آب و ہوا میں تبدیلی گرم خزاں سے تتلیوں کی بقا خطرے میں
سبز رگوں والی سفید تتلی طویل گرم خزاں میں توانائی استعمال کرتی ہیں جس سے وہ تیزی سے کمزور ہورہی ہیں
ISLAMABAD:
ننھے حشرات ماحول اور درجہ حرارت سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ایک قسم کی تتلی طویل اور قدرے گرم موسم خزاں سے متاثر ہورہی ہے اور اس کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔
سبز رگوں والی سفید تتلی پر تحقیق ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ موسم خزاں طویل اور گرم ہونے سے وہ اپنی توانائی تیزی سے استعمال کرتی ہے۔ یہاں تک کہ موسمِ بہار میں زندہ رہنا محال ہوجاتا ہے کیونکہ وہ بہت کمزور ہوچکی ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق حساس تتلیوں میں توانائی کا ایک نازک طریقہ ہوتا ہے اور وہ متاثر ہوجائے تو ان کی اپنی جان خطرے میں آسکتی ہے۔ پھر یہی تحقیق دیگر اقسام کی تتلیوں پر بھی لاگو کی جاسکتی ہے۔
خزاں کی طوالت میں سفید تتلیوں کے پیوپا زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں اور موسمِ بہار تک ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس طرح تتلی بنتے ہی مرجاتے ہیں جس کی وجہ کلائمٹ چینج بتائی جارہی ہے۔ یوں سفید تتلیوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ لیکن یہی نہیں دنیا بھر میں تتلیوں کی بڑی اقسام کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
ماہرین نے اسے 'موسمِ بہار کا اثر' یا اسپرنگ افیکٹ کہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس موسمِ بہار میں سفید تتلیوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ تاہم اب ماہرین نے موسمِ بہار کے اثر پر اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے۔
یونیورسٹی آف اولو، فن لینڈ کے میتھیو نیلسن اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ اس موسمِ بہار میں سفید تتلیوں کی بڑی تعداد موت کی شکار ہوئی ہے۔
جب خزاں میں دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں تو عین اسی وقت تتلیوں کے پیوپا خوابیدہ حالت میں چلے جاتے ہیں تاکہ موسمِ سرما کے انتہائی ناموافق حالات اور سردی سے محفوظ رہیں۔ خزاں کے اختتام پر وہ اس کیفیت سے باہر نکل کر نمو شروع کرتے ہیں اور تتلی بننے کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔
سائنسدانوں نے سفید تتلی کے کل 459 خوابیدہ پیوپا جمع کرکے ان کا مطالعہ شروع کیا جو یورپ اور ایشیا میں عام پائی جاتی ہے۔ انہیں مختلف حالات اور درجہ حرارت میں رکھا گیا جو خزاں جیسا ماحول بھی تھا۔ یعنی خاص چیمبر میں ایک سے 16 ہفتے تک 15، 20 یا پھر 25 درجے سینٹی گریڈ پر رکھا گیا۔ اس کے بعد سارے پیوپا نکال کر انہیں اندھیرے سے بھرے ڈارک چیمبر میں 24 ہفتے تک رکھا گیا ۔ اس کا درجہ حرارت سردی کو ظاہر کررہا تھا جو دو درجے سینٹی گریڈ کے برابر تھا۔
معلوم ہوا کہ جو پیوپا طویل خزاں والی کیفیت میں رہے انہوں نے اپنی توانائی زیادہ استعمال کی۔ جبکہ سرد اور مختصر خزاں میں رہنے والے پیوپا میں یہ کیفیت نہ تھی۔ اس طرح زیادہ توانائی استعمال کرنے والے پیوپا کمزور اور پتلے دیکھے گئے۔
اب کمزور پیوپا سے بننے والی تتلیاں دیگر کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہلاک ہوئیں۔ اس طرح گرمی بڑھنے سے ان کی تعداد میں 10 سے 20 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ننھے حشرات ماحول اور درجہ حرارت سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ایک قسم کی تتلی طویل اور قدرے گرم موسم خزاں سے متاثر ہورہی ہے اور اس کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔
سبز رگوں والی سفید تتلی پر تحقیق ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ موسم خزاں طویل اور گرم ہونے سے وہ اپنی توانائی تیزی سے استعمال کرتی ہے۔ یہاں تک کہ موسمِ بہار میں زندہ رہنا محال ہوجاتا ہے کیونکہ وہ بہت کمزور ہوچکی ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق حساس تتلیوں میں توانائی کا ایک نازک طریقہ ہوتا ہے اور وہ متاثر ہوجائے تو ان کی اپنی جان خطرے میں آسکتی ہے۔ پھر یہی تحقیق دیگر اقسام کی تتلیوں پر بھی لاگو کی جاسکتی ہے۔
خزاں کی طوالت میں سفید تتلیوں کے پیوپا زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں اور موسمِ بہار تک ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس طرح تتلی بنتے ہی مرجاتے ہیں جس کی وجہ کلائمٹ چینج بتائی جارہی ہے۔ یوں سفید تتلیوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے۔ لیکن یہی نہیں دنیا بھر میں تتلیوں کی بڑی اقسام کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
ماہرین نے اسے 'موسمِ بہار کا اثر' یا اسپرنگ افیکٹ کہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس موسمِ بہار میں سفید تتلیوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ تاہم اب ماہرین نے موسمِ بہار کے اثر پر اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے۔
یونیورسٹی آف اولو، فن لینڈ کے میتھیو نیلسن اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ اس موسمِ بہار میں سفید تتلیوں کی بڑی تعداد موت کی شکار ہوئی ہے۔
جب خزاں میں دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں تو عین اسی وقت تتلیوں کے پیوپا خوابیدہ حالت میں چلے جاتے ہیں تاکہ موسمِ سرما کے انتہائی ناموافق حالات اور سردی سے محفوظ رہیں۔ خزاں کے اختتام پر وہ اس کیفیت سے باہر نکل کر نمو شروع کرتے ہیں اور تتلی بننے کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔
سائنسدانوں نے سفید تتلی کے کل 459 خوابیدہ پیوپا جمع کرکے ان کا مطالعہ شروع کیا جو یورپ اور ایشیا میں عام پائی جاتی ہے۔ انہیں مختلف حالات اور درجہ حرارت میں رکھا گیا جو خزاں جیسا ماحول بھی تھا۔ یعنی خاص چیمبر میں ایک سے 16 ہفتے تک 15، 20 یا پھر 25 درجے سینٹی گریڈ پر رکھا گیا۔ اس کے بعد سارے پیوپا نکال کر انہیں اندھیرے سے بھرے ڈارک چیمبر میں 24 ہفتے تک رکھا گیا ۔ اس کا درجہ حرارت سردی کو ظاہر کررہا تھا جو دو درجے سینٹی گریڈ کے برابر تھا۔
معلوم ہوا کہ جو پیوپا طویل خزاں والی کیفیت میں رہے انہوں نے اپنی توانائی زیادہ استعمال کی۔ جبکہ سرد اور مختصر خزاں میں رہنے والے پیوپا میں یہ کیفیت نہ تھی۔ اس طرح زیادہ توانائی استعمال کرنے والے پیوپا کمزور اور پتلے دیکھے گئے۔
اب کمزور پیوپا سے بننے والی تتلیاں دیگر کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہلاک ہوئیں۔ اس طرح گرمی بڑھنے سے ان کی تعداد میں 10 سے 20 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔