ لوٹ آئی ہے، روس اور یوکرین کی جنگ طویل ہوگی جس کے زراعت کی دنیا پر اثرات ناگزیر ہیں۔''
اس تنازعے کا براہ راست اثر جو پاکستان پر پڑے گا وہ گندم کی قیمت پر پڑسکتا ہے جو پاکستان یوکرین سے درآمد کرتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے یوکرین سے 13لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی جو کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتا ہے، اگر یوکرین سے گندم کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور گندم دیگر ممالک سے مہنگے داموں درآمد کرنی پڑ سکتی ہے۔
گندم کے علاوہ یوکرین سے پاکستان کی دیگر درآمدات کا حجم بڑا محدود ہے اور ان کا زیادہ اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے البتہ پاکستان کی برآمدات کا حجم 50 52 ملین ڈالرز کے قریب ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران سات ملین ڈالرز کے قریب سٹرس فروٹس یعنی کینو مالٹے وغیرہ برآمد کیے تھے اور پولیسٹر فائبر بھی 31 ملین ڈالر کا ایکسپورٹ کیا تھا۔
اس بحران سے پاکستان میں توانائی، کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ سیمی کنڈکٹر چپس کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا امکان ہے، اگر اس کی سپلائی میں خلل پیدا ہوتا ہے تو دنیا بھر میں سیمی کنڈکٹر چپس کی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوگی اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا اور یہی عنصر پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی میں تاخیر ممکن ہے۔
پاکستان نے گزرے برس روس کے ساتھ نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا نام پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن رکھا گیا تھا۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے مخصوص پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کا ادارہ 60 دن کے اندر قائم کیا جانا تھا، لیکن روس کے ساتھ 2015 میں معاہدہ ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد آج بھی سستی کا شکار ہے۔پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے، روسی کمپنی پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن تاخیر کا شکار رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ روس پر حالیہ پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے یوکرین کے سرکاری اسلحہ گروپ یوکراوبورن پروم کو ٹی۔ 80یو ڈی جنگی ٹینکوں کو جدید بنانے کے لیے 85.6 ملین ڈالر مالیت کا ٹھیکہ بھی اطلاعات کے مطابق گزشتہ برس دیا تھا، جب کہ یوکرینی دفاعی کمپنی نے گزشتہ برس ابوظہبی میں نمائش آئی ڈی ای ایکس 2021 کے موقعے پر ٹی 80 یو ڈی ٹینک بیڑے کی مرمت اور معاونت کے لیے پاکستان کے ساتھ معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
روس اور یوکرین جنگی حالات کی وجہ سے زرعی عالمی مارکیٹ میں روس کی کارکردگی پر برا اثر پڑرہا ہے۔ فرٹیلائزر انسٹیٹیوٹ TFI کے مطابق روس یوکرین تنازعے کے سبب عالمی سطح پر کھاد کی مارکیٹ پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ اس کے علاوہ یہ تنازعہ توانائی کی منڈی کو بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار کرے گا کیونکہ روس یورپ کی قدرتی گیس کا تقریباً ایک تہائی سپلائی کرتا ہے جو نائٹروجن کھاد بنانے کے لیے اہم ہے۔
دنیا کے اکثر ممالک کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور پوری دنیا میں اچھی پیداوار کے حصول کے لیے کھادوں کا استعمال ہو رہا ہے، لیکن کھادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے کسانوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ کھادوں کے استعمال میں کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی کے امکانات ہیں۔ پاکستان میں کھاد کا بحران جنم لینے کی صورت میں ہماری زراعت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے ۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے روس اور یوکرین سمیت دیگر ممالک سے نہ صرف اشیائے خورونوش درآمد کرتا ہے بلکہ ملک میں سستے خام مال کی درآمد کا انحصار بھی ان ملکوں پر ہے۔ پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، اسٹیل، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپیٹ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔
پاکستان کے یوکرین سے بھی گہر ے تعلقات ہیں ایک دہائی سے زائد عرصے سے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں پاکستان کے سفیر تعینات ہیں۔ پاکستان اور یوکرین کے درمیان خاص طور پر دفاعی پیداوار کے شعبے میں تعاون بڑھ رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے تبادلے اور مشترکہ منصوبوں کی بنیاد پر کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
سال 2020میں یوکرین نے آئی ایل 78ائیر ریفیولر کی مرمت کا ٹھیکا حاصل کیا جب کہ یوکرینی ساختہ ٹی 80یوڈی ٹینکس پاکستان کی آرمرڈ کور کا اہم حصہ ہیں، سال 2022۔21میں پاکستان نے یوکرین سے تقریبا 12لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی، یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی میں کوئی بھی اضافہ بالآخر پاکستان کے غذائی تحفظ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ یہ دو بڑی قوتوں کی جنگ ہے لیکن اس کے اثرات نہ صرف یوکرین کو برداشت کرنا پڑیں گے بلکہ کئی اور ممالک بھی متاثر ہوں گے۔
معاشی ماہرین کے مطابق تیل کی بڑھتی قیمتیں اور مہنگائی کا ملاپ بے روزگاری، مندی اور رسد سے زیادہ طلب کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے ابتدائی دنوں میں نیٹو کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کے بیانا ت سامنے آتے رہے لیکن اب نیٹو اتحاد کی خفیہ سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ نیٹو اس جنگ کا براہ راست نہ سہی لیکن خفیہ طور پر یوکرین کی حمایت میں اس جنگ کا حصہ بننے جارہا ہے۔
روس کی فوج جس وقت یوکرین میں فوجی آپریشن کررہی تھی اس وقت نیٹو اپنی ایک رسپانس فورس بنا رہی تھی ۔اس کے علاوہ نیٹو نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں اپنی فوجیں بھی اکٹھی کرلی ہیں جنھیں خاص طور پر روس کے خلاف ٹرپ وائر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے ، نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا ہے۔
یوکرین اور روس کے مابین مسلح تنازعہ نہ صرف یورپ کو متاثر کر ے گا بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا خطہ بھی بری طرح متاثر ہوگا ، اگر روس اور یوکرین جنگ نے طول کھینچا تو یورپی ممالک کے درمیان بھی ایک خطرناک جنگ ہوگی، ہمارے ہاں بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اس امر کو تیسری عالمی جنگ کا اشارہ قرار دیتے ہیں۔
یوکرین کے صدر نے یورپی ممالک سے شکوہ کیا ہے کہ انھوں نے روس کو جنگ سے روکنے میں تاخیر کی ہے، اگلے روز برسلز میں یورپین کونسل کے اجلاس سے خطاب میں یوکرین کے صدر نے روس کی طرف سے یوکرین میں ہونے والی تباہی کے بارے میں بتایا۔دوسری جانب امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ روس نے چین سے فوجی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔
جب کہ واشنگٹن میں چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی کوشش ہے کہ یہ جنگ ''کنٹرول سے باہر'' نہ ہو۔روس کے یوکرین پر حملے کو تین ہفتے گزرچکے ہیں اور روس پر مغربی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ اس سے صرف روس نہیں دیگر ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی دیگر صنعتوں میں لوہے اور اسٹیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ پاکستان میں یہ مصنوعات پہلے سے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں اور اگر ان کے خام مال کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو یہ قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجہ میں گندم اور پٹرول کی قلت اور تیسری جنگ عظیم شروع ہونے کے خدشہ کے پیش نظر آج یورپ کو جنگ بندی کا خیال شدت سے آرہا ہے، کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب روس اور یوکرین سے ایکسپورٹ ہونے والی دیگر اشیا کی طلب و رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔تیل، گندم اور اسٹیل سمیت دیگر خام مال کی بڑی مارکیٹ کے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں خام مال کی قیمت میں اضافے سے کئی شعبے براہ راست متاثر ہوں گے۔
یوکرین دنیا میں گندم برآمد کرنے کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں چودہ ممالک ایسے ہیں جہاں یوکرین سے درآمد کی جانے والی گندم کی شرح کل کھپت کے دس فیصد سے زیادہ ہے۔ صدیوں سے یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اسی لیے یورپ والے یوکرین کو اپنی بریڈ باسکٹ کہتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جنگ کے بعد اب یورپ کی بریڈ باسکٹ روس کے شکنجہ میں آگئی ہے جس کے متعلق فرانس کے صدر کا کہنا ہے کہ ''جنگ ایک بار پھر یورپ لوٹ آئی ہے، روس اور یوکرین کی جنگ طویل ہوگی جس کے زراعت کی دنیا پر اثرات ناگزیر ہیں۔''
اس تنازعے کا براہ راست اثر جو پاکستان پر پڑے گا وہ گندم کی قیمت پر پڑسکتا ہے جو پاکستان یوکرین سے درآمد کرتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے یوکرین سے 13لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی جو کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتا ہے، اگر یوکرین سے گندم کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور گندم دیگر ممالک سے مہنگے داموں درآمد کرنی پڑ سکتی ہے۔
گندم کے علاوہ یوکرین سے پاکستان کی دیگر درآمدات کا حجم بڑا محدود ہے اور ان کا زیادہ اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے البتہ پاکستان کی برآمدات کا حجم 50 52 ملین ڈالرز کے قریب ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران سات ملین ڈالرز کے قریب سٹرس فروٹس یعنی کینو مالٹے وغیرہ برآمد کیے تھے اور پولیسٹر فائبر بھی 31 ملین ڈالر کا ایکسپورٹ کیا تھا۔
اس بحران سے پاکستان میں توانائی، کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ سیمی کنڈکٹر چپس کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا امکان ہے، اگر اس کی سپلائی میں خلل پیدا ہوتا ہے تو دنیا بھر میں سیمی کنڈکٹر چپس کی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوگی اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا اور یہی عنصر پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی میں تاخیر ممکن ہے۔
پاکستان نے گزرے برس روس کے ساتھ نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا نام پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن رکھا گیا تھا۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے مخصوص پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کا ادارہ 60 دن کے اندر قائم کیا جانا تھا، لیکن روس کے ساتھ 2015 میں معاہدہ ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد آج بھی سستی کا شکار ہے۔پاکستان کو گیس کی قلت کا سامنا ہے، روسی کمپنی پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن تاخیر کا شکار رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ روس پر حالیہ پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے یوکرین کے سرکاری اسلحہ گروپ یوکراوبورن پروم کو ٹی۔ 80یو ڈی جنگی ٹینکوں کو جدید بنانے کے لیے 85.6 ملین ڈالر مالیت کا ٹھیکہ بھی اطلاعات کے مطابق گزشتہ برس دیا تھا، جب کہ یوکرینی دفاعی کمپنی نے گزشتہ برس ابوظہبی میں نمائش آئی ڈی ای ایکس 2021 کے موقعے پر ٹی 80 یو ڈی ٹینک بیڑے کی مرمت اور معاونت کے لیے پاکستان کے ساتھ معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
روس اور یوکرین جنگی حالات کی وجہ سے زرعی عالمی مارکیٹ میں روس کی کارکردگی پر برا اثر پڑرہا ہے۔ فرٹیلائزر انسٹیٹیوٹ TFI کے مطابق روس یوکرین تنازعے کے سبب عالمی سطح پر کھاد کی مارکیٹ پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ اس کے علاوہ یہ تنازعہ توانائی کی منڈی کو بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار کرے گا کیونکہ روس یورپ کی قدرتی گیس کا تقریباً ایک تہائی سپلائی کرتا ہے جو نائٹروجن کھاد بنانے کے لیے اہم ہے۔
دنیا کے اکثر ممالک کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور پوری دنیا میں اچھی پیداوار کے حصول کے لیے کھادوں کا استعمال ہو رہا ہے، لیکن کھادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے کسانوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ کھادوں کے استعمال میں کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی کے امکانات ہیں۔ پاکستان میں کھاد کا بحران جنم لینے کی صورت میں ہماری زراعت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے ۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے روس اور یوکرین سمیت دیگر ممالک سے نہ صرف اشیائے خورونوش درآمد کرتا ہے بلکہ ملک میں سستے خام مال کی درآمد کا انحصار بھی ان ملکوں پر ہے۔ پاکستان اور یوکرین کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، فارما، آئرن، اسٹیل، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپیٹ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں۔
پاکستان کے یوکرین سے بھی گہر ے تعلقات ہیں ایک دہائی سے زائد عرصے سے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں پاکستان کے سفیر تعینات ہیں۔ پاکستان اور یوکرین کے درمیان خاص طور پر دفاعی پیداوار کے شعبے میں تعاون بڑھ رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے تبادلے اور مشترکہ منصوبوں کی بنیاد پر کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
سال 2020میں یوکرین نے آئی ایل 78ائیر ریفیولر کی مرمت کا ٹھیکا حاصل کیا جب کہ یوکرینی ساختہ ٹی 80یوڈی ٹینکس پاکستان کی آرمرڈ کور کا اہم حصہ ہیں، سال 2022۔21میں پاکستان نے یوکرین سے تقریبا 12لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی، یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی میں کوئی بھی اضافہ بالآخر پاکستان کے غذائی تحفظ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ یہ دو بڑی قوتوں کی جنگ ہے لیکن اس کے اثرات نہ صرف یوکرین کو برداشت کرنا پڑیں گے بلکہ کئی اور ممالک بھی متاثر ہوں گے۔
معاشی ماہرین کے مطابق تیل کی بڑھتی قیمتیں اور مہنگائی کا ملاپ بے روزگاری، مندی اور رسد سے زیادہ طلب کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے ابتدائی دنوں میں نیٹو کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کے بیانا ت سامنے آتے رہے لیکن اب نیٹو اتحاد کی خفیہ سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ نیٹو اس جنگ کا براہ راست نہ سہی لیکن خفیہ طور پر یوکرین کی حمایت میں اس جنگ کا حصہ بننے جارہا ہے۔
روس کی فوج جس وقت یوکرین میں فوجی آپریشن کررہی تھی اس وقت نیٹو اپنی ایک رسپانس فورس بنا رہی تھی ۔اس کے علاوہ نیٹو نے پہلی بار مشرقی یورپی ممالک میں اپنی فوجیں بھی اکٹھی کرلی ہیں جنھیں خاص طور پر روس کے خلاف ٹرپ وائر کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے ، نیٹو نے بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی فضائی پولیسنگ کو بھی بڑھا دیا ہے۔
یوکرین اور روس کے مابین مسلح تنازعہ نہ صرف یورپ کو متاثر کر ے گا بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا خطہ بھی بری طرح متاثر ہوگا ، اگر روس اور یوکرین جنگ نے طول کھینچا تو یورپی ممالک کے درمیان بھی ایک خطرناک جنگ ہوگی، ہمارے ہاں بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اس امر کو تیسری عالمی جنگ کا اشارہ قرار دیتے ہیں۔