ہلاکو خان کی یاد
اُردو زبان و ادب کو جدید تر خیالات کے ترجمان بنانے والے کئی بڑے نام ہر گز ’’رجعت پسند‘‘ نہیں تھے۔
سب کے نام لے کر ان کی تحریروں سے اقتباسات مہیا کرنا شروع کر دوں تو یہ کالم نہیں بلکہ ایک طویل مضمون بن جائے گا۔ قصہ مختصر کرتے ہوئے فی الحال آپ کو یاد صرف یہ دلانا ہے کہ ہمارے ہاں کافی برسوں سے یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ اُردو اخبارات کے لیے لکھنے والوں کی اکثریت ''رجعت پسند'' ہوا کرتی ہے بلکہ انگریزی کے لکھاری لیفٹ/لبرل وغیرہ ہوتے ہیں۔ بہت ساری ٹھوس وجوہات کی بنا پر میں اس مقبول عام سوچ سے کبھی اتفاق نہیں کر پایا۔ غالبؔ تو خیر ایک حوالے سے ذرا پرانے ہو گئے مگر اُردو زبان و ادب کو جدید تر خیالات کے ترجمان بنانے والے کئی بڑے نام ہر گز ''رجعت پسند'' نہیں تھے۔ منٹو کا اپنے تئیں ''ترقی پسند''بنے حضرات نے فحاشی پھیلانے کے الزام میں حقہ پانی بند کر دیا تھا۔
قرۃ العین حیدر کو یہی لوگ ''مس پوم پوم'' پکارتے ہوئے ''ماضی پرست اشرافیہ'' کا نمایندہ ٹھہراتے رہے مگر آج منٹو کو پڑھیں تو اپنے اِرد گرد تقدس کی چادر اوڑھے پھیلی ہوئی منافقت کا اس سے بڑا دشمن کوئی نظر نہیں آتا۔ قرۃ العین، منٹو کی طرح منہ پھٹ اور بے ساختہ نہیں تھیں۔ مگر ان کی تحریریں ذرا غور سے پڑھنا شروع کر دیں تو احساس ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد والے سالوں میں گنگا جمنی تہذیب سے جڑے مہاجرین کی اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں بڑھتی ہوئی اجنبیت کا تخلیقی مشاہدہ ان کے سوا کوئی اور ادیب اتنے بھرپور طریقے سے نہ کر پایا۔ نام نہاد ''دیہی''اور ''شہری'' سندھ کی نفسیاتی جہتوں کو ''سیتاہرن'' پڑھے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ ''ہاؤسنگ سوسائٹی'' کو پڑھ کر آج کے کراچی پر حاوی لسانی اور طبقاتی تقسیم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس عدم تحفظ کی خوب سمجھ آ جاتی ہے۔ منٹو اور قرۃ العین حیدر تو اپنی سرشت میں کچھ خاص تھے۔ مگر ''انجمن ترقی پسند'' کے کارواں میں موجود ادیبوں اور شاعروں کی بے پناہ اکثریت بھی تو اُردو ہی میں لکھا کرتی تھی۔
اصل میں ہوا یوں کہ جولائی 1977 میں اس ملک پر جنرل ضیاء الحق نے قبضہ کر لیا۔ انھیں پاکستانیوں کو صراطِ مستقیم پر ڈالنا تھا۔ سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے لیے یہ کام مزید آسان کر دیا۔ ریاستِ پاکستان کو امریکی اسلحے اور سعودی ریال کے بل بوتے پر افغان جہاد برپا کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو ایک مخصوص Narrative فراہم کرنا تھا۔ اُردو میں کئی لکھنے والوں نے اس ضمن میں پرجوش انداز میں حصہ لے کر اپنی نوکریاں بچائیں اور تھوڑا بہت خوش حال ہو کر اپنی خاندانی ذمے داریوں کو کماحقہ پورا کیا۔ اخبارات ان دنوں ویسے بھی Pre-Censor ہوا کرتے تھے۔ سرکاری بیانیہ کے سوا کچھ چھپ بھی نہیں سکتا تھا۔ ضیاء حکومت کی ایک بڑی مجبوری مگر یہ بھی تھی کہ اسے امریکا اور یورپ کے لیے خود کو ذرا ''کھلے دل'' والی بھی ثابت کرنا تھا۔
اس لیے ایک بہت سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت انگریزی اخباروں میں لکھنے والوں کے لیے تھوڑی کشادہ Space مہیا کر دی گئی۔ عملی صحافت میں میرے ذاتی حوالے سے وہ بہت ہی شاندار عرصہ تھا۔ ذرا تیکھے الفاظ میں ضیاء الحق کی پالیسیوں کے بارے میں کچھ لکھ دیتا تو واہ واہ ہو جاتی۔ غیر ملکی سفارت کار میرے ''باغیانہ'' رویے کی ستائش کرتے اور اپنے ملکوں کے سرکاری دورے کراتے۔ جوانی کی نادانی میں ایسی پذیرائی پر میں کئی برسوں تک بہت شاداں رہا۔ بڑھاپے کی آمد کے ساتھ ذرا گوشہ نشین ہوا ہوں تو بتدریج سمجھ آ رہی ہے کہ مجھ سے کہیں زیادہ ذہین انگریزی زبان میں وہ لکھنے والے ہیں جو جبلّی طور پر یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ سیاسی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ دائمی طور پر طاقتور ادارہ اس ملک میں صرف ایک ہے۔ اس ادارے کو ضیاء حکومت کی طرح ہر زمانے میں اپنا ایک خاص Narrative عالمی دُنیا کے سامنے بیان کرنا ہے۔ اسے بیان کرتے رہو اور خوش رہو۔
کاش ''موقعہ پرستی'' سے بہتر کوئی اور لفظ اُردو زبان میں ہوتا اور میں اسے لکھ کر اس حوالے سے اپنے دل کی بات ذرا کھل کر بیان کر سکتا۔ فی الوقت تو ویسے بھی مجھے آپ کو محض یاد دلانا ہے کہ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے قریب آتے دنوں میں ان لوگوں کا اکثر ذکر میں اس کالم میں کرتا رہا ہوں جو انگریزی اخباروں کے لیے لکھے اپنے کالموں اور تجزیوں میں ان کا ''جانشین'' طے کرتے ہوئے دِکھ رہے تھے۔ بہت عرصہ ان لوگوں نے اول تو ہمیں یہ بتانے میں خرچ کر دیا کہ جنرل کیانی کہیں نہیں جارہے۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے ذریعے نواز شریف بلکہ اس سگریٹ پر سگریٹ سلگا کر فلسفیانہ گہرائیوں میں ڈوبتے ہوئے ''مفکر جنرل'' کے تجربے سے ملک کے وسیع تر مفاد میں استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس دعوے کی مسلسل تکرار سے تنگ آ کر میں ایک روز یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ نیا آرمی چیف بالآخر نواز شریف کو لگانا ہے۔ خدا کے لیے ذرا یہ بھی معلوم کر لیں کہ وزیر اعظم کے اپنے دل میں کیا ہے۔
بالآخر جب کیانی نے خود ہی اعلان کر دیا کہ وہ گھر جانے کو تیار بیٹھے ہیں تو دفاعی امور کے جناتی انگریزی زبان لکھنے والے ماہرین نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ کیانی صاحب نے بڑی سوچ بچار کے بعد گیم ہی ایسی لگائی ہے کہ نواز شریف ان کے ''طے شدہ'' بندے کو نیا آرمی چیف لگانے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ راحیل شریف صاحب کو اس ضمن میں کہیں شمار ہی نہ کیا گیا۔ اب جب کہ وہ پاک فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول پوری طرح سنبھال چکے ہیں تو انگریزی اخباروں میں ایک "Rahil Doctrine" کا ذکر بھی شروع ہو چکا ہے اور شدید بحث یہ طے کرنے پر مرکوز کہ ''دونوں شریف '' ایک Page پر ہیں یا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پوری بحث کا اصل مقصد ''فاصلوں'' کو اُجاگر کرنا ہے ''قربتوں'' کو نہیں۔پتہ نہیں کیوں اس بحث کی تکرار مجھے علماء کے اس مبینہ گروہ کی یاد دلا رہی ہے جو ایک مقبول عام تصور کے مطابق طوطے کو حرام یا حلال ثابت کرنے کے مناظروں میں مصروف رہے اورہلاکو خان نے بغداد کے کتب خانوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔
قرۃ العین حیدر کو یہی لوگ ''مس پوم پوم'' پکارتے ہوئے ''ماضی پرست اشرافیہ'' کا نمایندہ ٹھہراتے رہے مگر آج منٹو کو پڑھیں تو اپنے اِرد گرد تقدس کی چادر اوڑھے پھیلی ہوئی منافقت کا اس سے بڑا دشمن کوئی نظر نہیں آتا۔ قرۃ العین، منٹو کی طرح منہ پھٹ اور بے ساختہ نہیں تھیں۔ مگر ان کی تحریریں ذرا غور سے پڑھنا شروع کر دیں تو احساس ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد والے سالوں میں گنگا جمنی تہذیب سے جڑے مہاجرین کی اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں بڑھتی ہوئی اجنبیت کا تخلیقی مشاہدہ ان کے سوا کوئی اور ادیب اتنے بھرپور طریقے سے نہ کر پایا۔ نام نہاد ''دیہی''اور ''شہری'' سندھ کی نفسیاتی جہتوں کو ''سیتاہرن'' پڑھے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ ''ہاؤسنگ سوسائٹی'' کو پڑھ کر آج کے کراچی پر حاوی لسانی اور طبقاتی تقسیم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس عدم تحفظ کی خوب سمجھ آ جاتی ہے۔ منٹو اور قرۃ العین حیدر تو اپنی سرشت میں کچھ خاص تھے۔ مگر ''انجمن ترقی پسند'' کے کارواں میں موجود ادیبوں اور شاعروں کی بے پناہ اکثریت بھی تو اُردو ہی میں لکھا کرتی تھی۔
اصل میں ہوا یوں کہ جولائی 1977 میں اس ملک پر جنرل ضیاء الحق نے قبضہ کر لیا۔ انھیں پاکستانیوں کو صراطِ مستقیم پر ڈالنا تھا۔ سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے لیے یہ کام مزید آسان کر دیا۔ ریاستِ پاکستان کو امریکی اسلحے اور سعودی ریال کے بل بوتے پر افغان جہاد برپا کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو ایک مخصوص Narrative فراہم کرنا تھا۔ اُردو میں کئی لکھنے والوں نے اس ضمن میں پرجوش انداز میں حصہ لے کر اپنی نوکریاں بچائیں اور تھوڑا بہت خوش حال ہو کر اپنی خاندانی ذمے داریوں کو کماحقہ پورا کیا۔ اخبارات ان دنوں ویسے بھی Pre-Censor ہوا کرتے تھے۔ سرکاری بیانیہ کے سوا کچھ چھپ بھی نہیں سکتا تھا۔ ضیاء حکومت کی ایک بڑی مجبوری مگر یہ بھی تھی کہ اسے امریکا اور یورپ کے لیے خود کو ذرا ''کھلے دل'' والی بھی ثابت کرنا تھا۔
اس لیے ایک بہت سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت انگریزی اخباروں میں لکھنے والوں کے لیے تھوڑی کشادہ Space مہیا کر دی گئی۔ عملی صحافت میں میرے ذاتی حوالے سے وہ بہت ہی شاندار عرصہ تھا۔ ذرا تیکھے الفاظ میں ضیاء الحق کی پالیسیوں کے بارے میں کچھ لکھ دیتا تو واہ واہ ہو جاتی۔ غیر ملکی سفارت کار میرے ''باغیانہ'' رویے کی ستائش کرتے اور اپنے ملکوں کے سرکاری دورے کراتے۔ جوانی کی نادانی میں ایسی پذیرائی پر میں کئی برسوں تک بہت شاداں رہا۔ بڑھاپے کی آمد کے ساتھ ذرا گوشہ نشین ہوا ہوں تو بتدریج سمجھ آ رہی ہے کہ مجھ سے کہیں زیادہ ذہین انگریزی زبان میں وہ لکھنے والے ہیں جو جبلّی طور پر یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ سیاسی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ دائمی طور پر طاقتور ادارہ اس ملک میں صرف ایک ہے۔ اس ادارے کو ضیاء حکومت کی طرح ہر زمانے میں اپنا ایک خاص Narrative عالمی دُنیا کے سامنے بیان کرنا ہے۔ اسے بیان کرتے رہو اور خوش رہو۔
کاش ''موقعہ پرستی'' سے بہتر کوئی اور لفظ اُردو زبان میں ہوتا اور میں اسے لکھ کر اس حوالے سے اپنے دل کی بات ذرا کھل کر بیان کر سکتا۔ فی الوقت تو ویسے بھی مجھے آپ کو محض یاد دلانا ہے کہ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے قریب آتے دنوں میں ان لوگوں کا اکثر ذکر میں اس کالم میں کرتا رہا ہوں جو انگریزی اخباروں کے لیے لکھے اپنے کالموں اور تجزیوں میں ان کا ''جانشین'' طے کرتے ہوئے دِکھ رہے تھے۔ بہت عرصہ ان لوگوں نے اول تو ہمیں یہ بتانے میں خرچ کر دیا کہ جنرل کیانی کہیں نہیں جارہے۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے ذریعے نواز شریف بلکہ اس سگریٹ پر سگریٹ سلگا کر فلسفیانہ گہرائیوں میں ڈوبتے ہوئے ''مفکر جنرل'' کے تجربے سے ملک کے وسیع تر مفاد میں استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس دعوے کی مسلسل تکرار سے تنگ آ کر میں ایک روز یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ نیا آرمی چیف بالآخر نواز شریف کو لگانا ہے۔ خدا کے لیے ذرا یہ بھی معلوم کر لیں کہ وزیر اعظم کے اپنے دل میں کیا ہے۔
بالآخر جب کیانی نے خود ہی اعلان کر دیا کہ وہ گھر جانے کو تیار بیٹھے ہیں تو دفاعی امور کے جناتی انگریزی زبان لکھنے والے ماہرین نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ کیانی صاحب نے بڑی سوچ بچار کے بعد گیم ہی ایسی لگائی ہے کہ نواز شریف ان کے ''طے شدہ'' بندے کو نیا آرمی چیف لگانے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ راحیل شریف صاحب کو اس ضمن میں کہیں شمار ہی نہ کیا گیا۔ اب جب کہ وہ پاک فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول پوری طرح سنبھال چکے ہیں تو انگریزی اخباروں میں ایک "Rahil Doctrine" کا ذکر بھی شروع ہو چکا ہے اور شدید بحث یہ طے کرنے پر مرکوز کہ ''دونوں شریف '' ایک Page پر ہیں یا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پوری بحث کا اصل مقصد ''فاصلوں'' کو اُجاگر کرنا ہے ''قربتوں'' کو نہیں۔پتہ نہیں کیوں اس بحث کی تکرار مجھے علماء کے اس مبینہ گروہ کی یاد دلا رہی ہے جو ایک مقبول عام تصور کے مطابق طوطے کو حرام یا حلال ثابت کرنے کے مناظروں میں مصروف رہے اورہلاکو خان نے بغداد کے کتب خانوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔