ایران اور امریکا جوہری معاہدہ
امریکا نے حالیہ عرصے میں بار بار روس پر بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کا الزام لگایا جس کی روس نے سختی سے تردید کی
ISLAMABAD:
وہ امریکا ، ایران جوہری معاہدہ جو 2015 میں اوباما دور میں ہوا اور مئی 2018 میں ٹرمپ دور میں اس کا خاتمہ ہوا۔ اب اس کی بحالی کے لیے پچھلے چند ماہ سے مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ جلد از جلد بحال ہو جائے لیکن ایران اس حوالے سے تحفظات کا شکار ہے کہ ماضی کی طرح امریکا اس معاہدے پر دستخط کر کے پھر نہ پیچھے ہٹ جائے۔
وہ معاہدہ جس کے گارنٹر سلامتی کونسل فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس تھے۔ پھر ایران چاہتا ہے کہ اس پر تمام پابندیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے، جب کہ امریکا ، ایران پر لگی پابندیوں کا مشروط اور مرحلہ وار خاتمہ چاہتا ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کو ڈر ہے کہ معاہدے میں تاخیر کی صورت میں ایران اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو مزید ترقی دے سکتا ہے۔
پچھلے چند مہینوں سے مسلسل یہ خبریں آ رہی ہیںکہ یہ معاہدہ کسی بھی وقت ہونے والا ہے لیکن کیونکہ فیز مکمل ہونے میں ابھی کسر ہے اس لیے نہیں ہو پا رہا۔ آج کل عالمی میڈیا میں یہ خبریں پھر گرم ہیں کہ یہ معاہدہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کیونکہ تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مغرب کو روس کے علاوہ دیگر ممالک کی جانب رجوع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل کا کہنا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔
روس کی جانب سے التواء کے بعد اب ایران نے مذاکرات میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ روس چاہتا تھا کہ ایران کے تیل پر عائد پابندی ختم نہ کی جائے کیونکہ اگر ایران اپنے تیل کی پیداوار شروع کر دے گا تو پھر مارکیٹ میں تیل وافر مقدار میں موجود ہو گا۔ تیل کی قیمتیں گر جائیں گی اور یہ روس اور سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہے۔
خلیجی ممالک کا دورہ مکمل کر کے واپس پہنچنے کے بعد یورپین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جوزف بورل نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے پر مذاکرات کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اگر کسی قسم کا معاہدہ نہ ہوا تو یہ انتہائی شرم کا مقام ہو گا۔ جب کہ ہم معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ حالانکہ یہ معاہدہ دو ہفتے قبل ہی ہوتا نظر آ رہا تھا۔ تا ہم روس نے روڑے اٹکانے شروع کر دیے ہیں۔ جو یوکرین جنگ کے بعد اپنے خلاف عائد مغربی ممالک کی پابندیوں میں نرمی کا خواہاں ہے۔
یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں گرمی کی شدت میں انتہائی اضافہ ہو گیا ہے۔ اس شدید گرمی کی لہر نے بیک وقت انٹارکٹیکا اور آرکینک کے بعض حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے ایک ریسرچر نے بتایا کہ یہ یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
گزشتہ ہفتے سائنسدانوں نے اعلان کیا تھا کہ گرمی کی اس تازہ ترین لہر کے دوران انٹارکٹیکا میں نیو یارک شہر کے حجم کے برابر برف کی شیٹ پگھل چکی ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس برفیلے خطے میں برف کی اتنی بڑی شیٹ پگھل گئی۔ اس جنگ کے ماحولیات پر اثرات کا نتیجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 77 سال بعد گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اگر پاکستان کو ہی لے لیں تو اس دفعہ مارچ میں یعنی ایک مہینہ پہلے ہی گرمی کا آغاز ہو گیا ہے۔ سردی مزید سکڑ گئی۔ اللہ خیر کرے اس موسم گرما میں گرمی کی غیر معمولی شدت سے خدا ہی بچائے۔ اوپر سے لوڈ شیڈنگ۔
روس ، یوکرین جنگ کی حقیقت کیا ہے اس بارے میں سابق امریکی ڈیموکریٹ نمایندہ تلسی گیبرڈ کا دعویٰ ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس دونوں اسلحہ ساز کارخانوں کے مالکان کی جیب میں ہیں۔ اور امریکی صدر جوبائیڈن جنھیں جنگ چھیڑنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ انھوں نے ہی عراق جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے 2011 میں ہی افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ عراق جنگ تعیناتی نے بطور فرد میری زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا اور دنیا کے حوالے سے بھی میرا نقطہ نظر یکسر تبدیل ہو گیا۔
وہ کہتی ہیں دنیا میں جنگ ، امریکی مداخلت اور حکومتوں کا تختہ الٹانے کے بارے میں امریکی اشرافیہ کے سخت گیر حلقے امریکی قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ گزشتہ مارچ کے شروع میں انھوں نے الزام لگایا کہ امریکا خفیہ طور پر یوکرین میں خطرناک بائیولوجیکل ریسرچ لیبارٹریز کو فنڈنگ کر رہا ہے جس پر سخت گیر حلقوں نے اس خاتون کو امریکا کا غدار قرار دے دیا۔
جب کہ امریکا نے حالیہ عرصے میں بار بار روس پر بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کا الزام لگایا جس کی روس نے سختی سے تردید کی۔ ذرا اندازہ کریں امریکا کے جھوٹ فریب کا جب کہ ماضی میں انھی جیسے دانش وروں کا موقف تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے کی بڑی وجہ نازی جرمنی نہیں بلکہ امریکا اور برطانیہ تھے جس پر ان شریف لوگوں کو طویل مدت کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا۔ 2004 میں خاتون امریکی ڈیموکریٹ نے عراق میں تعیناتی کے بعد سے انھوں نے دنیا بھر میں امریکی ، فوجی مداخلت کی مخالفت کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ اکثریت کو چھوڑ کر ایسے ایسے بھی انسان دوست امریکا میں پائے جاتے ہیں۔
4، 5 اور 14، 15 اپریل کے درمیان یوکرین جنگ کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے سے مئی کے پہلے ہفتے کے درمیان امریکا، ایران جوہری معاہدہ بحال ہونے کا امکان ہے۔
وہ امریکا ، ایران جوہری معاہدہ جو 2015 میں اوباما دور میں ہوا اور مئی 2018 میں ٹرمپ دور میں اس کا خاتمہ ہوا۔ اب اس کی بحالی کے لیے پچھلے چند ماہ سے مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ جلد از جلد بحال ہو جائے لیکن ایران اس حوالے سے تحفظات کا شکار ہے کہ ماضی کی طرح امریکا اس معاہدے پر دستخط کر کے پھر نہ پیچھے ہٹ جائے۔
وہ معاہدہ جس کے گارنٹر سلامتی کونسل فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس تھے۔ پھر ایران چاہتا ہے کہ اس پر تمام پابندیوں کا فوری خاتمہ کیا جائے، جب کہ امریکا ، ایران پر لگی پابندیوں کا مشروط اور مرحلہ وار خاتمہ چاہتا ہے۔ امریکا اور اتحادیوں کو ڈر ہے کہ معاہدے میں تاخیر کی صورت میں ایران اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو مزید ترقی دے سکتا ہے۔
پچھلے چند مہینوں سے مسلسل یہ خبریں آ رہی ہیںکہ یہ معاہدہ کسی بھی وقت ہونے والا ہے لیکن کیونکہ فیز مکمل ہونے میں ابھی کسر ہے اس لیے نہیں ہو پا رہا۔ آج کل عالمی میڈیا میں یہ خبریں پھر گرم ہیں کہ یہ معاہدہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کیونکہ تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مغرب کو روس کے علاوہ دیگر ممالک کی جانب رجوع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل کا کہنا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔
روس کی جانب سے التواء کے بعد اب ایران نے مذاکرات میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ روس چاہتا تھا کہ ایران کے تیل پر عائد پابندی ختم نہ کی جائے کیونکہ اگر ایران اپنے تیل کی پیداوار شروع کر دے گا تو پھر مارکیٹ میں تیل وافر مقدار میں موجود ہو گا۔ تیل کی قیمتیں گر جائیں گی اور یہ روس اور سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہے۔
خلیجی ممالک کا دورہ مکمل کر کے واپس پہنچنے کے بعد یورپین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جوزف بورل نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے پر مذاکرات کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اگر کسی قسم کا معاہدہ نہ ہوا تو یہ انتہائی شرم کا مقام ہو گا۔ جب کہ ہم معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ حالانکہ یہ معاہدہ دو ہفتے قبل ہی ہوتا نظر آ رہا تھا۔ تا ہم روس نے روڑے اٹکانے شروع کر دیے ہیں۔ جو یوکرین جنگ کے بعد اپنے خلاف عائد مغربی ممالک کی پابندیوں میں نرمی کا خواہاں ہے۔
یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں گرمی کی شدت میں انتہائی اضافہ ہو گیا ہے۔ اس شدید گرمی کی لہر نے بیک وقت انٹارکٹیکا اور آرکینک کے بعض حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے ایک ریسرچر نے بتایا کہ یہ یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
گزشتہ ہفتے سائنسدانوں نے اعلان کیا تھا کہ گرمی کی اس تازہ ترین لہر کے دوران انٹارکٹیکا میں نیو یارک شہر کے حجم کے برابر برف کی شیٹ پگھل چکی ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس برفیلے خطے میں برف کی اتنی بڑی شیٹ پگھل گئی۔ اس جنگ کے ماحولیات پر اثرات کا نتیجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 77 سال بعد گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اگر پاکستان کو ہی لے لیں تو اس دفعہ مارچ میں یعنی ایک مہینہ پہلے ہی گرمی کا آغاز ہو گیا ہے۔ سردی مزید سکڑ گئی۔ اللہ خیر کرے اس موسم گرما میں گرمی کی غیر معمولی شدت سے خدا ہی بچائے۔ اوپر سے لوڈ شیڈنگ۔
روس ، یوکرین جنگ کی حقیقت کیا ہے اس بارے میں سابق امریکی ڈیموکریٹ نمایندہ تلسی گیبرڈ کا دعویٰ ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس دونوں اسلحہ ساز کارخانوں کے مالکان کی جیب میں ہیں۔ اور امریکی صدر جوبائیڈن جنھیں جنگ چھیڑنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ انھوں نے ہی عراق جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے 2011 میں ہی افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ عراق جنگ تعیناتی نے بطور فرد میری زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا اور دنیا کے حوالے سے بھی میرا نقطہ نظر یکسر تبدیل ہو گیا۔
وہ کہتی ہیں دنیا میں جنگ ، امریکی مداخلت اور حکومتوں کا تختہ الٹانے کے بارے میں امریکی اشرافیہ کے سخت گیر حلقے امریکی قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ گزشتہ مارچ کے شروع میں انھوں نے الزام لگایا کہ امریکا خفیہ طور پر یوکرین میں خطرناک بائیولوجیکل ریسرچ لیبارٹریز کو فنڈنگ کر رہا ہے جس پر سخت گیر حلقوں نے اس خاتون کو امریکا کا غدار قرار دے دیا۔
جب کہ امریکا نے حالیہ عرصے میں بار بار روس پر بائیولوجیکل ہتھیار بنانے کا الزام لگایا جس کی روس نے سختی سے تردید کی۔ ذرا اندازہ کریں امریکا کے جھوٹ فریب کا جب کہ ماضی میں انھی جیسے دانش وروں کا موقف تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے کی بڑی وجہ نازی جرمنی نہیں بلکہ امریکا اور برطانیہ تھے جس پر ان شریف لوگوں کو طویل مدت کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا۔ 2004 میں خاتون امریکی ڈیموکریٹ نے عراق میں تعیناتی کے بعد سے انھوں نے دنیا بھر میں امریکی ، فوجی مداخلت کی مخالفت کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ اکثریت کو چھوڑ کر ایسے ایسے بھی انسان دوست امریکا میں پائے جاتے ہیں۔
4، 5 اور 14، 15 اپریل کے درمیان یوکرین جنگ کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے سے مئی کے پہلے ہفتے کے درمیان امریکا، ایران جوہری معاہدہ بحال ہونے کا امکان ہے۔