ترک وطن خواہش یا مجبوری آخری حصہ
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم اپنے ناخواندہ کارکنوں اور اعلیٰ پیشہ ورانہ اہلیت رکھنے والوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں
پاکستان میں ہی نہیں بعض دوسرے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کا بھی یہی حال ہے اور وہاں سے بھی ذہانتوں کے ترک ِ وطن کا یہی احوال ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ عرب ملکوں سے بھی ذہانتوں کی ہجرت بڑی تیزی سے شروع ہوچکی ہے۔
ان ملکوں کی حکومتیں اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں کیونکہ یہ عمل اگر اسی طرح جاری رہتا ہے تو مشرق وسطیٰ کی معاشی، سائنسی اور تعلیمی ترقی پر اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خصوصی تربیت حاصل کرنے کی خاطر جو سائنسدان عرب ملکوں سے باہر گئے ان میں سے 70%وطن واپس نہیں لوٹے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ عرب باشندے بہت بڑی تعداد میں امریکا ، فرانس اور برطانیہ کی طرف ہجر ت کر رہے ہیں۔ یہ تعداد ان ماہرین کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے جنھیں مغربی ملک تکنیکی امداد کے پروگراموں کے تحت مشرق وسطیٰ بھیجتے ہیں۔
عرب ملکوں کے ہنر مند افراد زیادہ بڑی تعداد میں ترک وطن کر رہے ہیں ۔ اس وقت ہزاروں عرب طلبا ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے کافی طلبا ہر سال اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس جانے کے بجائے مغرب میں آباد ہوجاتے ہیں۔ اعلیٰ ذہانتوں کے ترک وطن کی بنیاد معاشی ہے۔ عرب ملکوں میں پیشہ ور اور ہنر مند افراد کو مغرب کے مقابلے میں کم تنخواہیں ملتی ہیں۔
ہر چند کہ مصر جیسے ملکوں میں معیار زندگی کی لاگت کم ہے لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد مغرب کی پر تعیش اشیاء خریدنے کی استعداد نہیں رکھتے اور زیادہ بہتر معیار زندگی کی خواہش میں اپنے ملکوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے عرب طلبا مغرب میں شادیاں کر لیتے ہیں اور وہیں بس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مصر میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، لہٰذا اس ملک میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ سعودی عرب اور کویت جیسے عرب ملکوں میں چونکہ معاشی ترقی کی رفتار کافی تیز ہے اس لیے ان ملکوں سے ذہانتوں کے ترک وطن کی شرح کم ہے۔
ایک اچھے اور بہتر مستقبل کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک میں جا کر ملازمت یا کاروبار کرنا بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم ، ہمارے لیے چند باتوں کو جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ کوئی بھی انسان اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر دیار غیر میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ عمل وہ ضرورت اور مجبوری کے تحت کرتا ہے ۔
وہ سر فہرست ممالک جن کے شہری سب سے زیادہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیںوہاں بیروز گاری اور افراط ِ زر کی سطح بہت اونچی ہے۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ دنیا کے دیگر ملک ہماری افرادی قوت سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں جب کہ ہم ایسا کرنے سے محروم ہیں۔ ہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز کیے بیٹھے ہیں کہ صرف ناخواندہ نیم خواندہ کا رکن ہی نہیں بلکہ ملک کی اعلیٰ ذہانتیں بھی ترک وطن کر رہی ہیں ، یہ اعلیٰ پیشہ ور مہارت رکھنے والے افراد امریکا اور یورپ کی معاشی ترقی میں موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
بہت سے لوگ یورپ جانے کے لیے انتہائی خطرناک اور غیر قانونی ذرایع استعمال کرکے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ غیر قانونی طور پر نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلر ایسے لوگوں سے منہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں ۔ انسانی اسمگلروں کے چنگل میں پھنس کر بہت سے نوجوان موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی لاشیں تک اپنے وطن نہیں آتیں۔ جانے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کو محفوظ کشتیوں میں سوار کر کے منزل مقصود تک پہنچایا جائے گا، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔
چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو سوار کردیا جاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ کشتیاں حادثات کا شکار ہوکر ڈوب جاتی ہیں اور ان میں سوار یہ بد نصیب سمندر کی نذر ہوجاتے ہیں جو افراد غیر قانونی طور پر کسی یورپی ملک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ ہر وقت گرفتاری کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور کافی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اب تک ایسی ہجرتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو رضا کارانہ تھیں۔ ان لوگوں کے مسائل اور عذاب اپنی جگہ لیکن اس موقع پر ان لاکھوں انسانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو اپنے وطن اور علاقوں سے کہیں اور جانا نہیں چاہتے تھے ۔ بڑی طاقتوں کی تباہی ، جنگوں اور آمرانہ حکومتوں کے جبر و ستم کے نتیجے میں خانہ جنگیوں کے شکار ملکوں کے لوگوں کو جانیں بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ نا پڑا ہے۔
ان میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سر فہرست ہیں۔برسہا برس جاری رہنے والی خانہ جنگیوں میں لاکھوں بے گناہ ہلاک ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو مجبور ہو کر اپنے وطن ہی میں بے گھر ہونا پڑا یا پھر بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنی پڑی ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ اپنے ہی ملک کے اندر بے گھر ہوئے اس کے علاوہ تیس لاکھ سے زیادہ افراد کو دیگر ملکوں میں پناہ گزین بن کر رہنا پڑا یا انھوں نے وہاں سیاسی پنا ہ حاصل کرلی۔
فلسطینی وہ بد نصیب لوگ ہیں جو1948 کے بعد سے آج تک مہاجر بنے ہوئے ہیں ۔ کوئی ملک انھیں اپنا شہری بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 1948 کی جنگ کے بعد جس کے نتیجے میں اسرائیل وجود میں آیا تھا، سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو اپنے وطن آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔1948 کے بعد سے ایسے فلسطینیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور آج دنیا کے درجنوں ملکوں میں 70 لاکھ فلسطینی مہاجروں کی حیثیت سے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔
انسان بہتر مستقبل یا روزگار کی تلاش میں ترک وطن کرے یا جان بچانے کے لیے اسے جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر پناہ گزین بننا پڑے، ان سب عوامل میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ مجبوری میں یہ عمل کرتا ہے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم اپنے ناخواندہ کارکنوں اور اعلیٰ پیشہ ورانہ اہلیت رکھنے والوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تارکین وطن پاکستانی زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیج کر ہماری حکومتوں کی مشکلوں کو آسان کرتے رہیں۔ کیا یہ ایک الم ناک صورتحال نہیں ہے کہ ملک میں روزگار کے دروازے بند ہوں اور ہمارے شہری مجبوری کی وجہ سے ترک وطن کرنے جیسا تکلیف دہ فیصلہ کر یں۔
ان ملکوں کی حکومتیں اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں کیونکہ یہ عمل اگر اسی طرح جاری رہتا ہے تو مشرق وسطیٰ کی معاشی، سائنسی اور تعلیمی ترقی پر اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خصوصی تربیت حاصل کرنے کی خاطر جو سائنسدان عرب ملکوں سے باہر گئے ان میں سے 70%وطن واپس نہیں لوٹے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ عرب باشندے بہت بڑی تعداد میں امریکا ، فرانس اور برطانیہ کی طرف ہجر ت کر رہے ہیں۔ یہ تعداد ان ماہرین کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے جنھیں مغربی ملک تکنیکی امداد کے پروگراموں کے تحت مشرق وسطیٰ بھیجتے ہیں۔
عرب ملکوں کے ہنر مند افراد زیادہ بڑی تعداد میں ترک وطن کر رہے ہیں ۔ اس وقت ہزاروں عرب طلبا ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے کافی طلبا ہر سال اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس جانے کے بجائے مغرب میں آباد ہوجاتے ہیں۔ اعلیٰ ذہانتوں کے ترک وطن کی بنیاد معاشی ہے۔ عرب ملکوں میں پیشہ ور اور ہنر مند افراد کو مغرب کے مقابلے میں کم تنخواہیں ملتی ہیں۔
ہر چند کہ مصر جیسے ملکوں میں معیار زندگی کی لاگت کم ہے لیکن اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد مغرب کی پر تعیش اشیاء خریدنے کی استعداد نہیں رکھتے اور زیادہ بہتر معیار زندگی کی خواہش میں اپنے ملکوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے عرب طلبا مغرب میں شادیاں کر لیتے ہیں اور وہیں بس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مصر میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، لہٰذا اس ملک میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ سعودی عرب اور کویت جیسے عرب ملکوں میں چونکہ معاشی ترقی کی رفتار کافی تیز ہے اس لیے ان ملکوں سے ذہانتوں کے ترک وطن کی شرح کم ہے۔
ایک اچھے اور بہتر مستقبل کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک میں جا کر ملازمت یا کاروبار کرنا بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم ، ہمارے لیے چند باتوں کو جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ کوئی بھی انسان اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر دیار غیر میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ عمل وہ ضرورت اور مجبوری کے تحت کرتا ہے ۔
وہ سر فہرست ممالک جن کے شہری سب سے زیادہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیںوہاں بیروز گاری اور افراط ِ زر کی سطح بہت اونچی ہے۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ دنیا کے دیگر ملک ہماری افرادی قوت سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں جب کہ ہم ایسا کرنے سے محروم ہیں۔ ہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز کیے بیٹھے ہیں کہ صرف ناخواندہ نیم خواندہ کا رکن ہی نہیں بلکہ ملک کی اعلیٰ ذہانتیں بھی ترک وطن کر رہی ہیں ، یہ اعلیٰ پیشہ ور مہارت رکھنے والے افراد امریکا اور یورپ کی معاشی ترقی میں موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
بہت سے لوگ یورپ جانے کے لیے انتہائی خطرناک اور غیر قانونی ذرایع استعمال کرکے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ غیر قانونی طور پر نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلر ایسے لوگوں سے منہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں ۔ انسانی اسمگلروں کے چنگل میں پھنس کر بہت سے نوجوان موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی لاشیں تک اپنے وطن نہیں آتیں۔ جانے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کو محفوظ کشتیوں میں سوار کر کے منزل مقصود تک پہنچایا جائے گا، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔
چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو سوار کردیا جاتا ہے ۔ بعض اوقات یہ کشتیاں حادثات کا شکار ہوکر ڈوب جاتی ہیں اور ان میں سوار یہ بد نصیب سمندر کی نذر ہوجاتے ہیں جو افراد غیر قانونی طور پر کسی یورپی ملک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ ہر وقت گرفتاری کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور کافی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اب تک ایسی ہجرتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو رضا کارانہ تھیں۔ ان لوگوں کے مسائل اور عذاب اپنی جگہ لیکن اس موقع پر ان لاکھوں انسانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو اپنے وطن اور علاقوں سے کہیں اور جانا نہیں چاہتے تھے ۔ بڑی طاقتوں کی تباہی ، جنگوں اور آمرانہ حکومتوں کے جبر و ستم کے نتیجے میں خانہ جنگیوں کے شکار ملکوں کے لوگوں کو جانیں بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ نا پڑا ہے۔
ان میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سر فہرست ہیں۔برسہا برس جاری رہنے والی خانہ جنگیوں میں لاکھوں بے گناہ ہلاک ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو مجبور ہو کر اپنے وطن ہی میں بے گھر ہونا پڑا یا پھر بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنی پڑی ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ اپنے ہی ملک کے اندر بے گھر ہوئے اس کے علاوہ تیس لاکھ سے زیادہ افراد کو دیگر ملکوں میں پناہ گزین بن کر رہنا پڑا یا انھوں نے وہاں سیاسی پنا ہ حاصل کرلی۔
فلسطینی وہ بد نصیب لوگ ہیں جو1948 کے بعد سے آج تک مہاجر بنے ہوئے ہیں ۔ کوئی ملک انھیں اپنا شہری بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 1948 کی جنگ کے بعد جس کے نتیجے میں اسرائیل وجود میں آیا تھا، سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو اپنے وطن آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔1948 کے بعد سے ایسے فلسطینیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور آج دنیا کے درجنوں ملکوں میں 70 لاکھ فلسطینی مہاجروں کی حیثیت سے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔
انسان بہتر مستقبل یا روزگار کی تلاش میں ترک وطن کرے یا جان بچانے کے لیے اسے جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر پناہ گزین بننا پڑے، ان سب عوامل میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ مجبوری میں یہ عمل کرتا ہے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم اپنے ناخواندہ کارکنوں اور اعلیٰ پیشہ ورانہ اہلیت رکھنے والوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تارکین وطن پاکستانی زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیج کر ہماری حکومتوں کی مشکلوں کو آسان کرتے رہیں۔ کیا یہ ایک الم ناک صورتحال نہیں ہے کہ ملک میں روزگار کے دروازے بند ہوں اور ہمارے شہری مجبوری کی وجہ سے ترک وطن کرنے جیسا تکلیف دہ فیصلہ کر یں۔