عروج سے زوال تک
سیاست اور خاص کر پاکستانی سیاست کے لیے پیسے کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے
VIENNA:
تبدیلی سرکار کا جنازہ اتنی دھوم دھام سے نکلے گا، ہمارے اندازے غلط نہیں تھے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں گانے بجتے رہے '' ڈٹ کے کھڑا ہے عمران خان'' اور لاکھوں ناسمجھ اس بہکاوے میں آگئے۔
ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ یہ اناڑی ہی نہیں نا اہل بھی ہے۔ ایک جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال کر بھاگا تھا آج دوسرا نیازی پارلیمنٹ سے بھاگ گیا۔
متحدہ اپوزیشن کے 200اراکین قومی اسمبلی ایوان میں موجود دیکھ کر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پہلے سے لکھی ہوئی غیر آئینی رولنگ پڑھ دی اور عدم اعتماد کی تحریک مسترد کردی، حد یہ کہ اپنا نام بھی قاسم سوری کی بجائے اسد قیصر کہہ گئے (پہلے سے لکھا جو تھا) تحریک عدم اعتماد مسترد ہوتے ہی وزیر اعظم نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی جسے صدر نے منظور کرلیا۔
جس اسمارٹ پلاننگ سے ایک آئینی پراسس کو غیر آئینی طریقے سے بلڈوز کیا گیا، پاکستانی قوم کے کروڑوں ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں قوم کی نمایندہ جماعتوں کے سربراہوں پر غداری کے الزامات لگائے اور اس الزام کے بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا گیا مگر عمران اور ان کے ساتھیوں کو پتہ نہیں کہ اب وہ بند گلی میں پھنس چکے ہیں' جس میں آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف خاردار تاریں لگی ہیں اور بہت جلد سرٹیفایئڈ صادق و امین کا اعزاز پانے والا اس سے محروم کر دیا جائے گا۔ جس خط کی بنیاد پر ڈراما رچایا گیا وہ بذات خود ایک پھندا ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق بہت جلد وہ کردار وعدہ معاف گواہ بن کر عدالت میں سب کچھ بتا دینگے اور وہی اقبالی بیان عمران کی سیاست کا ڈراپ سین ہوگا۔
جس حکومت میں بیسیوں مشیر وزیر امریکی و دیگر مغربی ممالک کی شہریت کے حامل ہوں یا وہاں ملازمت و کاروبار کرتے ہوں، وہ کیسے پاکستان اور اہل پاکستان کے مفادات کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ یہی وہ حکومت تھی جس سے پاکستان کی تباہی کے لیے کام لیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان پہلے دن سے بار بار نشاندہی کررہے تھے، وہ ملک کے واحد سیاستدان ہیں جن کا پہلے دن جو اسٹینڈ تھا آخری دن تک وہی رہا۔ مولانا استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔
ان کی ہمت دیکھ کر پیپلز پارٹی، نون لیگ اور دیگر جماعتوں نے بھی حوصلہ پکڑا۔ انھی کی کاوشوں سے تبدیلی سرکار کا جنازہ نکلا۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے، تادم تحریر اپوزیشن ڈپٹی اسپیکر کی غیر آئینی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے اور سماعت جاری ہے، ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں اس وقت تک کافی کچھ بدل چکا ہو۔ ہم آج کے کالم میں بات کریں گے کپتان کی محسن کش پالیسی کی۔
2013 کے الیکشن سے پہلے سے پاکستانی میڈیا نے عمران خان کو جس طرح سپورٹ کیا اس کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں اگر میں کہوں کہ میڈیا انکا محسن اعظم تھا تو کوئی اختلاف نہیں کریگا۔ کپتان نے وزیر اعظم بنتے ہی سب سے پہلا وار میڈیا پر کیا اس کی جڑیں کاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اشتہارات بند کردیے، بقایاجات روک لیے۔ میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں میڈیا ورکرز اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس کپتان نے ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں اس کی حکومت نے لاکھوں کو بیروزگار کرنے کی اسکیم پہلے میڈیا پر آزمائی اور ہزاروں کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل کر انکے متعلقین کو فاقوں پر مجبور کیا۔
سرکاری اشتہارات کے پیسے کو فیس بک، یو ٹیوب وغیرہ کی جانب موڑ دیا' اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ سوشل میڈیا کے ان انجنز کے مالک کون ہیں ، کہاں سے آپریٹ ہوتے ہیں اور انھیں کون کنٹرول کرتا ہے۔ میں جب بھی یہ بات سوچتا ہوں تو مجھے مولانا کی بات یاد آتی ہے وہ شروع دن سے بڑے وثوق سے اس حکومت پر نا اہلی کا الزام لگاتے رہے، اس الزام پر مہر تصدیق اپنے عمل سے خود کپتان نے ثبت کر دی۔
وزیراعظم اور اس کے ساتھیوں نے پہلے دن سے ایک پیج، ایک پیج کی ایسی رٹ لگائی گئی جیسے یہ کسی دوسرے ملک کی آرمی ہے۔ بھائی پاکستانی آرمی اپنے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہوگی تو کس کے ساتھ ہوگی؟ مگر ایک پیج ایک پیج کی رٹ اور تکرار نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے، پاکستانی تاریخ میں پہلی بار پاک فوج 'ان کے جرنیلوں اور سپہ سالار کو سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنائے رکھا۔
کپتان کی ابتدائی سیاسی ٹیم میں ایک نام جماعت اسلامی کے سابقہ رکن منصور صدیقی کا تھا جس نے سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کی ترغیب پر شوکت خانم کے ابتدائی ڈونیشن پروگرام سے خان کا ساتھ دینا شروع کیا تو مرتے دم تک ساتھ رہے جب تحریک انصاف کے امیدوار کو چند سو ووٹ ملتے تھے تب منصور صدیقی پی ٹی آئی کے امیدوار ہوا کرتے تھے اور جب تھوڑی مقبولیت بڑھی تو سیاسی لوٹوں کو ان پر فوقیت دی گئی۔
ان کا انتقال ہوگیا تو جنازہ میں شرکت تو دور کی بات اپنے اس محسن کے بیٹے اور اہل خاندان سے فون پر بھی تعزیت نہیں کی۔ اسی طرح نعیم الحق بھی وہ شخص تھا جس نے کپتان کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور جب وہ کینسر کے عارضے میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے کپتان جنازے میں شرکت تو دور کی بات فاتحہ کے لیے بھی نہیں گئے الٹا اپنے گھر ان کے بیٹے کو بلا کر تعزیت کی۔
سیاست اور خاص کر پاکستانی سیاست کے لیے پیسے کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے، تحریک انصاف کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے والے محسن بیگ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے' وہ سب کے سامنے ہے۔ میرے خیال وہ اس لیے معتوب ہوئے کیونکہ ان کے نام میں شامل محسن تھا کیونکہ محسنوں سے کپتان حساب برابر رکھتا ہے۔
کپتان کے محسنوں میں سب سے زیادہ قریب سمجھے جانے والوں میں ایک نام جہانگیر ترین کا ہے، جس نے کپتان کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے، منتخب اراکین کو جہازوں میں بھر بھر کر لاتے رہے اور کپتان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن آپ بہتر جانتے ہیں کہ کپتان کی حکومت نے اس محسن کا کیا حشر کیا۔ میں نے چند لوگوں کا تذکرہ کیا ہے، ایسی بے شمار کہانیاں ہیں۔ کہتے ہیں دھوکہ ایک ایسی چیز ہے جو پلٹ کر ضرور آتا ہے۔ کپتان نے جتنے دھوکے دیے وہ پلٹ کر آگئے ہیں' اسے گھیرے کھڑے ہیں۔
آج اس کے اپنے اتحادی ہی نہیں اپنے ساتھی بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ دوسروں کو ڈاکو، ڈاکو، چور چور کہنے والے کپتان کے اپنے ساتھی وہی کچھ کہہ رہے' جو وہ دوسرے کے بارے میں کہتے تھے، ان کے گورنر پنجاب چوہدری سرور کی پریس کانفرنس دیکھ لیں کہ اس دور میں کرپشن کا گراف کہاں چلا گیا اور کرپشن کے پیسے کہاں تک جاتے رہے۔ عمران خان نیازی نے ساڑھے تین سال اس ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اب وہ اس کا نتیجہ بھگتیں گے۔ آغاز ہوچکا انجام بھی دیکھیں گے۔
تبدیلی سرکار کا جنازہ اتنی دھوم دھام سے نکلے گا، ہمارے اندازے غلط نہیں تھے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں گانے بجتے رہے '' ڈٹ کے کھڑا ہے عمران خان'' اور لاکھوں ناسمجھ اس بہکاوے میں آگئے۔
ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ یہ اناڑی ہی نہیں نا اہل بھی ہے۔ ایک جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال کر بھاگا تھا آج دوسرا نیازی پارلیمنٹ سے بھاگ گیا۔
متحدہ اپوزیشن کے 200اراکین قومی اسمبلی ایوان میں موجود دیکھ کر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پہلے سے لکھی ہوئی غیر آئینی رولنگ پڑھ دی اور عدم اعتماد کی تحریک مسترد کردی، حد یہ کہ اپنا نام بھی قاسم سوری کی بجائے اسد قیصر کہہ گئے (پہلے سے لکھا جو تھا) تحریک عدم اعتماد مسترد ہوتے ہی وزیر اعظم نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دی جسے صدر نے منظور کرلیا۔
جس اسمارٹ پلاننگ سے ایک آئینی پراسس کو غیر آئینی طریقے سے بلڈوز کیا گیا، پاکستانی قوم کے کروڑوں ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں قوم کی نمایندہ جماعتوں کے سربراہوں پر غداری کے الزامات لگائے اور اس الزام کے بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا گیا مگر عمران اور ان کے ساتھیوں کو پتہ نہیں کہ اب وہ بند گلی میں پھنس چکے ہیں' جس میں آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف خاردار تاریں لگی ہیں اور بہت جلد سرٹیفایئڈ صادق و امین کا اعزاز پانے والا اس سے محروم کر دیا جائے گا۔ جس خط کی بنیاد پر ڈراما رچایا گیا وہ بذات خود ایک پھندا ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق بہت جلد وہ کردار وعدہ معاف گواہ بن کر عدالت میں سب کچھ بتا دینگے اور وہی اقبالی بیان عمران کی سیاست کا ڈراپ سین ہوگا۔
جس حکومت میں بیسیوں مشیر وزیر امریکی و دیگر مغربی ممالک کی شہریت کے حامل ہوں یا وہاں ملازمت و کاروبار کرتے ہوں، وہ کیسے پاکستان اور اہل پاکستان کے مفادات کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ یہی وہ حکومت تھی جس سے پاکستان کی تباہی کے لیے کام لیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان پہلے دن سے بار بار نشاندہی کررہے تھے، وہ ملک کے واحد سیاستدان ہیں جن کا پہلے دن جو اسٹینڈ تھا آخری دن تک وہی رہا۔ مولانا استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔
ان کی ہمت دیکھ کر پیپلز پارٹی، نون لیگ اور دیگر جماعتوں نے بھی حوصلہ پکڑا۔ انھی کی کاوشوں سے تبدیلی سرکار کا جنازہ نکلا۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے، تادم تحریر اپوزیشن ڈپٹی اسپیکر کی غیر آئینی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے اور سماعت جاری ہے، ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں اس وقت تک کافی کچھ بدل چکا ہو۔ ہم آج کے کالم میں بات کریں گے کپتان کی محسن کش پالیسی کی۔
2013 کے الیکشن سے پہلے سے پاکستانی میڈیا نے عمران خان کو جس طرح سپورٹ کیا اس کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں اگر میں کہوں کہ میڈیا انکا محسن اعظم تھا تو کوئی اختلاف نہیں کریگا۔ کپتان نے وزیر اعظم بنتے ہی سب سے پہلا وار میڈیا پر کیا اس کی جڑیں کاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اشتہارات بند کردیے، بقایاجات روک لیے۔ میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں میڈیا ورکرز اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس کپتان نے ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں اس کی حکومت نے لاکھوں کو بیروزگار کرنے کی اسکیم پہلے میڈیا پر آزمائی اور ہزاروں کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل کر انکے متعلقین کو فاقوں پر مجبور کیا۔
سرکاری اشتہارات کے پیسے کو فیس بک، یو ٹیوب وغیرہ کی جانب موڑ دیا' اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ سوشل میڈیا کے ان انجنز کے مالک کون ہیں ، کہاں سے آپریٹ ہوتے ہیں اور انھیں کون کنٹرول کرتا ہے۔ میں جب بھی یہ بات سوچتا ہوں تو مجھے مولانا کی بات یاد آتی ہے وہ شروع دن سے بڑے وثوق سے اس حکومت پر نا اہلی کا الزام لگاتے رہے، اس الزام پر مہر تصدیق اپنے عمل سے خود کپتان نے ثبت کر دی۔
وزیراعظم اور اس کے ساتھیوں نے پہلے دن سے ایک پیج، ایک پیج کی ایسی رٹ لگائی گئی جیسے یہ کسی دوسرے ملک کی آرمی ہے۔ بھائی پاکستانی آرمی اپنے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہوگی تو کس کے ساتھ ہوگی؟ مگر ایک پیج ایک پیج کی رٹ اور تکرار نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے، پاکستانی تاریخ میں پہلی بار پاک فوج 'ان کے جرنیلوں اور سپہ سالار کو سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنائے رکھا۔
کپتان کی ابتدائی سیاسی ٹیم میں ایک نام جماعت اسلامی کے سابقہ رکن منصور صدیقی کا تھا جس نے سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کی ترغیب پر شوکت خانم کے ابتدائی ڈونیشن پروگرام سے خان کا ساتھ دینا شروع کیا تو مرتے دم تک ساتھ رہے جب تحریک انصاف کے امیدوار کو چند سو ووٹ ملتے تھے تب منصور صدیقی پی ٹی آئی کے امیدوار ہوا کرتے تھے اور جب تھوڑی مقبولیت بڑھی تو سیاسی لوٹوں کو ان پر فوقیت دی گئی۔
ان کا انتقال ہوگیا تو جنازہ میں شرکت تو دور کی بات اپنے اس محسن کے بیٹے اور اہل خاندان سے فون پر بھی تعزیت نہیں کی۔ اسی طرح نعیم الحق بھی وہ شخص تھا جس نے کپتان کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور جب وہ کینسر کے عارضے میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے کپتان جنازے میں شرکت تو دور کی بات فاتحہ کے لیے بھی نہیں گئے الٹا اپنے گھر ان کے بیٹے کو بلا کر تعزیت کی۔
سیاست اور خاص کر پاکستانی سیاست کے لیے پیسے کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے، تحریک انصاف کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے والے محسن بیگ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے' وہ سب کے سامنے ہے۔ میرے خیال وہ اس لیے معتوب ہوئے کیونکہ ان کے نام میں شامل محسن تھا کیونکہ محسنوں سے کپتان حساب برابر رکھتا ہے۔
کپتان کے محسنوں میں سب سے زیادہ قریب سمجھے جانے والوں میں ایک نام جہانگیر ترین کا ہے، جس نے کپتان کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے، منتخب اراکین کو جہازوں میں بھر بھر کر لاتے رہے اور کپتان کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن آپ بہتر جانتے ہیں کہ کپتان کی حکومت نے اس محسن کا کیا حشر کیا۔ میں نے چند لوگوں کا تذکرہ کیا ہے، ایسی بے شمار کہانیاں ہیں۔ کہتے ہیں دھوکہ ایک ایسی چیز ہے جو پلٹ کر ضرور آتا ہے۔ کپتان نے جتنے دھوکے دیے وہ پلٹ کر آگئے ہیں' اسے گھیرے کھڑے ہیں۔
آج اس کے اپنے اتحادی ہی نہیں اپنے ساتھی بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ دوسروں کو ڈاکو، ڈاکو، چور چور کہنے والے کپتان کے اپنے ساتھی وہی کچھ کہہ رہے' جو وہ دوسرے کے بارے میں کہتے تھے، ان کے گورنر پنجاب چوہدری سرور کی پریس کانفرنس دیکھ لیں کہ اس دور میں کرپشن کا گراف کہاں چلا گیا اور کرپشن کے پیسے کہاں تک جاتے رہے۔ عمران خان نیازی نے ساڑھے تین سال اس ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اب وہ اس کا نتیجہ بھگتیں گے۔ آغاز ہوچکا انجام بھی دیکھیں گے۔