مشکل حالات اور کم وسائل کے باجود ملکی خواتین نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا
خواتین کے حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی مگرعملدرآمد کا درست میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے خواتین بدترین مسائل کا شکار ہیں
خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و سماجی رہنماؤں اورسول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
فائزہ ملک
(رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
2002 ء سے 2018ء تک میں اسمبلی کا حصہ رہی ہوں اورمیں نے اپنی 15 سالہ طویل پارلیمانی جدوجہد میں دیگر اہم مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل پر بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ ہماری خواتین اراکین اسمبلی کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہم سب اپنی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر خواتین کے حوالے سے قانون سازی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی ہم نے مل کر بڑے پیمانے پر کام کیا اور اچھے قوانین سامنے آئے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ خواتین کے کردار کو سراہا اور ہمارے موقف کو سنا ہے۔ہماری جماعت نے کبھی اس پر بات پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا کہ کسی دوسری جماعت کے پیش کردہ بل کو سپورٹ کیوں کیا، بلکہ ہمیں خواتین کے مسائل پر کام کرنے اور بات کرنے پر سراہا جاتا ہے۔
میں نے 2002 ء میں ڈومیسٹک وائلنس اینڈ ولنرایبل کا بل پیش کیا جس میں بعض وجوہات کی وجہ سے تاخیر ہوتی رہی،بعض قانونی پیچیدگیاں آڑے آتی رہی تاہم سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہم سب نے مل کر اس میں موجود مسائل کو دور کیا۔ 2018ء میں ڈومیسٹک وائلنس کا بل تبدیلوں کے ساتھ منظور ہوا، مگر افسوس ہے کہ تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بنے اور نہ ہی حکومت نے اس کیلئے بجٹ مختص کیا۔ اس کے بارے میںمناسب آگاہی بھی نہیں دی گئی لہٰذا اگر اس پر صحیح معنوں میں کام نہیں ہوگا تو ہماری برسوں کی محنت ضائع ہوجائے گی۔
اس بل کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ ہم خواتین کے مسائل اور ان کے حل کیلئے بہت بات کرتے ہیں اور اس کے لیے مختلف راستے بھی تلاش کرتے ہیں۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں گھر سے کام کا آغاز کرنا ہوگا۔
اس کیلئے ماؤں کو اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کرنا ہوگی، عورت کی عزت کرنا سکھانا ہوگا، گھروں میں برابری کا ماحول پیدا کرنا ہوگا، بچیوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ اور برابر حقوق دینا ہوں گے۔
سابق حکومت نے وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز بنانے کا آغاز کیا، بہت زیادہ لاگت سے ملتان کا سینٹر بنایا گیا جبکہ دارالامان بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگئے حالانکہ اگر پہلے سے موجود دارالامان کو ہی اپ گریڈ کر لیا جاتا تو اب تک تمام اضلاع میں یہ سینٹرز بن چکے ہوتے اور خواتین کو ریلیف مل رہا ہوتا۔ موجودہ حکومت کو ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں، سوال یہ ہے کہ انہوں نے خواتین کے لیے کتنے بل منظور کیے؟ انہوں نے تو خواتین کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیے ہیں۔
سندھ میں کم عمری کا شادی کا قانون موجود ہے، مگر لوگ پنجاب میں آکر شادی کر لیتے ہیں جو ایک بڑا مسئلہ ہے،جب تک حکومت ویمن فرینڈلی قوانین اور ماحول فراہم نہیں کرتی تب تک مسائل حل نہیں ہونگے اور نہ ہی ملک ترقی کرے گا۔
71فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں مگر انہیں مزدور تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، نہ ہی کہیں ان کی رجسٹریشن ہے بلکہ وہ اپنے تمام انسانی حقوق سے محروم ہیں لہٰذا اس طرف توجہ دینی چاہیے۔خواتین کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹیاں ہونی چاہئیں تاکہ صحیح صورتحال کا جائزہ لے کر مسائل کو کم کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں ایک المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کی بات تو کرتی ہیں مگر انہیں فیصلہ سازی میں کردار دینے کیلئے سنجیدہ نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو کی وجہ سے خواتین کو توانا آواز ملی۔ ان کی وجہ سے ملکی خواتین کو حوصلہ ملا اور آگے بڑھنے کی امید پیدا ہوئی۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خواتین کے حوالے سے معاملات خراب ہوئے ۔
پیپلز پارٹی کے تنظیمی سٹرکچر میں خواتین موجود ہیں، اعلیٰ کمیٹیوں اور بورڈ میں بھی خواتین شامل ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو بڑے اور فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کو آگے لانا چاہیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام خواتین کیلئے بہترین تھا۔ اس منصوبے کے مقاصد میں خواتین کو امپاور کرنا، بچوں کی تعلیم کا فروغ ،صحت کی سہولیات کی فراہمی اور دیہی خواتین کو مویشی دینا شامل تھے۔
موجودہ حکومت نے اس کا نام تبدیل کر دیا ، اب 12 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں جس کی رجسٹریشن مرد کے نام پر ہے، اس سے خواتین کا دوبارہ سے استحصال ہو رہا ہے، سوال یہ کہ خواتین کیلئے شروع کیے گئے ملکی تاریخ کے واحد منصوبے کو جاری کیوں نہیں رکھا گیا؟
نبیلہ شاہین
(نمائندہ سول سوسائٹی)
ملک میں خواتین کے حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی، ہراسمنٹ، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادی، وراثت کا حق سمیت خواتین کے پیشتر مسائل اور حقوق کے حوالے سے اچھے قوانین بنائے گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عملدرآمد کا موثر میکنزم بنایا گیا؟ جن کیلئے یہ قوانین بنائے گئے کیا انہیں آگاہی دی گئی؟ جنہوں نے عملدرآمد کرانا ہے۔
ان کے ریفریشل کورسز کروائے گئے؟ عملدرآمد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کیے گئے؟ خواتین کیلئے ملازمتوں میں کوٹہ مختص ہے، کیا خواتین اس پر باآسانی آجاتی ہیں؟ خواتین کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لینا چاہیے اور جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ خواتین کے حوالے سے بعض قوانین تو بن گئے مگر ان کیلئے نہ انفراسٹرکچر بنا اور نہ ہی بجٹ مختص کیا گیا، حالت یہ ہے کہ 2012ء میں دیے جانے والے پیکیج پر تاحال صحیح معنوں میں عمل نہیں ہوسکا۔
اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں موجود نہیں نہ ہی قوانین آویزاں ہیں، لوگ بھی خاموش ہیں اور ادارے بھی، اسی طرح خواتین کی معاشی حالت بہتر کرنے اور انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں بھی ادارے امتیازی سلوک رکھتے ہیں، انہیں آمد و رفت میں بھی مسائل کا سامنا ہے، خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع اور محفوظ ٹرانسپورٹ کی فراہمی یقینی بناناہوگی۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اس کیلئے حکومت، سول سوسائٹی، این جی اوز و دیگر سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ افسوس ہے کہ قوانین بناتے وقت ان سے رائے نہیں لی جاتی جن کیلئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، ہمیں قانون اور پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز سے لازمی مشاورت کرنی چاہیے، بصورت دیگر بہتر نتائج برآمد نہیں ہونگے۔ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا سیاسی جماعتوں کے منشور کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
ترقی پذیر ملک ،کم وسائل اور زیادہ مسائل ہونے کے باوجود پاکستانی خواتین نے اپنی قابلیت کو منوایا ہے اور ہر شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔ آج ہمیں بڑے عہدوں پر خواتین نظر آتی ہیں، پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، سرکاری اداروں اور نجی شعبے میں خواتین نے مثبت کردار ادا کیا ہے، یہ سب خواتین کی جدوجہد اور مضبوط آواز کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ رواں سال خواتین کے عالمی دن کا نعرہ 'بریک دا بائس' یعنی امتیاز کا خاتمہ ہے۔
یہ امتیاز ہر سطح پرہے جس کا خاتمہ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے 2021ء میں خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا، اس سال 52 ہزار 370 کیسز ہوئے جن میں سے 8 ہزار 719 میڈیا پر ہائی لائٹ ہوئے۔ ہمارے صوبے کلچر، لسانیت و دیگر حوالے سے مختلف ہیں لہٰذا ایک ہی قانون تمام صوبوں میں لاگو نہیں کیا جاسکتا، وہاں کے معروضی حالات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے، قانون سازی کے وقت ان باتوں کا خیال رکھا جائے اور سٹیک ہولڈرز سے لازمی مشاورت کی جائے۔
مقامی حکومتوں کا نظام لوگوں کے مسائل حل کرتا ہے، خواتین کے مسائل بھی مقامی سطح پر ہی حل کرلیے جاتے ہیں مگرہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے مسائل سنگین ہورہے ہیں، طلاق و گھریلو جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مجرموں کا نفسیاتی ٹیسٹ نہیں کیا جاتا جس سے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ مجرم جرم کیوں کرتا ہے، حکومت تعلیمی اداروں کی تحقیق سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہی، اس طرف توجہ دینی چاہیے،ا س کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب میں خواتین کے حوالے سے مواد کو شامل کیا جائے۔
خواتین پر تشدد کے حوالے سے بھارت پہلے، پاکستان چھٹے اور امریکا 10 ویں نمبر پر ہے،ہمارے ہاں سزا کی شرح 2 فیصد ہے، 98 فیصد کیسز میں بریت ہوجاتی ہے، گواہ کی حفاظت کا بھی کوئی میکنزم نہیں ہے۔ پاکستانی خاتون کسی سے کم نہیں، معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر خواتین کے مسائل حل کرنا اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہونگے۔
حفصہ مظہر
(نمائندہ سول سوسائٹی)
بدقسمتی سے ہر تیسری عورت کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی انداز میں ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے، ایک سروے کے مطابق 99 فیصدخواتین نے یہ اظہار کیا کہ وائلنس ہوتا ہے مگر وہ رپورٹ نہیں کرتی، اس سے صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیبر فورس میں 27 فیصد خواتین ہیں، ان میں ہوم بیسڈ ورکرز کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ وہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں،ا نہیں ان کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ 21 فیصد بچیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے، ہر گھنٹے میں 22 خواتین کی دوران زچگی موت ہوتی ہے، خواتین کو گھریلو تشدد و دیگر مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔
پرائمری سے سیکنڈری تک زیادہ تر لڑکیاں سکول سے ہٹا لی جاتی ہیں، کرونا وباء کے دوران اس تعداد میں اضافہ ہوا، یہ لڑکیاں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ دنیا میں وائلنس میں 30 فیصد جبکہ پاکستان میں 50 فیصد اضافہ ہوا، صنفی امتیاز کے حوالے سے بھی ہماری صورتحال ابتر ہے، پہلے ہم 144 ممالک میں سے 143 ویں نمبر پر تھے، اب 156 ممالک میں سے 153 ویں نمبر پر ہیں، ہماری خواتین کوچیلنجز درپیش ہیں لہٰذا بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہونگے۔ گزشتہ دور حکومت میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز کا منصوبہ بنایا گیا، ملتان میں ایک کرائسس سینٹر بنایا گیا۔
اس پر خطیر رقم خرچ ہوئی، بعدازاں دیگر شہروں میں اس پر کام نہیں ہوسکا، اب اس قانون کے رولز آف بزنس بن رہے ہیں، امیدہے بہتری آئے گی۔ سول سوسائٹی گزشتہ کئی دہاؤں سے اچھا کام کر رہی ہے، ہم نے نہ صرف عوام کو آگاہی دی ہے بلکہ حکومت کو بھی قانون سازی و دیگر اقدامات میں معاونت و مشاورت فراہم کی ہے۔ ملک میں زیادہ قوانین کی نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
فائزہ ملک
(رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
2002 ء سے 2018ء تک میں اسمبلی کا حصہ رہی ہوں اورمیں نے اپنی 15 سالہ طویل پارلیمانی جدوجہد میں دیگر اہم مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل پر بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ ہماری خواتین اراکین اسمبلی کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہم سب اپنی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر خواتین کے حوالے سے قانون سازی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی ہم نے مل کر بڑے پیمانے پر کام کیا اور اچھے قوانین سامنے آئے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ خواتین کے کردار کو سراہا اور ہمارے موقف کو سنا ہے۔ہماری جماعت نے کبھی اس پر بات پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا کہ کسی دوسری جماعت کے پیش کردہ بل کو سپورٹ کیوں کیا، بلکہ ہمیں خواتین کے مسائل پر کام کرنے اور بات کرنے پر سراہا جاتا ہے۔
میں نے 2002 ء میں ڈومیسٹک وائلنس اینڈ ولنرایبل کا بل پیش کیا جس میں بعض وجوہات کی وجہ سے تاخیر ہوتی رہی،بعض قانونی پیچیدگیاں آڑے آتی رہی تاہم سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہم سب نے مل کر اس میں موجود مسائل کو دور کیا۔ 2018ء میں ڈومیسٹک وائلنس کا بل تبدیلوں کے ساتھ منظور ہوا، مگر افسوس ہے کہ تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بنے اور نہ ہی حکومت نے اس کیلئے بجٹ مختص کیا۔ اس کے بارے میںمناسب آگاہی بھی نہیں دی گئی لہٰذا اگر اس پر صحیح معنوں میں کام نہیں ہوگا تو ہماری برسوں کی محنت ضائع ہوجائے گی۔
اس بل کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ ہم خواتین کے مسائل اور ان کے حل کیلئے بہت بات کرتے ہیں اور اس کے لیے مختلف راستے بھی تلاش کرتے ہیں۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں گھر سے کام کا آغاز کرنا ہوگا۔
اس کیلئے ماؤں کو اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کرنا ہوگی، عورت کی عزت کرنا سکھانا ہوگا، گھروں میں برابری کا ماحول پیدا کرنا ہوگا، بچیوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ اور برابر حقوق دینا ہوں گے۔
سابق حکومت نے وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز بنانے کا آغاز کیا، بہت زیادہ لاگت سے ملتان کا سینٹر بنایا گیا جبکہ دارالامان بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگئے حالانکہ اگر پہلے سے موجود دارالامان کو ہی اپ گریڈ کر لیا جاتا تو اب تک تمام اضلاع میں یہ سینٹرز بن چکے ہوتے اور خواتین کو ریلیف مل رہا ہوتا۔ موجودہ حکومت کو ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں، سوال یہ ہے کہ انہوں نے خواتین کے لیے کتنے بل منظور کیے؟ انہوں نے تو خواتین کے لیے مزید مسائل پیدا کر دیے ہیں۔
سندھ میں کم عمری کا شادی کا قانون موجود ہے، مگر لوگ پنجاب میں آکر شادی کر لیتے ہیں جو ایک بڑا مسئلہ ہے،جب تک حکومت ویمن فرینڈلی قوانین اور ماحول فراہم نہیں کرتی تب تک مسائل حل نہیں ہونگے اور نہ ہی ملک ترقی کرے گا۔
71فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں مگر انہیں مزدور تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، نہ ہی کہیں ان کی رجسٹریشن ہے بلکہ وہ اپنے تمام انسانی حقوق سے محروم ہیں لہٰذا اس طرف توجہ دینی چاہیے۔خواتین کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹیاں ہونی چاہئیں تاکہ صحیح صورتحال کا جائزہ لے کر مسائل کو کم کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں ایک المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کی بات تو کرتی ہیں مگر انہیں فیصلہ سازی میں کردار دینے کیلئے سنجیدہ نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو کی وجہ سے خواتین کو توانا آواز ملی۔ ان کی وجہ سے ملکی خواتین کو حوصلہ ملا اور آگے بڑھنے کی امید پیدا ہوئی۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خواتین کے حوالے سے معاملات خراب ہوئے ۔
پیپلز پارٹی کے تنظیمی سٹرکچر میں خواتین موجود ہیں، اعلیٰ کمیٹیوں اور بورڈ میں بھی خواتین شامل ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو بڑے اور فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کو آگے لانا چاہیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام خواتین کیلئے بہترین تھا۔ اس منصوبے کے مقاصد میں خواتین کو امپاور کرنا، بچوں کی تعلیم کا فروغ ،صحت کی سہولیات کی فراہمی اور دیہی خواتین کو مویشی دینا شامل تھے۔
موجودہ حکومت نے اس کا نام تبدیل کر دیا ، اب 12 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں جس کی رجسٹریشن مرد کے نام پر ہے، اس سے خواتین کا دوبارہ سے استحصال ہو رہا ہے، سوال یہ کہ خواتین کیلئے شروع کیے گئے ملکی تاریخ کے واحد منصوبے کو جاری کیوں نہیں رکھا گیا؟
نبیلہ شاہین
(نمائندہ سول سوسائٹی)
ملک میں خواتین کے حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی، ہراسمنٹ، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادی، وراثت کا حق سمیت خواتین کے پیشتر مسائل اور حقوق کے حوالے سے اچھے قوانین بنائے گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عملدرآمد کا موثر میکنزم بنایا گیا؟ جن کیلئے یہ قوانین بنائے گئے کیا انہیں آگاہی دی گئی؟ جنہوں نے عملدرآمد کرانا ہے۔
ان کے ریفریشل کورسز کروائے گئے؟ عملدرآمد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کیے گئے؟ خواتین کیلئے ملازمتوں میں کوٹہ مختص ہے، کیا خواتین اس پر باآسانی آجاتی ہیں؟ خواتین کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کا جائزہ لینا چاہیے اور جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ خواتین کے حوالے سے بعض قوانین تو بن گئے مگر ان کیلئے نہ انفراسٹرکچر بنا اور نہ ہی بجٹ مختص کیا گیا، حالت یہ ہے کہ 2012ء میں دیے جانے والے پیکیج پر تاحال صحیح معنوں میں عمل نہیں ہوسکا۔
اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں موجود نہیں نہ ہی قوانین آویزاں ہیں، لوگ بھی خاموش ہیں اور ادارے بھی، اسی طرح خواتین کی معاشی حالت بہتر کرنے اور انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں بھی ادارے امتیازی سلوک رکھتے ہیں، انہیں آمد و رفت میں بھی مسائل کا سامنا ہے، خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع اور محفوظ ٹرانسپورٹ کی فراہمی یقینی بناناہوگی۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اس کیلئے حکومت، سول سوسائٹی، این جی اوز و دیگر سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ افسوس ہے کہ قوانین بناتے وقت ان سے رائے نہیں لی جاتی جن کیلئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، ہمیں قانون اور پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز سے لازمی مشاورت کرنی چاہیے، بصورت دیگر بہتر نتائج برآمد نہیں ہونگے۔ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا سیاسی جماعتوں کے منشور کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
ترقی پذیر ملک ،کم وسائل اور زیادہ مسائل ہونے کے باوجود پاکستانی خواتین نے اپنی قابلیت کو منوایا ہے اور ہر شعبے میں بہت ترقی کی ہے۔ آج ہمیں بڑے عہدوں پر خواتین نظر آتی ہیں، پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، سرکاری اداروں اور نجی شعبے میں خواتین نے مثبت کردار ادا کیا ہے، یہ سب خواتین کی جدوجہد اور مضبوط آواز کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ رواں سال خواتین کے عالمی دن کا نعرہ 'بریک دا بائس' یعنی امتیاز کا خاتمہ ہے۔
یہ امتیاز ہر سطح پرہے جس کا خاتمہ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے 2021ء میں خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا، اس سال 52 ہزار 370 کیسز ہوئے جن میں سے 8 ہزار 719 میڈیا پر ہائی لائٹ ہوئے۔ ہمارے صوبے کلچر، لسانیت و دیگر حوالے سے مختلف ہیں لہٰذا ایک ہی قانون تمام صوبوں میں لاگو نہیں کیا جاسکتا، وہاں کے معروضی حالات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے، قانون سازی کے وقت ان باتوں کا خیال رکھا جائے اور سٹیک ہولڈرز سے لازمی مشاورت کی جائے۔
مقامی حکومتوں کا نظام لوگوں کے مسائل حل کرتا ہے، خواتین کے مسائل بھی مقامی سطح پر ہی حل کرلیے جاتے ہیں مگرہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے مسائل سنگین ہورہے ہیں، طلاق و گھریلو جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مجرموں کا نفسیاتی ٹیسٹ نہیں کیا جاتا جس سے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ مجرم جرم کیوں کرتا ہے، حکومت تعلیمی اداروں کی تحقیق سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہی، اس طرف توجہ دینی چاہیے،ا س کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب میں خواتین کے حوالے سے مواد کو شامل کیا جائے۔
خواتین پر تشدد کے حوالے سے بھارت پہلے، پاکستان چھٹے اور امریکا 10 ویں نمبر پر ہے،ہمارے ہاں سزا کی شرح 2 فیصد ہے، 98 فیصد کیسز میں بریت ہوجاتی ہے، گواہ کی حفاظت کا بھی کوئی میکنزم نہیں ہے۔ پاکستانی خاتون کسی سے کم نہیں، معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر خواتین کے مسائل حل کرنا اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہونگے۔
حفصہ مظہر
(نمائندہ سول سوسائٹی)
بدقسمتی سے ہر تیسری عورت کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی انداز میں ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے، ایک سروے کے مطابق 99 فیصدخواتین نے یہ اظہار کیا کہ وائلنس ہوتا ہے مگر وہ رپورٹ نہیں کرتی، اس سے صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیبر فورس میں 27 فیصد خواتین ہیں، ان میں ہوم بیسڈ ورکرز کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ وہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں،ا نہیں ان کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ 21 فیصد بچیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے، ہر گھنٹے میں 22 خواتین کی دوران زچگی موت ہوتی ہے، خواتین کو گھریلو تشدد و دیگر مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔
پرائمری سے سیکنڈری تک زیادہ تر لڑکیاں سکول سے ہٹا لی جاتی ہیں، کرونا وباء کے دوران اس تعداد میں اضافہ ہوا، یہ لڑکیاں چائلڈ لیبر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ دنیا میں وائلنس میں 30 فیصد جبکہ پاکستان میں 50 فیصد اضافہ ہوا، صنفی امتیاز کے حوالے سے بھی ہماری صورتحال ابتر ہے، پہلے ہم 144 ممالک میں سے 143 ویں نمبر پر تھے، اب 156 ممالک میں سے 153 ویں نمبر پر ہیں، ہماری خواتین کوچیلنجز درپیش ہیں لہٰذا بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہونگے۔ گزشتہ دور حکومت میں وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز کا منصوبہ بنایا گیا، ملتان میں ایک کرائسس سینٹر بنایا گیا۔
اس پر خطیر رقم خرچ ہوئی، بعدازاں دیگر شہروں میں اس پر کام نہیں ہوسکا، اب اس قانون کے رولز آف بزنس بن رہے ہیں، امیدہے بہتری آئے گی۔ سول سوسائٹی گزشتہ کئی دہاؤں سے اچھا کام کر رہی ہے، ہم نے نہ صرف عوام کو آگاہی دی ہے بلکہ حکومت کو بھی قانون سازی و دیگر اقدامات میں معاونت و مشاورت فراہم کی ہے۔ ملک میں زیادہ قوانین کی نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔