زندگی کی دوڑ اور آٹزم
آٹسٹک بچے کا دماغ معلومات کی تشریح و ترسیل اس طرح نہیں کرتا جس طرح عام بچے کرتے ہیں
آپ نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی تو سن رکھی ہوگی۔ کسی بھلے ذہن کی اختراع تھی، جس نے بچوں کو مایوسی اور غرور سے بچانے کےلیے یہ گھڑ لی۔ لیکن مجھے یہ کہانی سن کر ہمیشہ ایک اندرونی اضطراب جکڑ لیتا تھا۔ جیسے کچھ غلط ہو اس قصے میں۔ جیسے جیسے عمر گزرتی گئی تو یقین پختہ ہوتا گیا کہ خرگوش اور کچھوے کی دوڑ ایک ہی راستے پر نہیں لگنی چاہیے تھی۔ بلکہ دو الگ الگ راستوں پر ہونی چاہیے تھی۔ اگر یہی مقابلہ پانی میں تیرنے کا ہوتا تو کیا نتیجہ نکلتا؟
ہم آخر کب تک کچھوے کو یہ درس دیتے رہیں گے کہ وہ جیت کی خوشی محسوس کرنے کےلیے خرگوش کے سونے کا منتظر رہے۔ اور آخر خرگوش کو ہر بار مغرور اور متکبر بن کر دوڑ ہارنی کیوں پڑے؟
سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں ہم نے جتنے انسان دیکھے متفرق صلاحیتوں کے مالک دیکھے۔ اور ہمارا معاشرہ بضد تھا کہ ان کو کچھوے اور خرگوش کی کہانی میں بھرتی کرلیا جائے۔ مچھلی کو درخت پر چڑھا کر اس کا مقابلہ مینا سے کروایا جائے۔ اب بھلا ایسا مقابلہ منصفانہ ہوگا؟
ہم اپنے معاشرے کے استبدادی اور بے لچک رویوں، اہداف اور روش پر غور کریں تو یہی خرگوش اور کچھوے کی کہانی ہر جگہ نظر آئے گی۔ جو بچہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا یا معمول سے مختلف ہو ہم بغیر کسی تاخیر کے اسے پاگل، بیوقوف یا ایسا ہی کوئی مضحکہ خیز تحقیرانہ قسم کا نام دے دیتے ہیں۔
آپ نے اپنے اردگرد ایسے بچے ضرور دیکھے ہوں گے جو ہر وقت اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، مخاطب کو نظر انداز کرتے ہیں، تنہائی پسند ہوتے ہیں یا کچھ مخصوص اشیا میں حد سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور باقی چیزوں کو سرے سے نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہمیشہ بہت چلبلے اور مضطرب نظر آتے ہیں یا بالکل خاموش اور بے رمق۔ لیکن بہرحال عام بچوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ آج کی یہ تحریر ایسے ہی بچوں کے حوالے سے ہے۔
آٹزم ایک ایسے ہی اعصابی مسئلے کا نام ہے جس میں بچے ایسی تمام حرکات و سکنات کرتے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔
2 اپریل کو پوری دنیا میں عالمی یوم آٹزم منایا جاتا ہے تاکہ اس مسئلے کے بارے میں عوام تک زیادہ سے زیادہ معلومات پہنچائی جائیں اور آٹسٹک بچوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے۔
آٹزم ایک پیدائشی مسئلہ ہے اور یہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ بچے کا زبان و بیان دو سال تک نشوونما ہی حاصل کررہا ہوتا ہے تو اس عمر سے پہلے تشخیص عام نہیں۔ والدین کو عموماً تب احساس ہوتا ہے جب بچہ اپنے نام پکارے جانے پر متوجہ نہیں ہوتا، اشارے کی سمت نہیں دیکھتا، بات نہیں سمجھتا یا سمجھا پاتا اور نظریں نہیں ملاتا۔
پاکستان میں اس سلسلے میں آگہی اتنی کم ہے کہ ایک عام ڈاکٹر بھی اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ عموماً ماؤں کو اس طرح کے مفت مشوروں سے نوازا جاتا ہے کہ ''آپ اس سے زیادہ بات کیا کریں'' یا یہ کہ ''فون اور ٹی وی بالکل مت دیں'' یا ''اسکول میں ڈال دیں''۔ ایسے مشورے دینے والوں کی نیک نیتی پر ہرگز شبہ نہیں لیکن ظاہر ہے اگر کھانسی کے مریض کو پیٹ کی دوا دی جائے تو یہ اس کا علاج نہیں۔
اگر آپ کو شک ہے کہ آپ یا آپ کے کسی عزیز کا بچہ آٹسٹک ہے تو مایوس نہ ہوں۔ بلکہ اس بچے کی مدد کرنے کی کوشش کیجیے تاکہ اس کےلیے زندگی آسان بنائی جائے۔ اور اس سلسلے میں جو سب سے پہلا احسان آپ اس بچے پر کریں گے وہ اس کے آٹزم کو تسلیم کرنا ہے۔ یعنی یہ مان لیجیے کہ اس بچے کا دماغ معلومات کی تشریح و ترسیل اس طرح نہیں کرتا جس طرح عام بچے کرتے ہیں۔ لہٰذا اسے بات سمجھانے کے لیے آپ کو محبت اور برداشت کے ساتھ ہوشیاری بھی چاہیے۔
والدین یا عزیزو اقارب کے ذہن میں اس حوالے سے جو سب سے پہلا سوال عفریت بن کر کھڑا ہوجاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ کیا میرا بچہ کبھی عام لوگوں کی طرح معاشرے میں فعال ہوپائے گا؟ تو اس سلسلے میں بہت سی حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ درمیانے درجے کے آٹسٹک بچوں کو اگر روزمرہ کے کاموں میں خودمختار کردیا جائے تو وہ یقیناً بہت حد تک زندگی اپنے تئیں گزار سکتے ہیں۔ کئی تاریخی شخصیات، مشہور و معروف مصوروں، شعرا اور سائنسدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آٹسٹک تھے، یہ بات بہرحال تحقیق طلب ہے۔ لیکن اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آٹسٹک لوگوں کی تخلیقی صلاحیت اور ذہانت عام بچوں سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے اور کم بھی یا برابر بھی ہوسکتی ہے۔ ان کا مسئلہ رابطے کی عدم موجودگی اور طریقہ کار سے لاعلمی ہوتا ہے۔
دوسرا کام جو آپ کو کرنا ہوگا وہ اس بچے کی تشخیص ہوگی۔ صرف آپ کے سوچ لینے سے کہ بچے میں علامات ہیں آپ اس کو آٹسٹک نہیں سمجھ سکتے۔ اس کےلیے آپ کو بچوں کا نفسیاتی معالج ڈھونڈنا پڑے گا۔ اگر آپ کےلیے یہ آسان نہیں تو کسی بھی مستند نفسیاتی معالج سے خصوصاً بچوں کے نفسیاتی معالج کے بارے میں استفسار کیجیے۔ آٹزم عام بیماریوں کی طرح کوئی بیماری نہیں، لہٰذا اس کی تشخیص کسی خون کے ٹیسٹ یا قابل رویت علامت سے نہیں ہوگی بلکہ والدین سے سوالنامے پُر کروائے جاتے ہیں اور بچوں کی حرکات و سکنات اور ان کے ردعمل کا چند گھنٹے مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ علم ہوسکے کہ بچے کو کس درجے کا آٹزم ہے اور اسے کہاں کہاں مدد درکار ہے۔
تیسرا مرحلہ ہے تھراپیز یا مشقوں کا۔ ایسے بچے جو بولتے نہیں انہیں اسپیچ تھراپی یا بولنے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ ایسے بچے جو روتے زیادہ ہیں، چیختے چلاتے ہیں، بیٹھتے نہیں، ہاتھ یا کسی اور عضو کو اضطراری حرکات دیتے ہیں، انہیں رویوں کی مشق یا بی ہیویئر تھراپی کروائی جاتی ہے۔ اور ایسے بچے جن کے پٹھے کمزور ہوں یا جنہیں روشنی، لمس یا کسی اور چیز سے حساسیت ہو، انہیں اوکیوپیشنل تھراپی کروائی جاتی ہے۔ اکثر آٹسٹک بچوں کو ان تینوں تھراپیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ان تینوں تھراپیز کا ایک چھت کے نیچے میسر ہونا مشکل امر ہے۔
ایک آٹسٹک بچے کی والدہ ہونے کے ناتے بلاگر نے اس دشت کی خاک خوب چھانی ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک مخلص تھراپسٹ ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جو نہ صرف بچے کو سکھائے بلکہ والدین کو بھی تربیت دے کہ بچے کو کس طرح سکھانا ہے۔ اور ایسے اداروں کا سرکاری سرپرستی میں ہونا بہت ضروری ہے تاکہ لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر تھراپی کو اشرافیہ تک محدود نہ رکھا جائے۔
جس طرح جسمانی عوارض میں مبتلا انسان سے ہم غیر حقیقی توقعات وابستہ نہیں کرتے تو اسی طرح آٹسٹک بچوں کو عام درسگاہوں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی زیادتی ہے، جس کے اکثر والدین مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کےلیے خصوصی اساتذہ ہونے چاہئیں جنہوں نے انسانی نفسیات کی تعلیم بھی حاصل کی ہو۔
آئیے کوشش کیجئے کہ ہم اپنے آس پاس ایسے بچوں کو وہ سہولیات اور آسانیاں دیں جس کے وہ مستحق ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بن سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہم آخر کب تک کچھوے کو یہ درس دیتے رہیں گے کہ وہ جیت کی خوشی محسوس کرنے کےلیے خرگوش کے سونے کا منتظر رہے۔ اور آخر خرگوش کو ہر بار مغرور اور متکبر بن کر دوڑ ہارنی کیوں پڑے؟
سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں ہم نے جتنے انسان دیکھے متفرق صلاحیتوں کے مالک دیکھے۔ اور ہمارا معاشرہ بضد تھا کہ ان کو کچھوے اور خرگوش کی کہانی میں بھرتی کرلیا جائے۔ مچھلی کو درخت پر چڑھا کر اس کا مقابلہ مینا سے کروایا جائے۔ اب بھلا ایسا مقابلہ منصفانہ ہوگا؟
ہم اپنے معاشرے کے استبدادی اور بے لچک رویوں، اہداف اور روش پر غور کریں تو یہی خرگوش اور کچھوے کی کہانی ہر جگہ نظر آئے گی۔ جو بچہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا یا معمول سے مختلف ہو ہم بغیر کسی تاخیر کے اسے پاگل، بیوقوف یا ایسا ہی کوئی مضحکہ خیز تحقیرانہ قسم کا نام دے دیتے ہیں۔
آپ نے اپنے اردگرد ایسے بچے ضرور دیکھے ہوں گے جو ہر وقت اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، مخاطب کو نظر انداز کرتے ہیں، تنہائی پسند ہوتے ہیں یا کچھ مخصوص اشیا میں حد سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور باقی چیزوں کو سرے سے نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہمیشہ بہت چلبلے اور مضطرب نظر آتے ہیں یا بالکل خاموش اور بے رمق۔ لیکن بہرحال عام بچوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ آج کی یہ تحریر ایسے ہی بچوں کے حوالے سے ہے۔
آٹزم ایک ایسے ہی اعصابی مسئلے کا نام ہے جس میں بچے ایسی تمام حرکات و سکنات کرتے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔
2 اپریل کو پوری دنیا میں عالمی یوم آٹزم منایا جاتا ہے تاکہ اس مسئلے کے بارے میں عوام تک زیادہ سے زیادہ معلومات پہنچائی جائیں اور آٹسٹک بچوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے۔
آٹزم ایک پیدائشی مسئلہ ہے اور یہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ بچے کا زبان و بیان دو سال تک نشوونما ہی حاصل کررہا ہوتا ہے تو اس عمر سے پہلے تشخیص عام نہیں۔ والدین کو عموماً تب احساس ہوتا ہے جب بچہ اپنے نام پکارے جانے پر متوجہ نہیں ہوتا، اشارے کی سمت نہیں دیکھتا، بات نہیں سمجھتا یا سمجھا پاتا اور نظریں نہیں ملاتا۔
پاکستان میں اس سلسلے میں آگہی اتنی کم ہے کہ ایک عام ڈاکٹر بھی اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ عموماً ماؤں کو اس طرح کے مفت مشوروں سے نوازا جاتا ہے کہ ''آپ اس سے زیادہ بات کیا کریں'' یا یہ کہ ''فون اور ٹی وی بالکل مت دیں'' یا ''اسکول میں ڈال دیں''۔ ایسے مشورے دینے والوں کی نیک نیتی پر ہرگز شبہ نہیں لیکن ظاہر ہے اگر کھانسی کے مریض کو پیٹ کی دوا دی جائے تو یہ اس کا علاج نہیں۔
اگر آپ کو شک ہے کہ آپ یا آپ کے کسی عزیز کا بچہ آٹسٹک ہے تو مایوس نہ ہوں۔ بلکہ اس بچے کی مدد کرنے کی کوشش کیجیے تاکہ اس کےلیے زندگی آسان بنائی جائے۔ اور اس سلسلے میں جو سب سے پہلا احسان آپ اس بچے پر کریں گے وہ اس کے آٹزم کو تسلیم کرنا ہے۔ یعنی یہ مان لیجیے کہ اس بچے کا دماغ معلومات کی تشریح و ترسیل اس طرح نہیں کرتا جس طرح عام بچے کرتے ہیں۔ لہٰذا اسے بات سمجھانے کے لیے آپ کو محبت اور برداشت کے ساتھ ہوشیاری بھی چاہیے۔
والدین یا عزیزو اقارب کے ذہن میں اس حوالے سے جو سب سے پہلا سوال عفریت بن کر کھڑا ہوجاتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ کیا میرا بچہ کبھی عام لوگوں کی طرح معاشرے میں فعال ہوپائے گا؟ تو اس سلسلے میں بہت سی حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ درمیانے درجے کے آٹسٹک بچوں کو اگر روزمرہ کے کاموں میں خودمختار کردیا جائے تو وہ یقیناً بہت حد تک زندگی اپنے تئیں گزار سکتے ہیں۔ کئی تاریخی شخصیات، مشہور و معروف مصوروں، شعرا اور سائنسدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آٹسٹک تھے، یہ بات بہرحال تحقیق طلب ہے۔ لیکن اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آٹسٹک لوگوں کی تخلیقی صلاحیت اور ذہانت عام بچوں سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے اور کم بھی یا برابر بھی ہوسکتی ہے۔ ان کا مسئلہ رابطے کی عدم موجودگی اور طریقہ کار سے لاعلمی ہوتا ہے۔
دوسرا کام جو آپ کو کرنا ہوگا وہ اس بچے کی تشخیص ہوگی۔ صرف آپ کے سوچ لینے سے کہ بچے میں علامات ہیں آپ اس کو آٹسٹک نہیں سمجھ سکتے۔ اس کےلیے آپ کو بچوں کا نفسیاتی معالج ڈھونڈنا پڑے گا۔ اگر آپ کےلیے یہ آسان نہیں تو کسی بھی مستند نفسیاتی معالج سے خصوصاً بچوں کے نفسیاتی معالج کے بارے میں استفسار کیجیے۔ آٹزم عام بیماریوں کی طرح کوئی بیماری نہیں، لہٰذا اس کی تشخیص کسی خون کے ٹیسٹ یا قابل رویت علامت سے نہیں ہوگی بلکہ والدین سے سوالنامے پُر کروائے جاتے ہیں اور بچوں کی حرکات و سکنات اور ان کے ردعمل کا چند گھنٹے مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ علم ہوسکے کہ بچے کو کس درجے کا آٹزم ہے اور اسے کہاں کہاں مدد درکار ہے۔
تیسرا مرحلہ ہے تھراپیز یا مشقوں کا۔ ایسے بچے جو بولتے نہیں انہیں اسپیچ تھراپی یا بولنے کی مشق کروائی جاتی ہے۔ ایسے بچے جو روتے زیادہ ہیں، چیختے چلاتے ہیں، بیٹھتے نہیں، ہاتھ یا کسی اور عضو کو اضطراری حرکات دیتے ہیں، انہیں رویوں کی مشق یا بی ہیویئر تھراپی کروائی جاتی ہے۔ اور ایسے بچے جن کے پٹھے کمزور ہوں یا جنہیں روشنی، لمس یا کسی اور چیز سے حساسیت ہو، انہیں اوکیوپیشنل تھراپی کروائی جاتی ہے۔ اکثر آٹسٹک بچوں کو ان تینوں تھراپیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ان تینوں تھراپیز کا ایک چھت کے نیچے میسر ہونا مشکل امر ہے۔
ایک آٹسٹک بچے کی والدہ ہونے کے ناتے بلاگر نے اس دشت کی خاک خوب چھانی ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک مخلص تھراپسٹ ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جو نہ صرف بچے کو سکھائے بلکہ والدین کو بھی تربیت دے کہ بچے کو کس طرح سکھانا ہے۔ اور ایسے اداروں کا سرکاری سرپرستی میں ہونا بہت ضروری ہے تاکہ لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر تھراپی کو اشرافیہ تک محدود نہ رکھا جائے۔
جس طرح جسمانی عوارض میں مبتلا انسان سے ہم غیر حقیقی توقعات وابستہ نہیں کرتے تو اسی طرح آٹسٹک بچوں کو عام درسگاہوں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی زیادتی ہے، جس کے اکثر والدین مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کےلیے خصوصی اساتذہ ہونے چاہئیں جنہوں نے انسانی نفسیات کی تعلیم بھی حاصل کی ہو۔
آئیے کوشش کیجئے کہ ہم اپنے آس پاس ایسے بچوں کو وہ سہولیات اور آسانیاں دیں جس کے وہ مستحق ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بن سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔