سایوں میں چُھپی روشنی
بلاشبہ یہ صورتِ حال کسی بھی محبِ وطن اور اہلِ دل کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے اور چونکہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں
ان دنوں وطن عزیز کی فضا اور میڈیا کی اسکرینوں پر جو انتشار کا عالم ہے اور جس طرح سے ہر طرف سے بدزبانی اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ ہو رہاہے بلاشبہ یہ صورتِ حال کسی بھی محبِ وطن اور اہلِ دل کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے اور چونکہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔
اس لیے میں اس صورتِ حال کی منظر کشی بھی نہیں کرسکتا، وقت کے ساتھ ساتھ میرے اس یقین میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جب تک عوامی اور سیاسی نمایندے بلدیاتی نظام سے گزر اور سنور کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں نہیں آئیں گے یہ سلسلہ نام اور شکلیں بدل کر اسی طرح جاری رہے گا۔
دولت، طاقت، جاگیرداری، پیر پرستی، خاندانی برتری اور مذہب کی آڑ لے کر آنے والوں کو ''عوامی نمایندے'' سمجھاجائے گا عوام اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک قوم ترقی کرنے کے تمام وسائل رکھنے کے باوجود گزشتہ پچھتر برس میں اُن سے بہت کم فائدہ اُٹھا سکی ہے کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف اشارا کیے بغیر میرا یہ شعر اس صورتِ حال کی عمومیت کو کچھ یوں بیان کر رہا ہے کہ:
تِیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادہ ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کبھی کبھی اور کہیں کہیں روشنی ، اُمید ،دردِ دل اور ایثار کے ایسے منظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے پھیلی ہوئی مایوسی ، بے چینی، فرسٹریشن اور رنجیدگی جیسے ایک دم ہَوا سی ہوجاتی ہے اور ''اپنے رب سے کبھی مایوس نہ ہونا'' کا مطلب سمجھ میں آنے اور رُوح کو جگمگانے لگتا ہے۔
چند روز قبل کی ایک سہ پہر اِسی کیفیت کی آئینہ دار تھی جب مجھے لاہور میں انڈس اسپتال کو دیکھنے اور اِس کارِ خیر میں شامل کچھ غیر معمولی حضرات سے بالمشافہ ملنے کا موقع ملا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس منصوبے کی بنیاد اِس کے بانی ڈاکٹر عبدالباری اور اُن کے کراچی کے احباب اور معاونین نے کوئی پندرہ برس قبل رکھی تھی اُس وقت شاید اُن کی اس ٹیم کے بھی گمان میں نہ ہوگا کہ ایک ایسا اچھوتا ''عوام دوست اور قربانی اور ایثار پر استوار کیا گیا ایک بظاہر ناقابلِ عمل اور دیوانے کے خواب جیسی تصوراتی دنیا نہ صرف حقیقت کا رُوپ دھار لے گی بلکہ ایک صدقہ جاریہ کی طرح پورے ملک میں پھیلتی چلی جائے گی۔
کورونا کی آمد سے کچھ ہی عرصہ پہلے مجھے ڈاکٹر باری کے ساتھ انگلستان کا ایک دورہ کرنے کا موقع ملا جس کا بنیادی مقصد وہاں پر اہلِ دل پاکستانیوں کا اس سے تعارف اور فنڈریزنگ تھی، باری صاحب کی دانش، سادگی اور اپنے کام سے کمٹ منٹ کو دیکھ کر میرے اندر کا رجایت پسند بھی جیسے یک دم بیدار ہوگیا۔
برادرم محمد صدیق شیخ نے جو انڈس کے انتظامی بورڈ کے بھی اہم رکن ہیں جب پہلی بار مجھے انڈس اسپتال کراچی کا راؤنڈ لگوایا تو مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں ''صحت'' ایک مقبول اور کامیاب کاروبار بن چکی ہے اور جس کی وجہ سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لیے بیماری ایک ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ اسپتالوں ، ڈاکٹروں اور دواؤں کے اخراجات اُس کے ساتھ ساتھ پورے کے پورے خاندانوں کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ایسا جدید ترین سہولیات سے مزّین اسپتال جس میں سرے سے کوئی کیش کاؤنٹر ہی نہ ہو اور مریض کا علاج ایک مِشن سمجھ کر کیا جائے بظاہر ایک ناقابلِ عمل بات تھی لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ کراچی ہی کے مخیر حضرات نے نہ صرف اس نا ممکن کو ممکن کر دکھایابلکہ ڈاکٹر عبدالباری اور اُن کے رفقاء کو یہ حوصلہ بھی دیا کہ وہ اس خواب کو مزید آنکھوں تک پھیلائیں۔
لاہور میں ساڑھے چھ سو بستروں پر مشتمل انڈس اسپتال کی وسیع اور شاندار عمارت نہ صرف کھڑی ہوچکی ہے بلکہ اس کی OPD اور سو بستر بھی تکمیل کے مراحل طے کرکے اب فنکشنل ہوچکے ہیں اس منصوبے کی کل لاگت تقریباً سولہ ارب روپے ہے، معلوم ہوا کہ اقبال قریشی، جاوید بھٹی برادران، نسیم ریاض مرحوم، ایک کاروباری گروپ اور کچھ اور احباب کی مدد سے نہ صرف ساٹھ کنال زمین انھیں بطور عطیہ ملی بلکہ ابتدائی تعمیر کے چھ ارب روپے بھی پلک جھپکتے میں انھی دوستوں نے مہیا کردیے۔
دس ہزار ڈاکٹروں ، نرسوں اور معاون عملے کے ساتھ مریضوں کے آپریشن اور دواؤں کے اربوں کے اخراجات بھی اسی ملک کے اہلِ دل مسلسل مہیا کرتے رہتے ہیں اور یوں یہ اب تک کے تیرہ انڈس اسپتال بہت خاموشی اور سلیقے سے خلقِ خدا کی خدمت کرنے آرہے ہیں۔
جہاں ایک طرف ایدھی صاحب کا لگایا ہوا پودا اب الخدمت، اخوت ، ٹی سی ایس، چِھیپا ، غزالی کڈنی سینٹرکینسر اسپتال، شوکت میموریل اور کئی دیگر اداروں کے قیام کی شکل میں ایک باغ کا سا منظر پیش کر رہا ہے، وہاں صحت کے شعبے میں انڈس اور SIUT کی خدمات بھی نہ صرف یاد رکھی جائیں گی بلکہ اس قافلے میںنئے لوگ بھی مسلسل شامل ہوتے رہیں گے اور یوں بے رحم، سنگ دل اور عوام کے استحصال پر مبنی سیاست کے لگائے ہوئے زخموں پر ایک طرح سے مرہم بھی لگتی رہتی ہے میں ، میرے اہلِ خانہ اور احباب بھی اس کارِخیر میں حتی الممکن دامے ،درمے، قدمے، سخنے اس جنت نشان قافلے کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں سو آخر میں انڈس کے لیے ایک گیت جو ان شاء اللہ بہت جلد آڈیو اور ویڈیومیں بھی آپ تک پہنچ جائے گا۔
ہاتھوں میں لے کے ہاتھ چلیں زندگی کے ساتھ
انڈس ہے جس کا نام اُسی روشنی کے ساتھ
دستک بغیر رہتا ہے یہ دَر کُھلا ہُوا
جاگا جو دل میں درد تو یہ سلسلہ ہُوا
ہوتاہے احترام بھی چارہ گری کے ساتھ
کہتے ہیں اس جہاں میں نہیں مفت کوئی شے
انڈس کے دوستوں نے بتایا ہمیں کہ ''ہے''
یہ مول تول کرتے نہیں ہیں کسی کے ساتھ
جس جس کے دستِ فیض سے جاری ہے یہ نظام
دفتر میں ربِ پاک کے لکھے ہیں اُن کے نام
رحمت بھی اُس کی ملتی ہے دل کی خوشی کے ساتھ
انڈس ہے جس کا نام اُسی روشنی کے ساتھ
ہاتھوں میں ہاتھ دے کے چلیں زندگی کے ساتھ
اس لیے میں اس صورتِ حال کی منظر کشی بھی نہیں کرسکتا، وقت کے ساتھ ساتھ میرے اس یقین میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جب تک عوامی اور سیاسی نمایندے بلدیاتی نظام سے گزر اور سنور کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں نہیں آئیں گے یہ سلسلہ نام اور شکلیں بدل کر اسی طرح جاری رہے گا۔
دولت، طاقت، جاگیرداری، پیر پرستی، خاندانی برتری اور مذہب کی آڑ لے کر آنے والوں کو ''عوامی نمایندے'' سمجھاجائے گا عوام اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک قوم ترقی کرنے کے تمام وسائل رکھنے کے باوجود گزشتہ پچھتر برس میں اُن سے بہت کم فائدہ اُٹھا سکی ہے کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف اشارا کیے بغیر میرا یہ شعر اس صورتِ حال کی عمومیت کو کچھ یوں بیان کر رہا ہے کہ:
تِیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادہ ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کبھی کبھی اور کہیں کہیں روشنی ، اُمید ،دردِ دل اور ایثار کے ایسے منظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے پھیلی ہوئی مایوسی ، بے چینی، فرسٹریشن اور رنجیدگی جیسے ایک دم ہَوا سی ہوجاتی ہے اور ''اپنے رب سے کبھی مایوس نہ ہونا'' کا مطلب سمجھ میں آنے اور رُوح کو جگمگانے لگتا ہے۔
چند روز قبل کی ایک سہ پہر اِسی کیفیت کی آئینہ دار تھی جب مجھے لاہور میں انڈس اسپتال کو دیکھنے اور اِس کارِ خیر میں شامل کچھ غیر معمولی حضرات سے بالمشافہ ملنے کا موقع ملا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس منصوبے کی بنیاد اِس کے بانی ڈاکٹر عبدالباری اور اُن کے کراچی کے احباب اور معاونین نے کوئی پندرہ برس قبل رکھی تھی اُس وقت شاید اُن کی اس ٹیم کے بھی گمان میں نہ ہوگا کہ ایک ایسا اچھوتا ''عوام دوست اور قربانی اور ایثار پر استوار کیا گیا ایک بظاہر ناقابلِ عمل اور دیوانے کے خواب جیسی تصوراتی دنیا نہ صرف حقیقت کا رُوپ دھار لے گی بلکہ ایک صدقہ جاریہ کی طرح پورے ملک میں پھیلتی چلی جائے گی۔
کورونا کی آمد سے کچھ ہی عرصہ پہلے مجھے ڈاکٹر باری کے ساتھ انگلستان کا ایک دورہ کرنے کا موقع ملا جس کا بنیادی مقصد وہاں پر اہلِ دل پاکستانیوں کا اس سے تعارف اور فنڈریزنگ تھی، باری صاحب کی دانش، سادگی اور اپنے کام سے کمٹ منٹ کو دیکھ کر میرے اندر کا رجایت پسند بھی جیسے یک دم بیدار ہوگیا۔
برادرم محمد صدیق شیخ نے جو انڈس کے انتظامی بورڈ کے بھی اہم رکن ہیں جب پہلی بار مجھے انڈس اسپتال کراچی کا راؤنڈ لگوایا تو مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں ''صحت'' ایک مقبول اور کامیاب کاروبار بن چکی ہے اور جس کی وجہ سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لیے بیماری ایک ڈراؤنے خواب کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ اسپتالوں ، ڈاکٹروں اور دواؤں کے اخراجات اُس کے ساتھ ساتھ پورے کے پورے خاندانوں کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ایسا جدید ترین سہولیات سے مزّین اسپتال جس میں سرے سے کوئی کیش کاؤنٹر ہی نہ ہو اور مریض کا علاج ایک مِشن سمجھ کر کیا جائے بظاہر ایک ناقابلِ عمل بات تھی لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ کراچی ہی کے مخیر حضرات نے نہ صرف اس نا ممکن کو ممکن کر دکھایابلکہ ڈاکٹر عبدالباری اور اُن کے رفقاء کو یہ حوصلہ بھی دیا کہ وہ اس خواب کو مزید آنکھوں تک پھیلائیں۔
لاہور میں ساڑھے چھ سو بستروں پر مشتمل انڈس اسپتال کی وسیع اور شاندار عمارت نہ صرف کھڑی ہوچکی ہے بلکہ اس کی OPD اور سو بستر بھی تکمیل کے مراحل طے کرکے اب فنکشنل ہوچکے ہیں اس منصوبے کی کل لاگت تقریباً سولہ ارب روپے ہے، معلوم ہوا کہ اقبال قریشی، جاوید بھٹی برادران، نسیم ریاض مرحوم، ایک کاروباری گروپ اور کچھ اور احباب کی مدد سے نہ صرف ساٹھ کنال زمین انھیں بطور عطیہ ملی بلکہ ابتدائی تعمیر کے چھ ارب روپے بھی پلک جھپکتے میں انھی دوستوں نے مہیا کردیے۔
دس ہزار ڈاکٹروں ، نرسوں اور معاون عملے کے ساتھ مریضوں کے آپریشن اور دواؤں کے اربوں کے اخراجات بھی اسی ملک کے اہلِ دل مسلسل مہیا کرتے رہتے ہیں اور یوں یہ اب تک کے تیرہ انڈس اسپتال بہت خاموشی اور سلیقے سے خلقِ خدا کی خدمت کرنے آرہے ہیں۔
جہاں ایک طرف ایدھی صاحب کا لگایا ہوا پودا اب الخدمت، اخوت ، ٹی سی ایس، چِھیپا ، غزالی کڈنی سینٹرکینسر اسپتال، شوکت میموریل اور کئی دیگر اداروں کے قیام کی شکل میں ایک باغ کا سا منظر پیش کر رہا ہے، وہاں صحت کے شعبے میں انڈس اور SIUT کی خدمات بھی نہ صرف یاد رکھی جائیں گی بلکہ اس قافلے میںنئے لوگ بھی مسلسل شامل ہوتے رہیں گے اور یوں بے رحم، سنگ دل اور عوام کے استحصال پر مبنی سیاست کے لگائے ہوئے زخموں پر ایک طرح سے مرہم بھی لگتی رہتی ہے میں ، میرے اہلِ خانہ اور احباب بھی اس کارِخیر میں حتی الممکن دامے ،درمے، قدمے، سخنے اس جنت نشان قافلے کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں سو آخر میں انڈس کے لیے ایک گیت جو ان شاء اللہ بہت جلد آڈیو اور ویڈیومیں بھی آپ تک پہنچ جائے گا۔
ہاتھوں میں لے کے ہاتھ چلیں زندگی کے ساتھ
انڈس ہے جس کا نام اُسی روشنی کے ساتھ
دستک بغیر رہتا ہے یہ دَر کُھلا ہُوا
جاگا جو دل میں درد تو یہ سلسلہ ہُوا
ہوتاہے احترام بھی چارہ گری کے ساتھ
کہتے ہیں اس جہاں میں نہیں مفت کوئی شے
انڈس کے دوستوں نے بتایا ہمیں کہ ''ہے''
یہ مول تول کرتے نہیں ہیں کسی کے ساتھ
جس جس کے دستِ فیض سے جاری ہے یہ نظام
دفتر میں ربِ پاک کے لکھے ہیں اُن کے نام
رحمت بھی اُس کی ملتی ہے دل کی خوشی کے ساتھ
انڈس ہے جس کا نام اُسی روشنی کے ساتھ
ہاتھوں میں ہاتھ دے کے چلیں زندگی کے ساتھ