اﷲ والے
کسی مسلمان ہمدرد نے انھیں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار شریف پر حاضری دینے کا مشورہ دیا تھا
PARIS:
غیاث پور میں ایک بوڑھی عورت حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی ہمسایہ تھی اور آپ کی عقیدت مند تھی۔ اس کا یہ کام رسی بننا اور پھر اسے فروخت کرکے جو چار پیسے ملتے، ان سے جو کا آٹا اور ترکاری خریدتی اور چند روٹیاں پکا کر حضرت محبوب الٰہیؒ کی خدمت میں پیش کر دیتی۔
پہلی بار تو حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے یہ کہہ کر وہ روٹیاں قبول کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے تو خود تمہارا پیٹ نہیں بھر سکتا، پھر ہم اپنے رزق کا بوجھ تم پرکیوں ڈالیں؟ ہم اﷲ کی عبادت کر رہے ہیں، وہ ہی ہمارا اور ساری مخلوق کا رازق اور کفیل ہے ، یہ سن کر بوڑھی عورت التجا کرنے لگی کہ مجھے اپنی خدمت سے محروم نہ فرمائیے ۔ بوڑھیا کی حالت دیکھ کر حضرت انکار نہ کرسکے اور جو کی پکی ہوئی روٹیاں قبول فرمالیں۔
اب یہ اتفاق تھا یا قدرت کی مصلحت کہ وہ خاتون کئی دن سے رسیاں تیارکررہی تھی مگر کوئی خریدار نہیں ملتا تھا۔ حضرت محبوب الٰہیؒ اور دوسرے درویشوں کی طرح وہ خاتون خود بھی چار دن سے بھوکی تھی۔ وہ ہر وقت اس فکر میں رہتی تھی کہ رزاق دو عالم چند روٹیوں کا انتظام کردے اور یہ مرد ان روٹیوں سے روزہ کشائی کر لیں۔ بالآخر پانچ دن بعد کسی شخص نے بوڑھیا سے ایک رسی خرید لی، جو رقم ملی، اس سے ایک سیر جو کا آٹا خریدا جاسکتا تھا۔
خاتون نے یہی کیا اورحضرت محبوب الٰہیؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت نے مولانا کمال الدین یعقوبؒ کو حکم دیا کہ یہ نذر خلوص ہے اسے قبول کرو اور آٹے کو دیگ میں ڈال کر پکنے کے لیے رکھ دو۔ شیخ کمال الدین یعقوبؒ نے جو کے آٹے کو دیگ میں ڈال دیا اور پھر زیادہ مقدار میں پانی بھر دیا۔
حضرت محبوب الٰہیؒ کا مقصد یہ تھا کہ اگر آٹے کے علاوہ غیب سے کچھ اور حاصل ہو تو اسے بھی دیگ میں ڈال کر پکا لیا جائے۔ یوں غذا کی مقدار بڑھ جاتی ورنہ روٹیاں پکائی جاتیں تو ایک دو نوالوں سے زیادہ کسی درویش کے حصہ میں نہ آتی۔ اسی اثنا میں ایک گدڑی پوش فقیرکہیں سے نعرہ زنی کرتا کمال الدین یعقوبؒ کے پاس آیا ، صدا لگائی کہ اگر کچھ ہے تو کھانے کو دے دے۔
دیگ کو بند کیوں کر رکھا ہے؟ حضرت مولانا کمال الدین یعقوبؒ نے فقیرکو دیکھا۔ وہ مجذوب معلوم ہوتا تھا۔ مولانا حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا '' ہم تو محض منتظم ہیں، مخلوق خدا کو کھلانے ہی کے لیے بیٹھے ہیں۔
ان درویش سے بھی کہہ دو کہ ابھی کھانا پک رہا ہے جیسے ہی تیار ہوگا سب سے پہلے انھی کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ پیرومرشد کا حکم سن کر مولانا کمال الدین یعقوبؒ واپس آئے اور اجنبی درویش کے سامنے حضرت محبوب الٰہیؒ کے الفاظ دہرا دیے۔ فقیر بھوک سے بیقرار تھا ، کہنے لگا ''میرے پاس وقت نہیں ہے ، میں انتظار نہیں کرسکتا، اپنے شیخ سے کہہ دے کہ کھانا جس حالت میں موجود ہے دے دیں بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ خود ہی مجھے کھانا کھلائیں۔''
مولانا کمال الدین دوبارہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درویش کی خواہش من و عن بیان کردی۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرما یا۔ ''میزبان کے لیے مہمان کی تواضع فرض ہے ، مہمان جس طرح بھی خوش ہو اسے خوش کیا جائے '' یہ کہہ کر حضرت محبوب الٰہیؒ تشریف لے گئے جہاں وہ گدڑی پوش بیٹھا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو دیکھ کر وہ درویش کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا۔ ''شیخ اللہ تمہیں خوش رکھے ، آج بہت بھوک لگی ہے، اب تم اپنے ہاتھ سے اس فقیر کو کچھ کھلا دو۔''
حضرت نظام الدین اولیاءؒ دیگ اٹھا کر اس درویش کے پاس لے گئے۔ اس نے ابلتے ہوئے پانی میں بے جھجک اپنا ہاتھ ڈال دیا۔درویش بار بار دیگ میں ہاتھ ڈالتا اورجو کے رقیق آٹے کو منہ میں رکھ لیتا۔ پھر اس نے مٹی کی اس دیگ کو اٹھا کر زمین پر مار دیا جو گرتے ہی ٹوٹ گیا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ خاموش رہے مگر مولانا کمال الدین یعقوبؒ خاموش نہ رہ سکے۔'' مہمان! تم نے یہ کیا کیا؟ افسوس تم نے دوسروں کی بھوک کو نظر انداز کردیا، تم نہیں جانتے کہ یہ درویشان خدا کتنے دن کے فاقے سے ہیں۔''''میں اللہ کے حکم سے یہ بات جانتا تھا مگر کیا کرتا کہ میرے لیے اللہ کا یہی حکم ہے۔ '' درویش بڑی بے نیازی کے عالم میں بول رہا تھا '' مجھ سے یہی کہا گیا تھا کہ میں اس دیگ کو توڑ دوں۔'' گدڑی پوش حضرت محبوب الٰہیؒ کے قریب آیا اور کہنے لگا '' شیخ نظام الدین اولیاءؒ ! تمہیں بابا فرید گنج نے نعمت باطنی بخشی اور میں نے تمہاری فاقہ کشی کی دیگ کو توڑ دیا۔ اب تم سلطان ظاہری بھی ہو اور سلطان باطنی بھی۔'' یہ کہہ کر وہ درویش واپس چلا گیا ۔
مولانا کمال الدین یعقوبؒ حیرت سے اپنے پیر و مرشد کی طرف دیکھنے لگے۔ حضرت محبوب الٰہیؒ نے اپنے مرید کی حیرت دورکرنے کے لیے فرمایا '' مولانا ! اللہ کی قدرت بھی لامحدود ہے اور اس کا کرم بھی، انسان عاجز ہے کہ وہ توفیق الٰہی کے بغیر کچھ نہیں سمجھ سکتا ، ہم نہیں جانتے کہ کس بھیس میں کون ہے، آؤ اﷲ کا ذکر کریں کہ تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں۔'' اس گدڑی پوش درویش نے حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو سلطان ظاہری و باطنی کہہ کر پکارا تھا۔ اس لیے آپ کا ایک لقب ''سلطان المشائخ '' بھی ہے۔
حضرت سلطان الااولیاءؒ کے عقیدت مندوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ ان عقیدت مندوں میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس سنہا کا نام سب سے نمایاں ہے۔ قصہ یہ ہے کہ جب سنہا صاحب ایک عام آدمی تھے تو گردش حالات کی وجہ سے قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں پھنس گئے تھے۔
کسی مسلمان ہمدرد نے انھیں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار شریف پر حاضری دینے کا مشورہ دیا تھا، اﷲ تعالٰی کی قدرت اور مہربانی سے وہ نہ صرف اس جھوٹے مقدمہ میں بری ہوگئے اور صرف یہی نہیں بلکہ وکالت کے پیشہ سے منسلک ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ تک جا پہنچے۔
ایک واقعہ ہمارے ساتھ پیش آیا، ہمارا مدت دراز کے بعد دلی جانا ہوا تو وہاں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد ہمارا دل چاہا کہ حضرت کے مزار پہ حاضری دی جائے لیکن وہاں ہماری جو کیفیت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ ذہن بالکل خالی محسوس ہوا اور کچھ بھی یاد نہیں رہا اور ایک بے خودی طاری ہوگئی، چارو ناچار واپس آگئے لیکن عجیب شش و پنج میں پڑ گئے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ پھر کچھ وقفہ بعد دوبارہ حاضری دی تو انتہائی سکون قلب محسوس ہوا اور طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ کراچی واپسی پر ہم نے یہ ماجرہ حضرت مولانا اصلاح الحسینی ؒ سے بیان کیا جو بڑے عالم دین اور ہم سے بیحد محبت کرنے والے بزرگ تھے۔
انھوں نے فرمایا '' میاں جب کوئی شخص اپنے ممدوح سے مدت دراز بعد ملتا ہے تو ممدوح تمام تکلفات سے بالاتر ہوکر اس سے لپٹ جاتا ہے اور پھر اگلی ملاقات میں رسمی ہوتی ہے چونکہ آپ کی پہلی حاضری مدت دراز بعد ہوئی تھی اس لیے اس میں شدت اور بے ساختگی کا عنصر موجود تھا، اس لیے وہ کیفیت پیش آئی۔''
غیاث پور میں ایک بوڑھی عورت حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی ہمسایہ تھی اور آپ کی عقیدت مند تھی۔ اس کا یہ کام رسی بننا اور پھر اسے فروخت کرکے جو چار پیسے ملتے، ان سے جو کا آٹا اور ترکاری خریدتی اور چند روٹیاں پکا کر حضرت محبوب الٰہیؒ کی خدمت میں پیش کر دیتی۔
پہلی بار تو حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے یہ کہہ کر وہ روٹیاں قبول کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے تو خود تمہارا پیٹ نہیں بھر سکتا، پھر ہم اپنے رزق کا بوجھ تم پرکیوں ڈالیں؟ ہم اﷲ کی عبادت کر رہے ہیں، وہ ہی ہمارا اور ساری مخلوق کا رازق اور کفیل ہے ، یہ سن کر بوڑھی عورت التجا کرنے لگی کہ مجھے اپنی خدمت سے محروم نہ فرمائیے ۔ بوڑھیا کی حالت دیکھ کر حضرت انکار نہ کرسکے اور جو کی پکی ہوئی روٹیاں قبول فرمالیں۔
اب یہ اتفاق تھا یا قدرت کی مصلحت کہ وہ خاتون کئی دن سے رسیاں تیارکررہی تھی مگر کوئی خریدار نہیں ملتا تھا۔ حضرت محبوب الٰہیؒ اور دوسرے درویشوں کی طرح وہ خاتون خود بھی چار دن سے بھوکی تھی۔ وہ ہر وقت اس فکر میں رہتی تھی کہ رزاق دو عالم چند روٹیوں کا انتظام کردے اور یہ مرد ان روٹیوں سے روزہ کشائی کر لیں۔ بالآخر پانچ دن بعد کسی شخص نے بوڑھیا سے ایک رسی خرید لی، جو رقم ملی، اس سے ایک سیر جو کا آٹا خریدا جاسکتا تھا۔
خاتون نے یہی کیا اورحضرت محبوب الٰہیؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت نے مولانا کمال الدین یعقوبؒ کو حکم دیا کہ یہ نذر خلوص ہے اسے قبول کرو اور آٹے کو دیگ میں ڈال کر پکنے کے لیے رکھ دو۔ شیخ کمال الدین یعقوبؒ نے جو کے آٹے کو دیگ میں ڈال دیا اور پھر زیادہ مقدار میں پانی بھر دیا۔
حضرت محبوب الٰہیؒ کا مقصد یہ تھا کہ اگر آٹے کے علاوہ غیب سے کچھ اور حاصل ہو تو اسے بھی دیگ میں ڈال کر پکا لیا جائے۔ یوں غذا کی مقدار بڑھ جاتی ورنہ روٹیاں پکائی جاتیں تو ایک دو نوالوں سے زیادہ کسی درویش کے حصہ میں نہ آتی۔ اسی اثنا میں ایک گدڑی پوش فقیرکہیں سے نعرہ زنی کرتا کمال الدین یعقوبؒ کے پاس آیا ، صدا لگائی کہ اگر کچھ ہے تو کھانے کو دے دے۔
دیگ کو بند کیوں کر رکھا ہے؟ حضرت مولانا کمال الدین یعقوبؒ نے فقیرکو دیکھا۔ وہ مجذوب معلوم ہوتا تھا۔ مولانا حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا '' ہم تو محض منتظم ہیں، مخلوق خدا کو کھلانے ہی کے لیے بیٹھے ہیں۔
ان درویش سے بھی کہہ دو کہ ابھی کھانا پک رہا ہے جیسے ہی تیار ہوگا سب سے پہلے انھی کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ پیرومرشد کا حکم سن کر مولانا کمال الدین یعقوبؒ واپس آئے اور اجنبی درویش کے سامنے حضرت محبوب الٰہیؒ کے الفاظ دہرا دیے۔ فقیر بھوک سے بیقرار تھا ، کہنے لگا ''میرے پاس وقت نہیں ہے ، میں انتظار نہیں کرسکتا، اپنے شیخ سے کہہ دے کہ کھانا جس حالت میں موجود ہے دے دیں بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ خود ہی مجھے کھانا کھلائیں۔''
مولانا کمال الدین دوبارہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درویش کی خواہش من و عن بیان کردی۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فرما یا۔ ''میزبان کے لیے مہمان کی تواضع فرض ہے ، مہمان جس طرح بھی خوش ہو اسے خوش کیا جائے '' یہ کہہ کر حضرت محبوب الٰہیؒ تشریف لے گئے جہاں وہ گدڑی پوش بیٹھا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو دیکھ کر وہ درویش کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا۔ ''شیخ اللہ تمہیں خوش رکھے ، آج بہت بھوک لگی ہے، اب تم اپنے ہاتھ سے اس فقیر کو کچھ کھلا دو۔''
حضرت نظام الدین اولیاءؒ دیگ اٹھا کر اس درویش کے پاس لے گئے۔ اس نے ابلتے ہوئے پانی میں بے جھجک اپنا ہاتھ ڈال دیا۔درویش بار بار دیگ میں ہاتھ ڈالتا اورجو کے رقیق آٹے کو منہ میں رکھ لیتا۔ پھر اس نے مٹی کی اس دیگ کو اٹھا کر زمین پر مار دیا جو گرتے ہی ٹوٹ گیا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ خاموش رہے مگر مولانا کمال الدین یعقوبؒ خاموش نہ رہ سکے۔'' مہمان! تم نے یہ کیا کیا؟ افسوس تم نے دوسروں کی بھوک کو نظر انداز کردیا، تم نہیں جانتے کہ یہ درویشان خدا کتنے دن کے فاقے سے ہیں۔''''میں اللہ کے حکم سے یہ بات جانتا تھا مگر کیا کرتا کہ میرے لیے اللہ کا یہی حکم ہے۔ '' درویش بڑی بے نیازی کے عالم میں بول رہا تھا '' مجھ سے یہی کہا گیا تھا کہ میں اس دیگ کو توڑ دوں۔'' گدڑی پوش حضرت محبوب الٰہیؒ کے قریب آیا اور کہنے لگا '' شیخ نظام الدین اولیاءؒ ! تمہیں بابا فرید گنج نے نعمت باطنی بخشی اور میں نے تمہاری فاقہ کشی کی دیگ کو توڑ دیا۔ اب تم سلطان ظاہری بھی ہو اور سلطان باطنی بھی۔'' یہ کہہ کر وہ درویش واپس چلا گیا ۔
مولانا کمال الدین یعقوبؒ حیرت سے اپنے پیر و مرشد کی طرف دیکھنے لگے۔ حضرت محبوب الٰہیؒ نے اپنے مرید کی حیرت دورکرنے کے لیے فرمایا '' مولانا ! اللہ کی قدرت بھی لامحدود ہے اور اس کا کرم بھی، انسان عاجز ہے کہ وہ توفیق الٰہی کے بغیر کچھ نہیں سمجھ سکتا ، ہم نہیں جانتے کہ کس بھیس میں کون ہے، آؤ اﷲ کا ذکر کریں کہ تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں۔'' اس گدڑی پوش درویش نے حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو سلطان ظاہری و باطنی کہہ کر پکارا تھا۔ اس لیے آپ کا ایک لقب ''سلطان المشائخ '' بھی ہے۔
حضرت سلطان الااولیاءؒ کے عقیدت مندوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ ان عقیدت مندوں میں بھارتی سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس سنہا کا نام سب سے نمایاں ہے۔ قصہ یہ ہے کہ جب سنہا صاحب ایک عام آدمی تھے تو گردش حالات کی وجہ سے قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں پھنس گئے تھے۔
کسی مسلمان ہمدرد نے انھیں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار شریف پر حاضری دینے کا مشورہ دیا تھا، اﷲ تعالٰی کی قدرت اور مہربانی سے وہ نہ صرف اس جھوٹے مقدمہ میں بری ہوگئے اور صرف یہی نہیں بلکہ وکالت کے پیشہ سے منسلک ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ تک جا پہنچے۔
ایک واقعہ ہمارے ساتھ پیش آیا، ہمارا مدت دراز کے بعد دلی جانا ہوا تو وہاں پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد ہمارا دل چاہا کہ حضرت کے مزار پہ حاضری دی جائے لیکن وہاں ہماری جو کیفیت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ ذہن بالکل خالی محسوس ہوا اور کچھ بھی یاد نہیں رہا اور ایک بے خودی طاری ہوگئی، چارو ناچار واپس آگئے لیکن عجیب شش و پنج میں پڑ گئے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ پھر کچھ وقفہ بعد دوبارہ حاضری دی تو انتہائی سکون قلب محسوس ہوا اور طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ کراچی واپسی پر ہم نے یہ ماجرہ حضرت مولانا اصلاح الحسینی ؒ سے بیان کیا جو بڑے عالم دین اور ہم سے بیحد محبت کرنے والے بزرگ تھے۔
انھوں نے فرمایا '' میاں جب کوئی شخص اپنے ممدوح سے مدت دراز بعد ملتا ہے تو ممدوح تمام تکلفات سے بالاتر ہوکر اس سے لپٹ جاتا ہے اور پھر اگلی ملاقات میں رسمی ہوتی ہے چونکہ آپ کی پہلی حاضری مدت دراز بعد ہوئی تھی اس لیے اس میں شدت اور بے ساختگی کا عنصر موجود تھا، اس لیے وہ کیفیت پیش آئی۔''