عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے

سفر نامے اور آپ بیتیاں ہمیشہ اپنے قاری کو نئی دنیا سے روشناس کراتی ہیں

کوئی میری تعریف کرے تو مجھے بہت بُرا لگتا ہے، نہ کرے تو مزید بُرا لگتا ہے۔ عطا الحق قاسمی کے منہ سے نکلے یہ الفاظ سن کر پوری محفل زعفران زار بن گئی ، مگر ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ، وہ جس محفل میں بھی ہوں ادبی چٹکلوں اور زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات سنا کر سنجیدہ چہروں پر مسکراہٹ کا رنگ بکھیر دیتے ہیں۔

عطا الحق قاسمی کو یہ دُکھ ہے کہ اُن کی عمر کے ادیب و شاعر ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اِس دنیا میں تنہا محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس دنیا سے رخصت ہونے والے اپنے ہم عصر شعرا اور ادیبوں کا ذکر تو انھوں بارہا کیا ، مگر لاہور کے ایسے کرداروں کا ذکر کرنا بھی نہ بھولے جو اُن کے کالموں ، تحریروں اور ڈراموں کے لافانی کرداروں کے روپ میں ڈھلتے رہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان نے اُن کے اعزاز میں شام مزاح منعقد کی تو اُن کی شخصیت کے کئی منفرد پہلو سامنے آئے ، وہ لاہور کی تہذیب و ثقافت کے اجڑ جانے پر دل برداشتہ اور اس شہر کی ادبی اور فنی محلفوں کو چار چاند لگانے والی شخصیات کے بچھڑ جانے پر افسردہ تھے ، مگر ہر حال میں خوش رہنے کو ہی زندگی گزارنے کا بہترین فن قرار دے رہے تھے لیکن انھوں نے حاضرین محفل کو ایک ایسے کردار سے بھی متعارف کروایا جو اپنی گفتگو کا آغاز کسی اچھی خبر کے بجائے بیماری ، رنج ، دکھ اور موت سے کرتا تھا اور جسے مل کر اُن کا پورا دن انتہائی مایوسی میں ڈھل جاتا تھا۔

زندگی کی تہتر بہاریں دیکھنے کے باوجود حیرت انگیز طور پر عطا الحق قاسمی کی صحت ہی قابل رشک نہیں بلکہ حافظہ بھی قابل داد ہے جس پر نقش لاہور کی لگ بھگ پچاس سالہ ادبی اور فنی تاریخ کے اوراق بوسیدہ ہوئے اور نہ ہی اُن پر درج الفاظ کی روشنائی ماند پڑی۔ لگ بھگ اٹھارہ سال قبل اخبار میں اُن کا ایک کالم پڑھا تھا جس میں انھوں نے اپنے قریبی دوست مستنصر حسین تارڑ پر طنز کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ وہ کسی مغربی ملک سے آتے ہوئے جہاز کی جس سیٹ پر براجمان تھے ایک غیر ملکی خوب صورت دوشیزہ بھی اُن کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

دوران سفر اُسے نیند آئی اور اُس نے اپنا سر قاسمی صاحب کے کندھے پر ٹیک دیا ، جس پر انھوں نے اُس خاتون کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا '' بی بی ! میں مستنصر حسین تارڑ نہیں عطا الحق قاسمی ہوں'' حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں اپنا لکھا ہوا وہ کالم اور اُس سے جڑا یہ واقعہ اب بھی اس طرح یاد تھا جیسے یہ کل کی بات ہو۔ بہت سارے بچھڑے ہوئے رفیقوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر دکھ کے سائے تو لہرائے، مگر اپنی زندگی سے جڑے واقعات سناتے ہوئے وہ پوری محفل کو اپنے ساتھ لیے قہقہوں کی وادی میں محو سفر رہے۔

سفر نامے اور آپ بیتیاں ہمیشہ اپنے قاری کو نئی دنیا سے روشناس کراتی ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے پڑھتے ہوئے قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ خود بھی اس دنیا کا حصہ بن چکا ہے ۔ ان سفر ناموں کو پڑھتے ہوئے قاری اس میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ اسے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتاکہ کب سورج ڈھلا اور کب شام اس کے آنگن میں آ اتری۔

احمد ندیم قاسمی کی زندگی سے جڑے واقعات ہوں یا امجد اسلام امجد کی باتیں، خالد احمد کے ساتھ گزارے یادگار دن ہوں یا منیر نیازی ، قتیل شفائی اور احمد راہی کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کا احوال ہو اُن کی زبان پر جس کا بھی ذکر آتا سامعین کے خشک ہونٹوں پر بہار آجاتی۔


اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر احمد راہی کے بارے میں جب ہم نے اُن سے پوچھا ، تو اُن کا کہنا تھا کہ احمد راہی ایک مشاعرے کی صدارت کررہے تھے ، مگر کسی وجہ سے انھیں بار بار اسٹیج سے اٹھ کر باہر جانا اور دوبارہ واپس آ کر کرسی صدارت سنبھالنا پڑتی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنا کلام پڑھ کر گھر جانا چاہتا ہوں ، تم مشاعرے کی صدارت سنبھال لو اور پھر کلام سنانے کے لیے میرا نام پکارو۔ قاسمی صاحب کا کہنا تھا کہ میں احمد راہی کی بہت عزت کرتا تھا ، وہ اچھے شاعر کے علاوہ مجھ سے انتہائی سینیئر بھی تھے۔

میں نے اُن سے کہہ دیا کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میں آپ کی جگہ صدارت کروں اور آپ کے بعد پڑھوں۔ آپ کو پڑھنے کے لیے بلائوں یہ تو بالکل نا ممکن ہے ، مگر اُن کے سامنے ایک نہ چلی اور آخر کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد میں نے اُن کا نام پکارتے ہوئے کہا کہ '' اب آپ کے سامنے احمد راہی اپنا کلام پیش کریں گے '' جس کے بعد احمد راہی نے اپنا کلام سنایا اور وہ اپنے گھر روانہ ہو گئے ۔

عطا الحق قاسمی کی کتابوں ، کالموں ، سفرناموں اور سفارت کاری کا ذکر کیا جائے تو بات کافی طویل ہو جائے گی اور اُن کے ڈراموں کا ذکر کیا جائے تب بھی الفاظ کم پڑ جائیں گے ، مگر ان ڈراموں کے کردار کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اب بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ '' خواجہ اینڈ سنز '' کے وہ لا فانی کردار جو لاہور کے گلی کوچوں میں پروان چڑھے ، ڈرامے کے شائقین اب بھی نہ بھلا سکے۔ لوگ دوسرے بے شمار کرداروں کی طرح آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ''شیدا ٹلی'' کو یاد کرتے ہیں۔ عطا الحق قاسمی سے جب ایک سیاسی سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ میں کالم نگار ضرور ہوں لیکن سیاست یا سیاسی کالم نویسی سے میرا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ہاں دہشت گردی کو انھوں نے اپنے معاشرے کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ۔

ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد احمد شاہ نے کہا ، انھیں گلہ ہے کہ پنجاب کے زیادہ تر شاعر اپنی مادری زبان میں شاعری نہیں کرتے جس کے جواب میں عطا الحق قاسمی کا کہنا تھا کہ انھوں نے پنجابی زبان میں بھی غزلیں کہی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں اپنی مادری زبان کی طرح پاکستان کی تمام زبانوں سے محبت کرتا ہوں۔ سامعین کی فرمائش پر انھوں نے پروگرام کے آخر میں اپنی ایک غزل کے چند اشعار سنائے جن سے اُن کی سوچ ، فن اور زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔

خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے

ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوئوں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے

ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
Load Next Story