پرویز الٰہی بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
عمران خان نے اپنا پہلا ٹیسٹ 3جون 1971 کو انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ اُس کے بعد اُنہوں نے دوسرا ٹیسٹ 1974 میں کھیلا، یعنی وہ پہلا ٹیسٹ کھیلنے کے بعد 3سال تک ٹیم سے باہر رہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اچھے کھلاڑی نہیں تھے، اور نہ ہی یہ مطلب تھا کہ وہ پسند ناپسند کا شکار ہو گئے تھے۔
بلکہ اُس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کو تجربہ کار کھلاڑیوں کی ضرورت تھی۔ پھرجب وہ دوبارہ ٹیم میں آئے تو انھوں نے بہترین کھیل پیش کیا جس کے بعد وہ 1982 میں کپتان بنا دیے گئے۔ پھر بحیثیت کپتان وہ اپنا پہلا میچ بھی ہار گئے اور پہلی سیریز بھی ہارگئے تھے، لیکن ہمت نا ہاری اور پھر 1992 میں دنیا میں کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر ایسا کارنامہ سرانجام دیا جسے آج تک نہ تو بھلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ کوئی ایسا اعزاز پاکستان لا سکا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ پرفارم کرنے کے لیے تجربہ ، قابلیت اور صبر خاص اہمیت رکھتا ہے، کھلاڑی کا اپنی فیلڈ میں مار کھانا ضروری ہوتا ہے، کھلاڑی کو کندھن بننا ضروری ہوتا ہے۔ تو ایسے میں بزدار صاحب نے صرف ناتجربہ کاری میں مار کھائی ہے ورنہ وہ بھی بہترین کھلاڑی تھے۔ اُنہیں نہ تو کسی وزارت کا تجربہ تھا اور نہ بیورو کریسی سے نمٹنے کا براہ راست تجربہ۔ اس لیے خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کوتجربہ دیتے بزدار صاحب کو چھوٹے لیول پر کھلاتے اور پھر آگے لے کر آتے۔ اور اس دوران جو ٹیم کے سینئر کھلاڑی تھے اُنہیں سب سے آگے رکھتے اور اُن کے تجربات سے استفادہ کرتے۔
جی ہاں! میں چوہدری پرویز الٰہی کی بات کر رہا ہوں۔ 2018 میں جب عمران خان نے اپنی ٹیم منتخب کی، اتحادی ساتھ ملائے تو پنجاب کی سطح پر ان سب میں چوہدری پرویز الٰہی سب سے منجھے ہوئے اور تجربہ کار کھلاڑی تھے جن کا پنجاب میں بہترین حکمرانی کا وسیع تجربہ تھا۔ لیکن خان صاحب نے اُنہیں اسپیکر شپ دے کر سائیڈ لائن کر دیا اور عثمان بزدار جو اس ''فیلڈ'' میں ہی نئے تھے۔اُنہیں فرنٹ لائن پر کھڑا کردیا۔ جس کا خمیازہ آج خود حکومت بھگت رہی ہے۔
میرے خیال میں پنجاب کے عوام کے ساتھ یہ کس قدر ناانصافی ہے کہ عمران خان حکومت نے اسی شش وپنج میں ساڑھے تین سال گزار دیے کہ شاید عثمان بزدار کو عوام قبول کر لیں گے۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اور راقم اس دوران بارہا کہتا رہا کہ حکومت اگر ڈلیور کرنا چاہتی ہے تو چوہدری برادران کو لے آئے۔ میں نے اس حوالے سے جنرل الیکشن 2018 کے ایک ہفتے بعد 31جولائی 2018 کو ''پرویز الٰہی کا پنجاب'' کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔ پھر چند دن بعد خبر آئی کہ جنوبی پنجاب سے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کا قلم دان سونپا گیا ہے اور ساتھ چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر شپ دے دی گئی ہے۔
پھر ہم نے ''وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار اور پرویز الٰہی'' کے عنوان سے کالم لکھا جس میں یہ واضح لکھا کہ ''تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عثمان بزدارکو یہ فائدہ ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ وہ ہر بات میں اُن سے مشاورت کر سکتے ہیں۔'' پھر جن دنوں عثمان بزدار پنجاب کے عوام کے سامنے ایکسپوز ہو رہے تھے، یعنی اُن کا کام کروانے کا اسٹائل، میڈیا کے سامنے اُن کی پریزنٹیشن وغیرہ کھل کر سامنے آرہی تھی تو راقم نے نومبر 2018 میں ایک بار پھرخان صاحب کو کہا کہ آپ اُن کے دور میں ہوئے منصوبوں کو دیکھ لیں۔ خدارا پنجاب کے عوام کے ساتھ ناانصافی نہ کریں۔ لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔
پھر اس کے چند ماہ بعد یعنی 19دسمبر 2018کے کالم جس کا عنوان ''پنجاب حکومت پرویز الٰہی سے مشاورت کرے'' میں بھی یہی کہا کہ ''عوامی حکومت'' مگر سخت دباؤ کا شکار،ایماندار ''وزیر'' مگر ناتجربہ کار، بے لوث خدمت گزار'' مشیر'' مگر مشاورت سے عاری ، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ''بیوروکریسی'' مگر قیادت سے محروم... اور تبدیلی کے نعرے پر ووٹ حاصل کرنے والے ''ممبران اسمبلی'' مگر مکمل نااُمید۔ یہ ہے مختصر سا تعارف موجود پنجاب حکومت کا جو سابقہ حکومت کی نسبت سو فیصد ایماندار تو ضرور ہے مگر ''جھڑکیں'' شاید اسے وراثت میں ملی ہیں ۔ کبھی اسے میڈیا کا غصہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
لیکن حکومت خاص طور پر خان صاحب ایک لمحے کے لیے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ پھر ہم نے بھی بقول شاعر حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لیا۔
حالات سے سمجھوتا تو کرنا ہی پڑے گا
اس آگ کے دریا سے گزرنا ہی پڑے گا
اورپھر ایک سال تک خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن پھر جب پانی سر سے گزرنے لگا تو ہم نے ستمبر 2019، جنوری 2020اور فروری 2021میں بھی انھی موضوعات پر کالم لکھ ڈالے۔لیکن بالآخر باعث مجبوری کہہ لیں یا قسمت کا لکھا کہہ لیں کہ آخر کار عمران خان صاحب کو پرویز الٰہی کا انتخاب کرنا ہی پڑا اور پھر اگلے روز عثمان بزدار سے استعفیٰ بھی لے لیا گیا۔ میں 1990 سے صحافت کر رہا ہوں اور صحافی کو شاید حالات حاضرہ کی عام آدمی سے زیادہ سمجھ بوجھ ہوتی ہے، عمومی طور پر صحافی نہ تو کسی پر بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور نہ ہی کاسہ لیسی سے کام لیتا ہے۔
اس لیے میری نظر میں ابھی تک پنجاب کے جتنے بھی وزراء آئے اُن میں غلام حیدر وائیں، عثمان بزدار اور پرویز الٰہی بہترین تھے۔ اوربادی النظر میں ان میں نمبر ون پرویز الٰہی تھے۔ اب ناقدین یہ کہیں گے کہ بھئی شہباز شریف کہاں گئے تو میرے خیال میں اُن کے دور میں پنجاب جتنا مقروض ہوا، جتنا بیوروکریسی کو نقصان ہوا اور جتنی کرپشن ہوئی شاید ہی کسی اور دور میں ہوئی تھی۔اس لیے اُنہیں معذرت کے ساتھ فی الوقت ڈسکس ہی نہیں کرنا چاہیے۔
خیر میں یہ دعویٰ ہوا میں نہیں کر رہاکہ پرویز الٰہی دور میں پنجاب کے عوام خوشحال تھے، بلکہ آپ دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں حقیقی تبدیلی آئے گی، اور اسی تبدیلی کی بنیاد پر اگلے پانچ سال بھی ہو سکتا ہے چوہدری برادران ہی پنجاب پر حکومت کریں۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اُن کی ٹیم کے ساتھ بہترین بیوروکریٹس کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ظاہر ہے وہ سب ریٹائر ہو چکے ہیں، مگر پرویز الٰہی اپنی مشاورت میں اُنہیں ضرور شامل کریں گے۔
اور پھر ہم پرویز الٰہی کے ممنون کیوں نہ ہوں، پہلی دفعہ کسی نے صحافیوں کو بھی گلے لگایا، اُنہیں انسان سمجھا، اُن کے مسائل سنے، اُن کے لیے صحافی کالونی بنائی، لاہور، پنڈی، ملتان کے صحافی اُن کے دل سے شکرگزار ہیں۔ لہٰذاہر قسم کی پارٹی کی سیاست سے بالاتر ہو کر پنجاب کے عوام کی فلاح کے لیے ہماری تو پہلے دن سے ہی چوائس یہی تھی۔
یقین جانیے! کیوں کہ اُن کے لگائے گئے منصوبوں سے آج بھی پنجاب کے عوام مستفید ہو رہے ہیں، ان پراجیکٹس میں 1122،پی آئی سی، ہائی وے پٹرولنگ، رنگ روڈ، وغیرہ جیسی سہولیات شامل ہیں۔ لہٰذااگر عمران خان یہ شروع میں فیصلہ کرلیتے تو آج مشکلات کا شکار نہ ہوتے، اس لیے دیر آید درست آید کے مصداق انشاء اللہ پنجاب کے عوام ایک بار پھر خوشحال ہوں گے اور پنجاب ترقی بھی کرے گا اور آگے بھی بڑھے گا۔