آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
کانگریس پارٹی کو توقع تھی کہ اتر کھنڈ میں تو جیت اسی کی ہوگی مگر وہاں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی
WASHINGTON:
ہمیں اس وقت سالہا سال قبل کی اس شام کا منظر یاد آرہا ہے جب ہندوستان کے پہلے ہندوستانی گورنر جنرل اور بزرگ سیاستدان راجا جی نے جن کا اصل نام سی راج گوپال آچاریہ تھا،نے کانگریس پارٹی چھوڑ دینے کے بعد اپنی نئی سیاسی جماعت سوتنترا پارٹی کی تعارفی تقریب سے دلی ریلوے اسٹیشن سے متصل کمپنی باغ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے غروب ہوتے ہوئے سورج کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ پیشنگوئی کی تھی کہ'' دیکھو جس طرح یہ سورج غروب ہورہا ہے اسی طرح کانگریس پارٹی کا سورج بھی غروب ہونے والا ہے۔'' ان کے اس خطاب نے تمام حاضرین کو چونکا دیا تھا کیونکہ اس وقت کانگریس کو اتنا عروج حاصل تھا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ایسا ہو بھی سکے گا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب بھارت کے پہلے پردھان منتری اور کانگریس پارٹی کے سرخیل پنڈت جواہر لال نہرو کی زیر قیادت مقبولیت کی کوئی حد نہیں تھی اور اس نے عام انتخابات میں اپنی ہر دلعزیزی کے جھنڈے گاڑھے ہوئے تھے، تب کانگریس پارٹی کا ووٹ بینک بھارتی کسانوں، مسلمانوں اور فوجی جوانوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا اور کانگریس کا انتخابی نشان دو بیلوں کی جوڑی ہوا کرتا تھا اور انتخابی نعرے یہ تھے''کانگریس نے دی آزادی، زنجیر غلامی کی توڑی، ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی''، ''جے کسان جے جوان۔'' جہاں تک مسلم ووٹوں کا تعلق ہے تو یہ بات پہلے ہی سے طے تھی کہ مسلمانوں کے ووٹ کانگریس کی جیب میں موجود ہیں۔
اگرچہ انتہا پسند ہندو مہاسبھا موجود ضرور تھی مگر اسے کوئی گھاس بھی ڈالنے کو تیار نہ تھا کیونکہ وہ دور سیکیولرازم کا تھا لیکن شدت پسند ہندو توا کی حامی اور پرچارک ہندو مہا سبھا رفتہ رفتہ اپنی جڑیں جماتی رہی تاآنکہ اس کی ہندو اکثریت میں مقبولیت بڑھتی رہی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تاریخی بابری مسجد شہید کردی گئی جس کے بعد ہندو مہا سبھا کی اولاد بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آگئی اور کانگریس کا سورج غروب ہوگیا۔
بھارت کے حالیہ انتخابات نے نہ صرف کانگریس کی رہی سہی ساکھ کا بھی صفایا کردیا بلکہ اس کی عبرت ناک شکست سے بھارت کے مسلم ووٹرز کو بھی بڑا دھچکا لگا گویا ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ،کانگریس پارٹی کو توقع تھی کہ اتر کھنڈ میں تو جیت اسی کی ہوگی مگر وہاں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی اور پنجاب میں تو عام آدمی پارٹی نے اس کا جنازہ ہی نکال دیا۔جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو کانگریس بھی کوئی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہے۔
جیسی شکل عین کی ویسی ہی غین کی بس دونوں میں صرف نقطہ کا فرق ہے بی جے پی شمشیر برہنہ ہے تو کانگریس منہ میں رام رام اور بغل میں چھری رکھتی ہے۔ قاتل دونوں ہی ہیں مگر فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔ کانگریس کا حال یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور! ذرا غور فرمائیے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد برصغیر کی مسلم ریاستوں جونا گڑھ، مانا ودر، مانگرول اور حیدرآباد دکن کی ریاستوں پر ناجائز قبضہ کانگریس کی حکومت نے ہی کیا تھا اور زمینداری نظام کاخاتمہ بھی کانگریس کے دور حکومت میں ہی ہوا تھا۔ ان تمام کارروائیوں کا بنیادی ہدف مسلمانوں کا معاشی قتل عام کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ بقول شاعر:
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ عالم اسلام پر سب سے بڑا ظلم و ستم تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کی صورت میں کانگریس کے ہی دور حکمرانی میں ہی ہوا تھا۔ شاید الیکشن میں کانگریس کی شکست فاش اسی جرم کی سزا ہے جو کہ مقام عبرت ہے۔ رہی بات بی جے پی کی تو مسلسل کامیابی نے اس کے حوصلہ مزید بلند کردیے ہیں اور وہ بھارتی مسلمانوں کو مزید دبانے اور کچلنے کے درپہ ہے۔
ماضی میں اس نے آسام کے مسلمانوں پر شہریت کے کالے قانون کی صورت میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے تھے اور گؤ ہتیا کے الزام میں بے قصور مسلمانوں کو اتیا چاروں کا نشانہ بنایا تھا اور اب خبر یہ ہے کہ وہ مسلم کشی کے لیے قانون سازی کرکے ایک ایسی فورس تشکیل دے رہی ہے جسے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کے لیے کھلے اختیارات حاصل ہوں گے۔شنید یہ ہے کہ اس فورس کو اس بات کی کھلی چھوٹ حاصل ہوگی کہ وہ بغیر پیشگی اطلاع کے محض الزام لگا کر کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر میں داخل ہوکر جسے چاہے گرفتار کرکے حوالات میں بند کرسکے گی۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اتر پردیش سرکار نے جس کا چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ ہے اس نے اتر پردیش اسپیشل سیکیورٹی فورس ایکٹ 2020 لاگو کرکے ظلم و ستم کی کہانی کا آغاز کر دیا ہے۔اس کے تحت اتر پردیش اسپیشل سیکیورٹی فورس UPFFF کو بنایا گیا ہے جو کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا ڈریم پروجیکٹ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس فورس کو کسی وارنٹ کے بغیر تلاشی کا اختیار حاصل ہوگا اور اس فورس کا کوئی بھی ممبر کسی بھی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ اس کے سپاہی کسی وارنٹ کے بغیر کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں اور کسی کو بھی بنا وارنٹ گرفتار کرسکتے ہیں اور ان کے اس ایکشن پر عدالت سرکار کی منظوری کے بنا کوئی روک یا پابندی بھی نہیں لگا سکتی۔
اس کے علاوہ انھیں پیسے دے کر کوئی بھی صنعتکار بھی اس فورس کو استعمال کرسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں پیسے دے کر کوئی بھی سرمایہ دار کسی بھی مزدور یا کسان کو بنا وارنٹ گرفتار کرا سکتا ہے اور ان گرفتار مزدوروں اور کسانوں کو بچانے کے لیے کوئی عدالت بیچ میں نہیں آئے گی۔اس فورس کے اختیارات قانون سے بالاتر ہوں گے کیونکہ عدالت بھی سرکار کی اجازت کے بغیر UPFFF کی کسی بھی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکے گی۔ دراصل اس فورس کا واحد نشانہ مسلمان اور دلت ہوں گے گویا:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
یہ ہے بی جے پی کی حالیہ عام انتخابات میں کامیابی کی ظلم و ستم کی نئی داستان کا نکتہ آغاز:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
ہمیں اس وقت سالہا سال قبل کی اس شام کا منظر یاد آرہا ہے جب ہندوستان کے پہلے ہندوستانی گورنر جنرل اور بزرگ سیاستدان راجا جی نے جن کا اصل نام سی راج گوپال آچاریہ تھا،نے کانگریس پارٹی چھوڑ دینے کے بعد اپنی نئی سیاسی جماعت سوتنترا پارٹی کی تعارفی تقریب سے دلی ریلوے اسٹیشن سے متصل کمپنی باغ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے غروب ہوتے ہوئے سورج کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ پیشنگوئی کی تھی کہ'' دیکھو جس طرح یہ سورج غروب ہورہا ہے اسی طرح کانگریس پارٹی کا سورج بھی غروب ہونے والا ہے۔'' ان کے اس خطاب نے تمام حاضرین کو چونکا دیا تھا کیونکہ اس وقت کانگریس کو اتنا عروج حاصل تھا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ایسا ہو بھی سکے گا۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب بھارت کے پہلے پردھان منتری اور کانگریس پارٹی کے سرخیل پنڈت جواہر لال نہرو کی زیر قیادت مقبولیت کی کوئی حد نہیں تھی اور اس نے عام انتخابات میں اپنی ہر دلعزیزی کے جھنڈے گاڑھے ہوئے تھے، تب کانگریس پارٹی کا ووٹ بینک بھارتی کسانوں، مسلمانوں اور فوجی جوانوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا اور کانگریس کا انتخابی نشان دو بیلوں کی جوڑی ہوا کرتا تھا اور انتخابی نعرے یہ تھے''کانگریس نے دی آزادی، زنجیر غلامی کی توڑی، ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی''، ''جے کسان جے جوان۔'' جہاں تک مسلم ووٹوں کا تعلق ہے تو یہ بات پہلے ہی سے طے تھی کہ مسلمانوں کے ووٹ کانگریس کی جیب میں موجود ہیں۔
اگرچہ انتہا پسند ہندو مہاسبھا موجود ضرور تھی مگر اسے کوئی گھاس بھی ڈالنے کو تیار نہ تھا کیونکہ وہ دور سیکیولرازم کا تھا لیکن شدت پسند ہندو توا کی حامی اور پرچارک ہندو مہا سبھا رفتہ رفتہ اپنی جڑیں جماتی رہی تاآنکہ اس کی ہندو اکثریت میں مقبولیت بڑھتی رہی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تاریخی بابری مسجد شہید کردی گئی جس کے بعد ہندو مہا سبھا کی اولاد بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آگئی اور کانگریس کا سورج غروب ہوگیا۔
بھارت کے حالیہ انتخابات نے نہ صرف کانگریس کی رہی سہی ساکھ کا بھی صفایا کردیا بلکہ اس کی عبرت ناک شکست سے بھارت کے مسلم ووٹرز کو بھی بڑا دھچکا لگا گویا ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ،کانگریس پارٹی کو توقع تھی کہ اتر کھنڈ میں تو جیت اسی کی ہوگی مگر وہاں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی اور پنجاب میں تو عام آدمی پارٹی نے اس کا جنازہ ہی نکال دیا۔جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو کانگریس بھی کوئی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہے۔
جیسی شکل عین کی ویسی ہی غین کی بس دونوں میں صرف نقطہ کا فرق ہے بی جے پی شمشیر برہنہ ہے تو کانگریس منہ میں رام رام اور بغل میں چھری رکھتی ہے۔ قاتل دونوں ہی ہیں مگر فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔ کانگریس کا حال یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور! ذرا غور فرمائیے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد برصغیر کی مسلم ریاستوں جونا گڑھ، مانا ودر، مانگرول اور حیدرآباد دکن کی ریاستوں پر ناجائز قبضہ کانگریس کی حکومت نے ہی کیا تھا اور زمینداری نظام کاخاتمہ بھی کانگریس کے دور حکومت میں ہی ہوا تھا۔ ان تمام کارروائیوں کا بنیادی ہدف مسلمانوں کا معاشی قتل عام کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ بقول شاعر:
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ عالم اسلام پر سب سے بڑا ظلم و ستم تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کی صورت میں کانگریس کے ہی دور حکمرانی میں ہی ہوا تھا۔ شاید الیکشن میں کانگریس کی شکست فاش اسی جرم کی سزا ہے جو کہ مقام عبرت ہے۔ رہی بات بی جے پی کی تو مسلسل کامیابی نے اس کے حوصلہ مزید بلند کردیے ہیں اور وہ بھارتی مسلمانوں کو مزید دبانے اور کچلنے کے درپہ ہے۔
ماضی میں اس نے آسام کے مسلمانوں پر شہریت کے کالے قانون کی صورت میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے تھے اور گؤ ہتیا کے الزام میں بے قصور مسلمانوں کو اتیا چاروں کا نشانہ بنایا تھا اور اب خبر یہ ہے کہ وہ مسلم کشی کے لیے قانون سازی کرکے ایک ایسی فورس تشکیل دے رہی ہے جسے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کے لیے کھلے اختیارات حاصل ہوں گے۔شنید یہ ہے کہ اس فورس کو اس بات کی کھلی چھوٹ حاصل ہوگی کہ وہ بغیر پیشگی اطلاع کے محض الزام لگا کر کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر میں داخل ہوکر جسے چاہے گرفتار کرکے حوالات میں بند کرسکے گی۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اتر پردیش سرکار نے جس کا چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ ہے اس نے اتر پردیش اسپیشل سیکیورٹی فورس ایکٹ 2020 لاگو کرکے ظلم و ستم کی کہانی کا آغاز کر دیا ہے۔اس کے تحت اتر پردیش اسپیشل سیکیورٹی فورس UPFFF کو بنایا گیا ہے جو کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا ڈریم پروجیکٹ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس فورس کو کسی وارنٹ کے بغیر تلاشی کا اختیار حاصل ہوگا اور اس فورس کا کوئی بھی ممبر کسی بھی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ اس کے سپاہی کسی وارنٹ کے بغیر کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں اور کسی کو بھی بنا وارنٹ گرفتار کرسکتے ہیں اور ان کے اس ایکشن پر عدالت سرکار کی منظوری کے بنا کوئی روک یا پابندی بھی نہیں لگا سکتی۔
اس کے علاوہ انھیں پیسے دے کر کوئی بھی صنعتکار بھی اس فورس کو استعمال کرسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں پیسے دے کر کوئی بھی سرمایہ دار کسی بھی مزدور یا کسان کو بنا وارنٹ گرفتار کرا سکتا ہے اور ان گرفتار مزدوروں اور کسانوں کو بچانے کے لیے کوئی عدالت بیچ میں نہیں آئے گی۔اس فورس کے اختیارات قانون سے بالاتر ہوں گے کیونکہ عدالت بھی سرکار کی اجازت کے بغیر UPFFF کی کسی بھی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکے گی۔ دراصل اس فورس کا واحد نشانہ مسلمان اور دلت ہوں گے گویا:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
یہ ہے بی جے پی کی حالیہ عام انتخابات میں کامیابی کی ظلم و ستم کی نئی داستان کا نکتہ آغاز:
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا