بدحال افغان قوم پہ سپرپاور کا نیا وار

خانہ جنگی ،قحط اور بھوک میں مبتلا کروڑوں افغانوں کی مدد کرنے کے بجائے امیرکبیر امریکیوں نے اُن پہ کاری ستم ڈھا دیا

خانہ جنگی ،قحط اور بھوک میں مبتلا کروڑوں افغانوں کی مدد کرنے کے بجائے امیرکبیر امریکیوں نے اُن پہ کاری ستم ڈھا دیا۔ فوٹو : فائل

یوکرین پر روس کے حملے سے یہ سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ دنیا یک قطبی نہیں رہی۔کوئی عالمی طاقت اب کرہ ارض کی ٹھیکے دار نہیں کہلا سکتی۔

پچھلے تیس سال سے امریکا کو اکلوتی سپرپاور ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔مگر امریکی حکمران طبقہ بطور عالمی قوت اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام نہیں دے سکا۔خاص طور پہ عالم اسلام میں اس نے دیگر مغربی طاقتوں کی مدد سے جنگوں اور سازشوں کا جمعہ بازار لگا دیا۔انسانی حقوق و جمہوریت کا خودساختہ چیمپین ہونے کے باوجود اسلامی ممالک میں انہی کو پیروں تلے کچلتا رہا۔اس امر کی تازہ مثال پچھلے دنوں سامنے آئی۔

تلملاتی روحیں
سچ یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے کا طرزعمل دیکھ کر بانیان ِامریکا مثلاً بنجمن فرینکلن، تھامس جیفرسن ، ابراہام لنکن کی روحیں تلملا رہی ہوں گی۔انھوں نے تو ایسے امریکا کا خواب دیکھا تھا جہاں سچائی، انسان دوستی، ہمدری ،امن اور عدل وانصاف کا بول بالا ہو گا۔مگر اس مملکت کے خصوصاً حکمران اپنے مفادات کے غلام بن چکے۔اگر اخلاقیات اور قانون ان کے مفادات کی تکمیل میں رکاوٹ بن جائیں تو وہ انھیں روندتے ہوئے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔افغانستان میں ان کا عمل یہی امر عیاں کرتا ہے۔

ذخائر زرمبادلہ پہ قبضہ
ہمارا پڑوسی ، افغانستان پچھلے پانچ عشروں سے متحارب گروہوں کی لڑائیوں اور اغیّار کے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ان جنگوں کی وجہ سے ملک تباہ حال ہو چکا اور عوام بھی۔فی الوقت طالبان نے سرزمین ِافغاناں کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔مغربی حکمران شدت پسندانہ اسلامی نظریات رکھنے کی وجہ سے انھیں پسند نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے، وہ اگست 2021ء کو برسراقتدار آئے تو انھوں نے اپنے مالیاتی اداروں میں محفوظ افغان سینٹرل بینک(Da Afghanistan Bank) کے ذخائر زرمبادلہ منجمد کر دئیے۔مدعا یہ تھا کہ طالبان انھیں کام میں لا کر اپنی حکومت معاشی طور پہ مستحکم نہ کر سکیں۔

افغان عوام اذیت و کرب میں مبتلا
افغان کرنسی فرانس اور پولینڈ سے چھپ کر آتی تھی۔ امریکا نے نئی کرنسی کی آمد روک دی۔ مزید براں کرنسی کا ترسیل کا عالمی نظام، سوئفٹ(SWIFT)) بھی افغانستان میں منجمند کر دیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے طالبان حکومت کے پاس نقد رقم کم ہو گئی۔اس کے پاس اتنی کرنسی نہیں رہی کہ سبھی سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دے سکے۔چناں چہ اسکولوں اور اسپتالوں میں استاد و ڈاکٹر نہ ہونے سے کام ٹھپ ہو گیا۔ بینکوں کے پاس بھی اتنی کرنسی نہیں رہی کہ گاہکوں کی مانگ پوری کر سکیں۔غرض طالبان حکومت بنتے ہی وہ شدید معاشی مسائل کا شکار ہو گئی اور مغربی طاقتیں یہی چاہتی تھیں تاکہ اسے ناکام بنایا جا سکے۔ اس سارے ڈرامے سے مگر افغان عوام ہی اذیت و کرب میں مبتلا ہوئے۔

عام افغان کی قسمت نہ بدل سکی
دسمبر 2001ء سے اگست 2021ء تک، تقریباً بیس سال امریکا ویورپی ممالک کے حمایت یافتہ افغان حکمران افغانستان پر حکومت کرتے رہے۔اس حکومت کو مغرب نے بلامبالغہ اربوں ڈالر فراہم کیے تاکہ افغانستان ترقی پذیر، جمہوری، روشن خیال اور خوشحال مملکت میں ڈھل جائے۔مگر خود امریکی ماہرین اقرار کرتے ہیں کہ بیشتر امداد افغان حکمران طبقے اور مغربی ٹھیکے داروں(نجی کنٹریکٹرز)کی تجوریوں میں پہنچ گئی۔بہت کم رقم سے افغان عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے بن پائے۔یہی وجہ ہے، عام افغان کی قسمت نہیں بدل سکی۔آج بھی کروڑوں افغان بدحال، غریب و بھوک کا شکار ہیں۔

امریکی ویورپی ممالک اب بھی افغان حکومت کو ہر سال چار ارب ڈالر سے زائد رقم دے رہے تھے تاکہ وہ اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔افغان حکومت کے ''80 فیصد''اخراجات اسی غیرملکی امداد سے پورے ہوتے۔پھر افغانستان میں کئی غیرملکی سماجی تنظیمیں بھی سرگرم عمل تھیں۔وہ غریب افغانوں کو خوراک اور تعلیم و صحت کی سہولیات مہیا کرتی تھیں۔جب طالبان آئے تو انھیں ناکام بنانے کی خاطر مغربی ملکوں نے ساری امداد روک لی۔بیشتر غیرملکی تنظیموں نے بھی کام روک دیا۔ان تبدیلیوں نے افغان معیشت کو کافی نقصان پہنچایا۔

امریکا و یورپی یونین کے منتقمانہ اقدامات
بدقسمتی سے افغانستان کے کئی صوبے چند برس سے قحط کا شکار ہیں۔اس قدرتی آفت نے صورت حال کو مزید سنگین اور تشویش ناک بنا دیا۔امریکا و یورپی یونین نے امداد ہی بند نہ کی بلکہ مغربی کمپنیوں کو طالبان حکومت کے ساتھ لین دین کرنے سے روک دیا۔جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے افغان قوم کی حالت زار اجاگر کی اور واویلا مچایا، تب محدود لین دین کی اجازت دی گئی۔

اس حکمت عملی سے بہرحال طالبان سے زیادہ افغان عوام کو نقصان پہنچا کیونکہ رقم نہ ہونے سے جاری عوامی منصوبے ٹھپ ہو گئے۔حکومت انھیں سستے داموں یا مفت خوراک نہیں دے سکی۔ اسپتالوں میں ڈاکٹر نہ رہے اور ادویہ ختم ہو گئیں۔ اسکولوں میں تعلیم دینے کا عمل رک گیا۔غرض افغان عوام کو کچھ سہولتیں دینے والا جو نظام جیسے تیسے چل رہا تھا، امریکا و یورپی یونین کے منتقمانہ بلکہ عیّارانہ اقدامات سے بالکل ہی بیٹھ گیا۔

انوکھا ڈراما
اقوام متحدہ، ریڈ کراس، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر ممتاز سماجی تنظیموں نے مغربی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ طالبان حکومت کا معاشی مقاطع نہ کریں کیونکہ اس سے افغان عوام متاثر ہو رہے تھے۔مگر سنگ دل امریکی ویورپی حکمرانوں نے اپیل پہ دھیان نہ دیا۔بلکہ امریکا میں ایک انوکھے ڈرامے کا آغاز ہو گیا۔انسانی تاریخ نے انسانیت کی تضحیک کرنے اور مفادات پانے کی خاطر اتنے اونچے پیمانے کھیلا جانے والا سرکاری کھیل کبھی نہیں دیکھا۔

اس کھیل کا آغاز حادثہ نائن الیون سے ہوتا ہے۔امریکی حکومت کا دعوی ہے کہ یہ حملہ القاعدہ تنظیم نے کرایا جس میں تقریباً تین ہزار لوگ مارے گئے۔بعد ازاں کئی مقتولین کے ورثا نے القاعدہ کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمے دائر کر دئیے۔وہ تنظیم سے ہرجانہ لینے کے متمنی تھے۔بعض کیسوں میں طالبان، ایران اور دیگر ''اسلامی دہشت گرد''تنظیموں کو بھی فریق بنایا گیا۔دعوی کیا گیا کہ یہ بھی القاعدہ کے حامی ہیں۔ان مقدموں میں ایک مقدمہ ''ہولیش''(Havlish)کے نام سے معروف ہوا۔یہ مقدمہ حادثے میں ہلاک ہونے والے 47 مردوزن کے ڈیرھ سو لواحقین نے داخل کیا۔

عدل وانصاف کی مٹی پلید
دسمبر 2011 ء میں نیویارک کے سائوتھرن ڈسٹرکٹ سے منسلک ڈسٹرکٹ کورٹ (United States District Court for the Southern District of New York) کے جج، جارج بینجمن نے فیصلہ سنایا کہ القاعدہ، طالبان اور ایران وغیرہ ہولیش گروپ کو چھ ارب ڈالر بطور ہرجانہ ادا کریں۔دوران مقدمہ القاعدہ، طالبان اور ایران کی طرف سے کوئی وکیل صفائی پیش نہیں ہوا۔لہذا امریکی جج نے یک طرفہ فیصلہ سنا ڈالا۔یہ امریکی عدلیہ کے ہاتھوں عدل وانصاف کا پہلا خون تھا۔

اس وقت تک القاعدہ تتّربتّر ہو چکی تھی۔طالبان بھی منتشر تھے۔صرف ایرانی حکومت کا وجود باقی تھا۔لہذا ہولیش گروپ کے وکلا نے یورپی عدالتوں میں ایرانی حکومت کے خلاف مقدمے ٹھونک دئیے۔مقصد یہ تھا کہ ان ملکوں میں ایران کے جو اثاثہ جات ہیں، وہ بطور ہرجانہ ہولیش گروہ کے سپرد کر دئیے جائیں۔

افغانوں کی رقم ہمیں دو
وسط اگست 2021ء میں جب طالبان نے افغانستان کی باگ دوڑ دوبارہ سنبھال لی تو ہولیش گروپ پھر سرگرم ہو گیا۔ وجہ یہی کہ اس کے وکلا جانتے تھے، افغان سینٹرل بینک کے منجمند شدہ دس ارب ڈالر میں سے سات ارب ڈالر امریکی سینٹرل بینک، فیڈرل ریزرو کی نیویارک شاخ میں محفوظ تھے۔اس باعث گروپ کے وکلا نے پھر ڈسٹرکٹ کورٹ سے اپیل کی کہ وہ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کو حکم دے، افغان سینٹرل بینک کی ملکیت سات ارب ڈالر بطور ہرجانہ اسے ادا کر دئیے جائیں۔عدالت نے 2011 ء میں فیصلہ دیا تھا اور اب سود ملا کر ہرجانے کی رقم سات ارب ڈالر ہو چکی تھی۔

ڈسٹرکٹ کورٹ آف سائوتھرن نیویارک نے ہولیش گروپ کے وکلا کی درخواست قبول کر لی۔چناں چہ اس نے بذریعہ رٹ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کو حکم دیا کہ وہ افغان سینٹرل بینک کی منجمد شدہ رقم جو سات ارب ڈالر سے زائد تھی، ہولیش گروپ کو دینے کی خاطر کارروائی کا آغاز کر دے۔اسی دوران حادثہ نائن الیون سے متعلق دیگر مقدمات کے وکلا نے بھی ڈسٹرکٹ کورٹس سے رابطہ کر لیا۔وہ بھی اپنے مدعیوں کو ہرجانے کی رقم کا حصے دار بنانا چاہتے تھے۔غرض ریاست افغاناں کی ملکیتی رقم پہ امریکی چیل کوئوں کی جھپٹ پڑے اور اسے ہڑپ کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔

دن دیہاڑے حق تلفی
سات ارب ڈالر مگر ایک غیرملکی ریاست کے بینک کی ملکیت تھے۔اس لیے ڈسٹرکٹ کورٹ اور فیڈرل ریزرو، دونوں نے وفاقی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا تاکہ معاملے کے سلسلے میں اس کی رائے لے سکے۔یوں معاملے میں بائیڈن حکومت بھی شامل ہو گئی۔حکومت کے بڑے مسئلے پہ غوروخوص کرنے لگے۔ امریکی حکومت نے آخر منجمند شدہ رقم دو برابر حصّوں میں تقسیم کر کے افغان قوم کی دن دیہاڑے حق تلفی کر دی بلکہ مجبور و مظلوم افغانوں پہ ظلم ڈھایا۔حتی کہ کئی باضمیر امریکی دانشوروں نے اس فعل کو بجا طور پہ ''افغان قوم کا قتل عام'' قرار دیا۔

اس سارے انوکھے قضیے کے دو پہلو...اخلاقی اور قانونی سب سے نمایاں ہیں۔

دو اقوام کے مابین تقابل
یہ درست ہے کہ حادثہ نائن الیون کی وجہ سے مقتولین کے ورثا کو جذباتی، ذہنی اور مالی طور پہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔اگر یہ حملہ کسی اسلامی تنظیم کے رہنمائوں نے کرایا تو یہ ناجائز فعل تھا۔اسلامی جنگی اصول نہتے شہریوں پہ حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔مگر آج مقتولین کے سبھی ورثا آرام وآسائش کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ان کو امریکی حکومت اور انشورنس کمپنیاں کروڑوں روپے ادا کر چکیں۔انھیں ضرورت کی ہر شے دستیاب ہے۔جبکہ بیشتر افغان بہ مشکل دو وقت کی روٹی کھا پاتے ہیں۔انھیں کوئی آسائش و سہولت میّسر نہیں۔

تباہ حال افغان قوم کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی حالت زار دیکھتے ہوئے امریکی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ افغان سینٹرل بینک کی منجمد شدہ رقم جاری کر دیتی۔جبکہ مقتولین کے ورثاہرجانے کی رقم لینے کے دعوی سے دستبردار ہو جاتے۔مگر امریکیوں نے ہمدردی ورحم کے اعلی جذبات نہ دکھاتے ہوئے بیچارے افغانوں کی رقم پہ ہلّہ بول دیا۔پیٹ بھرے ہونے کے باوجود وہ پیسے کے لالچ وہوس میں گرفتار ہو گئے۔

اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق آج ''95 فیصد''افغان والدین اپنے بچوں کا پیٹ نہیں بھر پاتے۔اس لیے لاکھوں بچے بھوک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔خانہ جنگیاں اور استعمار کے حملے پچانوے فیصد افغانوں کو غربت کے دہانے تک پہنچا چکے۔افغانستان میں ایک عام آدمی کی زندگی بہت کٹھن و مشکل ہو چکی۔بھوک، بیماری اور ناخواندگی نے انھیں اپنا نشانہ بنا رکھا ہے اور پاکستانیوں کے علاوہ کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا۔

صرف اپنا مالی مفاد
افغان قوم کے دکھ درد دیکھ کر امریکیوں میں انسانیت کی ذرا سی بھی رمق ہوتی تو وہ ان کی رقم ہڑپ کرنے کے منصوبے نہ بناتے۔مگر انھوں نے تمام تر اخلاقیات اور جذبہِ انسان دوستی بھول کر صرف اپنے مالی مفاد کو مدنظر رکھا۔بعض امریکیوں کی سوچ یہ ہے کہ بھوکے ننگے افغانوں کے پاس دس ارب ڈالر کہاں سے آ گئے؟یہ رقم تو مغربی ممالک ہی نے انھیں فراہم کی تھی۔لہذا امریکا و یورپ ہی رقم کے اصل مالک ہیں۔


ایک نقطہ نظر اینڈریو مالونی(Andrew Maloney)نے بیان کیا۔موصوف ایک لا فرم،کرینڈلر اینڈ کرینڈلر کے مالکوں میں شامل ہے۔یہ فرم بھی حادثہ نائن الیون کے مقتولین کا مقدمہ لڑ رہی ہے:

''افغان سینٹرل بینک کی رقم نائن الیون کے متاثرین اور امریکی وکلا ہی کو ملنی چاہیے۔وجہ یہ ہے کہ افغان عوام نے طالبان کا بالکل مقابلہ نہیں کیا۔انھوں نے آسانی سے مملکت پہ قبضہ کر لیا۔لہذا افغان عوام نے مصیبت کو خود دعوت دی اور اب انھیں اس کو بھگتنا ہو گا۔''

''بُرے وقت ''میں کام آئے گی
امریکی سماجی تنظیموں کی رپورٹیں مگر افشا کرتی ہیں کہ افغان سینٹرل بینک کی منجمد شدہ رقم میں عام افغانوں کی رقومات بھی شامل ہیں۔یہ رقوم انھوں نے ''بُرے وقت ''میں کام آنے کی خاطر بینکوں میں جمع کرائی تھیں۔اس پہ مگر امریکا، جرمنی، سوئٹرزلینڈ اور برطانیہ کی حکومتوں نے زبردستی قبضہ کر لیا۔یہ حکومتیں اور ان کے ''باشعور'' اور ایک کتے کی حالت زار دیکھ کر مضطرب ہو جانے والے امیر عوام بھوک و پیاس میں مبتلا سسکتے افغانوں کو نظرانداز کر کے ڈالروں کے پیچھے دوڑ پڑے۔مادی اشیا کی ہوس مغربی دنیا کا طرّہ امتیاز بن چکی۔

وکلا کی ہوس
اس سارے سنگین معاملے کا ایک نمایاں غیر اخلاقی پہلو یہ ہے کہ ہولیش گرہ کے وکلا بہت اثرورسوخ کے مالک ہیں۔بیشتر وکلا جینر اینڈ بلاک (Jenner & Block)نامی لا فرم سے تعلق رکھتے ہیں۔اس فرم کا سربراہ ،تھامس پریلی امریکا کا سابق ایسوسی ایٹ اٹارنی جنرل ہے۔ایک اور اہم وکیل، لی وولسکی بائیڈن حکومت کی نیشنل سیکورٹی کونسل کا مشیر خاص تھا۔اسی کی زیرنگرانی افغانستان سے امریکی انخلا انجام پایا۔جنوری 2022 ء میں وہ استعفی دے کر جینر اینڈ بلاک میں شامل ہو گیا۔

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان بااثر وکلا نے بائیڈن حکومت پہ دبائو ڈالا کہ وہ افغانستان کے منجمد شدہ ذخائر زرمبادلہ کا آدھا حصّہ ہولیش گروہ کو دے ڈالے۔یہی وجہ ہے، فروری میں صدر بائیڈن نے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کر کے 3.5 ارب ڈالر کی خطیر رقم ہولیش گروپ کو دے ڈالی۔سوال یہ ہے کہ امریکی وکلا نے افغان سینٹرل بینک کے ملکیتی ڈالروں کو تقسیم کرنے پر کیوں زور دیا؟

وجہ یہ ہے کہ ساڑھے تین ارب ڈالر میں سے کم از کم ''تیسرا حصہ'' مقدمہ لڑنے والے وکلا کو بھی ملے گا۔کثیر تعداد میں ڈالر دیکھ کر ہی امریکی وکلا کی رال ٹپک پڑی اور وہ رقم پانے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے۔ہوس میں آ کر انھوں نے انسانیت کی سبھی حدیں پار کر دیں اور محض اپنا مالی فائدہ سامنے رکھا۔بائیڈن حکومت نے بھی قانون وانصاف کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے اور ہویلش گروپ کے وکلا کے دبائو کا شکار ہو گئی۔

جب امریکی میڈیا میں یہ خبر پھیل گئی کہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا زر ِکثیر صرف ڈیرھ سو مردوزن کو بخش دئیے گیا تو نائن الیون کے دیگر متاثرین میں غم وغصّہ پھیل گیا۔انھوں نے احتجاج کیا کہ ڈیرھ سو افراد کو کیوں منظور ِنظر بنایا گیا؟یہ ساری رقم سب متاثرین میں برابر تقسیم ہونی چاہیے۔یہ عمل انجام دینے میں قانونی مسئلہ یہ ہے کہ صرف ہویلش گروپ نے طالبان کے خلاف مقدمہ جیتا ہے۔لہذا یہی گروپ قانونی طور پہ ساڑھے تین ارب ڈالر وصول کر سکتا ہے۔

ریاست افغانستان فریق نہیں
اب آئیے کیس کے قانونی پہلوئوں کی طرف!2012ء میں نیویارک کے سائوتھرن ڈسٹرکٹ سے وابستہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں جو مقدمہ چلا، اس میں ریاست افغانستان کو فریق نہیں بنایا گیا تھا۔مقدمہ چلانے والو ں نے صرف طالبان کو فریق بنایا۔ ویسے بھی ایک ملک کی عدالت میں دوسرے ملک یا اس کے کسی سرکاری ادارے کو کئی قانونی مراحل طے کرنے کے بعد ہی فریق بنانا ممکن ہے۔

ایران کو امریکی عدالت میں امریکا کے ایک قانون''ٹی آر آئی اے'' (Terrorism Risk Insurance Act) کی وجہ سے فریق بنانا مکن ہو سکا۔یہ قانون 2002ء کو بنایا گیا تھا۔اس قانون کی رو سے اگر کوئی امریکی ''دہشت گرد'' ملک، تنظیم یا فرد کا نشانہ بنے تو وہ متعلقہ فریق کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کر سکتا ہے۔

امریکا نے ''دہشت گرد''ممالک، تنظیموں اور افراد کی فہرستیں بنا رکھی ہیں۔ان پہ مختلف پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ افغانستان اور طالبان، کبھی ان فہرستوں کا حصہ نہیں رہے۔البتہ طالبان کا ایک گروہ، حقانی نیٹ ورک 2012ء سے دہشت گرد تنظیموں کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں فی الوقت کیوبا، ایران ،شام اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔

ہولیش مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے صرف ایک مملکت ،ایران کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔تاہم فیصلے میں ایک جگہ طالبان کا ذکر کرتے ہوئے گروہ کو یوں بھی لکھا گیا:''طالبان بہ معنی اسلامی امارات افغانستان۔''اس جملے سے لگتا ہے کہ امریکی عدالت نے کم از کم اسلامی امارات افغانستان کو بھی فریق بنا لیا۔مگر پورا عدالتی فیصلہ پڑھا جائے تو اس سے عیاں ہوتا ہے کہ فریق صرف طالبان ہیں ریاست افغانستان نہیں۔یہی وجہ ہے، فیصلے کے بعد ہولیش گروپ کے وکلا نے برطانیہ،اٹلی اور لکسمبرگ کی عدالتوں میں مملکت ِایران کے خلاف مقدمے ٹھونک دئیے مگر ریاست افغانستان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔

امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کا فیصلہ آن لائن اس پتے پہ دستیاب ہے:
https://cases.justia.com/federal/distric
t-courts/new-york/nysdce/1:2003cv09
848/241306/316/0.pdf?ts=141156035

اس فیصلے میں مدعا علیہان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول خودمختار(sovereign ) اور دوسرا غیر خودمختار (nonsovereign)۔ خود مختار سے حکمران یا حکومت مراد ہے۔ اس گروہ میں ریاست ایران، آیت اللہ خامنہ ای ، حزب اللہ اور دیگر ایرانی شخصیات کو شامل کیا گیا۔ غیر خود مختار کے گروہ میں القاعدہ، طالبان اور اسامہ بن لادن رکھے گئے۔ گویا خود عدالتی فیصلے سے عیاں ہے کہ ریاست افغانستان اور طالبان...یہ دو مختلف اور علیحدہ قوتیں ہیں۔

امریکی وکلا کو شکست
درج بالا تینوں یورپی ممالک کی عدالتوں میں امریکی وکلا نے یہ موقف اختیار کیا کہ امریکی عدالت ایران کو حادثہ نائن الیون کا شریک مجرم قرار دے چکی۔لہذا ان ملکوں میں ریاست ایران کے جو اثاثہ جات ہیں، انھیں ضبط کرلیا جائے تاکہ ہولیش گروپ کو ہرجانے کی رقم ادا ہو سکے۔

ان مقدمات میں ایرانی حکومت کے وکلا نے یہ قانونی موقف اختیار کیا کہ امریکا نے القاعدہ تنظیم کو سرکاری طور پہ حادثہ نائن الیون کا موجب قرار دیا ہے۔لہذا ایک تنظیم کی اچھی یا بری سرگرمیوںکا ذمے دار ایک ریاست کو نہیں ٹھرایا جا سکتا۔انٹرنیشنل لا کمیشن کے آرٹیکل 8 اور 11 اس سلسلے میں قانونی اصطلاح ''نسبت'' (attribution) کی واضح طور پہ تشریح کرتے ہیں۔اور اسی تشریح کی رو سے کسی تنظیم (مثلاً القاعدہ)کی سرگرمیوں کو کسی ریاست سے نسبت نہیں دی جا سکتی۔

مارچ 2019 ء میں لکسمبرگ کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے ریاست ایران کے وکلا سے اتفاق کیا کہ ایک تنظیم کی سرگرمیوں کو کسی ریاست کے سر پہ زبردستی منڈھا نہیں جا سکتا ، چاہے وہ مثبت ہوں یا منفی!لہذا لکسمبرگ عدالت نے امریکی ہویلش گروپ کا مقدمہ باہر پھینک دیا۔یوں امریکی مقدمے باز لکسمبرگ میں موجود ایران کے اثاثہ جات پہ قبضہ نہیں کر سکے۔ برطانیہ اور اٹلی میں ریاست ایران کے خلاف ہولیش گروپ کی قانونی جنگ جاری ہے۔

امریکی جج کی قلابازی
جب اگست 2021ء میں افغانستان میں تبدیلی آئی اور حکومت طالبان نے سنبھال لی تو ہولیش گروپ کی حکمت عملی بھی تبدیل ہو گئی۔27 اگست کو گروپ کے وکلا نے نیویارک سائوتھرن ڈسٹرکٹ کورٹ سے استدعا کی کہ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں افغان سٹیٹ بینک کے جو سات ارب ڈالر موجود ہیں، وہ بطور ہرجانہ ہولیش گروپ کو ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔

امریکی جج کی قلابازی ملاحظہ فرمائیے ، اس نے فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کو تحریری رٹ دیتے ہوئے لکھا:''ماہ اگست سے افغانستان کا کنٹرول طالبان نے سنبھال لیا ہے۔انھوںنے مملکت کا نام اسلامی امارات افغانستان رکھ دیا جو کہ طالبان کا اپنا نام ہے۔''گویا امریکی عدالت نے بڑی چالاکی سے طالبان اور ریاست افغانستان کو ہم مترادف بنا دیا۔رٹ میں مذید لکھا گیا:

''طالبان اور اسلامی امارات افغانستان اُس مملکت کے سربراہ بن چکے جو پہلے افغانستان کہلاتا تھا۔اس مملکت کے جتنے بھی اثاثہ جات ہیں، اور جتنی بھی جائیداد ہے، اس کے مالک اب طالبان بن چکے۔اور اس اثاثہ جات میں افغان سینٹرل بینک کی ملکیت ذخائر زرمبادلہ بھی شامل ہیں۔''

رٹ کے اختتام پہ لکھا گیا:''2011 ء میں طالبان کے خلاف جو فیصلہ سنایا گیا تھا، اس کی تعمیل کا وقت آ پہنچا ۔طالبان اب بطور اسلامی امارات افغانستان کام کر رہے ہیں۔لہذا فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں ان کے جتنے بھی اثاثہ جات ہیں، انھیں ضبط کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔''

مغربی حکمرانوں کا اصل روپ
بائیڈن حکومت اگر قانون و انصاف کی پرستار ہوتی تو عدالت میں یہ موقف اختیار کرتی کہ طالبان اور ریاست افغانستان دو الگ قوتیں ہیں۔مگر اس نے ناانصافی سے کام لیتے ہوئے افغان سینٹرل بینک میں موجود افغانوں کی رقم دو حصوں میں بانٹ دی۔یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا بقیہ 3.5ارب ڈالر افغان قوم کو مل سکیں گے؟کیونکہ حکومت امریکا عموماً صرف امریکی یا مغربی سماجی تنظیموں اور کنٹریکٹرز کو مالی امداد دیتی ہے تاکہ اس کا بیشتر حصّہ واپس آ جائے۔

امریکی حکمران طبقے کی تاریخ اور سازشوں سے عیاں ہے، افغان سینٹرل بینک کو شاید ہی اپنے منجمند شدہ ذخائر واپس مل سکیں۔افغان قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا دعوی کرنے والے مغربی حکمرانوں کا اصل مکروہ روپ یہ واقعہ سامنے لے آیا۔
Load Next Story