افغانیوں کو یوکرین کا کوئی احساس نہیں
مغربی دنیا ہر اس ملک سے خفا ہے جو یوکرین کے سلسلے میں اس کے موقف کا حامی نہیں یا پھر غیر جانبدار ہے
رمضان المبارک میں پڑوسیوں کی خبرگیری کسی بھی دیگر قمری مہینے سے زیادہ رکھنے کی روایت ہے۔
پر کتنوں کو خبر ہے کہ اس رمضان میں آپ کے ایک دو تین نہیں لگ بھگ ڈھائی کروڑ پڑوسی سحری کاٹ رہے ہیں اور افطار گذار رہے ہیں۔اور جن گھرانوں میں کوئی مرد کمانے والا نہیں وہ گھرانے سو فیصد غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔یہ اعداد و شمار کوئی ریاستی پروپیگنڈہ نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کے دفتر سے جاری ہوئے ہیں۔
شمالی افغانستان کے ایک قصبے میں آٹھ نفوس پر مشتمل ایک کنبے کی دیکھ بھال کرنے والی فرح ناز (فرضی نام ) آٹھ ماہ پہلے تک مقامی ریڈیو اسٹیشن میں پیش کار اور اسکول میں جزوقتی استانی تھی۔
اس کا بھائی سابق افغان فوج میں تھا۔اسے جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلزم کے مطابق فرح ناز بھی میڈیا سمیت دیگر اداروں کی ان ساٹھ فیصد عورتوں میں شامل ہے جو نئے افغانستان میں ملازمتوں سے سبکدوش کر کے گھر بٹھا دی گئیں۔ان میں سے نوے فیصد خواتین اپنے اہلِ خانہ کی واحد کفیل ہیں۔
فرح ناز نے اپنے شب و روز کے بارے میں بتایا کہ نسبتاً سمجھ دار بچے چوبیس گھنٹے میں ایک بار پیٹ بھرنے کے عادی ہو چلے ہیں۔البتہ چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر اگی کچھ سبزی ابال کر روٹی کے ساتھ دے دی جاتی ہے یا سبز قہوے کے ساتھ نان کا آدھا پونا ٹکڑا تھما دیا جاتا ہے۔
جس دن قہوے میں ڈالنے کے لیے کہیں سے شکر دستیاب ہوجائے تو ان بچوں کے چہرے چمک اٹھتے ہیں۔ایسا نہیں کہ پڑوس کی دکان پر اشیائے خور و نوش نہیں ملتیں، مگر انھیں خریدنے کی سکت کہاں۔
مسئلہ صرف خالی یا بھرے پیٹ کا نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی بطور خوراک میسر ہے کیا اس میں اتنی غذائیت ہے جو بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ جسم کو ضروری توانائی یا نشوونما دے سکے ؟
یہ دیکھنے کے لیے کسی بھی اسپتال کا رخ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔جہاں آٹھ ماہ پہلے تک جنگ کی زد میں آنے والے زخمی عورتوں، بچوں اور مردوں کی تعداد عام مریضوں سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔مگر اب یہ اسپتال ناکافی غذائیت یا فاقہ کشی سے جنم لینے والے مسائل سے جوج رہے مریضوں سے بھرے ہیں اور ان میں بھی بچوں کی اکثریت ہے۔دوائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
طبی عملے کو کئی کئی ماہ معاوضہ نہیں ملتا۔بینکاری کا شعبہ محض پانچ فیصد تک فعال ہے۔ان حالات میں اسپتال اور چھوٹے طبی مراکز مریضوں کی اکثریت کے لیے عملاً '' دلاسا گاہ '' میں بدل چکے ہیں۔
حالات کی ابتری کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ نے کسی بھی بحران زدہ ملک میں خوراک کی کمی کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی اپیل جاری کی۔یعنی فوری طور پر ساڑھے چار ارب ڈالر درکار ہیں تاکہ ستر اور اسی کی دہائی کے ایتھوپیا ، صومالیہ اور جنوبی سوڈان کی طرح بھوک کے سبب اموات کا بڑا سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔
مشکل یہ ہے کہ جنھیں روٹی چاہیے وہ بیرونی و اندرونی حالات کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں جس پر ان کا کوئی بس نہیں۔ جہاں دن بہ دن طالبان انتظامیہ کی خواتین کی تعلیم اور روزگار کے بارے میں پالیسیاں نرم ہونا تو دور کی بات پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوتی جا رہی ہیں تو دوسری جانب امریکا میں افغانستان کی منجمد نو ارب ڈالر کی قومی رقم میں سے بائیڈن انتظامیہ ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون متاثرین کی امداد کے بہانے پہلے ہی کاٹ چکی ہے۔ بقیہ رقم کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس طرح افغان عوام کے کام آئے گی۔
متاثرین تک پہنچ میں بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا بین الاقوامی ادارے نے طالبان انتظامیہ کو بطور قانونی حکومت اب تک تسلیم نہیں کیا ۔نیز طالبان انتظامیہ یہ شرط ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ خارجی دنیا غیر سرکاری فلاحی اداروں کے ذریعے اس رقم سے براہ راست عام افغان کی مدد کے لیے تیار ہے۔امریکا نے ان شرائط کو ضد اور طالبان نے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے یوں یہ گورکھ دھندہ عام افغان کے لیے بقا و فنا کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے گزشتہ دسمبر میں افغان عوام کی ہنگامی مدد کے لیے ایک فنڈ کے قیام کا اعلان تو کر دیا تھا مگر چار ماہ گذرنے کے باوجود یہ محض کاغذوں میں رینگ رہا ہے۔
مرے پے سوواں درہ روس کا یوکرین پر حملہ ہے جس کے سبب سارے میڈیائی کیمرے اور مغربی دنیا کی پوری توجہ یوکرین کے مظلوموں پر منعکس ہو چکی ہے اور افغانستان انسانی ہمدردی کے ایجنڈے میں اوپر سے پھسل کر آخری پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔
اگر ایک جانب امریکا نے افغانستان کی منجمد مالی امانت میں سے لگ بھگ نصف رقم کتر کے تقریباً پونے تین کروڑ افغان ضرورت مندوں کے تناظر میں اخلاقی دیوالیہ پن کی تمام حدود عبور کر لی ہیں تو دوسری طرف یوکرین کے چالیس لاکھ پناہ گزینوں کے لیے نہ صرف پانچ متصل ممالک نے اپنے دل اور سرحدیں پوری طرح وا کر دی ہیں بلکہ امریکا نے اپنے خزانے کا منہ بھی کھول دیا ہے۔
اس والہانہ ہمدردی کا ثبوت یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے یوکرین کے مصیبت زدگان کے لیے دس ارب ڈالر کی ہنگامی امداد منظور کرنے کی اپیل کی۔کانگریس نے اس عدد کو ناکافی جانتے ہوئے خود ہی بڑھا کے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کر دیا۔
مغربی دنیا ہر اس ملک سے خفا ہے جو یوکرین کے سلسلے میں اس کے موقف کا حامی نہیں یا پھر غیر جانبدار ہے،جب کہ یمن اور افغانستان جہاں مجموعی طور پر اس وقت پانچ کروڑ سے زائد انسان زندگی اور موت کے درمیان پنڈولم بنے ہوئے ہیں میڈیا اور مخیر حکومتوں کے ریڈار سے بالکل غائب ہیں۔
شمالی افغانستان کی فرح ناز اور اس پر تکیہ کرنے والے کنبے کے آٹھ بچوں اور خواتین کو امریکا کا تو کچھ نہ کچھ اندازہ ہے البتہ یوکرین کے مصائب کا قطعاً ادراک نہیں۔
انھیں تو بس یہ پڑی ہے کہ بڑے بھلے رات کو بھوکے سو جائیں مگر بچوں کو کم ازکم اور کچھ نہیں تو قہوے کے ساتھ بھگونے کے لیے روٹی کا ٹکڑا مل جائے۔بچے روتے رہیں گے تو بڑے بھی کیسے سو پائیں گے اور پھر منہ اندھیرے روزہ کیونکر رکھیں گے ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
پر کتنوں کو خبر ہے کہ اس رمضان میں آپ کے ایک دو تین نہیں لگ بھگ ڈھائی کروڑ پڑوسی سحری کاٹ رہے ہیں اور افطار گذار رہے ہیں۔اور جن گھرانوں میں کوئی مرد کمانے والا نہیں وہ گھرانے سو فیصد غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔یہ اعداد و شمار کوئی ریاستی پروپیگنڈہ نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز کے دفتر سے جاری ہوئے ہیں۔
شمالی افغانستان کے ایک قصبے میں آٹھ نفوس پر مشتمل ایک کنبے کی دیکھ بھال کرنے والی فرح ناز (فرضی نام ) آٹھ ماہ پہلے تک مقامی ریڈیو اسٹیشن میں پیش کار اور اسکول میں جزوقتی استانی تھی۔
اس کا بھائی سابق افغان فوج میں تھا۔اسے جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلزم کے مطابق فرح ناز بھی میڈیا سمیت دیگر اداروں کی ان ساٹھ فیصد عورتوں میں شامل ہے جو نئے افغانستان میں ملازمتوں سے سبکدوش کر کے گھر بٹھا دی گئیں۔ان میں سے نوے فیصد خواتین اپنے اہلِ خانہ کی واحد کفیل ہیں۔
فرح ناز نے اپنے شب و روز کے بارے میں بتایا کہ نسبتاً سمجھ دار بچے چوبیس گھنٹے میں ایک بار پیٹ بھرنے کے عادی ہو چلے ہیں۔البتہ چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر اگی کچھ سبزی ابال کر روٹی کے ساتھ دے دی جاتی ہے یا سبز قہوے کے ساتھ نان کا آدھا پونا ٹکڑا تھما دیا جاتا ہے۔
جس دن قہوے میں ڈالنے کے لیے کہیں سے شکر دستیاب ہوجائے تو ان بچوں کے چہرے چمک اٹھتے ہیں۔ایسا نہیں کہ پڑوس کی دکان پر اشیائے خور و نوش نہیں ملتیں، مگر انھیں خریدنے کی سکت کہاں۔
مسئلہ صرف خالی یا بھرے پیٹ کا نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی بطور خوراک میسر ہے کیا اس میں اتنی غذائیت ہے جو بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ جسم کو ضروری توانائی یا نشوونما دے سکے ؟
یہ دیکھنے کے لیے کسی بھی اسپتال کا رخ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔جہاں آٹھ ماہ پہلے تک جنگ کی زد میں آنے والے زخمی عورتوں، بچوں اور مردوں کی تعداد عام مریضوں سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔مگر اب یہ اسپتال ناکافی غذائیت یا فاقہ کشی سے جنم لینے والے مسائل سے جوج رہے مریضوں سے بھرے ہیں اور ان میں بھی بچوں کی اکثریت ہے۔دوائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
طبی عملے کو کئی کئی ماہ معاوضہ نہیں ملتا۔بینکاری کا شعبہ محض پانچ فیصد تک فعال ہے۔ان حالات میں اسپتال اور چھوٹے طبی مراکز مریضوں کی اکثریت کے لیے عملاً '' دلاسا گاہ '' میں بدل چکے ہیں۔
حالات کی ابتری کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ نے کسی بھی بحران زدہ ملک میں خوراک کی کمی کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی اپیل جاری کی۔یعنی فوری طور پر ساڑھے چار ارب ڈالر درکار ہیں تاکہ ستر اور اسی کی دہائی کے ایتھوپیا ، صومالیہ اور جنوبی سوڈان کی طرح بھوک کے سبب اموات کا بڑا سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔
مشکل یہ ہے کہ جنھیں روٹی چاہیے وہ بیرونی و اندرونی حالات کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں جس پر ان کا کوئی بس نہیں۔ جہاں دن بہ دن طالبان انتظامیہ کی خواتین کی تعلیم اور روزگار کے بارے میں پالیسیاں نرم ہونا تو دور کی بات پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوتی جا رہی ہیں تو دوسری جانب امریکا میں افغانستان کی منجمد نو ارب ڈالر کی قومی رقم میں سے بائیڈن انتظامیہ ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون متاثرین کی امداد کے بہانے پہلے ہی کاٹ چکی ہے۔ بقیہ رقم کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس طرح افغان عوام کے کام آئے گی۔
متاثرین تک پہنچ میں بنیادی رکاوٹ یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا بین الاقوامی ادارے نے طالبان انتظامیہ کو بطور قانونی حکومت اب تک تسلیم نہیں کیا ۔نیز طالبان انتظامیہ یہ شرط ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ خارجی دنیا غیر سرکاری فلاحی اداروں کے ذریعے اس رقم سے براہ راست عام افغان کی مدد کے لیے تیار ہے۔امریکا نے ان شرائط کو ضد اور طالبان نے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے یوں یہ گورکھ دھندہ عام افغان کے لیے بقا و فنا کا مسئلہ بن گیا ہے۔
اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے گزشتہ دسمبر میں افغان عوام کی ہنگامی مدد کے لیے ایک فنڈ کے قیام کا اعلان تو کر دیا تھا مگر چار ماہ گذرنے کے باوجود یہ محض کاغذوں میں رینگ رہا ہے۔
مرے پے سوواں درہ روس کا یوکرین پر حملہ ہے جس کے سبب سارے میڈیائی کیمرے اور مغربی دنیا کی پوری توجہ یوکرین کے مظلوموں پر منعکس ہو چکی ہے اور افغانستان انسانی ہمدردی کے ایجنڈے میں اوپر سے پھسل کر آخری پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔
اگر ایک جانب امریکا نے افغانستان کی منجمد مالی امانت میں سے لگ بھگ نصف رقم کتر کے تقریباً پونے تین کروڑ افغان ضرورت مندوں کے تناظر میں اخلاقی دیوالیہ پن کی تمام حدود عبور کر لی ہیں تو دوسری طرف یوکرین کے چالیس لاکھ پناہ گزینوں کے لیے نہ صرف پانچ متصل ممالک نے اپنے دل اور سرحدیں پوری طرح وا کر دی ہیں بلکہ امریکا نے اپنے خزانے کا منہ بھی کھول دیا ہے۔
اس والہانہ ہمدردی کا ثبوت یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے یوکرین کے مصیبت زدگان کے لیے دس ارب ڈالر کی ہنگامی امداد منظور کرنے کی اپیل کی۔کانگریس نے اس عدد کو ناکافی جانتے ہوئے خود ہی بڑھا کے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کر دیا۔
مغربی دنیا ہر اس ملک سے خفا ہے جو یوکرین کے سلسلے میں اس کے موقف کا حامی نہیں یا پھر غیر جانبدار ہے،جب کہ یمن اور افغانستان جہاں مجموعی طور پر اس وقت پانچ کروڑ سے زائد انسان زندگی اور موت کے درمیان پنڈولم بنے ہوئے ہیں میڈیا اور مخیر حکومتوں کے ریڈار سے بالکل غائب ہیں۔
شمالی افغانستان کی فرح ناز اور اس پر تکیہ کرنے والے کنبے کے آٹھ بچوں اور خواتین کو امریکا کا تو کچھ نہ کچھ اندازہ ہے البتہ یوکرین کے مصائب کا قطعاً ادراک نہیں۔
انھیں تو بس یہ پڑی ہے کہ بڑے بھلے رات کو بھوکے سو جائیں مگر بچوں کو کم ازکم اور کچھ نہیں تو قہوے کے ساتھ بھگونے کے لیے روٹی کا ٹکڑا مل جائے۔بچے روتے رہیں گے تو بڑے بھی کیسے سو پائیں گے اور پھر منہ اندھیرے روزہ کیونکر رکھیں گے ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)