آئی بی اے کراچی یونیورسٹی میں قابل اعتراض رقص کی محفل پر طلبہ تنظیموں کا احتجاج
طلبہ نے واقعہ کا ذمے دار آئی بی اے انتظامیہ کو ٹہراتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی
آئی بی اے(انسٹی ٹیوٹ بزنس ایڈمنسٹریشن) کراچی میں چند روز قبل منعقدہ رقص کی قابل اعتراض محفل کا معاملہ شدت اختیار کرگیا ہے، آئی بی اے کے اساتذہ اور المنائی کے ساتھ ساتھ اب جامعہ کراچی کے طلبہ بھی اس واقعہ کے خلاف سامنے آگئے ہیں۔
رقص کی محفل کی ویڈیو اور کیمپس میں لی گئی بعض طلبہ کی قابل اعتراض تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد جامعہ کراچی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے آئی بی اے کے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ نے احتجاج کیا جبکہ دیگر طلبہ تنظیمیں آئی ایس او، پی ایس ایف اور پی ایس اے بھی احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔
اس موقع پر آئی بی اے کے مرکزی دروازے کو بند کرکے ادارے کے طلبہ کو اندر کی جانب بھیج دیا گیا تھا جبکہ پولیس اور رینجرز اہلکار امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آئی بی اے کے اندر و باہر تعینات کردیے گئے۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ رہنمائوں نے آئی بی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور وہاں پھیلنے والی بے حیائی و فحاشی اور اس حوالے سے منعقدہ محافل کو فوری روکیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات سامنے لائیں۔ علاوہ ازیں طلبہ نے اس واقعہ کا ذمے دار آئی بی اے انتظامیہ کو ٹہراتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی ۔
دوسری جانب انجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے بھی اس معاملے پر اپنا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے معاملہ پر احتجاج اور اس کی فوری تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی بی اے انتظامیہ کے خلاف کیے گئے احتجاج پر ترجمان کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم متعلقہ حکام کو ووٹس ایپ پر سوالات لکھ کر ارسال کیے گئے کہ سیکیورٹی کی موجودگی میں یہ ایونٹ کس طرح منعقد ہوا اور اس کی لوجسٹک کس طرح کیمپس کے اندر لائی گئی۔
جس پر ترجمان کی جانب سے ان سوالات کے جوابات تو نہیں ملے تاہم ایک ٹیکسٹ میسج میں ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ انتظامیہ کو آن لائن وائرل ہونے والی ویڈیو کا ادراک ہے اور تحقیقات کے لیے معاملے کو اسٹوڈینٹ کنڈکٹ کمیٹی بجھواچکے ہیں امکان ہے کہ کمیٹی اس کی فائنڈنگ اس ہفتے تک سامنے لائے جس پر آئی بی اے قوانین کے تحت کارروائی ہوگی۔
ایکسپریس نے مذکورہ سوالات کے جوابات جاننے کے لیے کئی بار آئی بی اے کے سیکیورٹی ہیڈ خالد رشی سے بھی رابطے کی کوشش کی جس کے بعد ان کے دفتر سے کال بیک پر کہا گیا کہ ابھی وہ مصروف ہیں۔
رقص کی محفل کی ویڈیو اور کیمپس میں لی گئی بعض طلبہ کی قابل اعتراض تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد جامعہ کراچی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے آئی بی اے کے سامنے اسلامی جمعیت طلبہ نے احتجاج کیا جبکہ دیگر طلبہ تنظیمیں آئی ایس او، پی ایس ایف اور پی ایس اے بھی احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔
اس موقع پر آئی بی اے کے مرکزی دروازے کو بند کرکے ادارے کے طلبہ کو اندر کی جانب بھیج دیا گیا تھا جبکہ پولیس اور رینجرز اہلکار امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آئی بی اے کے اندر و باہر تعینات کردیے گئے۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ رہنمائوں نے آئی بی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور وہاں پھیلنے والی بے حیائی و فحاشی اور اس حوالے سے منعقدہ محافل کو فوری روکیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات سامنے لائیں۔ علاوہ ازیں طلبہ نے اس واقعہ کا ذمے دار آئی بی اے انتظامیہ کو ٹہراتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی ۔
دوسری جانب انجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے بھی اس معاملے پر اپنا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے معاملہ پر احتجاج اور اس کی فوری تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی بی اے انتظامیہ کے خلاف کیے گئے احتجاج پر ترجمان کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم متعلقہ حکام کو ووٹس ایپ پر سوالات لکھ کر ارسال کیے گئے کہ سیکیورٹی کی موجودگی میں یہ ایونٹ کس طرح منعقد ہوا اور اس کی لوجسٹک کس طرح کیمپس کے اندر لائی گئی۔
جس پر ترجمان کی جانب سے ان سوالات کے جوابات تو نہیں ملے تاہم ایک ٹیکسٹ میسج میں ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ انتظامیہ کو آن لائن وائرل ہونے والی ویڈیو کا ادراک ہے اور تحقیقات کے لیے معاملے کو اسٹوڈینٹ کنڈکٹ کمیٹی بجھواچکے ہیں امکان ہے کہ کمیٹی اس کی فائنڈنگ اس ہفتے تک سامنے لائے جس پر آئی بی اے قوانین کے تحت کارروائی ہوگی۔
ایکسپریس نے مذکورہ سوالات کے جوابات جاننے کے لیے کئی بار آئی بی اے کے سیکیورٹی ہیڈ خالد رشی سے بھی رابطے کی کوشش کی جس کے بعد ان کے دفتر سے کال بیک پر کہا گیا کہ ابھی وہ مصروف ہیں۔