یرموک کیمپ کے مظلوم فلسطینی اور علامہ اقبال
عربی میں اسے مخیم الیرموک کہا جاتا ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق سے نزدیک یہ مہاجر کیمپ 1957ء میں آباد ہوا۔
ABBOTABAD:
عربی میں اسے مخیم الیرموک کہا جاتا ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق سے نزدیک یہ مہاجر کیمپ 1957ء میں آباد ہوا۔کہنے کو یہ مہاجرین کا کیمپ ہے لیکن درحقیقت یہاں فلسطینی بالکل اس طرح رہتے ہیں جیسے شام کے دیگر شہری اپنے گھروںمیں۔اسے مہاجر کیمپ کا نام صرف اس لیے دیا گیا کہ انٹرنیشنل لاء کے تحت فلسطین ہی ان کا اصل وطن ہے جہاں انھیں لوٹ کر جانا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی عرب آباد تھے جب کہ پورے شام میں پانچ لاکھ چالیس ہزار فلسطینی مہاجرآباد ہوا کرتے تھے ۔ اس ''تھے '' کے بارے میں وضاحت اسی کالم میں آگے بیان کی جائے گی۔
شام و فلسطین کے درد کو پاکستانی ہی محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ اس کا پس منظر ہم پرعلامہ اقبال آشکارفرما چکے۔ شام و فلسطین کے حالات پر ان کا دل جلتا تھا۔لیکن جب ہمارے عظیم مفکر کا دل جل رہا تھا تب شام و فلسطین ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر تہذیب کے پھندے میں گرفتار ہورہے تھے۔آج یک نہ شد دو شد کی سی صورت حال ہے۔ شام و فلسطین بیک وقت تہذیب کے پھندے اور ترکان جفا پیشہ کے پنجے میں پھنسے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔اقبال کے شاہین ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہو کہ عرب بادشاہی خاندانوں کے بارے میں انھوں نے برملا کہا کہ'' بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی (ص)'' اور یہ بھی کہا ''لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل،خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز''
اس پس منظر میں یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ شام و فلسطین پر کیا گذر رہی ہے۔ یرموک مہاجر کیمپ میں کہیں بھی خیمے یا ٹینٹ نہیں لگے ہوئے بلکہ یہ شام کے دیگر رہائشی علاقوں کی مانند ہے۔یہاں انٹرنیٹ کیفے سمیت جدید سہولیات بھی میسرتھیں لیکن اب یہ علاقہ بھی شام کے دیگر علاقوں جیسا منظر پیش کررہا ہے۔مارچ 2011 میں دنیا بھر سے دہشت گردوں کو شام پہنچایا گیا اور تب سے آج تک انھوں نے جو کچھ کارنامے انجام دیے اس کے نتیجے میں شام کی چالیس فیصد آبادی1948 کے فلسطینیوں کی طرح اپنے وطن کے ہوتے ہوئے دربدر خاک بسر زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔
جدید انسانی تاریخ کا بدترین انسانی المیہ رونما ہوا ہے جس میں پچانوے لاکھ شامی عرب مہاجر بن کر ترکی، اردن اور لبنان میں ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ یرموک کے فلسطینی مہاجرین کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو دیگر شامیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ شام، عرب دنیا کا واحد ملک اور بشار الاسد وہ واحد عرب حکمراں ہیں جو فلسطین کی مکمل آزادی کی حمایت کرتے ہیں اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والی تنظیموں کی عملی مدد کرتے ہیں۔ بس یہی وہ واحد جرم ہے جس کی سزا دینے کے لیے یہاں دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کی حامی حکومت مسلط کرنے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔
اس منظم سازش کے تحت دیگر علاقوں کی طرح یرموک کیمپ پر دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا ۔سب کو معلوم ہے کہ امریکا، برطانیہ، دیگر یورپی ممالک اور ان کے اتحادی عرب ممالک ان دہشت گردوں کی مالی و سفارتی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اسلحہ بھی فراہم کررہے ہیں۔ان ظالم دہشت گردوں کے قبضے کے بعد وہاں فلسطینی مہاجر خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے اورساتھ ہی بھوک و افلاس اور بیماریوں نے بھی انھیں گھیر لیا۔ نہ تو انھیں مناسب مقدار میں غذا فراہم کی گئی اور نہ ہی طبی سہولیات۔بعض بچوں سمیت دیگر افراد نے بے بسی کے عالم میں دم توڑا۔
اس افسوسناک صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فلسطین کے وزیر محنت نے شام کا دورہ کیا ۔ 14 جنوری 2014 کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی وزیر محنت احمد مجدالانی نے کہا کہ القاعدہ ، جبہۃ النصرہ ، اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا، اور اس قسم کے دیگر دہشت گرد گروہ بشمول اسلامک فرنٹ شام میں ایک سازش پر عمل پیرا ہیں اور صرف ایمن الظواہری کو جواب دہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی جو فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کا عالمی ادارہ ہے ، اسے بھی یرموک کیمپ میں امداد پہنچانے نہیں دیا گیا اور اس کے امدادی قافلے پر فائرنگ کی گئی۔
احمد ال مجدالانی نے حماس کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ شام میں کی جانے والی دہشت گردی کی باقاعدہ مذمت کرے اور شام میں مصروف عمل سارے مسلح گروہوں سے تعلقات ختم کرے۔انھوں نے متنبہ کیا کہ حماس کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے شام میںفلسطینیوں اور فلسطینی کاز کو اور شام کی غیرت مندعرب قوم جس نے شروع سے اب تک فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کی ہے، کو کوئی نقصان پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین لاکھ فلسطینی مہاجرین شام سے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوئے۔بعد ازاں 16جنوری 2014 کو رملہ فلسطین میں پریس کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ یرموک کیمپ کو یرغمال بنانے والے گروہوں میں اکناف بیت المقدس اور ال عھدہ ال عمریہ نامی گروہ حماس کی پیروی کا دعویٰ کرتے رہے ہیںلہٰذا حماس قیادت ان سے لاتعلقی کاا علان کرے ۔
فلسطینی پاپولر کمیٹی کے مطابق 13جنوری 2014 کو اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے یرموک کیمپ میں محصور فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کی کوشش کی تھی مگر ان پر حملہ کرکے بھگا دیا گیا۔ فلسطینی وزیر محنت کی رائے میں یرموک کیمپ میں موجود دہشت گرد جنگی جرائم کے مجرم ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور دیگر اداروں نے بھی کہا کہ شام میں دہشت گردوں نے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا ہے۔فروری کے آخری عشرے میں صورتحال یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مقاومت اور شامی حکومت کے تعاون سے یہاں امدادی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں۔تنگ آمدبجنگ آمد کے مصداق فلسطینیوں نے یرموک کا کنٹرول دہشت گردوں سے چھیننے کے لیے مزاحمت شروع کردی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے فلسطینیوں کے ہی نہیں بلکہ عرب دنیا کے بارے میں علامہ اقبال ؒ نے واضح الفاظ میں فتنے کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا تھا : ''فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی، جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے '' آج اس فتنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے صرف فلسطینی تھے اور اب دہشت گردی کے نرغے میں پھنسے شامی عوام اور مظلوم فلسطینیوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔ یہ جس سازش کے شکار ہوئے اس کا ادراک فلسطین اور عرب کاز کے خیر خواہوں کو پہلے سے تھا اور وہ اس فتنے سے خبردار کرچکے تھے۔ آج یہ سلاطین اور عالمی سیاست کا فرنگ یکجا ہوچکے ہیں۔فلسطین کا نام 1948 سے اسرائیل ہوگیا اور نسل پرستی کی بنیاد پرغیر فلسطینی صہیونی یہودیوں نے ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن فلسطین میں رہنے کے حق سے محروم کررکھا ہے جو شام سمیت دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ لیکن فلسطین کی آزادی کی کسی کو بھی فکرنہیں ۔ شام میں فرنگ و سلاطین کے ایجنٹوں کو حکومت میں لانے کے لیے جنیوا میں کانفرنس منعقد ہوئی ۔ایسے لوگوں کے لیے عظیم مفکر اقبال ؒ کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
عربی میں اسے مخیم الیرموک کہا جاتا ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق سے نزدیک یہ مہاجر کیمپ 1957ء میں آباد ہوا۔کہنے کو یہ مہاجرین کا کیمپ ہے لیکن درحقیقت یہاں فلسطینی بالکل اس طرح رہتے ہیں جیسے شام کے دیگر شہری اپنے گھروںمیں۔اسے مہاجر کیمپ کا نام صرف اس لیے دیا گیا کہ انٹرنیشنل لاء کے تحت فلسطین ہی ان کا اصل وطن ہے جہاں انھیں لوٹ کر جانا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی عرب آباد تھے جب کہ پورے شام میں پانچ لاکھ چالیس ہزار فلسطینی مہاجرآباد ہوا کرتے تھے ۔ اس ''تھے '' کے بارے میں وضاحت اسی کالم میں آگے بیان کی جائے گی۔
شام و فلسطین کے درد کو پاکستانی ہی محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ اس کا پس منظر ہم پرعلامہ اقبال آشکارفرما چکے۔ شام و فلسطین کے حالات پر ان کا دل جلتا تھا۔لیکن جب ہمارے عظیم مفکر کا دل جل رہا تھا تب شام و فلسطین ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر تہذیب کے پھندے میں گرفتار ہورہے تھے۔آج یک نہ شد دو شد کی سی صورت حال ہے۔ شام و فلسطین بیک وقت تہذیب کے پھندے اور ترکان جفا پیشہ کے پنجے میں پھنسے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔اقبال کے شاہین ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہو کہ عرب بادشاہی خاندانوں کے بارے میں انھوں نے برملا کہا کہ'' بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی (ص)'' اور یہ بھی کہا ''لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل،خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز''
اس پس منظر میں یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ شام و فلسطین پر کیا گذر رہی ہے۔ یرموک مہاجر کیمپ میں کہیں بھی خیمے یا ٹینٹ نہیں لگے ہوئے بلکہ یہ شام کے دیگر رہائشی علاقوں کی مانند ہے۔یہاں انٹرنیٹ کیفے سمیت جدید سہولیات بھی میسرتھیں لیکن اب یہ علاقہ بھی شام کے دیگر علاقوں جیسا منظر پیش کررہا ہے۔مارچ 2011 میں دنیا بھر سے دہشت گردوں کو شام پہنچایا گیا اور تب سے آج تک انھوں نے جو کچھ کارنامے انجام دیے اس کے نتیجے میں شام کی چالیس فیصد آبادی1948 کے فلسطینیوں کی طرح اپنے وطن کے ہوتے ہوئے دربدر خاک بسر زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔
جدید انسانی تاریخ کا بدترین انسانی المیہ رونما ہوا ہے جس میں پچانوے لاکھ شامی عرب مہاجر بن کر ترکی، اردن اور لبنان میں ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ یرموک کے فلسطینی مہاجرین کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو دیگر شامیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ شام، عرب دنیا کا واحد ملک اور بشار الاسد وہ واحد عرب حکمراں ہیں جو فلسطین کی مکمل آزادی کی حمایت کرتے ہیں اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والی تنظیموں کی عملی مدد کرتے ہیں۔ بس یہی وہ واحد جرم ہے جس کی سزا دینے کے لیے یہاں دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کی حامی حکومت مسلط کرنے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔
اس منظم سازش کے تحت دیگر علاقوں کی طرح یرموک کیمپ پر دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا ۔سب کو معلوم ہے کہ امریکا، برطانیہ، دیگر یورپی ممالک اور ان کے اتحادی عرب ممالک ان دہشت گردوں کی مالی و سفارتی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں اسلحہ بھی فراہم کررہے ہیں۔ان ظالم دہشت گردوں کے قبضے کے بعد وہاں فلسطینی مہاجر خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے اورساتھ ہی بھوک و افلاس اور بیماریوں نے بھی انھیں گھیر لیا۔ نہ تو انھیں مناسب مقدار میں غذا فراہم کی گئی اور نہ ہی طبی سہولیات۔بعض بچوں سمیت دیگر افراد نے بے بسی کے عالم میں دم توڑا۔
اس افسوسناک صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فلسطین کے وزیر محنت نے شام کا دورہ کیا ۔ 14 جنوری 2014 کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی وزیر محنت احمد مجدالانی نے کہا کہ القاعدہ ، جبہۃ النصرہ ، اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا، اور اس قسم کے دیگر دہشت گرد گروہ بشمول اسلامک فرنٹ شام میں ایک سازش پر عمل پیرا ہیں اور صرف ایمن الظواہری کو جواب دہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی جو فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کا عالمی ادارہ ہے ، اسے بھی یرموک کیمپ میں امداد پہنچانے نہیں دیا گیا اور اس کے امدادی قافلے پر فائرنگ کی گئی۔
احمد ال مجدالانی نے حماس کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ شام میں کی جانے والی دہشت گردی کی باقاعدہ مذمت کرے اور شام میں مصروف عمل سارے مسلح گروہوں سے تعلقات ختم کرے۔انھوں نے متنبہ کیا کہ حماس کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے شام میںفلسطینیوں اور فلسطینی کاز کو اور شام کی غیرت مندعرب قوم جس نے شروع سے اب تک فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کی ہے، کو کوئی نقصان پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین لاکھ فلسطینی مہاجرین شام سے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوئے۔بعد ازاں 16جنوری 2014 کو رملہ فلسطین میں پریس کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ یرموک کیمپ کو یرغمال بنانے والے گروہوں میں اکناف بیت المقدس اور ال عھدہ ال عمریہ نامی گروہ حماس کی پیروی کا دعویٰ کرتے رہے ہیںلہٰذا حماس قیادت ان سے لاتعلقی کاا علان کرے ۔
فلسطینی پاپولر کمیٹی کے مطابق 13جنوری 2014 کو اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے یرموک کیمپ میں محصور فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کی کوشش کی تھی مگر ان پر حملہ کرکے بھگا دیا گیا۔ فلسطینی وزیر محنت کی رائے میں یرموک کیمپ میں موجود دہشت گرد جنگی جرائم کے مجرم ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور دیگر اداروں نے بھی کہا کہ شام میں دہشت گردوں نے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا ہے۔فروری کے آخری عشرے میں صورتحال یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مقاومت اور شامی حکومت کے تعاون سے یہاں امدادی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں۔تنگ آمدبجنگ آمد کے مصداق فلسطینیوں نے یرموک کا کنٹرول دہشت گردوں سے چھیننے کے لیے مزاحمت شروع کردی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے فلسطینیوں کے ہی نہیں بلکہ عرب دنیا کے بارے میں علامہ اقبال ؒ نے واضح الفاظ میں فتنے کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا تھا : ''فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی، جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے '' آج اس فتنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے صرف فلسطینی تھے اور اب دہشت گردی کے نرغے میں پھنسے شامی عوام اور مظلوم فلسطینیوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔ یہ جس سازش کے شکار ہوئے اس کا ادراک فلسطین اور عرب کاز کے خیر خواہوں کو پہلے سے تھا اور وہ اس فتنے سے خبردار کرچکے تھے۔ آج یہ سلاطین اور عالمی سیاست کا فرنگ یکجا ہوچکے ہیں۔فلسطین کا نام 1948 سے اسرائیل ہوگیا اور نسل پرستی کی بنیاد پرغیر فلسطینی صہیونی یہودیوں نے ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن فلسطین میں رہنے کے حق سے محروم کررکھا ہے جو شام سمیت دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ لیکن فلسطین کی آزادی کی کسی کو بھی فکرنہیں ۔ شام میں فرنگ و سلاطین کے ایجنٹوں کو حکومت میں لانے کے لیے جنیوا میں کانفرنس منعقد ہوئی ۔ایسے لوگوں کے لیے عظیم مفکر اقبال ؒ کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے