اٹامک انرجی ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں میگا اسکینڈل کا انکشاف

بددیانت مینجمنٹ کمیٹیوں نے متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے ہائوسنگ سوسائٹی کے چاروں فیزز کوکرپشن کا گڑھ بنا دیا.

بددیانت مینجمنٹ کمیٹیوں نے متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے ہائوسنگ سوسائٹی کے چاروں فیزز کوکرپشن کا گڑھ بنا دیا.

KARACHI:
کیبنٹ ڈویژن ایمپلائز کوآپریٹوہائوسنگ سوسائٹی(CDECHS) کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ایمپلائزکوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی( PAEC-ECH)میں ایک بہت بڑے اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جس میں10 ہزار ممبرز کو 15 سال گزرجانے کے باوجود پلاٹس کا قبضہ نہیں دیا جارہا اور یہ ممبرز اپنی زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد محمد علی کی طرف سے کی گئی انکوائری کی رپورٹ ایکسپریس انوسٹی گیشن سیل کو موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیاہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ایمپلائزکوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی پاکستان کی سب سے بڑی ہائوسنگ سوسائٹی ہے جس نے گزشتہ 2دہائیوں میں 4 فیزبنائے جس میں روات فیز ون اور روات فیزایکسٹینشن، چھتر فیزٹو اور لگژری اپارٹمنٹس پروجیکٹس ہیں مگر اس کی بددیانت مینجنگ کمیٹیز نے اسلام آباد انتظامیہ کے متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے ہر پروجیکٹ کو کرپشن کا گڑھ بنا دیاہے۔ پی اے ای سی ای سی ایچ ایس کے متاثرین عام آدمی نہیں بلکہ اٹامک انرجی کمیشن کے انتہائی پڑھے لکھے افسران ہیں جنھوں نے سال ہا سال ملک کی خدمت میں گزارے۔ انکوائری رپورٹ میں بدعنوانی کرنیوالے کرداروں اور کرپشن کے حجم کے بارے میں غیرمبہم انداز میں بتایا گیا ہے مگر اس کے باوجود ملزمان کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے 10 ہزار ممبرز کو ریلیف دینے کے بجائے لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔


انکوائری رپورٹ پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف اسلام آباد انتظامیہ کے ایک ایماندار افسر کی محنت ضائع ہوئی بلکہ سال ہا سال سے مایوسی کا شکار ممبران کی مایوسی مزید گہری ہوگئی ہے۔سی ڈی ای سی ایچ ایس اور پی اے ای سی ای سی ایچ میں بہت سی مماثلت ہے جیسے کہ دونوں کی مینجمنٹ کمیٹیوں نے ممبران کے فنڈز کا غلط استعمال کرکے اربوں روپے کمائے ہیں، دونوں میں ایک فرق ہے کہ پی اے ای سی ای سی ایچ ایس فراڈ کے2اہم ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ سی ڈی ای سی ایچ ایس میں فراڈ کے ذریعے اربوں روپے کمانے والوں قانون کی گرفت سے دور ہیں۔ پی اے ای سی ای سی ایچ ایس کیس میں پٹیشنر فضل حسین نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں سابق چیف کمشنر طارق پیرزادہ اور سرکل رجسٹرار اسلام آباد ملک دین پر بھی اعتراضات کیے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیس کی سماعت کے دوران طارق پیرزادہ کو پی اے ای سی ای سی ایچ ایس فراڈ میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی مگر طارق پیرزادہ نے اسے نظرانداز کردیا۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی اے ای سی ای سی ایچ ایس کی مینجمنٹ کمیٹی، اس کے ڈیولپر، ٹھیکیدار سمیت ہر ایک نے لوٹی ہوئی رقم سے حصہ وصول کیا ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق کرپشن کے الزامات پر فارغ ہونیوالے پیپلزپارٹی کے سابق وزیر حامد سعید کاظمی کے کزن شوکت علی خان پی اے ای سی ای سی ایچ ایس میں کرپشن کے ماسٹرمائنڈ ہیں۔ انھوں نے سوسائٹی کے ساتھ زمین کی جعلی ڈیل کے ذریعے کروڑوں روپے کمائے، ممبران کی طرف سے درج مقدمے میں بھی وہ نامزد ہیں مگر اب تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ظفر اقبال(ایگزیکٹو ممبر)، واجد علی بیگ(سائٹ سپروائزر)، امان اللہ(پٹواری)، اکرم(آفس سپریٹنڈنٹ)، مرزا نسیم الحق( سوسائٹی سیکریٹری)، چوہدری نواز(ایگزیکٹو ممبر)، چوہدری اکرم(نائب صدر)، بابرمجید(ایگزیکٹو ممبر)، خالد محمود(ایگزیکٹو ممبر)، طاہر اقبال(اکائونٹنٹ) اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں۔

میسرز جوبکو پرائیویٹ لمیٹڈ، میسرز ارشد اینڈ کمپنی، میسرز سپرشاہین مشینری سٹور اور میسرز جاوید اختر بٹ سمیت ڈیولپرز نے بھی اپنا پیشہ وارانہ کام کرنے کی بجائے کمیٹی کی کرپشن میں حصے دار بننے کو ترجیح دی اور ان میں سے کسی کو بھی سزا نہیں ملی۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق یہ واضح ہے کہ پی ا ے ای سی ای سی ایچ ایس کے معاملات شفاف طریقے سے نہیں چلائے گئے اور اس کے نتیجے میں ممبرز کو2ارب 35 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں فضل حسین کی شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مینجمنٹ کمیٹی اور ڈیولپر پر بھاری کرپشن کے الزامات درست ہیں، فضل حسین انکوائری رپورٹ کے مواد سے اتفاق کرتے ہیں مگر لوٹی ہوئی رقم کی مالیت پر اتفاق نہیں کرتے،وہ مینجمنٹ کمیٹی کیخلاف کارروائی کی رفتار سے بھی مطمئن نہیں۔اس حوالے سے جب ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیردل سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام ملزمان کی گرفتاری کیلیے کیس پر کام کر رہے ہیں اور کوشش ہے کہ مایوس ممبران کو بلاتاخیر ریلیف دیا جائے۔
Load Next Story