سیکیورٹی اداروں کو تحریک عدم اعتماد میں بیرونی سازش کے ثبوت نہیں ملے رائٹرز
وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیتے ہوئے خط کو بطور ثبوت پیش کیا تھا
رائٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خط کی تحقیقات کرنے والے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں بیرون ملک کی سازش کے شواہد نہیں ملے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیرملکی سازش قرار دیکر اس حوالے سے ایک دھمکی آمیز خط بھی بطور ثبوت پیش کیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کے اس انکشاف پر پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے کی جانے والی تفتیش سے آگاہ ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ ملکی سیکیورٹی ایجنسیوں کو وزیراعظم کےالزام کی تصدیق کے قابل اعتماد شواہد نہیں ملے۔
عہدیدار نے رائٹرز کو مزید بتایا کہ خط کے حوالے سے تحقیقات کے دوران سیکیورٹی ایجنسیاں وزیراعظم عمران خان کے بیان کردہ نتائج پر نہیں پہنچ سکی ہیں۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پہلی بار 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ایک خط لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ایک بڑا ملک باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی اور یہ خط اس کا ثبوت ہے۔
بعد ازاں قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم کی زبان پھسل گئی اور انھوں نے امریکا کا نام لے لیا لیکن پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ امریکا نہیں کوئی دوسرا ملک تاہم اس کے بعد دو مختلف مقامات پر وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف امریکا کا نام لے لیا بلکہ امریکی سفارت کار کا نام بھی بتایا تھا۔
اسی خط کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا تھا جس کے فوری بعد وزیراعظم نے صدر پاکستان کو حکومت تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی جس پر صدر عارف علوی نے اسمبلی تحلیل کرکے 90 روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔
ڈرامائی انداز سے تبدیل ہوتی صورت حال پر اپوزیشن جماعتیں سپریم کورٹ پہنچ گئیں جہاں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی اسی خط کے جواز پر تحریک عدم اعتماد کو آرٹیکل 5 کے تحت مسترد کرنے پر سماعت جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیرملکی سازش قرار دیکر اس حوالے سے ایک دھمکی آمیز خط بھی بطور ثبوت پیش کیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کے اس انکشاف پر پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے کی جانے والی تفتیش سے آگاہ ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ ملکی سیکیورٹی ایجنسیوں کو وزیراعظم کےالزام کی تصدیق کے قابل اعتماد شواہد نہیں ملے۔
عہدیدار نے رائٹرز کو مزید بتایا کہ خط کے حوالے سے تحقیقات کے دوران سیکیورٹی ایجنسیاں وزیراعظم عمران خان کے بیان کردہ نتائج پر نہیں پہنچ سکی ہیں۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پہلی بار 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ایک خط لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ایک بڑا ملک باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی اور یہ خط اس کا ثبوت ہے۔
بعد ازاں قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم کی زبان پھسل گئی اور انھوں نے امریکا کا نام لے لیا لیکن پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ امریکا نہیں کوئی دوسرا ملک تاہم اس کے بعد دو مختلف مقامات پر وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف امریکا کا نام لے لیا بلکہ امریکی سفارت کار کا نام بھی بتایا تھا۔
اسی خط کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا تھا جس کے فوری بعد وزیراعظم نے صدر پاکستان کو حکومت تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی جس پر صدر عارف علوی نے اسمبلی تحلیل کرکے 90 روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔
ڈرامائی انداز سے تبدیل ہوتی صورت حال پر اپوزیشن جماعتیں سپریم کورٹ پہنچ گئیں جہاں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی اسی خط کے جواز پر تحریک عدم اعتماد کو آرٹیکل 5 کے تحت مسترد کرنے پر سماعت جاری ہے۔