اسلامی کانفرنس بزرگوں کی نشانی ہے

اس تنظیم کا حجم اتنا ہے کہ کسی بھی اہم نکتے پر اتفاقِ رائے مینڈکوں کو ترازو میں تولنے جیسا ہے

لاہور:
گزشتہ ہفتے اسلامی کانفرنس تنظیم کی وزراِ خارجہ کونسل کا اڑتالیسواں اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ ستاون رکنی تنظیم کے لگ بھگ اڑتالیس ممالک کے وزرائے خارجہ یا ان کے نائبین نے شرکت کی۔چینی وزیرِ خارجہ خصوصی مہمان تھے۔

جس طرح تین برس قبل متحدہ عرب امارات میں ہونے والے چھیالیسویں کونسل اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ آنجہانی سشما سوراج نے خصوصی شرکت کی تھی ( تب پاکستان نے اپنے تحفظات کے برملا اظہار کے لیے اجلاس میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بجائے دفترِ خارجہ کے سینئر ارکان کو خانہ پری کے لیے بھیجا تھا )۔

اڑتالیسویں اجلاس میں فلسطین ، کشمیر ، افغانستان ، یمن ، اسامو فوبیا اور دیگر بحران زیرِ بحث آئے۔کچھ محتاط تو کچھ دھواں دار تقاریر ہوئیں۔ میزبان ملک کے وزیرِ اعظم نے عالمِ اسلام ( اگر ہے ) کی کمزور اجتماعی قوتِ فیصلہ کی کمزوری ، فلسطین اور کشمیر پر ایک اجتماعی موقف کے فقدان اور افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

یمن کا تذکرہ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین براہیم طحی نے ایک انسانی المیِے یا حوثیوں کی جانب سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے ضمن میں کیا یا پھر سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے یہ کہا کہ ان کی حکومت انسانی بنیادوں پر یمنی عوام کی مدد کر رہی ہے۔کشمیر اور فلسطین کی بابت پاکستان کے علاوہ سعودی وزیرِ حارجہ اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کا حوالہ دیا۔

افغانستان بھی اسی طرح زیرِ بحث آیا جیسا کہ گزشتہ دسمبر میں اسلام آباد میں افغانستان کی مدد کے معاملے پر طلب کردہ وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس میں آیا تھا۔البتہ طالبان انتظامیہ کے وزیرِخارجہ امیر خان متقی نے اس بار کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔کابل انتظامیہ کی نمایندگی افغان دفترِ خارجہ کے ایک افسر نے کی۔

اس کانفرنس میں اعلیٰ پیمانے پر کابل انتظامیہ کی عدم شرکت کا ایک سبب غالباً یہ ہے کہ دسمبر میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں طالبان انتظامیہ کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کو بطورِ خاص مدعو کیا گیا تو یہ سوال اٹھا کہ جب کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا تو متقی صاحب کس حیثیت میں مدعو ہوئے۔شاید اسی لیے انھیں گزشتہ اجلاس میں دیگر وزرائے خارجہ کے برابر نہیں بلکہ آخری قطار میں جگہ ملی۔گروپ فوٹو میں بھی وہ کہیں نظر نہ آئے۔

اس کے علاوہ افغان عوام کی امداد کے لیے جس خصوصی فنڈ کے قیام کا دسمبر کانفرنس میں وعدہ کیا گیا تھا۔اس کی باضابطہ تشکیل تین ماہ بعد بھی نہ ہو پائی۔لہذا بائیس مارچ کے اجلاس میں طالبانی وزیرِ خارجہ نے اسلام آباد آنے سے گریز کیا۔ اقوامِ متحدہ کی طرح اسلامی کانفرنس تنظیم میں بھی افغان نشست خالی پڑی ہے اور تکنیکی طور پر اس سابق حکومت کے پاس ہے جس کا کوئی وجود نہیں۔

ایران نے بھی اسلام آباد کانفرنس میں کمتر درجے کا وفد بھیجا۔


عین اس وقت جب اسلام آباد میں میزبان ملک کے وزیرِ اعظم و مہمان وزرائے خارجہ فلسطینی المیے اور عالمِ اسلام کی بے التفاتی پر روشنی ڈال رہے تھے۔مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں صدر عبدالفتح السسی سہ رکنی چوٹی کانفرنس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ اور امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کی میزبانی کر رہے تھے۔اس چوٹی اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان سابق جوہری سمجھوتے کے ممکنہ احیا کے سبب '' خطے پر پڑنے والے منفی اثرات ''کے ممکنہ تدارکی طریقوں پر غور ہوا۔

اگر اسلام آباد میں وزرائے خارجہ کانفرنس کے ایجنڈے کا ایک اہم مباحثی نکتہ مسئلہ کشمیر تھا تو دوسری جانب سری نگر میں چار روزہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس بھی جاری تھی جس میں ہانک کانگ کے علاوہ سعودی اور اماراتی سرمایہ کار بھی مدعو تھے۔مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ اس برس ریاست کے سیاحتی ، زراعتی و توانائی کے شعبوں میں ستر ارب روپے کی غیر ملکی سرمایہ کاری لانا چاہتی ہے۔

جنوری میں امارات کی تیس کمپنیوں سے ریاستی انتظامیہ نے تین ارب روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری کے سمجھوتوں پر دستخط کیے۔سری نگر اور دبئی کے درمیان براہ راست مسافر پروازیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔جب کہ سری نگر اور سعودی عرب کے درمیان فضائی سروس کے سلسلے میں دونوں ممالک کے مابین اصولی اتفاق ہو چکا ہے۔

حالانکہ سری نگر کی سرمایہ کاری کانفرنس ، شرم الشیخ کے سہ ملکی چوٹی اجلاس اور اسلام آباد میں اسلامی وزراِ خارجہ اجلاس تین الگ الگ واقعات ہیں۔ ان کا آپس میں بظاہر کوئی موازنہ یا تال میل بھی نہیں بنتا مگر کہنے میں کیا جاتا ہے۔

ہر کانفرنس میں یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ آخر ڈیڑھ ارب مسلمان آبادی اور اتنے قدرتی وسائل کے باوجود عالمِ اسلام اتنا مجبور اور بے چارگی کی تصویر کیوں ہے۔ ہر بار اجلاس اس سوال کا جواب اپنے اندر ٹٹولنے کے بجائے باہر ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ تنظیم کی تشکیل کے تریپن برس بعد بھی جواب کی تلاش جاری ہے۔

اس عرصے میں دیگر اجتماعی یا علاقائی تنظیموں نے تیز رفتار یا سست رفتار پیش رفت ضرور کی۔مگر اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی عددی تنظیم کہلائی جانے والی اسلامی کانفرنس ثابت قدمی سے ایک ہی جگہ کھڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں سالانہ اجلاسوں کے موقع پر پھر بھی تھوڑی بہت ہل جل اور رونق میلہ دکھائی دے جاتا ہے۔کم ازکم چند عالمی رہنماؤں کی کچھ اچھی تقاریر بھی سننے کو مل جاتی ہیں۔ مگر اسلامی کانفرنس کے اجلاسوں میں سوائے خشکی کے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔مندوبین بھلے اباسیاں روک لیتے ہوں لیکن اجلاس کی فضا ضرور اباسی گزیدہ ہوتی ہے۔بقول میرے دوست عبداللہ پنواڑی ایسے اجلاس نرا خرچہ ہیں۔

ایک تو اس تنظیم کا حجم اتنا ہے کہ کسی بھی اہم نکتے پر اتفاقِ رائے مینڈکوں کو ترازو میں تولنے جیسا ہے۔ اتفاق رائے ہو بھی جائے تو وہ بھی ایک دوسرے کی بدگمانی کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس قدر لجلجا ہوتا ہے کہ ہونا نہ ہونا برابر ہے۔اس تناظر میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جہاں بزرگوں کی دیگر نشانیاں گھر میں پڑی ہیں وہاں ایک یہ بھی سہی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اور Tweeter.@WusatUllahKhan پر کلک کیجیے)
Load Next Story