امریکا کا انوکھا و نرالا آئین

ایک عرصے سے امریکا میں حکومتی سطح پر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر جاسوسی کی جا رہی ہے۔..

KARACHI:
بلاوجہ کسی بھی فرد کی جاسوسی کرنا ہر معاشرے ، ہر مذہب اور ہر دور میں ایک معیوب عمل رہا ہے۔ جاسوسی سے انسان کی آزادی سلب ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب انسان کو ہر وقت یہی فکر دامن گیر رہے کہ کوئی میرے تعاقب میں ہے اور میرے نجی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے تو ان حالات میں کوئی بھی شخص نارمل اور پر سکون حالت میں نہیں رہ سکتا، وہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے وہ بہت کچھ چھینا جا رہا ہے، جو وہ کسی کو دینا نہیں چاہتا۔ اس کا بہت کچھ چرایا جا رہا ہے اور کسی بھی شخص سے اس کی ملکیت کی کوئی بھی چیز چرانے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ جاسوسی کرنا متفقہ طور پر دنیا بھر میں قابل سزا عمل ہے، اسی لیے دنیا میں جاسوسوں کو سخت سے سخت سزائیں دینے پر کہیں کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ دنیا میں ایسا تو ہوتا آیا ہے کہ کوئی ملک اپنے حریف ملک کی اہم معلومات چرا لے، لیکن ایسا نہیں کہ کسی ملک پر اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کا بھوت سوار ہو جائے، ایسا صرف افسانوں یا کہانیوں میں ہی لکھا ہوتا تھا، لیکن دنیا بھر میں شخصی آزادیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکا نے ہر مذہب، ہر معاشرے اور ہر دور کی تمام روایات کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اپنے ہی شہریوں کی نجی زندگی کی جاسوسی کے ذریعے ان کی آزادی سلب کرنے کو جائز قرار دیتے ہوئے اسے اپنے آئین و قانون کا حصہ قرار دیدیا ہے۔

ایک عرصے سے امریکا میں حکومتی سطح پر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر جاسوسی کی جا رہی ہے۔ ان کی گفتگو سے لے کر نقل و حرکت تک نوٹ کی جاتی ہے، جس کی روک تھام کے لیے مسلمان کئی بار احتجاج بھی کر چکے ہیں اور اس عمل کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دائر کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیو جرسی میں پولیس کی جانب سے نگرانی کے عمل کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی، جس کی سماعت ایک فیڈرل عدالت نے کی۔ جج ولیم مارٹینی نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مساجد، دینی مدارس اور مسلمانوں کی جاسوسی کو آئین کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی جاسوسی ملکی مفاد میں کی جاتی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مساجد، دینی مدارس، کاروباری مراکز اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی کڑی نگرانی سے ان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ یہ عمل ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکیل نے اپنی جاسوسی پر صدر اوباما سے شدید احتجاج کیا تھا۔

امریکا کے اس اقدام سے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف امریکی دشمنی کی ایک اور مثال سامنے آ گئی، بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ امریکا اپنے مفاد کی خاطر دنیا کا ہر متفقہ قانون و اصول پامال کر سکتا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر امریکا نے صرف ایک بار ہی دنیا کے اس متفقہ قانون کی دھجیاں نہیں اڑائیں بلکہ اس پر تو جاسوسی کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ وہ ایک عرصے سے دنیا بھر کے انسانوں کی بھی جاسوسی کرنے میں مگن ہے۔ حالانکہ دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے علاوہ ان اصولوں کے بھی متصادم ہے جن کے ذریعے اقوام عالم کے درمیان تعلقات قائم کیے جاتے ہیں، اس کے باوجود 1952 میں امریکی صدر نے ایک خفیہ آرڈر کے ذریعے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (NSA) قائم کی تھی، جس کا مقصد مختلف ممالک کے مواصلاتی نظام میں دخل اندازی کر کے ان کی خفیہ دفتری زبان کا پتہ چلانا تھا۔ NSA کو تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی جاسوسی میں توقعات سے بھی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اسے مختلف ملکوں کے کوڈ اور دفتری خفیہ زبان کے ترجمہ کرنے پر عبور حاصل ہو گیا۔ پہلے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ امریکا بڑے پیمانے پر جاسوسی کر رہا ہے، لیکن امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی سے وابستہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ایڈورڈ سنوڈن نے 2013 میں امریکی جاسوسی کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات کر کے پوری دنیا کے عام لوگوں سے لے ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان تک کو ہلا کر رکھ دیا۔


ایڈورڈ سنوڈن نے بتایا کہ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے صرف مارچ 2013 میں چند ممالک سے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ریکارڈ کی 97 ارب انٹیلی جنس معلومات حاصل کیں، باقی معلومات کتنی ہوں گے اس کا اندازہ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ سنوڈن کے مطابق 2002میں دنیا بھر کی99 فی صد انٹرنیٹ بینڈوتھ اور 2003 میں دنیا بھر کی 33 فیصد فون کالز امریکی کمپنیوں کے تعاون یا بنا تعاون کی بدولت امریکی نگرانی سے گزری ہیں اور امریکی جاسوسی پروگروام کا کم ازکم 1970ء سے باقاعدہ آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے اور امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر، لنکڈ ان، اسکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائیکروسافٹ اور یاہو کے ذریعے دنیا بھر سے انتہائی حساس ڈیٹا چرایا ہے۔ اس انکشاف کے بعد امریکی ٹیکنالوجی کے اہم اداروں نے صدر براک اوباما اور کانگریس سے امریکی جاسوسی پروگرام پر روک لگانے کے لیے نئی قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ ٹیکنالوجی کے اداروں کے بقول اس طرح کی جانے والی جاسوسی سے فرد کے حقوق سلب ہو رہے ہیں، جاسوسی کا پروگرام آزادی کے اْن حقوق کی خلاف ورزی ہے، جِن کے سب متمنی ہیں۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر شہریوں کی جاسوسی سے ان کی نجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔

امریکا اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی میں اس حد تک آگے چلا گیا کہ تنگ آ کر اس کے اپنے ہی ایک ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے امریکا کا جاسوسی پروگرام دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ سنوڈن کا کہنا تھا ''امریکا کی حکومت اتنے بڑے پیمانے پر امریکیوں کی جاسوسی کر رہی ہے کہ امریکا میں فرد کی نجی زندگی کا وجود ہی نہیں رہا۔ امریکا کی حکومت اپنے شہریوں کی ڈاک پڑھ رہی ہے، ٹیلی فون کالز سن رہی ہے، ان کی ای میلز ملاحظہ کر رہی ہے۔ امریکا ایک ایسی جگہ ہے جہاں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کی معلومات جمع کی جاتی ہیں، ایک ایسی جگہ جہاں امریکی قانون اور پالیسی ملک سے باہر غیر ملکیوں کی پرائیویسی کے حق کے بارے میں نہیں جانتی، ایک ایسی جگہ جہاں اسے جدید جمہوری ریاستوں کی بنیادی آزادی ''بولو، سوچو زندہ رہو اور تخلیقی بنو، تعلقات بناؤ اور آزادی سے رہو ، کے خطرے میں ہونے کا یقین ہے۔ امریکا میں حکومت اور نگرانی کے مابین ایک مخصوص رشتہ ہے۔ نگرانی کا یہ پروگرام شہریوں کی نجی زندگی کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔''

امریکا کے انھی گھناؤنے اقدامات کی بنا پر ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکا کو دنیا میں عوام کی جاسوسی اور ان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی اور خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امریکا جاسوسی کے پروگراموں اور اپنی نگرانی کے ذریعے دنیا کے لیے ایک خطرناک مثال شمار ہوتا ہے اور وہ دنیا کی حکومتوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بھی خفیہ معلومات میں دخل اندازی کریں۔ ایک امریکی واچ ڈاگ پینل کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ واشنگٹن کی طرف سے عوام کی جاسوسی کے ذریعے ڈیٹا جمع کرنے کا عمل غیر قانونی ہے اور اسے روک دینا چاہیے۔ اس سے شہری آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ قابل حیرت بات ہے کہ ساری دنیا میں شخصی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکا جاسوسی کے ذریعے اپنے ہی شہریوں کی آزادی سلب کرنے کو اپنے ملک کا آئین اور قانون قرار دے رہا ہے۔ اگر اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کرنا امریکا کا آئین ہے تو پھر واقعی امریکا کا آئین ایک انوکھا و نرالا آئین ہے۔
Load Next Story