کراچی بدامنی کیس سپریم کورٹ نے ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق پولیس کی رپورٹ مسترد کردی

کراچی میں 6 ماہ سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے لیکن قتل و غارت گری رکنے کا نام نہیں لے رہی، سپریم کورٹ

ملزمان جیلوں میں بیٹھ کر اپنا نیٹ ورک چلارہے ہیں، سپریم کورٹ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ کراچی میں آپریشن کے دوران 10ہزار سے زائد ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں، جن میں سے 175 سے زائد کے چالان انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کئے جاچکے ہیں تاہم عدالتیں پرانے مقدمات کی سماعت کررہی ہیں نئے مقدمات زیر سماعت نہیں، جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس ددیئے کہ قانون میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ عدالت پہلے نئے کیسوں کی سماعت کرے۔


سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ پولیس ملزمان کو حراست میں تو لے لیتی ہے لیکن ان کے خلاف مقدمات نہیں چلاتی جس کی وجہ سے وہ جیلوں میں بیٹھ کر اپنا نیٹ ورک چلارہے ہیں، جس پر پولیس نے موقف اختیار کیا کہ جیل میں موبائل فون جمر نصب کئے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے جواب میں کہا کہ جیمرز کی تنصیب کی وجہ سے جیل سے متصل علاقوں میں رہاش پریز لوگ پریشان ہیں، کراچی میں 6 ماہ سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے لیکن قتل و غارت گری رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے حکم دیا کہ گرفتار ملزمان کے عدالتوں میں جاری مقدمات کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پرپیش کی جائے، سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے راؤ انوار کی ایس ایس پی ملیر تعیناتی پر بھی وضاحت طلب کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو نوٹس جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرکے راؤ انوار کو دوبارہ کیسے تعینات کیا گیا؟

عدالت میں بورڈ آف ریونیو کے رکن ذوالفقار شاہ نے بتایا کہ کراچی کی 60 ہزارایکڑ زمینوں پرغیر قانونی قبضہ ہے جن میں 52 ہزارایکڑ زمین وفاقی اورصوبائی اداروں کے ناجائز قبضے میں ہے،ان اداروں میں کے پی ٹی، پورٹ قاسم، ڈی ایچ اے سمیت دیگر ادارے شامل ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ پرڈپٹی کمشنرزنے کیا اقدامات اٹھائے اور زمینوں پرغیرقانونی قبضوں کے خاتمے کے لیے کیا ایکشن لیا گیا؟۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 26 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ ریوینیوسے متعلق تمام کیس5 رکنی لارجر بینچ سنے گا۔
Load Next Story