زخمِ تنہائی رضیہ فصیح احمد آخری حصہ
رضیہ فصیح احمد کے نئے افسانے میں عمر ایک بڑے ڈرامے یا دھمکی کی طرح آتی ہے
ISLAMABAD:
رضیہ فصیح احمد پاکستان آتی رہیں، جاتی رہیں۔ آخری مرتبہ آئیں تو ان سے صفیہ خیری صاحبہ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ صفیہ خیری جا چکی ہیں اور ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔
صفیہ خیری صاحبہ ایک دبنگ خاتون تھیں۔ نہایت عالم فاضل اور روبرو اختلاف کرنے والی خاتون۔ انھوں نے ایک لفظ کے تلفظ پر مجھ سے اختلاف کیا، میں غلط تھی اور وہ درست، میں ان کے درجات بلند ہونے کی دعا کرتی ہوں۔
امریکا سے آنے والے فون پر ہم دونوں انھیں اور جانے کن کن دوستوں کو یاد کرتے رہے۔ ڈاکٹر عذرا رضا جو مجھے ان سے ملوانے کے لیے لے گئی تھیں اب عذرا رضا ایک سلیبریٹی بن چکی ہیں، چند ہفتوں پہلے کراچی آنے والی تھیں لیکن ان کا وہ سفر موخر ہوا۔ میں انھیں اس کے بارے میں بتاتی رہی۔ پھر ہم نے پاکستان کی ایک مشہور لکھنے والی سارہ سلہری کی رخصت کے بارے میں اطلاع دی۔
خبریں ان کے پاس بھی کچھ کم نہ تھیں۔ وہ اپنی شاعری کے بارے میں اطلاع دیتی رہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ اعلیٰ نثر نگار ہیں اور انھیں شاعری کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں اپنے ناول ''آبلہ پا'' پر آدم جی ایوارڈ ملا اور اس کے متعدد ایڈیشن شایع ہوئے اس کی ڈرامائی تشکیل رضیہ آپا کی فرمائش پرمیں نے کی اور اس کی ہدایات قاسم جلالی نے انجام دیں۔
ان کی کہانیوں کے بارے میں ڈاکٹر انوار احمد کا کہنا ہے کہ رضیہ فصیح احمد زیادہ تر صیغہ واحد متکلم میں کہانیاں سناتی ہیں، ان کی کہانیوں کا یہ مرکزی کردار (صیغۂ واحد متکلم) بڑا باشعور اور معاملہ فہم ہے جو تمام الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانا جانتا ہے۔
'مکعب' کا 'میں' مصوری اور فطری حسن کا دلدادہ، ایک ایسا کردار جو کائنات کی ناممکنات کو اپنے ایمان اور عقیدے کی طاقت کے بل پر ممکن بنانا جانتا ہے، جس کے نزدیک خوشی، زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے جسے وہ تحقیق و جستجو سے حاصل کرسکتا ہے۔ رضیہ کے بیشتر افسانوں کے کردار فلسفیانہ گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ نہ صرف زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتے ہیں اور ان کو سدھارنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں: ''مجھے مچھلیوں سے عشق ہے مگر میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہوں، تتلی جو پانی کو موت سمجھتی ہے اور فنکاروں کی انا کی طرح ہواؤں میں اڑتی ہے، یہ ہم انسانوں کی ناسمجھی ہی ہوتی ہے کہ سیپ ڈھونڈنے ہوں تو جوہری کی دکان پر جاتے ہیں، خدا کی تلاش ہو تو آدمیوں کی جبہ سائی کرتے ہیں، ہماری منزل کچھ اور ہوتی ہے اور ہم راہ کچھ اور ہی اختیار کرتے ہیں۔''
رضیہ فصیح احمد کے افسانوں کی ہیروئن عموما متوسط طبقے کی وہ تعلیم یافتہ لڑکی ہے جو طعنوں اور تہمتوں کی دنیا میں سربلند ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں اسے کبھی کامیابی ہوتی ہے اور کبھی ناکامی۔ 'چوہا' کی شہلا تو ہمارے سماجی تناظر میں ایک غیر معمولی کردار ہے جو ایک معذور نوجوان پر اس طرح ترس کھاتی ہے کہ کسی عورت کو پیسے دے کر اسے اپنی دانست میں جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے، دیگر خاتون افسانہ نگاروں کی طرح رضیہ کی توجہ بھی فرد سے زیادہ کنبے کی جانب ہے۔ چنانچہ ان کے اکثر افسانوں میں آپاؤں اور باجیوں کے ساتھ خالاؤں اور ممانیوں کا ہجوم بھی ملتا ہے۔
رضیہ فصیح احمد کے نئے افسانے میں عمر ایک بڑے ڈرامے یا دھمکی کی طرح آتی ہے اور اس کے مقابل کسی خوبصورت مگر ڈھلتی عمر کی عورت کو بے بس کر دیتی ہے، جب اس کی زندگی میں آنے والا یا اس کی نگاہوں میں جچنے والا مرد، اس کی بیٹی کو ہی پسند کر لے، کیونکہ اب اس کی کنبہ کہانی میں چھوٹی اور بڑی بہن کی 'رقابت'، ماں ، بیٹی کی جذباتی آویزش میں تبدیل ہو چکی ہے ''جب اس نے ماں کی طرف دیکھا تو ان کا چہرہ اس بڑے بے عیب ہیرے سے بھی زیادہ سفید پڑ چکا تھا۔''
ان کا ایک افسانہ ''مامتا'' ایک دل موہ لینے والا افسانہ ہے۔بات رات گئے آنے والے ان کے فون اور ان کے ناول ''زخم تنہائی'' سے شروع ہوئی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ عرصہ دراز بعد 1958 میں جب ان پر لکھے ہوئے نوٹس اور تراشے نکال کر دیکھے تو اندازہ ہوا کہ ابھی تو اس میں بہت سارا کام رفو کیا ہے۔ رضیہ آپا نے چکن کاری کیسی کی ہو ، رفوگری خوب کرتی ہیں۔ ان کی رفوگری اور بخیہ گری خوب کی ہے اور وہ خوب ہے۔
رضیہ فصیح احمد عصری اردو ادب کے اہم ناموں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے برانٹے خاندان پر ''زخمِ تنہائی'' لکھا جو اردو ادب میں اہم اضافہ ہے۔ وہ کراچی میں رہیں تو ان سے ہر دوسرے چوتھے روز ملاقات رہی اور ان ملاقاتوں میں جمیل زبیری، فردوس حیدر، طاہر آفریدی، امراؤ طارق اور بہت سے دوسرے شامل رہے۔ وہ سچ بات کو بے دھڑک کہہ اور لکھ دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک نہ بولے جید ادیب کے افسانے ''مہران کی شاعرہ'' کے پرخچے اڑا دیے۔ اور وہ جس مشہور انگریزی ادیب کے افسانے کا چربہ تھی، اسے سطر بہ سطر نقل کردیا اور ستم یہ کیا کہ رسالہ ''غالب'' میں چھپوا دیا۔ وہ ادیب افسانہ نگار سے زیادہ ''فلسفی'' مشہور تھے، ان کا ایک بڑا حلقہ مریدوں کا موجود تھا۔ انھوں نے رضیہ آپا کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔ انھوں نے مجھ سے شکایت کی، اس لیے کہ وہ ادیب مجھ سے تعلق خاطر رکھتے تھے۔ ہمارے درمیان خاصی بدمزگی رہی۔ وہ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے کہ یہ ان کا سرقہ ہے۔
اب نہ پروین شاکر رہیں اور نہ ذکاء الرحمن رہے۔ وہ باتیں جوکسی لمحے نہایت اہم معلوم ہوتی ہیں، وہیں وقت گزرنے پر کس قدر غیر اہم ہو جاتی ہے۔ ان دنوں جب کہ ساری دنیا میں روس اور یوکرین کی جنگ، اس کی تباہ کاری اور خانماں برباد ہو جانے والوں کی خبریں اور وڈیو فلمیں ہیں، مجھے ایسے میں شارلٹ برانٹی کے چند خط یاد آتے ہیں جن میں وہ لکھتی ہے کہ بعض باتوں کے بارے میں میری سوچ وہ نہیں رہی جو اب سے دس برس پہلے تھی اور ان میں سے ایک جنگ کا دبدبہ اور شان و شوکت ہے۔ یہ میری نظر میں اپنی ساری چمک دمک کھو چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جذباتی سلسلے انفرادی طور پر اور قوموں میں زندگی کا بھرپور احساس جگاتے ہیں۔ قومی سطح پر خطروں کا خوف وقتی طور پر لوگوں کو اپنے ذاتی چھوٹے چھوٹے مفادات سے ہٹا دیتا ہے اور اس وقت ان کے خیالات میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے، مگر ساتھ ہی مجھے یقین ہے کہ لرزہ خیز انقلابات زمانے کو پیچھے لے جاتے ہیں۔ تہذیب کی بڑھن کو روکتے اور معاشرے کی جمی ہوئی تلچھٹ کو اوپر اچھال دیتے ہیں۔ غرض کہ میرے نزدیک انقلابات اور جنگیں قوموں میں پیدا ہونے والے خطرناک مرض ہیں اور ان کا طریقہ کار ہی یہی ہے کہ اپنی شدت سے ان ملکوں کی قوتِ حیات کی ساری توانائی کو روک دیتے ہیں جہاں یہ انقلابات اور لڑائیاں برپا ہوتی ہیں۔
لیوس نے جب اسے لکھا تھا کہ وہ صرف اپنے تجربات تحریر کرے اور ان سے باہر نہ جائے۔ تو بہت جوش سے اس نے پوچھا تھا: جب لکھنے والا بہترین طور پر لکھ رہا ہوتا ہے، یا کم از کم بہت روانی سے لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کے اندر کوئی جذبہ خود بخود بیدار ہو جاتا ہے، جو لکھنے والے پر حاوی ہو کر اپنا حکم چلاتا ہے۔ الفاظ بھی وہ خود ہی لکھواتا ہے، ان کو استعمال کرنے پر زور دیتا ہے، چاہے وہ نپے تلے ہوں یا شدت پسند ہوں۔ کرداروں کو نئے زاویے اور واقعات کو اچھوتے موڑ دیتا ہے اور پہلے کے سوچے سمجھے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ وہ فوری طور پر نئے خیالات کی تخلیق کرتا جاتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوتا؟ کیا ہمیں اس جذبے کی نفی کرنی چاہیے، اور کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟
چند برسوں کے اندر اردو ادب کے اہم ترین نام چلے گئے ہیں ، ایسے میں رضیہ آپا کی دارزی عمر اور ان کی تخلیقی زندگی کی سرگرمیوں کے لیے دعا کرتی ہوں ۔
رضیہ فصیح احمد پاکستان آتی رہیں، جاتی رہیں۔ آخری مرتبہ آئیں تو ان سے صفیہ خیری صاحبہ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ صفیہ خیری جا چکی ہیں اور ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔
صفیہ خیری صاحبہ ایک دبنگ خاتون تھیں۔ نہایت عالم فاضل اور روبرو اختلاف کرنے والی خاتون۔ انھوں نے ایک لفظ کے تلفظ پر مجھ سے اختلاف کیا، میں غلط تھی اور وہ درست، میں ان کے درجات بلند ہونے کی دعا کرتی ہوں۔
امریکا سے آنے والے فون پر ہم دونوں انھیں اور جانے کن کن دوستوں کو یاد کرتے رہے۔ ڈاکٹر عذرا رضا جو مجھے ان سے ملوانے کے لیے لے گئی تھیں اب عذرا رضا ایک سلیبریٹی بن چکی ہیں، چند ہفتوں پہلے کراچی آنے والی تھیں لیکن ان کا وہ سفر موخر ہوا۔ میں انھیں اس کے بارے میں بتاتی رہی۔ پھر ہم نے پاکستان کی ایک مشہور لکھنے والی سارہ سلہری کی رخصت کے بارے میں اطلاع دی۔
خبریں ان کے پاس بھی کچھ کم نہ تھیں۔ وہ اپنی شاعری کے بارے میں اطلاع دیتی رہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ اعلیٰ نثر نگار ہیں اور انھیں شاعری کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں اپنے ناول ''آبلہ پا'' پر آدم جی ایوارڈ ملا اور اس کے متعدد ایڈیشن شایع ہوئے اس کی ڈرامائی تشکیل رضیہ آپا کی فرمائش پرمیں نے کی اور اس کی ہدایات قاسم جلالی نے انجام دیں۔
ان کی کہانیوں کے بارے میں ڈاکٹر انوار احمد کا کہنا ہے کہ رضیہ فصیح احمد زیادہ تر صیغہ واحد متکلم میں کہانیاں سناتی ہیں، ان کی کہانیوں کا یہ مرکزی کردار (صیغۂ واحد متکلم) بڑا باشعور اور معاملہ فہم ہے جو تمام الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانا جانتا ہے۔
'مکعب' کا 'میں' مصوری اور فطری حسن کا دلدادہ، ایک ایسا کردار جو کائنات کی ناممکنات کو اپنے ایمان اور عقیدے کی طاقت کے بل پر ممکن بنانا جانتا ہے، جس کے نزدیک خوشی، زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے جسے وہ تحقیق و جستجو سے حاصل کرسکتا ہے۔ رضیہ کے بیشتر افسانوں کے کردار فلسفیانہ گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ نہ صرف زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھتے ہیں اور ان کو سدھارنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں: ''مجھے مچھلیوں سے عشق ہے مگر میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہوں، تتلی جو پانی کو موت سمجھتی ہے اور فنکاروں کی انا کی طرح ہواؤں میں اڑتی ہے، یہ ہم انسانوں کی ناسمجھی ہی ہوتی ہے کہ سیپ ڈھونڈنے ہوں تو جوہری کی دکان پر جاتے ہیں، خدا کی تلاش ہو تو آدمیوں کی جبہ سائی کرتے ہیں، ہماری منزل کچھ اور ہوتی ہے اور ہم راہ کچھ اور ہی اختیار کرتے ہیں۔''
رضیہ فصیح احمد کے افسانوں کی ہیروئن عموما متوسط طبقے کی وہ تعلیم یافتہ لڑکی ہے جو طعنوں اور تہمتوں کی دنیا میں سربلند ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں اسے کبھی کامیابی ہوتی ہے اور کبھی ناکامی۔ 'چوہا' کی شہلا تو ہمارے سماجی تناظر میں ایک غیر معمولی کردار ہے جو ایک معذور نوجوان پر اس طرح ترس کھاتی ہے کہ کسی عورت کو پیسے دے کر اسے اپنی دانست میں جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے، دیگر خاتون افسانہ نگاروں کی طرح رضیہ کی توجہ بھی فرد سے زیادہ کنبے کی جانب ہے۔ چنانچہ ان کے اکثر افسانوں میں آپاؤں اور باجیوں کے ساتھ خالاؤں اور ممانیوں کا ہجوم بھی ملتا ہے۔
رضیہ فصیح احمد کے نئے افسانے میں عمر ایک بڑے ڈرامے یا دھمکی کی طرح آتی ہے اور اس کے مقابل کسی خوبصورت مگر ڈھلتی عمر کی عورت کو بے بس کر دیتی ہے، جب اس کی زندگی میں آنے والا یا اس کی نگاہوں میں جچنے والا مرد، اس کی بیٹی کو ہی پسند کر لے، کیونکہ اب اس کی کنبہ کہانی میں چھوٹی اور بڑی بہن کی 'رقابت'، ماں ، بیٹی کی جذباتی آویزش میں تبدیل ہو چکی ہے ''جب اس نے ماں کی طرف دیکھا تو ان کا چہرہ اس بڑے بے عیب ہیرے سے بھی زیادہ سفید پڑ چکا تھا۔''
ان کا ایک افسانہ ''مامتا'' ایک دل موہ لینے والا افسانہ ہے۔بات رات گئے آنے والے ان کے فون اور ان کے ناول ''زخم تنہائی'' سے شروع ہوئی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ عرصہ دراز بعد 1958 میں جب ان پر لکھے ہوئے نوٹس اور تراشے نکال کر دیکھے تو اندازہ ہوا کہ ابھی تو اس میں بہت سارا کام رفو کیا ہے۔ رضیہ آپا نے چکن کاری کیسی کی ہو ، رفوگری خوب کرتی ہیں۔ ان کی رفوگری اور بخیہ گری خوب کی ہے اور وہ خوب ہے۔
رضیہ فصیح احمد عصری اردو ادب کے اہم ناموں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے برانٹے خاندان پر ''زخمِ تنہائی'' لکھا جو اردو ادب میں اہم اضافہ ہے۔ وہ کراچی میں رہیں تو ان سے ہر دوسرے چوتھے روز ملاقات رہی اور ان ملاقاتوں میں جمیل زبیری، فردوس حیدر، طاہر آفریدی، امراؤ طارق اور بہت سے دوسرے شامل رہے۔ وہ سچ بات کو بے دھڑک کہہ اور لکھ دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک نہ بولے جید ادیب کے افسانے ''مہران کی شاعرہ'' کے پرخچے اڑا دیے۔ اور وہ جس مشہور انگریزی ادیب کے افسانے کا چربہ تھی، اسے سطر بہ سطر نقل کردیا اور ستم یہ کیا کہ رسالہ ''غالب'' میں چھپوا دیا۔ وہ ادیب افسانہ نگار سے زیادہ ''فلسفی'' مشہور تھے، ان کا ایک بڑا حلقہ مریدوں کا موجود تھا۔ انھوں نے رضیہ آپا کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔ انھوں نے مجھ سے شکایت کی، اس لیے کہ وہ ادیب مجھ سے تعلق خاطر رکھتے تھے۔ ہمارے درمیان خاصی بدمزگی رہی۔ وہ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے کہ یہ ان کا سرقہ ہے۔
اب نہ پروین شاکر رہیں اور نہ ذکاء الرحمن رہے۔ وہ باتیں جوکسی لمحے نہایت اہم معلوم ہوتی ہیں، وہیں وقت گزرنے پر کس قدر غیر اہم ہو جاتی ہے۔ ان دنوں جب کہ ساری دنیا میں روس اور یوکرین کی جنگ، اس کی تباہ کاری اور خانماں برباد ہو جانے والوں کی خبریں اور وڈیو فلمیں ہیں، مجھے ایسے میں شارلٹ برانٹی کے چند خط یاد آتے ہیں جن میں وہ لکھتی ہے کہ بعض باتوں کے بارے میں میری سوچ وہ نہیں رہی جو اب سے دس برس پہلے تھی اور ان میں سے ایک جنگ کا دبدبہ اور شان و شوکت ہے۔ یہ میری نظر میں اپنی ساری چمک دمک کھو چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جذباتی سلسلے انفرادی طور پر اور قوموں میں زندگی کا بھرپور احساس جگاتے ہیں۔ قومی سطح پر خطروں کا خوف وقتی طور پر لوگوں کو اپنے ذاتی چھوٹے چھوٹے مفادات سے ہٹا دیتا ہے اور اس وقت ان کے خیالات میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے، مگر ساتھ ہی مجھے یقین ہے کہ لرزہ خیز انقلابات زمانے کو پیچھے لے جاتے ہیں۔ تہذیب کی بڑھن کو روکتے اور معاشرے کی جمی ہوئی تلچھٹ کو اوپر اچھال دیتے ہیں۔ غرض کہ میرے نزدیک انقلابات اور جنگیں قوموں میں پیدا ہونے والے خطرناک مرض ہیں اور ان کا طریقہ کار ہی یہی ہے کہ اپنی شدت سے ان ملکوں کی قوتِ حیات کی ساری توانائی کو روک دیتے ہیں جہاں یہ انقلابات اور لڑائیاں برپا ہوتی ہیں۔
لیوس نے جب اسے لکھا تھا کہ وہ صرف اپنے تجربات تحریر کرے اور ان سے باہر نہ جائے۔ تو بہت جوش سے اس نے پوچھا تھا: جب لکھنے والا بہترین طور پر لکھ رہا ہوتا ہے، یا کم از کم بہت روانی سے لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کے اندر کوئی جذبہ خود بخود بیدار ہو جاتا ہے، جو لکھنے والے پر حاوی ہو کر اپنا حکم چلاتا ہے۔ الفاظ بھی وہ خود ہی لکھواتا ہے، ان کو استعمال کرنے پر زور دیتا ہے، چاہے وہ نپے تلے ہوں یا شدت پسند ہوں۔ کرداروں کو نئے زاویے اور واقعات کو اچھوتے موڑ دیتا ہے اور پہلے کے سوچے سمجھے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ وہ فوری طور پر نئے خیالات کی تخلیق کرتا جاتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوتا؟ کیا ہمیں اس جذبے کی نفی کرنی چاہیے، اور کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟
چند برسوں کے اندر اردو ادب کے اہم ترین نام چلے گئے ہیں ، ایسے میں رضیہ آپا کی دارزی عمر اور ان کی تخلیقی زندگی کی سرگرمیوں کے لیے دعا کرتی ہوں ۔