زندگی کو پُکارتی چیخیں بھڑکتے اَلاؤ میں ڈوب گئیں
پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھروں سے نکلنے والوں کو آگ کی بھوک چاٹ گئی
وہاں موت رقصاں تھی۔ زندگی کا چہرہ جھلس گیا تھا۔ اور آگ کا اژدہا پھنکار رہا تھا!!
11ستمبر کی شام، جب شہرقائد پر کرنیں بکھیرنے والا سورج مغرب کی اُور سفر کررہا تھا، ایک الم ناک سانحہ جنم لے چکا تھا۔ ایسا سانحہ، جس کی تپش ناقابل برداشت، ناقابل بیاں تھی۔
وہ شہر کے ایک گنجان آباد علاقے میں واقع کارخانہ تھا، جہاں زندگی نگل لینے والی آگ، اپنی ہی قوت سے سانس لے رہی تھی۔ ہیبت ناک، مسلسل بھڑکتی ہوئی آگ، جس کی لپٹوں نے فیکٹری کے غریب ملازمین کو اندیشوں کی بے انت کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ اور اُن حالات میں وہی ہوا، جس کی توقع تھی۔ کارخانے کے درودیوار میں وحشت کے جرثومے نے جنم لیا۔ اور حواس باختہ محنت کشوں میں، جو چند پَلوں قبل اپنے گھروں، اپنے پیاروں بابت سوچ رہے تھے، اضطراب پھیل گیا۔
آگ لگتے ہی کارخانے میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔ جان بچانے کے لیے ملازمین، جن میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تھے، مرکزی دروازے کی جانب دوڑ پڑے، مگر تنگ راہ داری، بھڑکتی آگ ناقابل عبور رکاوٹیں ثابت ہوئیں، اور موت کی فتح یقینی نظر آنے لگی۔ چند ہی خوش نصیب آگ اور دھوئیں کی دیوار میں، جان پر کھیل کر، نقیب لگانے میں کام یاب رہے، بیش تر کو آتشی عفریت نے نگل لیا۔ اور یوں 11 ستمبر کی شام ایسی سوختگی نے جنم لیا، جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا!
آتش زدگی کا یہ بدترین سانحہ کراچی کے علاقے حَب ریور روڈ، بلدیہ ٹاؤن نمبر 2 میں واقع ایک تین منزلہ گارمنٹس فیکٹری میں پیش آیا۔ تادم تحریر، اِس سانحے میں 289 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ تعداد میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔
ابتداً ٹی وی چینلز سے یہ خبر نشر ہوئی کہ فیکٹری میں لگنے والی یہ خوف ناک آگ پُراسرار طور پر بھڑک اٹھی تھی۔ پُراسرار طور پر؟ حقیقت تو یہ ہے کہ المیوں کو بھڑکانے والی یہ آگ، آتش زدگی کے پے درپے واقعات کے بعد، اپنی پُراسراریت کُھو چکی ہے۔ یہ بات سورج کی طرح عیاں ہے کہ کارخانوں میں لگنے والی معمولی آگ سے ہونے والی ہلاکتوں کا اکلوتا سبب ناقص حفاظتی اقدامات ہی ہیں۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حدود اربعہ میں موجود بیش تر کارخانوں اور رہایشی عمارتوں میں لاتعداد تعمیراتی سُقم پائے جاتے ہیں۔ خارجی راستے یا تو سرے سے ہوتے ہی نہیں، اور اگر ہوتے بھی ہیں، تو اتنے بے ڈھب کہ ہنگامی حالات میں اپنی حیثیت یک سر کھو دیتے ہیں۔ منگل کی شام کراچی کی اُس بدنصیب فیکٹری کی حدود میں کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ شعلوں کے حصار نے خارجی راستہ ناقابل عبور بنا دیا ہوگا، جس کے طفیل موت کو اپنے شکار پر جھپٹنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی ہوگی، یقیناً!!
آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کا عملہ حرکت میں آگیا۔ پاک بحریہ کی فائر بریگیڈ سمیت متعدد فائر فائٹرز جائے حادثہ کی جانب دوڑ پڑے، جہاں ایک ناممکن صورت حال اُن کی منتظر تھی۔ شعلے اُن کے اندیشوں سے زیادہ بُلند تھے۔ آگ بُجھانے کی ابتدائی کوششیں ثمرآور ثابت نہیں ہوئیں۔ اِسی اثنا میں پولیس اور رینجرز کی گاڑیوں اور فلاحی تنظیموں کی سیکٹروں ایمبولینسیں موقع پر پہنچ گئیں، جس کے باعث حب ریور روڈ پر ٹریفک کا دبائو بڑھنے لگا۔ سیاسی و امدادی کارکنان بھی اگلے چند گھنٹوں میں جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ میڈیا کے نمایندوں کے علاوہ علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد بھی متاثرہ عمارت کے گرد جمع ہو گئی۔
ایک جانب بڑھتا رش تھا، جس کی وجہ سے فائر فائٹرز اور رضا کاروں کو امدادی کاموں میں شدید دشواری پیش آرہی تھی، اور دوسری جانب تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا کی قوت سے بھڑکتے شعلے، جن پر قابو پانا تقریباً ناممکن معلوم ہوتا تھا۔
عینی شاہدین اور زخمیوں کے مطابق آگ نے پَلوں میں تین منزلہ عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب باہر نکلنا ممکن نہیں رہا، تو ملازمین نے اوپری منزل کی جانب دوڑ لگا دی، اِس افراتفری کے دوران زینے پر، کھڑکیوں اور کئی افراد پھنس گئے۔ حالات بگڑتے دیکھ کر ملازمین نے، مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر، ایک سا طرز عمل اختیار کیا۔ اُنھوں نے تیسری منزل سے چھلانگ لگا دی۔ اِس کوشش میں چند ہی کام یاب رہے کہ اندازوں کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد اُن بدنصیبوں کی تھی، جو بالائی منزل سے چھلانگ لگاتے سمے سیدھے آگ میں جا گرے، جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوگئے، بے شناخت ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق اِس بدنصیب فیکٹری میں لگ بھگ دو ہزار ملازمین شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ کئی ایسے تھے، جو آپس میں رشتے دار تھے۔ جس وقت فیکٹری میں آگ لگی، اندازاً پانچ سو مرد اور عورتیں وہاں موجود تھے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق وہ تن خواہوں کی ادائیگی کا دن تھا، جس کی وجہ سے اکثریت اُس روز حاضر تھی۔ جس سمے آگ بھڑکی، فیکٹری کا مالک بھی وہیں موجود تھا، البتہ وہ اپنی جان بچانے میں کام یاب رہا۔
ایک رائے یہ ہے کہ فائر بریگیڈ کا عملہ خاصی تاخیر سے جائے حادثہ پر پہنچا۔ علاقہ مکینوں کے بیانات سے اِس رائے کو تقویت ملتی ہے، جن کے مطابق آگ پر قابو پانے میں ابتدائی ناکامی، اور سست روی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں ہول ناک اضافہ ہوا۔ دوسری جانب سرکاری عہدے داروں کا موقف ہے کہ فائر ٹینڈرز کو پانی لینے جانے کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا پڑ رہا تھا، جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں مشکلات پیش آئیں۔ دونوں ہی آرا نئی نہیں، اور دونوں ہی دُرست ہوسکتی ہیں۔
فائر بریگیڈ کے عملے کی کارکردگی پر ماضی میں بھی تواتر سے سوال اٹھایا جاتا رہا ہے، اور فائر فائٹرز کی جانب سے ہمیشہ راستوں کی تنگی، محدود وسائل اور زمینی مسائل کی کا جواز پیش کیا جاتا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بنیادی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے تعمیر ہونے والی عمارتوں، اور اُن کے مالکان کی عدم توجہی کے باعث حادثات کے رونما ہونے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
خیر، امدادی کاموں کے دوران جُوں جُوں وقت گزرتا رہا، ہلاکتوں کی تعداد میں کرب ناک اضافہ ہوتا گیا۔ ساتھ ہی شک و شبہات قوی ہوتے گئے۔ یہ ہیبت ناک خیال سامنے آیا کہ فیکٹری میں اب بھی کئی لاشیں موجود ہیں، کئی بدنصیب تاحال پھنسے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی عمارت کے منہدم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا، جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ قوی ہوتا گیا۔
سرکاری بیانات کے مطابق فیکٹری میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے آگ بُجھانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ یہ متوقع تھا، کہ ہمارے ہاں تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا کے حوالے سے ہمیشہ بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔
رات گئے تک فائربریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو پانے میں جُٹا رہا، ٹی وی چینلز ہلاکتوں میں اضافے کی خبریں نشر کرتے رہے، یہاں تک کہ اگلے دن کا سورج طلوع ہوگیا۔ اور تب اندازہ ہوا، یہ سانحہ، اندازوں سے، اندیشوں سے زیادہ ہیبت ناک ہے!
منگل اور بدھ کے درمیان، رات گئے خبر آئی تھی کہ ہلاکتوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ لاشیں تاحال اندر موجود ہیں، تاہم اگلے روز یہ طے ہوگیا کہ ہلاکتیں خدشات سے بہت زیادہ ہیں۔ دُکھ کی قامت اندازوں سے بُلند ہے۔ کئی گھر اجڑ چکے ہیں، کئی خاندان بکھر گئے ہیں۔ سب سے ہیبت ناک انکشاف یہ تھا کہ فیکٹری میں ایک تہہ خانہ بھی موجود ہے، جہاں تاحال کئی بدنصیب پھنسے ہوئے ہیں، جس میں داخل ہونا امدادی کارکنان کے لیے بے حد کٹھن ہے۔ قوی امکان ہے کہ وہ تہہ خانہ جہنم کدے میں تبدیل ہوگیا ہوگا۔ وہاں پھنسے افراد، بے روح ہوچکے ہوں گے!
اسپتال پہنچائی جانے والے لاشوں کی شناخت کا عمل بھی مرنے والوں کے اہل خانہ کے لیے اذیت ناک ثابت ہوا۔ اسپتالوں میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ وہاں گریہ تھا، غم تھا۔ لواحقین روتے ہوئے برنس وارڈ، ایمرجینسی میں اپنے پیاروں کا پکا رہے تھے، کہ کئی افراد تاحال لاپتا تھے۔
یاد رہے کہ کراچی میں رونما ہونے والے اِس سانحے سے چند ہی گھنٹوں قبل لاہور کے نواحی علاقے میں جوتے بنانے کی ایک فیکٹری میں آتش زدگی کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں پچیس افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ لاہور میں فیکٹری میں پھنسے افراد اور لاشوں کو دیواریں توڑ کر نکالا گیا۔ البتہ کراچی میں حالات مختلف تھے، دیواریں توڑنے کا امکان نہیں تھا، بلکہ بگڑتے حالات کی وجہ سے ہمت ٹوٹ رہی تھی۔
اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع ملتے ہی حکومتی مشینری حرکت میں آگئی۔ گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد نے متعلقہ حکام کو، تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آگ پر قابو پانے کی ہدایت جاری کردی۔ کمشنر کراچی نے سانحے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ، رحمان ملک نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی، اور دونوں فیکٹری مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ لواحقین کی امداد کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
اعلیٰ حکام کے یہ اقدامات ازحد ضروری ہیں، اور اُنھیں عملی شکل دینے کے لیے سنجیدگی کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ ماضی میں بھی اِس نوع کے افسوس ناک واقعات کے بعد، اِس سے ملتے جلتے بیانات سامنے آتے رہے ہیں، تاہم راکھ بیٹھنے کی بعد یہ قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں۔
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، امدادی کارروائی جاری ہے، تاہم یہ سطور لکھے جانے تک تہہ خانہ رسائی سے باہر تھا، جہاں یقیناً سوختگی راج کر رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق فیکٹری میں ہنگامی حالات میں نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، اِسی وجہ سے تمام لوگ اندر پھنسے رہ گئے۔
بعض خبروں کے مطابق فیکٹری میں آگ بوائلر پھٹنے سے لگی، جب کہ ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ سوال یہ ہے کہ کیسے ایک معمولی شارٹ سرکٹ، مختصر سی چنگاری، جسے جَل کر بُجھ جانا چاہیے، سیکڑوں انسانوں کو نگل لیتی ہے۔ کیسے ایک شعلہ چولھے بُجھا دیتا ہے، کئی گھر برباد کر دیتا ہے۔ اور اِس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آخر سوختگی کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کب تک محنت کش جُھلستے رہے ہیں؟ کب تک ان کے لواحقین زندگی کی چادر میں دُکھ کا پیوند لگاتے رہیں گے؟
11ستمبر کی شام، جب شہرقائد پر کرنیں بکھیرنے والا سورج مغرب کی اُور سفر کررہا تھا، ایک الم ناک سانحہ جنم لے چکا تھا۔ ایسا سانحہ، جس کی تپش ناقابل برداشت، ناقابل بیاں تھی۔
وہ شہر کے ایک گنجان آباد علاقے میں واقع کارخانہ تھا، جہاں زندگی نگل لینے والی آگ، اپنی ہی قوت سے سانس لے رہی تھی۔ ہیبت ناک، مسلسل بھڑکتی ہوئی آگ، جس کی لپٹوں نے فیکٹری کے غریب ملازمین کو اندیشوں کی بے انت کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ اور اُن حالات میں وہی ہوا، جس کی توقع تھی۔ کارخانے کے درودیوار میں وحشت کے جرثومے نے جنم لیا۔ اور حواس باختہ محنت کشوں میں، جو چند پَلوں قبل اپنے گھروں، اپنے پیاروں بابت سوچ رہے تھے، اضطراب پھیل گیا۔
آگ لگتے ہی کارخانے میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔ جان بچانے کے لیے ملازمین، جن میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تھے، مرکزی دروازے کی جانب دوڑ پڑے، مگر تنگ راہ داری، بھڑکتی آگ ناقابل عبور رکاوٹیں ثابت ہوئیں، اور موت کی فتح یقینی نظر آنے لگی۔ چند ہی خوش نصیب آگ اور دھوئیں کی دیوار میں، جان پر کھیل کر، نقیب لگانے میں کام یاب رہے، بیش تر کو آتشی عفریت نے نگل لیا۔ اور یوں 11 ستمبر کی شام ایسی سوختگی نے جنم لیا، جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا!
آتش زدگی کا یہ بدترین سانحہ کراچی کے علاقے حَب ریور روڈ، بلدیہ ٹاؤن نمبر 2 میں واقع ایک تین منزلہ گارمنٹس فیکٹری میں پیش آیا۔ تادم تحریر، اِس سانحے میں 289 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ تعداد میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔
ابتداً ٹی وی چینلز سے یہ خبر نشر ہوئی کہ فیکٹری میں لگنے والی یہ خوف ناک آگ پُراسرار طور پر بھڑک اٹھی تھی۔ پُراسرار طور پر؟ حقیقت تو یہ ہے کہ المیوں کو بھڑکانے والی یہ آگ، آتش زدگی کے پے درپے واقعات کے بعد، اپنی پُراسراریت کُھو چکی ہے۔ یہ بات سورج کی طرح عیاں ہے کہ کارخانوں میں لگنے والی معمولی آگ سے ہونے والی ہلاکتوں کا اکلوتا سبب ناقص حفاظتی اقدامات ہی ہیں۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حدود اربعہ میں موجود بیش تر کارخانوں اور رہایشی عمارتوں میں لاتعداد تعمیراتی سُقم پائے جاتے ہیں۔ خارجی راستے یا تو سرے سے ہوتے ہی نہیں، اور اگر ہوتے بھی ہیں، تو اتنے بے ڈھب کہ ہنگامی حالات میں اپنی حیثیت یک سر کھو دیتے ہیں۔ منگل کی شام کراچی کی اُس بدنصیب فیکٹری کی حدود میں کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ شعلوں کے حصار نے خارجی راستہ ناقابل عبور بنا دیا ہوگا، جس کے طفیل موت کو اپنے شکار پر جھپٹنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی ہوگی، یقیناً!!
آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کا عملہ حرکت میں آگیا۔ پاک بحریہ کی فائر بریگیڈ سمیت متعدد فائر فائٹرز جائے حادثہ کی جانب دوڑ پڑے، جہاں ایک ناممکن صورت حال اُن کی منتظر تھی۔ شعلے اُن کے اندیشوں سے زیادہ بُلند تھے۔ آگ بُجھانے کی ابتدائی کوششیں ثمرآور ثابت نہیں ہوئیں۔ اِسی اثنا میں پولیس اور رینجرز کی گاڑیوں اور فلاحی تنظیموں کی سیکٹروں ایمبولینسیں موقع پر پہنچ گئیں، جس کے باعث حب ریور روڈ پر ٹریفک کا دبائو بڑھنے لگا۔ سیاسی و امدادی کارکنان بھی اگلے چند گھنٹوں میں جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ میڈیا کے نمایندوں کے علاوہ علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد بھی متاثرہ عمارت کے گرد جمع ہو گئی۔
ایک جانب بڑھتا رش تھا، جس کی وجہ سے فائر فائٹرز اور رضا کاروں کو امدادی کاموں میں شدید دشواری پیش آرہی تھی، اور دوسری جانب تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا کی قوت سے بھڑکتے شعلے، جن پر قابو پانا تقریباً ناممکن معلوم ہوتا تھا۔
عینی شاہدین اور زخمیوں کے مطابق آگ نے پَلوں میں تین منزلہ عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب باہر نکلنا ممکن نہیں رہا، تو ملازمین نے اوپری منزل کی جانب دوڑ لگا دی، اِس افراتفری کے دوران زینے پر، کھڑکیوں اور کئی افراد پھنس گئے۔ حالات بگڑتے دیکھ کر ملازمین نے، مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر، ایک سا طرز عمل اختیار کیا۔ اُنھوں نے تیسری منزل سے چھلانگ لگا دی۔ اِس کوشش میں چند ہی کام یاب رہے کہ اندازوں کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد اُن بدنصیبوں کی تھی، جو بالائی منزل سے چھلانگ لگاتے سمے سیدھے آگ میں جا گرے، جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوگئے، بے شناخت ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق اِس بدنصیب فیکٹری میں لگ بھگ دو ہزار ملازمین شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ کئی ایسے تھے، جو آپس میں رشتے دار تھے۔ جس وقت فیکٹری میں آگ لگی، اندازاً پانچ سو مرد اور عورتیں وہاں موجود تھے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق وہ تن خواہوں کی ادائیگی کا دن تھا، جس کی وجہ سے اکثریت اُس روز حاضر تھی۔ جس سمے آگ بھڑکی، فیکٹری کا مالک بھی وہیں موجود تھا، البتہ وہ اپنی جان بچانے میں کام یاب رہا۔
ایک رائے یہ ہے کہ فائر بریگیڈ کا عملہ خاصی تاخیر سے جائے حادثہ پر پہنچا۔ علاقہ مکینوں کے بیانات سے اِس رائے کو تقویت ملتی ہے، جن کے مطابق آگ پر قابو پانے میں ابتدائی ناکامی، اور سست روی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں ہول ناک اضافہ ہوا۔ دوسری جانب سرکاری عہدے داروں کا موقف ہے کہ فائر ٹینڈرز کو پانی لینے جانے کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا پڑ رہا تھا، جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں مشکلات پیش آئیں۔ دونوں ہی آرا نئی نہیں، اور دونوں ہی دُرست ہوسکتی ہیں۔
فائر بریگیڈ کے عملے کی کارکردگی پر ماضی میں بھی تواتر سے سوال اٹھایا جاتا رہا ہے، اور فائر فائٹرز کی جانب سے ہمیشہ راستوں کی تنگی، محدود وسائل اور زمینی مسائل کی کا جواز پیش کیا جاتا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بنیادی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے تعمیر ہونے والی عمارتوں، اور اُن کے مالکان کی عدم توجہی کے باعث حادثات کے رونما ہونے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
خیر، امدادی کاموں کے دوران جُوں جُوں وقت گزرتا رہا، ہلاکتوں کی تعداد میں کرب ناک اضافہ ہوتا گیا۔ ساتھ ہی شک و شبہات قوی ہوتے گئے۔ یہ ہیبت ناک خیال سامنے آیا کہ فیکٹری میں اب بھی کئی لاشیں موجود ہیں، کئی بدنصیب تاحال پھنسے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی عمارت کے منہدم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا، جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ قوی ہوتا گیا۔
سرکاری بیانات کے مطابق فیکٹری میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے آگ بُجھانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ یہ متوقع تھا، کہ ہمارے ہاں تیزی سے آگ پکڑنے والی اشیا کے حوالے سے ہمیشہ بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔
رات گئے تک فائربریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو پانے میں جُٹا رہا، ٹی وی چینلز ہلاکتوں میں اضافے کی خبریں نشر کرتے رہے، یہاں تک کہ اگلے دن کا سورج طلوع ہوگیا۔ اور تب اندازہ ہوا، یہ سانحہ، اندازوں سے، اندیشوں سے زیادہ ہیبت ناک ہے!
منگل اور بدھ کے درمیان، رات گئے خبر آئی تھی کہ ہلاکتوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ لاشیں تاحال اندر موجود ہیں، تاہم اگلے روز یہ طے ہوگیا کہ ہلاکتیں خدشات سے بہت زیادہ ہیں۔ دُکھ کی قامت اندازوں سے بُلند ہے۔ کئی گھر اجڑ چکے ہیں، کئی خاندان بکھر گئے ہیں۔ سب سے ہیبت ناک انکشاف یہ تھا کہ فیکٹری میں ایک تہہ خانہ بھی موجود ہے، جہاں تاحال کئی بدنصیب پھنسے ہوئے ہیں، جس میں داخل ہونا امدادی کارکنان کے لیے بے حد کٹھن ہے۔ قوی امکان ہے کہ وہ تہہ خانہ جہنم کدے میں تبدیل ہوگیا ہوگا۔ وہاں پھنسے افراد، بے روح ہوچکے ہوں گے!
اسپتال پہنچائی جانے والے لاشوں کی شناخت کا عمل بھی مرنے والوں کے اہل خانہ کے لیے اذیت ناک ثابت ہوا۔ اسپتالوں میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ وہاں گریہ تھا، غم تھا۔ لواحقین روتے ہوئے برنس وارڈ، ایمرجینسی میں اپنے پیاروں کا پکا رہے تھے، کہ کئی افراد تاحال لاپتا تھے۔
یاد رہے کہ کراچی میں رونما ہونے والے اِس سانحے سے چند ہی گھنٹوں قبل لاہور کے نواحی علاقے میں جوتے بنانے کی ایک فیکٹری میں آتش زدگی کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں پچیس افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ لاہور میں فیکٹری میں پھنسے افراد اور لاشوں کو دیواریں توڑ کر نکالا گیا۔ البتہ کراچی میں حالات مختلف تھے، دیواریں توڑنے کا امکان نہیں تھا، بلکہ بگڑتے حالات کی وجہ سے ہمت ٹوٹ رہی تھی۔
اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع ملتے ہی حکومتی مشینری حرکت میں آگئی۔ گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد نے متعلقہ حکام کو، تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آگ پر قابو پانے کی ہدایت جاری کردی۔ کمشنر کراچی نے سانحے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ، رحمان ملک نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی، اور دونوں فیکٹری مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ لواحقین کی امداد کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
اعلیٰ حکام کے یہ اقدامات ازحد ضروری ہیں، اور اُنھیں عملی شکل دینے کے لیے سنجیدگی کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ ماضی میں بھی اِس نوع کے افسوس ناک واقعات کے بعد، اِس سے ملتے جلتے بیانات سامنے آتے رہے ہیں، تاہم راکھ بیٹھنے کی بعد یہ قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں۔
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، امدادی کارروائی جاری ہے، تاہم یہ سطور لکھے جانے تک تہہ خانہ رسائی سے باہر تھا، جہاں یقیناً سوختگی راج کر رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق فیکٹری میں ہنگامی حالات میں نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، اِسی وجہ سے تمام لوگ اندر پھنسے رہ گئے۔
بعض خبروں کے مطابق فیکٹری میں آگ بوائلر پھٹنے سے لگی، جب کہ ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔ سوال یہ ہے کہ کیسے ایک معمولی شارٹ سرکٹ، مختصر سی چنگاری، جسے جَل کر بُجھ جانا چاہیے، سیکڑوں انسانوں کو نگل لیتی ہے۔ کیسے ایک شعلہ چولھے بُجھا دیتا ہے، کئی گھر برباد کر دیتا ہے۔ اور اِس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آخر سوختگی کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کب تک محنت کش جُھلستے رہے ہیں؟ کب تک ان کے لواحقین زندگی کی چادر میں دُکھ کا پیوند لگاتے رہیں گے؟