اطمینان قلب کی سائنس پہلا حصہ

سکون اوراطمینان قلب کے پرندے کوخود ہی مارنے والے بھی اب اسے چف چف کرکے زندہ کرناچاہتے ہیں جو ممکن ہی نہیں

barq@email.com

ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں جناب سید عاصم محمود کاایک بہت اچھا مضمون چھپا ہے ''اطمینان قلب کی سائنس''۔ مضمون کا ذیلی عنوان ہے ،ان مغربی علماء اورماہرین کادل افروزقصہ جو خوشی اورسکون کے خزانے کے کھوج میں برسوں سے مصروف ہیں۔

مضمون میں ایسے بہت سارے مغربی علماء کے نظریات اورنگارشات بیان کیے گئے ہیں جو انھوں نے اس ''فردوس گم گشتہ''کی تلاش کے سلسلے میں تحریرکی ہیں جسے وہ اطمینان قلب کہتے ہیں۔اس خزانے کو پانے کے لیے انسان نے کیاکیاجتن نہیں کیے ہیں، کیا کیا ایجادات نہیں کی ہیں،کیاکیاعلوم وعقائد وضع نہیں کیے ہیں اورکیاکیافلسفے نہیں بگھارے ہیں لیکن ''پیراڈائزلاسٹ'' ابھی تک پیراڈائزلاسٹ ہی ہے۔

ہربگولے میں نظر آتاہے''تیرامحمل'' کے مصداق بہت سے دشتوں میں بے پناہ دوڑا ہے اورسرابوں کے دھوکے میں مزید پیاساہوتارہاہے ۔اوراب یہ اصطلاح ''اطمینان قلب کی سائنس'' بجائے خود ایک مغالطہ ہے ،کسی چیزکو ''وہاں''تلاش کرنا جہاں وہ ہے ہی نہیں بلکہ ہوہی نہیں سکتی ۔

ترسم کہ بہ منزل نہ رسیدی اے اعرابی

کس راہ کہ تومی روی بہ ترکستان است

میں اکثر اپنے کالموں میں بچپن کاایک قصہ سناتا ہوں کہ ہم غلیل سے کسی پرندے کوگرا لیتے تھے تو پھریہ شوق ہوتا کہ اسے زندہ کرکے پالاجائے چنانچہ اس مردہ یانیم مردہ پرندے کے اوپرٹوپی رکھ دیتے اورجتنے بھی لڑکے ہوتے تھے، اس کے گرد گھیراڈال کر بیٹھ جاتے، اپنی مٹھیوں کومنہ تک لے جاکر ''چف چف'' کرتے اورپھر ٹوپی کوچھوتے،اب جس پرندے کوہم نے خود مارا ہوتا،کیا وہ زندہ ہوتا لیکن ہم اپنی مسیحائی کرڈالتے تھے۔

سکون اوراطمینان قلب کے پرندے کوخود ہی مارنے والے بھی اب اسے چف چف کرکے زندہ کرناچاہتے ہیں جو ممکن ہی نہیں کیوں کہ سکون اور اطمینان قلب کاجسمانی آسائشوں میں، مادی تعیشات میں، مال وزرمیں، دولت وشہرت میں یا لگژری اشیاء میں وجود ہی نہیں ہے۔

شہزادہ سدھارتھ کوتوسب کچھ میسرتھا۔ ولی عہد،شہزادہ اورہونے والاراجہ تھا، خوبرو جوان تھا، حسین بیوی اورپیارا سا بچہ تھا،محلات تھے، درباری تھے ، کنیزیں تھی، تلوار بدست محافظ تھے، دنیاوی اورمادی آسائشوں کی کیاکمی تھی؟ لیکن پھربھی وہ بے چین تھا، بے قرار تھا نامطمئن تھا۔

مغربی ممالک کے کئی نوجوانوں کوآپ نے دیکھا ہوگا جنھیں ''ہیپی''کہاجاتاہے، ان کے ہاں مغرب میں تو انسان کوتمام آسائشیں وافربلکہ لگژری معیارکی حاصل ہیں پھر وہ کیوں ان سب کو تیاگ کرمشرق میں سرگرداں رہتے ہیں، نشوں میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کیوں؟یہ لوگ کیا ڈھونڈتے ہیں؟ ان کے اندروہ کیساخلاہے جومادی اورجسمانی ذرایع یا آسائشوں سے ''پر''نہیں ہوتا؟یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے آپ کسی پیاسے کوکھاناکھلائیں، بھوکے کوخوشبو لگائیں، اندھے کو تماشے دکھلائیں اوربہرے کونغمے سنائیں۔


''اطمینان قلب کی سائنس'' اس اصلاح کے تینوں الفاظ اطمینان،قلب اورسائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں۔پہلے اطمینان کو لے لیجیے جو غیرمادی ہے، یہ کسی شے کانام نہیں بلکہ کیفیت ہے یعنی اسے پانچ مادی حواسوں سے نہ تو حاصل کیاجاسکتاہے نہ محسوس کیاجاسکتاہے نہ پایاجاسکتاہے۔

اورقلب توظاہرہے کہ باطن کانام ہے اس گوشت کے عضو''دل'' کانام نہیں دل بچارا تو صرف ایک پمپ ہے اوردماغ بھی ایک مادی عضوہی ہے۔ اس کے اوپر ''سائنس؟''کہ سائنس تو نام ہی مادی اور طبیعاتی چیزوں کاہے، سائنس کوبھی ان مادی چیزوں سے تعلق ہے جو پانچ انسانی حواس کے دائرے میں آتی ہیں۔لیکن اطمینان کامادے اورجسم سے کوئی تعلق نہیں اگر ہوتاتو بڑے بڑے اہل زر،آرام کی نیند سوتے اور ایک مزدورفٹ پاتھ پر یازمین پر آرام سے خراٹے نہ بھرتا۔

یہاں پر تھوڑی سی بات مادے کی بھی کی جائے عام طورجدید علمائے مغرب کائنات میں صرف ''مادے'' کاوجود تسلیم کرتے ہیں اورمادے کے علاوہ کسی بھی ایسی چیزکونہیں مانتے جو غیرمادی ہو،ویسے تو اس مادیت کے علمبرداربہت ہیں لیکن ان میں تین تقریباً ہم عصر علماسرفہرست ہیں ۔چارلس ڈارون۔ سگمنڈفرائیڈ... کارل مارکس ۔

ڈارون اورفرائیڈ کوایک طرف کیے دیتے ہیں صرف کارل مارکس کولیتے ہیں اس کافلسفہ قطعی مادی ہے،وہ کائنات میں مادے کے علاوہ اورکسی بھی چیزکاقائل نہیں اس لیے اس کافلسفہ بھی صرف انسانی جسم اوراس کی مادی ضرورتوں کااحاطہ کرتاہے جیسے تین الفاظ میں جمع کرکے روٹی کپڑا مکان،کہاجاتاہے لیکن اصل میں چارہیں کیوں کہ ''جنس''بھی ایک جسمانی ضرورت ہے اوراگر ان سب کوجمع کرکے ایک لفظ میں بیان کریں۔تو ''جسم '' اورجسمانی ضرورتیں بن جاتی ہیں۔

لیکن اس کاجواب کوئی بھی نہیں دے سکتاکہ سوشل ازم یاکمیونزم میں تو انسان کی جسمانی ضرورتیں پوری کردی گئی تھیں،پھر وہ نظام کیوں نہیں چلا۔بلکہ مشہورتاریخی گردش کے مطالب ''یوٹرن'' کیوں ہوگیا اورانسان کو اورزیادہ بے چین کیوں کرگیا بلکہ اس کو صرف ایک پیٹ اورجسم کیوں بناگیا بلکہ صاف الفاظ میں کہیں تو انسان کودوبارہ جانوریاحیوان کے مقام پرکھڑا کرگیا،وجہ وہی ہے کہ انسان صرف ''جسم'' نہیں بلکہ اس جسم میں کچھ اوربھی ہے اورجب تک وہ ''کچھ'' اور''مطمئن'' نہیں ہوتا آپ انسان کودنیا بھر کی نعمتوں زروجواہرآسائشوں اورتعیشات کے ڈھیر پر بھی بٹھا دیں وہ نامطمئن اوربے چین رہے گا جیسے انسان جتنا پانی پیتاجاتاہے اتنی ہی اس کی پیاس بڑھتی جاتی ہے ۔

اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھوتو سہی سوچو تو سہی

جس جھولی میں سو چھیدہوئے اس جھولی کاپھیلاناکیا

یہ سو چھید کیاہیں اوروہ خلاکہاں ہے جو بھرتاہی نہیں،اس کے لیے ہمیں ایک مرتبہ پھر اس سلسلہ ازواج تک جانا پڑے گاجس کاذکر میں اکثر کرتارہتاہوں جو اس کائنات کے ذرے ذرے میں جاری وساری ہے۔ اب اگر ہم کارل مارکس اوردوسرے مادہ پرستوں کی بات مان لیں تومادے کا''زوج'' بھی ہوناچاہے اورمزے کی بات ہے کہ مادے کے اس زوج کواب طبیعات نے بھی تسلیم کیاہے ''توانائی'' جو بے وجود ہے لیکن موجودہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story