روزے کی فضیلت
حضرت جبرائیلؑ نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے
ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی مہینے میں ہُوا۔
اﷲ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنّم سے نجات کا ہے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آپ ﷺ فرماتے تھے کہ یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔
حضرت جبرائیلؑ نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، جس پر رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آمین! حضرت جبرائیلؑ کی یہ دعا اور اس پر رسول کریم ﷺ کا آمین کہنے سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چاہیے۔
رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین کو بند کردیا جاتا ہے اور مضبوط باندھ دیا جاتا ہے اور سرکش جنوں کو بھی بند کردیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اس کا کوئی بھی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے نیکی کے طالب! آگے بڑھ کہ نیکی کا وقت ہے اور اے بدی کے چاہنے والے! بدی سے رک جا اور اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ، کیوں کہ یہ وقت گناہوں سے توبہ کرنے کا اور ان کو چھوڑنے کا ہے۔ روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن رب تعالیٰ اس کا بدل اور اجر خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے۔
خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لیے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نا کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا کے وصال کا ذریعہ ہے، اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفت گُو کرتا ہے، بعینہ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اس مبارک مہینے سے رب ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبیؑ کو نہ ملیں: پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسری یہ کہ شام کے وقت روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بُو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
چوتھے یہ کہ اﷲ تعالیٰ جنّت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''میرے (نیک) بندوں کے لیے مزیّن ہوجا! عن قریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ جنّت کا ایک دروازہ جس کا نام ریان ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار گزریں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی دوسرا نہیں گزرے گا۔
حضور اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ گویا روزہ دار اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے کہ اس کے منہ کی بُو بھی اﷲ تعالیٰ کو پسند اور خوش گوار ہوتی ہے۔ رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس ماہ مقدس میں عبادات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضایع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔ اس ماہ مبارک میں ایسے انداز میں عبادت کو فرض کے طور پر متعین فرما دیا گیا ہے کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی خاص طریقۂ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے، ایسی خاص طریقہ کی عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے، جسے اس ماہ میں فرض فرما دیا گیا ہے۔
روزہ ایک عجیب عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے۔ روزہ رکھ کر صنعت و حرفت، تجارت و زیارت ہر کام بہ خوبی احسن کرسکتا ہے اور پھر بڑی بات یہ کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خود بہ خود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغولی کا ثواب ملتا رہتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنّم سے نجات کا ہے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آپ ﷺ فرماتے تھے کہ یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔
حضرت جبرائیلؑ نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، جس پر رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آمین! حضرت جبرائیلؑ کی یہ دعا اور اس پر رسول کریم ﷺ کا آمین کہنے سے ہمیں رمضان کی اہمیت کو سمجھ لینا چاہیے۔
رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین کو بند کردیا جاتا ہے اور مضبوط باندھ دیا جاتا ہے اور سرکش جنوں کو بھی بند کردیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اس کا کوئی بھی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے نیکی کے طالب! آگے بڑھ کہ نیکی کا وقت ہے اور اے بدی کے چاہنے والے! بدی سے رک جا اور اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ، کیوں کہ یہ وقت گناہوں سے توبہ کرنے کا اور ان کو چھوڑنے کا ہے۔ روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن رب تعالیٰ اس کا بدل اور اجر خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے۔
خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لیے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نا کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا کے وصال کا ذریعہ ہے، اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفت گُو کرتا ہے، بعینہ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اس مبارک مہینے سے رب ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبیؑ کو نہ ملیں: پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسری یہ کہ شام کے وقت روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بُو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
چوتھے یہ کہ اﷲ تعالیٰ جنّت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''میرے (نیک) بندوں کے لیے مزیّن ہوجا! عن قریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ جنّت کا ایک دروازہ جس کا نام ریان ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار گزریں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی دوسرا نہیں گزرے گا۔
حضور اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ گویا روزہ دار اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے کہ اس کے منہ کی بُو بھی اﷲ تعالیٰ کو پسند اور خوش گوار ہوتی ہے۔ رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس ماہ مقدس میں عبادات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضایع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔ اس ماہ مبارک میں ایسے انداز میں عبادت کو فرض کے طور پر متعین فرما دیا گیا ہے کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی خاص طریقۂ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے، ایسی خاص طریقہ کی عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے، جسے اس ماہ میں فرض فرما دیا گیا ہے۔
روزہ ایک عجیب عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے۔ روزہ رکھ کر صنعت و حرفت، تجارت و زیارت ہر کام بہ خوبی احسن کرسکتا ہے اور پھر بڑی بات یہ کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خود بہ خود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغولی کا ثواب ملتا رہتا ہے۔