مستقبل کا سیاسی منظر
حکمران کیا سرپرائز دے سکتے ہیں ایسے حالات میں جب بظاہر معاملات ان کے خلاف جا رہے ہیں
لاہور:
موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم کے حوالے سے جو معاملہ چل رہا ہے اس کے بعد حکومتی قیادت کا سیاسی رویہ جارحانہ ہو چکا ہے اور وہ اپنے خلاف سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے بھی یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ استعفیٰ نہیں سرپرائز دے گی۔
حکمران کیا سرپرائز دے سکتے ہیں ایسے حالات میں جب بظاہر معاملات ان کے خلاف جا رہے ہیں اور اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا ہٹنا اور مستعفی ہونا تو یقینی ہے ہی مگر سرپرائز دینا تو اب ان کے ہاتھ میں نہیں مگر غیر جمہوری اقدامات کی ان سے توقع رکھی جاسکتی ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اپوزیشن اقتدار میں آئے۔
انھیں یقین ہے کہ اپوزیشن کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو وہ مسلسل اپوزیشن کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ موجودہ حکمران قیادت کو اپوزیشن کی حکومت کسی صورت قبول نہیں ہوگی اور وہ چاہے گی کہ اپوزیشن کے بجائے کوئی ایسا اقدام ہو جائے جس سے بازی پلٹنے کی صورت میں اپوزیشن کی متوقع حکومت کے زیر عتاب آنے سے محفوظ رہ جائے۔
اپوزیشن رہنما پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مسلسل ساڑھے تین سال عتاب کا شکار رہے اور کہتے رہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ وہی کچھ کریں گے جو انھوں نے اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ کیا۔ اپوزیشن رہنما چاہیں گے کہ انھیں قید و بند میں رکھنے والے حکمران بھی جیلوں میں رہ کر مقدمات کا سامنا کریں جس طرح انھوں نے کیا ہے۔
متوقع حکومت تبدیلی کے بعد اپوزیشن رہنماؤں میں دو سوچیں ہوں گی کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرح انتقامی کارروائیاں کریں یا ملک کے حالات کو دیکھیں جو معاشی، سیاسی و اخلاقی طور پر تباہ اور مقروض ہو چکا ہے جس کے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا شکار بنا دیے گئے ہیں اور موجودہ حکومتی سیاست نے عوام کا اعتماد ہی ختم کردیا ہے کہ انھیں اب جھوٹ اور سچ کیا ہے اس پر یقین ہی باقی نہیں رہا ہے۔
اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو توقع ہے کہ اپوزیشن کی حکومت اور متوقع وزیر اعظم میاں شہباز شریف موجودہ حکمرانوں کی طرح کی انتقامی سوچ نہیں اپنائیں گے اور نیب کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ اپنی ساری توجہ ملک و قوم کو درپیش مسائل پر دیں گے کیونکہ اب ملک انتقامی کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اب انتقام کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔شہباز شریف سیاست اور انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انھیں مقتدر حلقوںکی حمایت بھی حاصل ہوگی کیونکہ ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے ہی رہے ہیں ، جب کہ ان کے بھائی نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کسی سے ڈھکے چپے نہیں ہیں۔
صوبہ پنجاب کے لیے بطور وزیراعلیٰ انھوں نے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ پنجاب کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں ایک مثالی کردار ادا کیا ہے ،ملک بھر میں ان کی مقبولیت ایک اچھے منتظم کی ہے جوکہ سرکاری انتظامی مشینری کو چلانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ، لہٰذا اب یہ امر یقینی ہے کہ ان کی بہترین انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں سے ملک کو فائدہ پہنچے گا ، اگر باقی ماندہ ڈیڑھ سال کا عرصہ شہبازشریف بطور وزیراعظم کے اپنی خدمات سرانجام دیں گے تو بلاشبہ ملک کی ترقی وخوشحالی کا ایک نیا سفر شروع ہوگا۔اپوزیشن جماعتوں کو جلدبازی میں اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے سے اجتناب کرنا چاہیے ، اس طرح ملک میں جمہوریت غیر مستحکم ہوگی۔
عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ میں حکومت سے باہر آ کر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔ یہ ان کی محض دھمکی ہے اور حکومت سے باہر آ کر اپوزیشن کے خلاف حکومتی اقدامات تو شاید نہ کر سکیں گے البتہ ہو سکتا ہے کہ ممکنہ انتقامی کارروائیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
بعض تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو اپنی گرفتاری اور قید و بند کا خوف لاحق رہے گا اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ سیاست چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جائیں۔ ملک میں رہ کر اپوزیشن کی سیاست وہ کر نہیں سکیں گے جس کے لیے انھیں سخت قید بھگتنے کا کوئی تجربہ ہے نہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کی طرح اب تک جیلوں میں رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اب تک بلند و بانگ دعوے ہی کیے ہیں اور وہ خود کو عقل کل سمجھتے رہے ہیں اور اپنے من مانے فیصلوں سے ہی وہ موجودہ حالات تک پہنچے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے اگر ملک میں رہ کر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا تو سیاست میں ریل اور جیل دونوں کے امکانات ہوتے ہیں۔ اقتدار کی ریل کے وہ مزے لے چکے، اب ان کے لیے مقدمات بھگتنے کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔ نئی حکومت نے اگر عمران خان کو سیاست کرنے کا موقعہ دیا اور ان پر مقدمات نہ بنائے تو عمران خان اسے حکومت کی کمزوری سمجھیں گے اور کہیں گے کہ میں نے اقتدار میں رہ کر جب کوئی غلط کام کیا ہی نہیں تو کس نے انھیں قید کرنے کی جرأت کرنی ہے، اگر تحریک انصاف کی قیادت نے نئی حکومت کو زیادہ تنگ کیا اور کام نہ کرنے دیا تو وہ اپنی گرفتاری کی راہ خود ہی ہموار کریں گے اور حکومت کو مجبور کریں گے کہ انھیں گرفتار کیا جائے۔
گرفتار ہو کر وہ خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے اپنی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دیں گے تاکہ نئی حکومت کوئی کام ہی نہ کرسکے اور عوام اس سے جلد بے زار ہو جائیں۔ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ شہباز شریف کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ وہ نئی حکومت سے اصلاحات میں کوئی تعاون نہیں کریں گے۔ وہ خود اپوزیشن لیڈر بنیں گے اور جیل سے باہر رہ کر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔
ملک کے حالات کو تحریک انصاف کی قیادت کو بھی دیکھنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ وہ حالات کے مطابق نئی حکومت کے لیے مسئلہ نہ بنے اور نئی حکومت کو جمہوری طور پر قبول کرے۔ غیر ضروری احتجاج نہ کرے اور نئی حکومت کو کام کرنے دے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دے۔
موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم کے حوالے سے جو معاملہ چل رہا ہے اس کے بعد حکومتی قیادت کا سیاسی رویہ جارحانہ ہو چکا ہے اور وہ اپنے خلاف سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے بھی یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ استعفیٰ نہیں سرپرائز دے گی۔
حکمران کیا سرپرائز دے سکتے ہیں ایسے حالات میں جب بظاہر معاملات ان کے خلاف جا رہے ہیں اور اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا ہٹنا اور مستعفی ہونا تو یقینی ہے ہی مگر سرپرائز دینا تو اب ان کے ہاتھ میں نہیں مگر غیر جمہوری اقدامات کی ان سے توقع رکھی جاسکتی ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اپوزیشن اقتدار میں آئے۔
انھیں یقین ہے کہ اپوزیشن کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو وہ مسلسل اپوزیشن کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ موجودہ حکمران قیادت کو اپوزیشن کی حکومت کسی صورت قبول نہیں ہوگی اور وہ چاہے گی کہ اپوزیشن کے بجائے کوئی ایسا اقدام ہو جائے جس سے بازی پلٹنے کی صورت میں اپوزیشن کی متوقع حکومت کے زیر عتاب آنے سے محفوظ رہ جائے۔
اپوزیشن رہنما پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں مسلسل ساڑھے تین سال عتاب کا شکار رہے اور کہتے رہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ وہی کچھ کریں گے جو انھوں نے اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ کیا۔ اپوزیشن رہنما چاہیں گے کہ انھیں قید و بند میں رکھنے والے حکمران بھی جیلوں میں رہ کر مقدمات کا سامنا کریں جس طرح انھوں نے کیا ہے۔
متوقع حکومت تبدیلی کے بعد اپوزیشن رہنماؤں میں دو سوچیں ہوں گی کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرح انتقامی کارروائیاں کریں یا ملک کے حالات کو دیکھیں جو معاشی، سیاسی و اخلاقی طور پر تباہ اور مقروض ہو چکا ہے جس کے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کا شکار بنا دیے گئے ہیں اور موجودہ حکومتی سیاست نے عوام کا اعتماد ہی ختم کردیا ہے کہ انھیں اب جھوٹ اور سچ کیا ہے اس پر یقین ہی باقی نہیں رہا ہے۔
اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو توقع ہے کہ اپوزیشن کی حکومت اور متوقع وزیر اعظم میاں شہباز شریف موجودہ حکمرانوں کی طرح کی انتقامی سوچ نہیں اپنائیں گے اور نیب کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ اپنی ساری توجہ ملک و قوم کو درپیش مسائل پر دیں گے کیونکہ اب ملک انتقامی کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اب انتقام کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔شہباز شریف سیاست اور انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انھیں مقتدر حلقوںکی حمایت بھی حاصل ہوگی کیونکہ ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے ہی رہے ہیں ، جب کہ ان کے بھائی نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کسی سے ڈھکے چپے نہیں ہیں۔
صوبہ پنجاب کے لیے بطور وزیراعلیٰ انھوں نے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ پنجاب کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں ایک مثالی کردار ادا کیا ہے ،ملک بھر میں ان کی مقبولیت ایک اچھے منتظم کی ہے جوکہ سرکاری انتظامی مشینری کو چلانے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ، لہٰذا اب یہ امر یقینی ہے کہ ان کی بہترین انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں سے ملک کو فائدہ پہنچے گا ، اگر باقی ماندہ ڈیڑھ سال کا عرصہ شہبازشریف بطور وزیراعظم کے اپنی خدمات سرانجام دیں گے تو بلاشبہ ملک کی ترقی وخوشحالی کا ایک نیا سفر شروع ہوگا۔اپوزیشن جماعتوں کو جلدبازی میں اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے سے اجتناب کرنا چاہیے ، اس طرح ملک میں جمہوریت غیر مستحکم ہوگی۔
عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ میں حکومت سے باہر آ کر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔ یہ ان کی محض دھمکی ہے اور حکومت سے باہر آ کر اپوزیشن کے خلاف حکومتی اقدامات تو شاید نہ کر سکیں گے البتہ ہو سکتا ہے کہ ممکنہ انتقامی کارروائیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
بعض تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو اپنی گرفتاری اور قید و بند کا خوف لاحق رہے گا اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ سیاست چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جائیں۔ ملک میں رہ کر اپوزیشن کی سیاست وہ کر نہیں سکیں گے جس کے لیے انھیں سخت قید بھگتنے کا کوئی تجربہ ہے نہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کی طرح اب تک جیلوں میں رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اب تک بلند و بانگ دعوے ہی کیے ہیں اور وہ خود کو عقل کل سمجھتے رہے ہیں اور اپنے من مانے فیصلوں سے ہی وہ موجودہ حالات تک پہنچے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں نے اگر ملک میں رہ کر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا تو سیاست میں ریل اور جیل دونوں کے امکانات ہوتے ہیں۔ اقتدار کی ریل کے وہ مزے لے چکے، اب ان کے لیے مقدمات بھگتنے کے امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔ نئی حکومت نے اگر عمران خان کو سیاست کرنے کا موقعہ دیا اور ان پر مقدمات نہ بنائے تو عمران خان اسے حکومت کی کمزوری سمجھیں گے اور کہیں گے کہ میں نے اقتدار میں رہ کر جب کوئی غلط کام کیا ہی نہیں تو کس نے انھیں قید کرنے کی جرأت کرنی ہے، اگر تحریک انصاف کی قیادت نے نئی حکومت کو زیادہ تنگ کیا اور کام نہ کرنے دیا تو وہ اپنی گرفتاری کی راہ خود ہی ہموار کریں گے اور حکومت کو مجبور کریں گے کہ انھیں گرفتار کیا جائے۔
گرفتار ہو کر وہ خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے اپنی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دیں گے تاکہ نئی حکومت کوئی کام ہی نہ کرسکے اور عوام اس سے جلد بے زار ہو جائیں۔ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ شہباز شریف کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ وہ نئی حکومت سے اصلاحات میں کوئی تعاون نہیں کریں گے۔ وہ خود اپوزیشن لیڈر بنیں گے اور جیل سے باہر رہ کر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔
ملک کے حالات کو تحریک انصاف کی قیادت کو بھی دیکھنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ وہ حالات کے مطابق نئی حکومت کے لیے مسئلہ نہ بنے اور نئی حکومت کو جمہوری طور پر قبول کرے۔ غیر ضروری احتجاج نہ کرے اور نئی حکومت کو کام کرنے دے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دے۔