سورج مکھی کے زردانوں سے بنا کاغذ جس پر بار بار لکھا جاسکتا ہے
جدید کاغذ کیمیائی اجزا سے صاف ہوجاتا ہے اور اسے بہت آسانی سے بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے
PESHAWAR:
اگرچہ کاغذ کو بازیافت (ری سائیکل) کرنا ایک بہتر طریقہ ہے لیکن سنگاپور کے سائنسدانوں نے سورج مکھی پھول کے زردانوں سے ایک نیا کاغذ بنایا ہے جسے بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پولن گرین سے بنا یہ کاغذ ایک کیمیکل سے صاف ہوجاتا ہےجس کے بعد اسے دوبارہ چھاپا اور لکھا جاسکتا ہے۔ سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی نے دو سال قبل اس کاغذ پر کام شروع کیا۔ اس کی تیاری عین صابن سازی کی ہی طرح ہے جس میں پوٹاشیئم ہائیڈروآکسائیڈ استعمال کی گئی ہے جو سورج مکھی زردانے کے بیرونی سخت خول کو گھلادیتی ہے۔
اب تبدیل شدہ زردانوں کا نرم اندرونی حصہ باقی رہتا ہے سے ڈی آئیونائزڈ پانی سے دھوکر مزید صاف اور خالص بنایا جاتا ہے۔ اب زردانوں سے ایک نیم مائع جل بنایا گیا۔ اس کے بعد تبدیل شدہ زردانے والے جیل کو ایک سانچے میں رکھ کر خشک کرکے دبایا گیا تو صرف 0.03 ملی میٹر پتلا کاغذ ڈھالا گیا اور اس پر اسیٹک ایسڈ گزار کر نمی سے پاک کیا گیا۔
اس طرح ہموار، پتلا اور نیم شفاف کاغذ ہاتھ آیا جو لیزرپرنٹرسے گزر کر پرنٹنگ کے قابل ہے اور روایتی ٹونر اس پر تصاویر اور الفاظ چھاپے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد کاغذ گیلا بھی ہوجائے تب بھی اس کی پرنٹنگ غائب نہیں ہوتی۔
اب کاغذ کو دوبارہ لکھنے کے قابل بنانے کے لیے اسے الکلائن محلول میں دو منٹ رکھ کر ہلایا جائے تو سارا لکھا چھپا غائب ہوجاتا ہے۔ اسے خشک کرکے اب دوسری، تیسری اور کئی بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں کاغذ بار بار استعمال ہوسکتا ہے لیکن اس کے معیار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ درخت ضائع کئے بغیر سورج مکھی کے فالتو زردانوں سے انقلابی کاغذ کا پورا کارخانہ لگانا ممکن ہے۔ جبکہ کنول اور کامیلیا کے زردانوں سے بھی یہ کاغذ بنایا جاسکتا ہے۔
اس اہم ایجاد کی تفصیل جرنل آف اینڈوانسڈ مٹیریئل میں شائع ہوئی ہیں۔
اگرچہ کاغذ کو بازیافت (ری سائیکل) کرنا ایک بہتر طریقہ ہے لیکن سنگاپور کے سائنسدانوں نے سورج مکھی پھول کے زردانوں سے ایک نیا کاغذ بنایا ہے جسے بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پولن گرین سے بنا یہ کاغذ ایک کیمیکل سے صاف ہوجاتا ہےجس کے بعد اسے دوبارہ چھاپا اور لکھا جاسکتا ہے۔ سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی نے دو سال قبل اس کاغذ پر کام شروع کیا۔ اس کی تیاری عین صابن سازی کی ہی طرح ہے جس میں پوٹاشیئم ہائیڈروآکسائیڈ استعمال کی گئی ہے جو سورج مکھی زردانے کے بیرونی سخت خول کو گھلادیتی ہے۔
اب تبدیل شدہ زردانوں کا نرم اندرونی حصہ باقی رہتا ہے سے ڈی آئیونائزڈ پانی سے دھوکر مزید صاف اور خالص بنایا جاتا ہے۔ اب زردانوں سے ایک نیم مائع جل بنایا گیا۔ اس کے بعد تبدیل شدہ زردانے والے جیل کو ایک سانچے میں رکھ کر خشک کرکے دبایا گیا تو صرف 0.03 ملی میٹر پتلا کاغذ ڈھالا گیا اور اس پر اسیٹک ایسڈ گزار کر نمی سے پاک کیا گیا۔
اس طرح ہموار، پتلا اور نیم شفاف کاغذ ہاتھ آیا جو لیزرپرنٹرسے گزر کر پرنٹنگ کے قابل ہے اور روایتی ٹونر اس پر تصاویر اور الفاظ چھاپے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد کاغذ گیلا بھی ہوجائے تب بھی اس کی پرنٹنگ غائب نہیں ہوتی۔
اب کاغذ کو دوبارہ لکھنے کے قابل بنانے کے لیے اسے الکلائن محلول میں دو منٹ رکھ کر ہلایا جائے تو سارا لکھا چھپا غائب ہوجاتا ہے۔ اسے خشک کرکے اب دوسری، تیسری اور کئی بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں کاغذ بار بار استعمال ہوسکتا ہے لیکن اس کے معیار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ درخت ضائع کئے بغیر سورج مکھی کے فالتو زردانوں سے انقلابی کاغذ کا پورا کارخانہ لگانا ممکن ہے۔ جبکہ کنول اور کامیلیا کے زردانوں سے بھی یہ کاغذ بنایا جاسکتا ہے۔
اس اہم ایجاد کی تفصیل جرنل آف اینڈوانسڈ مٹیریئل میں شائع ہوئی ہیں۔