پا بہ جولاں

مجھے بڑوں نے بلوچوں سے پیار کرنا سکھایا اور دنیا کے ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا سبق دیا۔۔۔

Jvqazi@gmail.com

میری اس تحریر کے آپ کی نذر ہونے تک، ماما قادر بلوچ عورتوں اور بچوں کے ساتھ، وہ جن کے بھائی، شوہر یا والد، گمشدہ ہیں، جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں، اسلام آباد کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہی ہوں گے یا رکھ چکے ہوں گے اور ان بھرے ایوانوں میں کچھ لرزش تو ہوئی ہو گی، کچھ ضمیر تو جھنجھوڑے جا چکے ہوں گے، کچھ نرم گوشے روئے ہوں گے اور پورے پاکستان کی آنکھیں ماما قادر بلوچ اور ان دکھی بہنوں، بچوں کی طرف مائل ہوں گی جن کے پیارے حقوق کی تحریک کی پاداش میں کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے ریاستی اداروں نے بغیر قانونی تقاضے پورے کیے اٹھائے ہوں گے، گم کیے ہوں گے۔

بہت سے پہلو ہیں اس طویل سفر کے، جو کوئٹہ سے لگ بھگ سو دن پہلے شروع ہوا۔ بہت سے مطلب نکلتے ہیں ۔ اس ''پا بہ جولاں چلو'' کا لُب لُباب یہ ہے کہ جمہوریت سرخرو ہوئی۔ آپ نے ان کو دستور سے ماورا دیکھا اور وہ آپ سے دستور کے تقاضے مانگتے ہیں۔ آپ ان بلوچ عورتوں کا حوصلہ تو دیکھیے پہلے کوئٹہ سے کراچی، اور کراچی میں پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے اور پھر ٹھٹھہ کے راستے اسلام آباد کی طرف نکل پڑے۔ نہ پہیے لگائے نہ پر، کئی نشیب و فراز آئے، کئی بیمار ہوئے، کس کس گاڑی والے نے ٹکر ماردی تو لہو لہان ہوئے، کسی نے دھمکایا، ڈرایا، آگے جانے سے روکا، اور ایسے بھی تھے جو پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے ان کا استقبال کرتے۔ ان سرد راتوں کو لکڑیاں جلا کر ان کو گرم کرتے، کوئی سرائے، شجر ان کو پہلو میں لے لیتی تو کہیں سورج اپنی روشنی سے ان کو گرم رکھتا، بس وہ چلتے رہے نہ روزانہ کام کا ڈر، نہ صبح ناشا سے غرض۔

یہ سفر تقریباً دو ہزار میل پر محیط ہو گا، اس سے پہلے مملکت خداداد میں اتنے طویل لانگ مارچ کی کوئی روایت نہیں۔ ایک گاندھی تھے برصغیر میں جو انگریز سامراج کے شکنجے سے آزادی کی خاطر ایسی تدبیر سے کام لیتے تھے اور بھگت سنگھ جیسے لوگ اس پر ٹھٹھولیاں کرتے تھے۔ ہمارے ہاں کچھ اکا دکا لانگ مارچ ہوئے بھی ہیں ان میں سے بیشتر دو نمبر بھی تھے۔ کتنے رنگ ہیں پاکستان کے، کتنی زبانیں ہیں جو یہاں بولی جاتی ہیں، کتنی قومیں آباد ہیں، کئی مذاہب بھی ہیں اور تو اور خود اسلام پر یقین رکھنے والوں کے اندر کتنے فرقے ہیں۔ ہم ایک ہیں بھی اور ایک نہیں بھی بالکل ایک کنبے کی طرح جو ایک ہوتا تو ہے اور اس میں رہنے والے مختلف بھی ہوتے ہیں، بوڑھے، بچے، مرد و عورتیں ، ان سب کے حقوق ہوتے ہیں۔ اور ان کے حقوق میں توازن رکھنا ہی اس کو چار پہیوں والی گاڑی بنا دیتا ہے جس کو آگے جانا ہوتا ہے ایک نئی منزل پانے کے لیے، ارتقا کی مسافتیں طے کرنے کے لیے۔ اور جو گاڑی ایسا کام نہیں کر سکتی وہ توازن قائم نہیں رکھ سکتی تو اس گاڑی کے مسافر اس گاڑی سے اکتا جاتے ہیں کوئی زبردستی سے مسافروں کو اگر بٹھائے رکھے وگرنہ ہر شخص اس گاڑی سے کودنے کو تیار بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔

ہم اگر دستور پہ چلتے تو یہ دن نہ دیکھنے کو ملتے۔ اور اگر اس دستور میں حق خود ارادیت کا شک بھی ہوتا تو ہر ایک کو ڈر رہتا اور فیڈریشن کی بنیادوں سے اس طرح نہ کھیلتا۔ یہی بلوچوں کے اندر علیحدگی پسند جو مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی پانا چاہتے ہیں، کیا ان کو پتہ ہے آج ماما قادر اور ان بلوچ عورتوں کے طویل سفر نے، ان کی ہمت و جرأت نے جو بلوچوں کے ساتھ اس ظلم و جبر کی طویل تاریخ جو اس ریاست نے اپنائی ہوئی ہے اس کو عیاں کرنے میں بلوچوں کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے میں ایسا کام کیا ہے وہ ان پٹریوں کو اکھاڑنے، گیس سپلائی لائن کاٹنے نے نہیں کیا ہو گا۔

مجھے اس سفر میں عورت کی نئی تشریح نظر آئی۔ کہاں ہے ایسے عورت کی تعریف اس ملک کی چھوٹی سی تاریخ میں رقم؟ ماما قادر کے ساتھ ان عورتوں نے بتایا کہ عورت کتنی ہمت والی ہو سکتی ہے۔ یہ ثابت کیا کہ عورت مرد کے شانہ بہ شانہ چل سکتی ہے۔ یہ بلوچ عورتیں اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں ہوں گی۔ جب یہ قافلہ ٹھٹھہ سے گزرا ہو گا تو راستے میں بھنبھور بھی قریب سے گزرا ہو گا۔ وہ بھنبھور جہاں سے ''سسی'' نے ایک بلوچ کو پانے کے لیے جس کو راویت کرنے والا ''پنہوں'' کہتا ہے ''پا بہ جولاں'' نکل پڑی تھی اور وہ سسی مثال بن گئی تھی ہمت کی۔ آج وہ سسی مجھے ان تمام چہروں میں نظر آئی جو ماما قادر کے قافلے میں ہیں۔


مجھے بڑوں نے بلوچوں سے پیار کرنا سکھایا اور دنیا کے ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا سبق دیا۔ نواب اکبر بگٹی سے تو میری دوستی ہو گئی، روزانہ ان کو فون کرتا تھا اور یہاں اخباروں میں آئی ہوئی خبروں سے آگاہی دیتا تھا جب جنرل مشرف ان کو دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ یہ وہ بلوچ تھے جنھوں نے قلات اسمبلی میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ نواب خیر بخش مری کا بھی طویل انٹرویو کیا، اتنا کھل کے وہ شاید کسی اور ٹی وی کے انٹرویو میں نہیں بولے ہوں گے۔ نواب اکبر بگٹی کے انٹرویو نے تو مجھے اینکر بنا دیا۔ میں جانتا تھا بلوچوں کی رگوں کو۔ ان کو مجھ سے اپنائیت کا احساس تھا۔ سردار عطا اللہ مینگل کے بھی دو چار انٹرویو کیے۔ اس سلسلے میں مجھے بھی زیارت کے کچھ دوستوں نے تنگ کیا ہو گا۔ مگر یہ اس شعبے کے خطرات Hazards ہیں ان سے کون کترا سکتا ہے۔ غرض یہ ڈاکٹر مالک ہوں یا حاصل بزنجو ہوں، جو جمہوری راستے سے آئینی طریقوں سے بلوچوں کے حقوق مانگتے ہیں، سب سے میرا تعلق رہا اور ہمیں اس جمہوریت سے مایوس Disillusioned نہیں ہونا چاہیے خواہ کتنی ہی یہ بظاہر رسوا جمہوریت Sham Democracy لگتی ہو، لیکن حقیقت میں یہ Sham Democracy نہیں ہے۔ ہاں مگر یہ اپنے ارتقا میں بہت سست ہے۔

مگر اپنے ارتقائی سفر میں تو ہے۔ خواہ کتنی ہی دھاندلیاں کیوں نہ ہوتی ہوں، مگر ایک دن اس ملک میں بھی ایک کیجریوال جیسا لیڈر ابھرے گا۔ ہمیں پنجاب سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خواہ کتنا ہی بابا یا لالہ قادر کو GT Road سے گزرتے وقت دشواریاں نصیب ہوئی ہوں۔ میجر اسحاق کا پنجاب، میاں افتخار، حبیب جالبؔ کا پنجاب کہیں نہیں جاتا، وہ سب کا ہے۔ اس پنجاب سے یہ سب مٹی کی تہ اترنی ہے۔ اس پنجاب نے اس دن بھگت سنگھ کو اپنا کرنا ہے اور سعادت منٹو کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کہانی پہ رونا ہے۔ یہ وادی سندھ ہے جو لداخ کے چشموں سے بنتی سنورتی آگے بڑھتی ہے تو دریائے سوات، دریائے کابل اس میں ضم ہو جاتا ہے۔ یہی ہے جس سے پٹ فیڈر کینال نکلتی ہے جو بلوچستان کو آباد کرتی ہے اور آخر کراچی کے قریب یہ سمندر سے گلے مل جاتی ہے۔

آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

ہم جسے پانی کہتے ہیں وہ وادی مہران ہے۔ دراصل موئن جو دڑو سے بھی چار ہزار سال پہلے پرانی تہذیب مہرگڑھ کے کھنڈرات کہیں اور نہیں بلکہ بلوچستان میں ہیں۔ یہ سب وادی مہران ہے ہم سب اسی کی کوکھ سے نکلے ہیں۔

بس ایک حقیر سی گزارش ہے، ہم اپنے عہد کا سچ بولنا سیکھیں اور تاریخ کے دھارے کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کریں ۔ خواہ کوئی کتنا بھی اس ملک کو توڑنے کی بات کرے اسے قانون کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کریں نہ کہ مسخ شدہ لاشیں ان کے احباب کو بھیجیں۔ اب ڈر اور خوف پھیلا کر لوگوں پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی بلکہ ان کو سماجی و قانونی انصاف دینا ہو گا۔
Load Next Story