بی جے پی کی صوبائی الیکشن میں کامیابی
ایک عام ہندو کے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی ہے کہ نریندرا مودی ہندو ازم کی نشاط ثانیہ کا باعث بن سکتے ہیں
مارچ کے دوسرے ہفتے میں بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سامنے آئے، چار ریاستوں میں بی جے پی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی سوائے پنجاب کے۔
مشرقی پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے اکالی دل، کانگریس اور بی جے پی کو شکست دیتے ہوئے کانگریسی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی دلی تک ہی محدود تھی لیکن اب مشرقی پنجاب میں کامیابی کے بعد وہ اگلے الیکشن میں دوسرے صوبوں میں بھی پیش قدمی کر سکتی ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی جس اکثریت سے جیتی ہے، وہ ہمسایہ ملکوں خاص طور پر پاکستان کے لیے الارمنگ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو مخالف سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں اتر پردیش ، اترا کھنڈ، گوا اور منی پور میں دوگنا سیٹیں ملی ہیں۔ اتر پردیش کتنا بڑا صوبہ ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف اس ایک صوبے کی آبادی پورے پاکستان کی آبادی سے زیادہ ہے۔
اس الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر ابھی سے بھارتی تجزیہ کاروں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ 2024 کے جنرل الیکشن میں بھی بی جے پی کی جیت یقینی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھارتی سیاست میں ایسا کوئی قد آور سیاسی رہنما نہیں ہے جو نریندر مودی کی قیادت کو شکست دے سکے۔
اس سے بھی زیادہ مایوس کن صورتحال یہ رہی کہ تقریباً تمام صوبوں میں کانگریس کی شکست غیر معمولی رہی ہے۔ جن صوبوں میں آج بھی کانگریس کی حکومت ہے، خطرہ ہے کہ نا اہل قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے آیندہ الیکشن میں ان حکومتوں کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی اپوزیشن کا حکمران جماعت کے مقابلے میں اتنا کمزور ہونا بھارت میں جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ بھارت میں ایک سال سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والا کسان احتجاج بھی مودی سرکار کے لیے رکاوٹ نہ بن سکا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں ذات برادری پہلی مرتبہ شکست کھا گئی ہے۔
پانچ ریاستوں میں کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سونیا گاندھی نے کہا کہ اگر پارٹی کہے تو ہم تینوں ماں، بیٹا اور بیٹی پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پچھلی پانچ دہائیوں سے زائد عرصے میں کانگریس ایک سیاسی پارٹی سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی میں ڈھل چکی ہے۔ اس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اب خاندانی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔
پاکستانی خاندانی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ کانگریس جیسی انتہائی شاندار ماضی رکھنے والی جماعت کے انجام سے عبرت پکڑیں۔ آیندہ الیکشن میں کانگریس کی ناکامی بھارتی سیکولر جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں عرب اور دیگر سرمایہ کاروں کی کانفرنس کا انعقاد ہو نے جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے خلیجی سرمایہ کاروں کی کانفرنس طلب کر لی ہے اور صرف اس سال کے لیے 70 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری سرمایہ کاری سے متعلق کانفرنس کے بارے میں کہنا ہے کہ اگر سرمایہ کاروں کو جگہ اچھی لگی تو سرمائے کی ریل پیل ہو جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے لیے کانفرنس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ کے وفد شرکت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی کمپنیوں کے تیس سے زیادہ نمایندے فی الوقت کشمیر میں ہیں۔ جہاں وہ مختلف علاقوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
بھارتی صنعت کے بڑے افسر کے مطابق اس کے علاوہ دنیا بھر کی دوسری بڑی کمپنیاں بھی یہاں سرمایہ کرنا چاہتی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری سے مقبوضہ کشمیر کی پسماندہ معیشت پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ مقصد کشمیریوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ روزگار، خوشحالی، پیسے کی ریل پیل ایسے خفیہ ہتھیار ہیں جن سے دنیا کا کوئی بھی شخص منہ نہیں موڑ سکتا۔
حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر مسلم دنیا ناکام ہو گئی ہے۔ کیا بھارتی وزیر اعظم حالیہ زبردست جیت کے بعد مقبوضہ کشمیر کے منصفانہ حل پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ جب کہ دو سال کے بعد کے الیکشن میں ان کی لینڈ سلائیڈ وکٹری بھی یقینی ہو۔ مودی کی حالیہ جیت کو تبصرہ نگار اندرا گاندھی کی 1971 کے الیکشن کی جیت کے مماثل قرار دے رہے ہیں۔
جب اندرا گاندھی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کر کے پورے انڈیا کے انتخابی میدان کو فتح کر لیا تھا۔ اس وقت ان کا غرور، تکبر آسمان پر ہے۔ ذرا غور فرمائیں۔ 10 مارچ کو انتخابی نتائج آنے شروع ہوئے اور اس سے ایک دن سے بھی کم وقت یعنی 9مارچ کو بھارتی میزائل نے پاکستانی سرزمین کو ہٹ کیا۔
ہندو توا کو ہندوازم ، ہندو بنیاد پرستی کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ ایک عام ہندو کے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی ہے کہ نریندرا مودی ہندو ازم کی نشاط ثانیہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ حالیہ شاندار انتخابی کامیابی کا حقیقی پس منظر بھی یہی ہے۔ مودی اب ہندو اکثریت کا سیاسی سے زیادہ روحانی رہنما بن گیا ہے۔
مشرقی پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے اکالی دل، کانگریس اور بی جے پی کو شکست دیتے ہوئے کانگریسی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی دلی تک ہی محدود تھی لیکن اب مشرقی پنجاب میں کامیابی کے بعد وہ اگلے الیکشن میں دوسرے صوبوں میں بھی پیش قدمی کر سکتی ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی جس اکثریت سے جیتی ہے، وہ ہمسایہ ملکوں خاص طور پر پاکستان کے لیے الارمنگ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو مخالف سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں اتر پردیش ، اترا کھنڈ، گوا اور منی پور میں دوگنا سیٹیں ملی ہیں۔ اتر پردیش کتنا بڑا صوبہ ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف اس ایک صوبے کی آبادی پورے پاکستان کی آبادی سے زیادہ ہے۔
اس الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر ابھی سے بھارتی تجزیہ کاروں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ 2024 کے جنرل الیکشن میں بھی بی جے پی کی جیت یقینی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھارتی سیاست میں ایسا کوئی قد آور سیاسی رہنما نہیں ہے جو نریندر مودی کی قیادت کو شکست دے سکے۔
اس سے بھی زیادہ مایوس کن صورتحال یہ رہی کہ تقریباً تمام صوبوں میں کانگریس کی شکست غیر معمولی رہی ہے۔ جن صوبوں میں آج بھی کانگریس کی حکومت ہے، خطرہ ہے کہ نا اہل قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے آیندہ الیکشن میں ان حکومتوں کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی اپوزیشن کا حکمران جماعت کے مقابلے میں اتنا کمزور ہونا بھارت میں جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ بھارت میں ایک سال سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والا کسان احتجاج بھی مودی سرکار کے لیے رکاوٹ نہ بن سکا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں ذات برادری پہلی مرتبہ شکست کھا گئی ہے۔
پانچ ریاستوں میں کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سونیا گاندھی نے کہا کہ اگر پارٹی کہے تو ہم تینوں ماں، بیٹا اور بیٹی پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پچھلی پانچ دہائیوں سے زائد عرصے میں کانگریس ایک سیاسی پارٹی سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی میں ڈھل چکی ہے۔ اس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اب خاندانی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔
پاکستانی خاندانی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ کانگریس جیسی انتہائی شاندار ماضی رکھنے والی جماعت کے انجام سے عبرت پکڑیں۔ آیندہ الیکشن میں کانگریس کی ناکامی بھارتی سیکولر جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں عرب اور دیگر سرمایہ کاروں کی کانفرنس کا انعقاد ہو نے جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے خلیجی سرمایہ کاروں کی کانفرنس طلب کر لی ہے اور صرف اس سال کے لیے 70 ہزار کروڑ کی سرمایہ کاری کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری سرمایہ کاری سے متعلق کانفرنس کے بارے میں کہنا ہے کہ اگر سرمایہ کاروں کو جگہ اچھی لگی تو سرمائے کی ریل پیل ہو جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے لیے کانفرنس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ کے وفد شرکت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی کمپنیوں کے تیس سے زیادہ نمایندے فی الوقت کشمیر میں ہیں۔ جہاں وہ مختلف علاقوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
بھارتی صنعت کے بڑے افسر کے مطابق اس کے علاوہ دنیا بھر کی دوسری بڑی کمپنیاں بھی یہاں سرمایہ کرنا چاہتی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری سے مقبوضہ کشمیر کی پسماندہ معیشت پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ مقصد کشمیریوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ روزگار، خوشحالی، پیسے کی ریل پیل ایسے خفیہ ہتھیار ہیں جن سے دنیا کا کوئی بھی شخص منہ نہیں موڑ سکتا۔
حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر مسلم دنیا ناکام ہو گئی ہے۔ کیا بھارتی وزیر اعظم حالیہ زبردست جیت کے بعد مقبوضہ کشمیر کے منصفانہ حل پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ جب کہ دو سال کے بعد کے الیکشن میں ان کی لینڈ سلائیڈ وکٹری بھی یقینی ہو۔ مودی کی حالیہ جیت کو تبصرہ نگار اندرا گاندھی کی 1971 کے الیکشن کی جیت کے مماثل قرار دے رہے ہیں۔
جب اندرا گاندھی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کر کے پورے انڈیا کے انتخابی میدان کو فتح کر لیا تھا۔ اس وقت ان کا غرور، تکبر آسمان پر ہے۔ ذرا غور فرمائیں۔ 10 مارچ کو انتخابی نتائج آنے شروع ہوئے اور اس سے ایک دن سے بھی کم وقت یعنی 9مارچ کو بھارتی میزائل نے پاکستانی سرزمین کو ہٹ کیا۔
ہندو توا کو ہندوازم ، ہندو بنیاد پرستی کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ ایک عام ہندو کے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی ہے کہ نریندرا مودی ہندو ازم کی نشاط ثانیہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ حالیہ شاندار انتخابی کامیابی کا حقیقی پس منظر بھی یہی ہے۔ مودی اب ہندو اکثریت کا سیاسی سے زیادہ روحانی رہنما بن گیا ہے۔